علما کا اہلِ ثروت کے لئے جھکنا آثارِ قیامت


از : تاج الشریعہ مفتی محمد اختر رضا خاں قادری ازہری دامت برکاتھم العالیۃ

حواشی: مفتی محمد عبدالرحیم نشتؔر فاروقی

اس سے مراد علماکے گروہ میں فساق ہیں جو مال و جاہ کی لالچ میں اہل ِثروت کے لئے جھکیں گے، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ حلال کو حرام اور حرام کو حلال ٹھہرائیں گے اور دنیاداروں کو ان کی خواہش کے موافق فتویٰ دیں گے جیسا کہ آگے اسی حدیث میں بیان ہوا، اس سے مقصود علما [1] اور عوام دونوں کی تحذیر و تنبیہ ہے۔

امام جلال الدین سیوطی حضرت عبد اللہ ابنِ مبارک سے اپنی کتاب ’’اللالی المصنوعۃ‘‘ میں حدیث روایت کرتے ہیں،جس کو انھوں نے ابو معن سے روایت کیا ، انھوں نے کہا مجھ سے حدیث بیان کی سُہیل ابن حسان کلبی نے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:

’’بے شک وہ چکنی پھسلنی چٹان جس پر علما کے پیر نہیں جمتے ’طمع‘ہے۔‘‘

حدیث کے الفاظ یہ ہیں:

’’عن ابی معن اسامۃ بن زید مرفوعًا ان الصفا الزلال لا ھل العلم الطمع، لایصح: محمد بن مسلمۃضعیف جدا وکذا خارجۃ (قلت) اخرجہ ابن المبارک فی الزھد عن ابن معن قال حدثنی سھیل بن حسان الکبی ان رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قال ان الصفا الزلال الذی لایثبت علیہ اقدام العلماء الطمع واللہ اعلم۔‘‘ [2]

اسی میں حضرت انس سے مرفوعاً مروی ہے کہ: ’’علما اللہ کے رسولوں کے بندوں کے پاس امین ہیں جب تک بادشاہ سے نہ ملیں اور دنیا میں دخل نہ دیں تو جب دنیا میں دخل دینے لگیں اور بادشاہوں سے مل جائیں تو بے شک انہوں نےرسولوں کے ساتھ خیانت کی تو ان سے دور رہو۔‘‘

حدیثِ پاک کے الفاظ یہ ہیں: ’’عن انس مرفوعًا العلماء امناء الرسل علی العباد مالم یخالطوا السلطان ویدخلوا فی الدنیا فاذا دخلوا فی الدنیا وخالطوا السلطان فقد خانوا الرسل فاعتز لوھم۔‘‘ [3]

مگر سارے علما کا یہ حال نہ ہوگا۔ ’’بخاری شریف‘‘ کی حدیث میں وارد ہوا جو حضرت امیر معاویہ سے مروی ہے کہ سرکار علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: اللہ جس سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہےاس کو فقہ (دین کی سمجھ رکھنے والا) بناتا ہے اور میں تو بانٹنے والا ہوں، اللہ دیتا ہے میری امّت کا ایک گروہ اللہ کا حکم آنے تک دین پر قائم رہے گا۔ ان کے مخالف انہیں کچھ نہ نقصان پہنچا سکیں گے۔

حدیث پاک کے الفاظ یہ ہیں: ’’عن ابن شھاب قال قال حمید بن عبدالرحمٰن سمعت معاویۃ خطیبًا یقول سمعت النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یقول من یرد اللہ بہ خیرا یفقھہ فی الدین وانما انا قاسم واللہ یعطی ولن تزال ھٰذہ الامۃ قائمۃ علی امر اللہ لا ضرھم من خالفھم حتی یاتی امر اللہ۔‘‘ [4]

اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ قیامت تک خیار علما، جو شریعت کے پاسبان اور دین کے فقیہ ہیں، ہوتے رہیں گے۔ وہ خود دین پر قائم رہیں گے اور ان کی برکت سے ان کے سچے متبعین کہ اہلِ سنّت و جماعت ہیں دین پر قائم رہیں گے۔

اس پر خود اسی حدیث میں قرینہ موجود کہ فرمایا قرّاء بکثرت ہوں گے اور فقہا کم رہ جائیں گے، جس سے صاف ظاہر ہے کہ ایسے لوگ قیامت آنے تک آتے رہیں گے اور جو فرمایا کہ قاری بکثرت ہوں گے، فقرۂ سابقہ سے ملانے پر یہ سمجھ میں آتا ہے کہ قاریوں کی کثرت سے ایسے لوگ مراد ہیں جو قرآن تو پڑھیں گے لیکن اس کےمعنیٰ میں فہم و تدبر سے کام نہ لیں گے اور اس طرح صحابۂ کرام کا وہ طریقہ جو حضورﷺ سے انہوں نے لیا اور متبعین میں رائج ہوا، متروک ہوجائے گا۔

حضرت ابو عبدالرحمٰن سلمی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا، ہم سے حدیث بیان کی ان صحابی نے جو ہم کو قرآن پڑھاتے تھے کہ ’’وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے دس (۱۰) آیتیں سیکھتے تھے تو دوسری دس آیتوں کی قرأت نہ شروع کرتے جب تک کہ جو ان میں علم و عمل ہے، جان نہیں لیتے۔ انہوں نے فرمایاتو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہم کو علم و عمل دونوں کی تعلیم دیتے تھے۔‘‘ [5]

اس حدیثِ جلیل سے ثابت ہوا کہ حضورﷺ کو کائنات کے تمام واقعات کی خبر ہے، ماضی و مستقبل کا علم ہے، عالم کا ذرّہ ذرّہ پیشِ نظر ہے، قربِ قیامت کی نشانیاں اور خود قیامت سب مشاہدےمیں ہیں۔

علما فرماتے ہیں کہ سرکار صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم دنیا سے تشریف نہ لے گئے مگر اس حال میں کہ اللہ نے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اس سے مطلع فرما دیا کہ قیامت کب آئے گی، اس کا تعین لوگوں سے پوشیدہ رکھنے کا سرکار صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو حکم دیا بلکہ بعض احادیث سے قیامت کے احوال کا بھی پیشِ نظر ہونا ثابت ہے۔

علمائے کرام کی اس رائے کی تائید ایک دوسری حدیث سے مستفاد ہوتی ہے۔ یہ حدیث حضرت عبداللہ ابن عمرو رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے جو ’’کنز العمال‘‘ جلد: ۱۴/ صفحہ: ۵۸۳ پر موجود اور خاصی طویل ہے۔

اس میں حضرت عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کے دفن کے تھوڑے عرصے بعد ایک ہوا کا ذکر ہے جو یمن کی طرف سے چلے گی۔ روئے زمین پر جتنے مسلمان اس وقت ہوں گے یہ ہوا، ان کی روح قبض کرے گی اور قرآن کو ایک ہی رات میں اٹھا لیا جائے گا تو انسانوں کے سینوں میں اور ان کے گھروں میں اس میں سے کچھ نہ رہے گا تو ایسے لوگ رہ جائیں گے جن میں نہ کوئی نبی ہوگا، نہ قرآن کا علم ہوگا اور نہ ان میں کوئی مسلمان ہوگا۔

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا تو یہاں پر ہم سے قیامت کے برپا ہونے کا وقت چھپا لیا گیا تو ہم نہیں جانتے کہ ان لوگوں کو کتنی مہلت دی جائے گی۔

اس حدیث سے ظاہر ہے کہ صحابۂ کرام اپنے بارے میں یہ خبر دے رہے ہیں کہ ان سے قیامت کا وقت چھپا لیا گیا اور چھپانے والے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہیں تو یہ چھپانا اس امر کی دلیل ہے کہ سرکار صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو قیامت کے برپا ہونے کے وقت کی خبر تھی مگر بتانے کا حکم نہ تھا اس لئے صحابۂ کرام سے چھپا لیا گیا۔

’’بخاری شریف‘‘ کتاب الوضو میں حضر اسما بنتِ ابوبکر سے حضورﷺ نے فرمایا: کوئی ایسی چیز نہیں جو میں نے اب سے پہلے نہ دیکھی تھی مگر یہ کہ ان کو ایسے مقام پر دیکھا یہاں تک کہ جنت و دوزخ کا مشاہدہ فرمالیا اور بے شک میری طرف وحی آتی ہے کہ تم اپنی قبروں میں آزمائے جاؤ گے فتنۂ دجال کے مثل یا اس کے قریب تم میں سے ہر ایک کے پاس فرشتے آئیں گے، تو پوچھا جائے گا اس شخص کے بارے میں (یعنی حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بارے میں) تمہارا کیا علم ہے؟ مومن یا موقن (شک راوی) کہے گا یہ محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے رسول ہیں ہمارے پاس روشن نشانیاں اور ہدایت لے کر آئے تو ہم نے ان کا کہا مانا اور ایمان لائے اور ان کی پیروی کی، تو اس سے کہا جائے گاسوجا بھلا چنگا، اس سے کہاں جائے گا کہ ہمیں معلوم تھا بے شک تومومن ہے۔ اور منافق یا مرتاب(شک راوی) کہے گا میں نہیں جانتا میں نے لوگوں کو کچھ کہتے سنا تو میں نے وہی کہا۔

(’’آثارِ قیامت‘‘، مطبوعۂ دارالنقی، کراچی، ص 33 تا 39)



[1] رشدو ہدایت کی راہ سے بھٹکنے والے علمائے سوء ہی عموماً سرمایہ داروں کے پاس جاتے ہیں اور چند ٹکوں کی خاطر اپنا فضل و وقار ان کے پاس گروی رکھ دیتے ہیں۔ چناں چہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے: ’’ان اناسا من امتی سیفقھون فی الدین ویقرءون القراٰن ویقولون ناتی الامراء فنصیب من دنیاھم ونعتزلھم بدیننا ولا یکون ذالک کما لا یجتنی من القتاد الا الشوک کذالک لا یجتنی من قربھم‘‘ یعنی میری امّت میں کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو دین کی سمجھ حاصل کریں گے اور قرآن پڑھیں گے پھر سرمایہ داروں کے پاس جائیں گے اور کہیں گے کہ ہم سرمایہ داروں کے پاس جاتے ہیں اور اُن سے دنیا حاصل کرتے ہیں اور اپنا دین بچا کر الگ ہوجاتے ہیں حالاں کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا جس طرح قتاد(کانٹے داردرخت) سے کانٹوں کے سوا کچھ نہیں مل سکتا اسی طرح سرمایہ داروں کے قرب سے بھی کچھ نہیں حاصل ہوسکتا۔ (سنن ابن ماجۃ/ افتتاح الکتاب فی الایمان (الخ)/ رقم الحدیث: 255/ ج: 1/ ص:93)

حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں: ’’لو ان اھل العلم صانوا العلم ووضعوہ عند اھلہ لسادوا بہ اھل زمانھم ولکنھم بذلوہ لاھل الدنیا لینا لوا بہ من دنیا ھم فھانوا علیھم‘‘ یعنی اگر علما پنا علم محفوظ رکھتے اور اسے ذی صلاحیت انسانوں پر خرچ کرتے تو زمانے کے سردار بن جاتے مگر انہوں نے دنیا کے حصول کے لیے اپنا علم اہل دنیا پر خرچ کیا جس کی وجہ سے اہلِ زمانہ کی نظروں میں ذلیل و خوار ہوگئے۔ (مشکاۃ المصابیح/ کتاب العلم/ الفصل الثالث/ رقم الحدیث: 263/ج :1/ص:87)

آج یہ منظر بھی ہماری نگاہوں کے سامنے ہے کہ علما نے آخرت سے بے فکر ہوکر اس فانی دنیا کا حصول ہی اپنے علم کا مقصد بنا رکھا ہے اور سیاسی لیڈر بننے اور شہرت اور دولت حاصل کرنے میں سرگرداں ہیں، بعض نا عاقبت اندیش نام نہاد علما اخبارات میں چھپنا اپنی معراج تصور کرتے ہیں اور طرح طرح کے لایعنی اور گمراہ کن بیانات دے کر قوم اور ذمہ دارانِ قوم کو بدنا م کرتے ہیں۔ ۱۲؍فاروقی غفرلہ

[2] اللالی المنصوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ/ کتاب العلم/ ج:1/ ص: 191۔

[3] اللالی المنصوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ/ کتاب العلم/ ج:1/ ص: 200۔

[4] صحیح البخاری/ کتاب العلم/ باب من یرد اللہ خیرا (الخ)/ رقم الحدیث: 71/ج:1/ ص25۔

[5] الاتقان فی علوم القرآن/ النوع الثامن والسبعون/ فی معرفۃ شروط المفسر و آدابہ/ ج:4/ ص: 202۔

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi