سخن ضیائے طیبہ


اداریہ: صرف قصور ہی نظر آیا!

فلمیں ہوں، موبائل ہوں یا کیفے انٹرنیٹ ہو
نون ویج میسیج چلتے ہوں، چاہے برگر چیٹ ہو
یہ کیسا مینر کلچر ہے، ایڈوانس ہوئی ایجوکیشن
کم کپڑوں میں فخر کرے گا، لیکن نہ مانے فیشن
فلموں سے لے کر خبروں تک صرف مصالحے بکتے ہیں
جسم جلے اک عورت کا، تب ان کے چولھے جلتے ہیں
عورت کوئی چیز بنا بازار یہاں پر سجتے ہیں
ان کو دیکھ جوان ہوں کہ بچوں میں مجرم پلتے ہیں
سب دولت شہرت کی خاطر بکنے کو تیار ہیں
اس ساری بے شرمی کے ہم خود بھی ذمے دار ہیں

جمادی الاولیٰ 1439ھ/ فروری 2018ءکے شمارے کی تیاری کے دوران اداریہ لکھنے کی طرف ذہن جاتا رہا۔۔۔ابتدائی دنوں میں ماہِ جمادی الاولیٰ کی معروف شخصیات کے حوالے سے ذہن میں آیا کہ ۔۔۔عوام میں بالخصوص دیگر معروف اسلامی مہینوں میں سے اس ماہ کو ایک غیر معروف مہینہ (خالی مہینہ) تصور کیا جاتا ہے ۔۔۔لیکن درحقیقت اس ماہ میں بھی کثیر اسلامی شخصیات اولیا و علما کے اعراس مبارک ہیں ۔۔۔جن کے اسمائے گرامی شمارۂ ہٰذا کے صفحات میں نمایاں ہیں ۔۔۔جب کہ اداریے کے حوالے سے ایک دل چسپی اس طرف بھی متوجہ کر رہی تھی کہ یہ ماہ ممتاز ماہ بھی ہے۔۔۔جی ہاں ۔۔۔ اسی ماہ کی 20 تاریخ کو میرے ممتاز قادری کی شہادت ہوئی ۔۔۔ابھی اس طرف ذہن اور قلم کے درمیان تناؤ چل ہی رہاتھا کہ اچانک قصور قصور قصور کاشور مچنے لگا۔ہر طرف جہاں دیکھو قصور ہی قصور نظر آنے لگا، سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا، الیکٹرونک میڈیا، نجی بیٹھک، ڈائنگ ٹیبل و ڈرائنگ روم میں بھی حتیٰ کہ بیڈ روم میں بھی دو میاں بیوی کے درمیان قصور ہی موضوعِ بحث تھا۔ آخر کیا قصور ہے قصور کا ۔ ۔۔؟

قارئینِ محترم ۔۔۔! راقم کی اپنی بھی ذرا سن لیجیے۔

· گزرے سال کے نومبر کی 6 تاریخ کو راقم کے والدِ محترم ادارۂ ہٰذا کے بانی و سرپرست قبلہ سیّد اللہ رکھا قادری ضیائی اطال اللہ عمرہ کے دل کی شریانوں کا بائی پاس آپریشن ہوا جو شہر عزیز کراچی کے ایک بڑے نجی ہسپتال سے کروایا گیا تھا، تقریباً ہفتے بھر اس بڑے نجی ہسپتال کے رات دن چکر لگے، غرضیکہ ہر بڑے ہسپتال سے لے کر چھوٹے کلینک تک صرف قصور ہی نظر آیا۔

· سیر و تفریح کے مقامات، باغات و پبلک پلیس سمیت ہوٹل وغیرہ جیسی جگہوں پر جب بھی جانا ہوا ہر ہر جگہ صرف قصور ہی نظر آیا ۔

  • راقم کے ادارے میں موجود اور آنے والے اخبارات و جرائد و رسائل یعنیپرنٹ میڈیا کو جب بھی جس صفحے سے بھی دیکھا تو صرف قصور ہی نظر آیا ۔
  • گھر ہو یا باہر، ٹیلی ویژن اسکرین یعنی الیکٹرونک میڈیا کو اور اگر ریموٹ ہاتھ میں ہو تو ہر ہر چینل پر جب جب اور جس وقت آن کیا تو صرف قصور ہی نظرآیا ۔

· اسکولزمیں بچوں کو چھوڑنے یا بلوانے کے حوالے سے جب بھی جانا ہوا تو اسکول کے دروازے سے لے کر اندر کے کمروں تک صرف قصور ہی نظر آیا ۔

· یونیورسٹی کے حوالے سے جب بھی جس کام کے حوالے سے بھی جانا ہوا تو ہر ہر شعبے سے لے کر لائبریری و کینٹین تک صرف قصور ہی نظر آیا ۔

· کتب بازار سے لے کر اسکول و کالج و یونیورسٹی کی نصابی کتابوں تک اور ان کے اندر موجود چیپٹرز میں صرف قصور ہی نظر آیا۔

· خرید و فروخت کے معاملات میں شہر ِعزیز کراچی کے بڑے بڑے اسٹورز و شاپنگ سینٹرز سے لے کر چھوٹی دکانوں تک صرف قصور ہی نظر آیا۔

· کاروباری اعتبار سے بڑی کمپنیوں، فیکٹریوں اور کارخانوں، نیزسیلز آفسز اور فرنچائز سے لے کر ایک چھوٹے سے کاریگر کےٹھیے تک صرف قصور ہی نظر آیا ۔

· خوشی و غم کی ہر ہر ساعت، دعوتِ طعام، شادی بیاہ و ولیمہ سے کر موت و میت کے سوئم و چہلم و برسی تک صرف قصور ہی نظر آیا ۔

· سفری معاملات میں جہازی سفر اور ٹرین و بسز سے لے کر شہر عزیز کراچی کی سڑکوں پر موٹر سائیکل کی ڈبل سواری تک صرف قصور ہی نظر آیا۔

· جن کے ناموں پر ریسرچ سینٹرز اور یونیورسٹیوں کے نام ہونے چاہییں، ان کے نام پر سُپر لگژری ریسٹورینٹ موجود ہیں، گویا کہ فوڈ اسٹریٹ سے لے کر ایک چائے کے ڈھابے تک صرف قصور ہی نظر آیا۔

  • وغیرہ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔۔

قارئینِ کرام ۔۔۔! مندرجۂ بالا صرف قصور ہی نظر آیا میں یہ عنوانات ہیں ، جب کہ ابھی ان عنوانات پر مکمل مضمون راقم کے قلم کامنتظر ہے۔

اب بات صرف قصور ہی کے نظر آنے کی ہے تو میاں پوچھا گیا کہ پھر بچ کیا گیا جہاں قصور نہیں دیکھا۔۔۔؟

تو ایسا نہیں ہے ۔۔۔ جی ہاں ۔۔۔ کچھ جگہیں ایسی ابھی موجود ہیں جہاں کچھ کچھ قصور نظر آتا ہے۔۔۔اور کچھ جگہوں پر قصور کا تصور ہی نہیں آتا ۔

جیسا کہ : تربیت یافتہ ماں کا اسکول (گود ) ، غیور باپ کا سایۂ شفقت و تربیت ۔

جب کہ مسجد و منبر و مدرسہ جیسی جگہوں پر کچھ کچھ قصور نظر آیا۔

قارئینِ محترم ۔۔۔!

بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے ۔۔۔کیوں کہ اب بھی اگر بات کو سمیٹاگیا تو یہاں صرف اپنا ہی قصور نظر آئے گا ۔ ۔۔کیوں کہ اب بھی واردات جاری ہے ۔۔۔ میڈیا کی آزادی جاری ہے ۔۔۔جس پر بے حیائی و فحاشی جاری ہے ۔۔۔ لبرل از م و سیکیولرازم جاری ہے۔۔۔ جن کا مقصد (توہینِ رسالت) جاری ہے ۔۔۔ ڈالر و ریال جاری ہے ۔۔۔ جس کے ذریعے فتاوائے شرک و بدعت جاری ہے۔۔۔ تو ذرا سوچیے ۔۔۔کہ اب بھی یہ قیمتی وقت جاری ہے۔۔۔ تو کیا ہماری تربیت و سرگرمی بھی جاری ہے ۔۔۔؟ یا بس صرف مذمّت و احتجاج ہی جاری ہے ۔۔۔محترم قارئین ۔۔۔ بس یہ تحریر بھی جاری ہے۔۔۔

قارئین محترم۔۔۔! مندرجۂ بالا جلے کٹے معروضات تو اتفاقاً حالاتِ حاضرہ کے تناظر میں ۔۔۔نذر ِقارئین کیے گئے۔۔۔در حقیقت عالم اسلام یعنی اسلامی ممالک و ریاستوں پر عالمی برادری کی جانب سے ظلم و جبر برسوں سے ایک منظم انداز سے جاری ہے۔۔۔کشمیر ، فلسطین و برما حالیہ سالوں میں سرخی سرخی رہا۔۔۔ دنیائے اہل سنت کے برائے نام اتحاد کی باتوں باتوں میں وقت گزارتے رہے۔۔۔ اغیار و بد مذہبوں کے کام کام پر چرچے ہوتے رہے۔۔۔ماضی کے اوراق سے چالیس سال بعد سیاست کی باتوں میں اختلاف اختلاف پڑھنے میں آیا۔۔۔کسی سوشل میڈیا کی ’’وال ‘‘پر لکھا پڑھا دیکھا کہ کیا حالیہ تناظر میں خاموشی بھی دین کی خدمت ہے ۔۔۔؟

اللہ تبارک و تعالٰیاپنے حبیبِ کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم کے صدقے و طفیل مسلمانانِ عالم پر اپنی رحمت و برکت اور نوازشوں کی برسات فرمائے ، اسلام کا بول بالا ہو ، عالم اسلام کو سرخ روئی و سر بلندی سے نوازےاور ہماری نسلوں کو تمام فتنہ پرور وں کی فتنہ پروری و شر انگیزی سے محفوظ رکھے ۔

آمین یا رب العالمین بجاہ سیّد المرسلین ﷺ!

سیّد محمد مبشر قادری

ڈائریکٹر : اسکالرز انسائکلوپیڈیا پروجیکٹ

خادم: انجمن ضیائے طیبہ

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi