ویلنٹائن ڈے


تحریر: توحید احمد خاں رضوی

یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود

’’اسلام کسی بھی ایسے فعل کی اجازت نہیں دیتا جس سے برائیوں کو فرو غ ملے اور معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو۔‘‘


چودہ فروی کو یوم اظہار محبت دھوم دھام سے منایا جاتا ہے اور قسم قسم کے غیر اسلامی اور غیر اخلاقی افعال کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ ہر سال ویلن ٹائن ڈے قریب آتے ہی موبائل کمپنیوں کے میسیجز آنا شروع ہو جاتے ہیں کہ ویلن ٹائن ڈے پر اپنے محبوب سے اظہار محبت کیجئے اور اس طرح سے صارفین کے بیلنس پر ہاتھ صاف کیا جاتا ہے ، الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر بھی اس حوالے سے تذکرے ہوتے ہیں اور خبریں شائع کی جاتی ہیں غرض ہر طرح سے اس بے حیائی کے دن کو فروغ دینے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس بے حیائی کو جدیدیت کا نام دیکر پھیلایا جاتا ہے۔

ویلن ٹائن ڈے کے آغاز کے بارے میں کئی روایات ہیں ۔ایک روایت میں ہے کہ تیسری عیسوی میں جب روم پر شہنشاہ کلاڈیئس (دوم) کی حکومت تھی۔ تو ملک کو کئی خون ریز جنگوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اہل روم جنگوں سے تنگ تھے۔ شادی بیاہ پر پابندی تھی۔ ایسے میں ایک عیسائی راہب ویلنٹائن نے لوگوں کی چوری چھپے شادی کروانی شروع کر دی۔ اس جرم کی پاداش میں اسے قید کیا گیا۔ اور ایسے میں اسکی جیلر کی بیٹی سے محبت ہو گئی اور خطوط کا سلسلہ شروع ہوا لڑکی خط کے آخر پر لکھتی۔ You are my Valentineاور وہ آخر میں لکھتا From your Valentine۔ پھر اس نے وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی تو اسے اس کے جرم کی پاداش میں 14فروری کو قتل کیا گیا۔ پھر پوری قوم نے اس کی یاد میں 14فروری کو ویلنٹائن ڈے منانا شروع کر دیا۔ ایک روایت یہ ملتی ہے کہ Encyclopedia Britannicaمیں یہ رقم ہے کہ اس شیطانی دن کا تعلق ہر گز ہر گز ""Saint Valentine""سے نہیں ہے۔ بلکہ یہ وہ مشرکانہ تہوار ہے جو قدیم رومیوں کے دیوتا Lupercaliaکا تہوار ہے۔جو ""Juno Februata""کے اعزاز میں منعقد ہوتا تھا۔ اس دن تمام لڑکیوں کے نام لکھ کر ایک برتن میں ڈالے جاتے تھے اور تمام مرد اس برتن سے ایک پرچی نکالتے جاتے۔ جس لڑکی کا قرعہ جس مرد کے ہاتھ آتا وہ لڑکی تہوار کے اختتام تک اس مرد کی غیر شرعی اور غیر اخلاقی ساتھی بن جاتی۔ المیہ یہ کہ یہ دونوں اپنے لئے ایک اعزاز سمجھتے تھے اور سارا سال اس شیطانی فعل پر فخر کیا کرتے تھے۔

مندرجہ بالا روایا ت سے یہ بخوبی معلوم ہو گیا کہ یہ غیر مسلموں کا رائج کردہ تہوار ہے اب آئیے اس تعلق سے اسلامی نظریات کا مطالعہ کرتے ہیں کہ اسلام اس حوالے سے کیا کہتا ہے۔ پہلے تو یہ بات بخوبی جان لینا چاہئے کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو اپنے ماننے والوں کو زندگی کے ہر موڑ پر رہنمائی کرتا ہے، اسلام باہمی اخوت، محبت اور ہمدردی کا درس دیتا ہے لیکن کسی بھی ایسی چیز کی قطعاً اجازت نہیں دیتا جس سے بے حیائی کو فروغ دیا جائے اور جو معاشرے میں فساد کا سبب بنے۔ آج یہ بات بھی خوب پھیلائی جارہی ہے کہ اسلام محبت کا درس دیتا ہے تو اس دن کو منانے میں کیا حرج ہے؟ تو میں ان سے کہنا چاہوں گا کہ اسلام نے یقیناًخوشیاں منانے کا درس دیا ہے لیکن اس کے لئے کچھ حدود بھی مقرر کی ہیں جن حدود کے اندر خوشیاں منائی جائیں تب ہی وہ خوشیاں منانا درست ہو گا۔

ہمیں چاہئے کہ ہم ہر چیز کو اسلامی نظریات کی کسوٹی پر جانچیں اگر وہ ہمارے اسلامی نظریات سے اتفاق رکھتی ہے تو اس کو اپنائیں اور اگر وہ ہمارے اسلامی نظریات کے خلاف ہے تو اس سے دور رہیں اور دوسروں کو دور رہنے کی تلقین کریں۔ جب ہم ویلن ٹائن ڈے کو اسلامی نظریات کی کسوٹی پر پرکھیں گے تو یہ بات اظہر من الشمس ہو جائے گی کہ ویلن ٹائن ڈے منانا یہ ایک غیر اسلامی اور غیر اخلاقی طریقہ ہے، اسلام اس طرح کی خوشیاں منانے کی ہر گز اجازت نہیں دیتا جس سے بے حیائی کو فروغ ہو۔ اسلام میں حیا کو بہت اہمیت حاصل ہے یہاں تک کہ حیا کو ایمان کا ایک حصہ قرار دیا گیا ہے جیسا کہ حدیث پاک میں ہے کہ الحیاء شعبۃ من الایمان یعنی حیا ایمان کا ایک حصہ ہے۔ ویلن ٹائن ڈے پر جو بے حیائی کا اظہار کیا جاتا ہے یہ کسی پر مخفی نہیں ہے ، یہی بے حیائی معاشرے میں ایک ناسور کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ انسان جب بے حیا ہو جاتا ہے تو وہ کوئی بھی غلط کام کر گذرتا ہے ۔ ویلن ٹائن ڈ ے نے ہمارے معاشرے میں جو بے حیائی کا زہر گھولا ہے اور جس طرح اس کے ذریعہ فحاشی، عریانیت نے زور پکڑا ہے اس سے آج ہر ذی شعور انسان متنفر ہے۔

ویلن ٹائن ڈے منانا کفار و مشرکین کا طریقہ اختیار کرنا ہے جس کی اجازت اسلام قطعاً نہیں دیتا، فرمان رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہے من تشبہ بقوم فھو منہم یعنی جو جس قوم سے مشابہت اختیار کرے گا اس کا حشر اسی کے ساتھ ہوگا۔ ویلن ٹائن ڈے میں لڑکوں اور غیر محرم لڑکیوں کا اختلاط ہوتا ہے اور ان کے مابین تحائف وغیرہ کا دور چلتا جو کہ سراسر ناجائز ہے ، یہی اختلاط اپنے اندر کئی شرعی اور معاشرتی جرائم اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں کیونہ فحاشی کی ابتدا اختلاط سے ہی ہوتی ہے۔

ویلن ٹائن ڈے منانا پہلے کفار ومشرکین کا طریقہ تھا لیکن افسوس اب مسلم نوجوان لڑکے اور لڑکیا ں بھی اس غلط فعل میں مبتلا ہو گئے ہیں اور اسلامی اقدار کی پامالی کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ایک مسلمان ہونے کے ناطے ان کی ذمہ داری تو یہ بنتی تھی کہ وہ معاشرے سے اس برائی کا خاتمہ کرنے کا بیڑہ اٹھاتے لیکن انھوں نے نہایت غیر ذمہ دارانہ رویہ اپناتے ہوئے اس برائی کو قبول کرکے معاشرے کو داغدار کرنے کی کوشش کی۔

میں اپنی قوم کے ان نوجوانوں سے عرض کروں گا کہ تم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو۔تم تو حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے غلام ہو نہ کہ مغرب کے غلام ، تمہیں تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی پیاری پیاری سنتوں پر عمل کرنا چاہئے نہ کہ مغرب کی بے حیا ء تہذیب پر، تمہارا دل و دماغ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے تصور و خیال کیلئے ہے نہ کہ مغربی تہذیب کی دلدادہ، بے شرم، بے حیاا ور بے پردہ نام نہاد لڑکیوں کے تصور و خیال کیلئے ہے۔ اے نوجوانوں! تمہیں آج سمجھنا ہو گا کہ صراطِ مستقیم کو نسا ہے ؟ اور غلط راستہ کونسا ہے؟

اے نوجوانوں! تمہاری زبان قرآن و حدیث پڑھنے کیلئے ہے نہ کہ مجازی عشق و محبت کے گیت گانے کیلئے،تمہارا ہاتھ اسلام کا علم بلند کرنے کیلئے ہے،قرآن کو ہاتھ میں لینے کیلئے ہے، بوڑھوں، بیواؤاور بے سہاروں کی مدد کرنے کیلئے ہے نہ کہ بے پردہ اوربے حیاء لڑکیوں کے ہاتھوں میں ہاتھ دینے کیلئے۔تمہارے قدم بھلائی کی جانب اٹھنے کیلئے ہیں نہ کہ برائی کو فروغ دینے کیلئے۔ تمہیں آج یہ فیصلہ کرنا ہے کہ تم آج اغیار کی رسومات کو منا کر اسلامی رسومات کی خاطر اپنی جانوں کو نچھاور کرنے والوں کو ناراض کروگے یا پھر ان غیر اسلامی رسومات کے خلاف آواز اٹھاؤگے؟

اے نوجوانوں! اپنی جوانی کو غنیمت شمار کرتے ہوئے اس کو نیک کاموں میں گذارو، برائی سے اجتناب کرو۔ کیا تم نے پیارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نہیں سنا ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’ہر روز ایک فرشتہ اعلان کر کے کہتا ہے کہ اے جوانو! اپنی جوانی مت ضائع کرو ورنہ پچھتاؤ گے۔‘‘(نفیس الواعظین صفحہ نمبر۲۸۰) اور سنو دیکھو پیارے نبی نصیحت فرماتے ہوئے ارشاد فرمارہے ہیں کہ’’ فرشتہ کہتا ہے: اے نوجوان تو کچھ ہو ش کے ناخن لے تیری جوانی بڑی قیمتی ہے اگر تو نے اسے لعب و لعو، عشق و محبت ، موج و مستی میں گنوا دیا تو پھر مستقبل میں بڑا پچھتا ئے گا تو اپنی جوانی کو دنیاکی رنگینیوں میں ضائع نہ کر قیمتی وقت کو بربادنہ کر ورنہ بعد میں سوائے پچھتائے کے کچھ ہاتھ نہ آئیگا۔‘‘ اور فرماتے ہیں کہ ’’جوان کی ایک رکعت بوڑھے کی دس رکعتوں سے افضل ہے اور اللہ کوجوان کی توبہ بہت پسند ہے۔‘‘(نفیس الواعظین صفحہ ۲۷۹)

اے نوجوانوں!یاد رکھو کسی شاعر نے کیا ہی خوب کہا کہ۔۔۔

ڈھل جائیگی یہ جوانی جس پر تجھ کو ناز ہے

اے نوجونوں! ذرا غور کرو آج تم اسلامی اقدار کی پامالی کر رہے ہو کل قیامت کے دن خدائے قہار کی بارگا ہ میں کیا جواب دوگے؟ کیا تم میں عذاب الٰہی کو برداشت کرنے کی طاقت ہے؟ بھلائی اسی میں ہے سچے دل سے اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرو اور ان تمام غیر اسلامی کاموں سے اجتناب کرو۔

شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi