تپشِ غم سے ُپھنکا جاتا ہے سینہ اپنا


والدین کے لیے کس قدر سخت امتحان کی گھڑی ہے؛

عقیدہ و عمل کے اعتبار سے بھی اور بیٹی کے فراق و جدائی کے اعتبار سے بھی

تحریر: ڈاکٹر غلام زرقانی

انگ انگ زخمی ہے اور یہ زخم وہاں بھی لگائے جارہے ہیں ، جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اور وہاں بھی جہاں اکثریت میں ہیں، وہ بھی زخم لگا رہے ہیں، جو اپنے ہیں اور وہ بھی جو غیر ہیں......ملّتِ اسلامیہ کے جسم پر گہرے گہرے زخم اور ان سے خون برابر رس رہا ہے۔ ہائے افسوس، غم والم ، جور و جفا اور ظلم و تعدّی کی تعبیر کے لیے نہ اپنے پاس الفاظ ہیں اور نہ ہی بیان پر قدرت....... بولتے ہوئے زبان لرز رہی ہے اور لکھتے ہوئے انگلیاں کانپ رہی ہیں۔ ہم کس عہد میں پہنچ گئے ہیں اور کس دور میں سانس لے رہے ہیں؟ الاماں والحفیظ

زیادہ نہیں، صرف سات سال کی پیاری سےبچی زینب ۵؍جنوری ۲۰۱۸ء میں گھر سے ٹیوشن پڑھنے کے لیے باہر نکلی اور پھر واپس نہیں لوٹی۔ دن پر دن گزرتے گئے اور رات پر رات، بالآخر چار دنوں بعد ننھی بچی کی لاش کشمیر چوک کے قریب واقع ایک کچرہ کنڈی سے برآمد ہوئی۔ ابتدائی طبی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچی کےساتھ جنسی زیادتی ہوئی اور پھر اسے گلا دبا کر مار دیا گیا ہے۔

جی جناب! یہ واقعہ کہیں اور نہیں، بلکہ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے ملک’پاکستان‘ کے قصور شہر کا ہے اور سنیے کہ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، بلکہ شہریوں کی رائے یہ ہے کہ گزشتہ ایک سال میں اب تک اس شہر میں ۱۱ کمسن بچیاں اغوا کے بعد قتل کی جا چکی ہیں۔ ویسے شہری انتظامیہ کے ذمہ دار ڈی پی او کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر زیادتی کےبعد قتل ہونے والی یہ آٹھویں بچی ہے اور زیادتی کا شکار بچیوں کے ڈی این اے سے ایک ہی نمونہ ملا ہے۔ اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ متذکرہ افسوسناک واقعات کے پیچھے ایک ہی شخص یا ایک ہی گروہ ہے۔ دوسرے میں لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ یہ واقعہ اچانک نہیں ہوا ہے، بلکہ ’دلخراش واقعات‘ کا ایک تسلسل ہے، تاہم انتظامیہ سو رہی ہے۔ پئے در پئے اورپلٹ پلٹ کر وار ہورہے ہیں اور ذمہ دار پہلو تہی کر رہے ہیں۔

ذرا سوچیے کہ والدین عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے حرمین گئے ہوئے ہیں اور اِدھر ان کی لخت جگر مبینہ زیادتی کا شکار ہوجاتی ہے۔ ایک باپ اور ایک ماں کے لیے کس قدر سخت امتحان ہے؟ عقیدہ و عمل کے اعتبار سے بھی اور بیٹی کے فراق و جدائی کے حوالے سے بھی۔ سنتے ہیں کہ تدفین کے بعد باپ نے قبر پر گلاب کی پتیاں ڈالیں اور بوسہ لیتے ہوئے قبر پر گر پڑے۔ ایسی چیخ بلند ہوئی، کہ اطراف و جوانب کے لوگ اپنے حواس پر قابو نہ رکھ سکے اور سب کے سب نڈھال ہوگئے۔ کہنے کی بات نہیں کہ والدین کے لیے دنیا میں سب سے بڑھ کر غم یہی ہے کہ ان کی نظروں کے سامنے، ان کے لاڈلے بے دردی سے قتل کردیے جائیں۔

اور سنیے کہ وزیرِ قانون رانا ثناء اللہ نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ یہ بیان دیا ہے کہ والدین اپنی بچیوں پر نگاہ رکھیں۔ نیز طلال چودھری کہتے ہیں کہ شہر قصور جیسے واقعات ہر صوبے میں ہوتے رہتے ہیں، لہذا اسے سیاسی رنگ دینا زیادتی ہے۔ سوچتا ہوں تو دماغ پھٹنے لگتا ہے کہ زینب کے ساتھ والی زیادتی پر ساری دنیا سکتے میں ہے اور سیاسی عمائدین اپنے دامن جھاڑنے میں لگے ہیں؟ پھر، جب لوگ صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے سڑکوں پر نکلتے ہیں، تو امن و سلامتی قائم رکھنے کے نام پر ، انتظامیہ ان پر گولیاں برساتی ہے، جس کے نتیجے میں دو اہلِ خانہ شہید اور کوئی زخمی ہوجاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ ظلم وستم پر چیخنے کا حق بھی اپنے شہریوں سے چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کیا اسے ہی جمہوریت کہتے ہیں؟ کہا یہی اسلامی تعلیم ہے؟

جب اس سلسلے کا پہلا واقعہ ہوا، تو کسی حد تک انتظامیہ معذور سمجھی جائے، تو کوئی مضائقہ نہیں ہے، تاہم جب پئے در پئے نونہالانِ ملّتِ اسلامیہ زیادتی کا شکار ہورہی ہیں، تو اپنی سی کوشش کیوں نہیں کی گئی؟ موجودہ ترقی یافتہ دور میں ظالم کو پکڑنے کے لیے پورے شہر میں خفیہ کیمرے نصب کیے جاسکتے ہیں، جن کی مدد سے ایک مرکزی دفتر میں بیٹھ کر چند ملازمین سارے شہر کے نشیب و فراز پر بہ آسانی نگاہ رکھ سکتے ہیں۔ اب یہاں یہ نہ کہیے گا کہ ملک غریب ہے اور وسائل بہت قلیل ہیں ، اس لیے کہ ’سیاسی ٹھاٹھ باٹ‘ سے دیکھیے تو کسی زاویے سے غربت نہیں جھلکتی۔

صاحبو! بات نکلی ہے تو سن لیجیے کہ یورپ و امریکہ میں کمسن بچوں اور بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات شاذ و نادر ہوتے ہیں۔ مجھے یاد نہیں کہ گزشتہ دس سالوں میں ہمارے شہر ہیوسٹن میں کبھی کسی ننھی بچی کے ساتھ کوئی زیادتی ہوئی ہو۔ یہ کہنا حقیقت کی درست ترجمانی ہے کہ مغربی ممالک میں ایک نوجوان بچی رات کے سناٹے میں کہیں چلی جائے، تو سامان چھیننے کے حادثات تو ہوسکتے ہیں، تاہم جنسی دست درازی ہونے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ ایک نوجوان عورت بہ آسانی اپنی عصمت و عفّت کی حفاظت کرتے ہوئے مغربی ممالک میں شب و روز گزار سکتی ہے، لیکن کیا ہمارے ’اسلامی ممالک‘ میں یہ ممکن ہے؟ فرصت کے اوقات مل جائیں، تو غور کیجیے کہ جو مذہب اخلاقی اصلاح و تربیت کی تعلیم دیتا ہے، اس کے پیروکار کس مقام پر کھڑے ہیں اور جس کے یہاں شراب و کباب معمولاتِ حیات کا حصہ ہیں، ان کے یہاں متذکرہ معاملہ میں عملی سلوک کیا ہے؟ یاد رکھیے! جذباتی نعروں اور سڑکوں پر تھوڑی دیر کے لیے کسی کی مخالفت کرنے سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ پائیدار اور صحت مند اخلاق و کردار کےساتھ دوسروں کے لیے ہم خود جواب بن جائیں۔ یعنی میں عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ اب لوگ ’سننے‘ سے زیادہ ’دیکھنے‘ کےعادی ہوگئے ہیں، اس لیے اسلام کی خوبیاں سنانے کی ضرورت نہیں، بلکہ اپنے آپ میں اسلام ’دکھانے‘ کا پروگرام بنائیے۔

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi