حالات حاضرہ کے تناظر


رفیق ملّت سید نجیب حیدر میاں نوری مارہروی

آج ہمارے سامنے جو حالات نمودار ہوئے ہیں اس پر غور و فکر کر کے ازالے کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ہمیں یہ سوچنا ہی ہوگا کہ ہم کیا تھے اور کیا ہوگئے۔یہ وہی بلند عزائم قوم ہے جس نے لکڑی کی سوکھی ٹہنیاں ہاتھوں میں لے کر جنگیں فتح کی تھیں۔جس کی تلوار اور کردار نے مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک تمام معر کے ایک ہی آن میں طے کئے تھے۔فتح و نصرت ہماری ڈیوڑھی پر رقص کرتی تھی۔جس کو رب تبارک وتعالیٰ نےا یسا قائد عطا فرمایا جو پیٹ پر پتھر بھی باندھتا تھا اور اپنی انگشت مبارک کے اشارے سے چاند کا سینہ بھی چاک کرتا تھا، جس کے کردار کی خوشبو نے حبشہ و فارس کے ایوانوں کو مہکادیا،جس نے ابو بکر و عمر، عثمان و حیدر،بلال و ابو ذر جیسے وفادار اور جاں نثار نمونۂ عمل کے طور پر عطا فرمائے۔جس کی نسلِ پاک کا بچہ بچہ احیائے اسلام کے لیے غریب الوطن ہو کر بھوکا پیسا کربلا کی دھرتی پر قربان ہوگیا۔ جس کے سیف اللہ کی تلوار کی چمک نے اعدائے دیں کے حوصلوں کو مسمار کیا۔اسی امین و صادق رسول کی امت کا ماضی جتنا زرین و تابناک تھا حال اتنا تاریک و متزلزل۔اس قائد اعظم ﷺ نے اچھی زندگی گزارنے کے سبھی اصول و ضوابط اپنی ۶۳؍سالہ زندگی سے مرتّب فرما کر اپنے جاں نثاروں اور وفاداروں کے ذریعے ہمیں عطا فرمادیے۔وہ یار ِغار وفادار سیدنا ابو بکر صدّیق رضی اللہ عنہ سرکار ﷺ ہی کے پروردہ اور تربیت یافتہ تھےجنہوں نے مالک سے وفاداری کے تمام پیمانے اپنی وفاداری سے متعین کیے۔وہ صدّیقِ اکبر ہی کی تو ذات تھی جس نے ہمیں بتایا کہ ایک مملکت اور حکومت کے سربراہ کو قوم و ملّت کے مال کو کس طرح خرچ کرنا چاہئے۔رسول کریم کی صحبت سے مستفیض اسلام کے وہ جانبار سپاہی غیضِ منافقین عمر ابن خطاب ہی تو تھےجنہوں نے آج سے چودہ سو سال قبل ایک صالح نو آبادیاتی نظام کی بنیاد رکھی تھی۔وہ فاروقِ حق باطل جس کی تلوار سے عرب و عجم کے ایوان تھر تھراتے تھے۔ وہی عمر مسجد نبوی میں اپنے لباس کے حوالے سے عوام الناس کو جواز دے کر یہ پیغام دے رہے تھے۔حکمران اور صاحبِ منصب کو کس طرح مخلوقِ خدا کا جواب دہ ہونا ہے۔ جامع القرآن سیدنا عثمانِ غنی کو وہ تربیت عطا فرمائی کہ ذو النورین اپنا تمام اثاثہ راہِ خدا میں تقسیم فرماگئے۔کیا کوئی دنیا میں ذو النورین جیسی اطاعت کی مثال لا سکتا ہے کہ کعبہ مکرمہ سامنے ہو، طواف کعبہ کی اجازت ہو اور رسولِ کریم ﷺ کا جاں نثار یہ کہہ کر انکار کردے کہ میں رسول اللہﷺ کے قاصد کی حیثیت سے آیا ہوں۔طواف مقصد نہیں۔بابِ علمِ نبی سیدنا مرتضٰی علی کے علم و تدبّر، شجاعت اور سخاوت کیا ہمارے پاس بطورِ امانت و وراثت موجود نہیں۔کیا بسترِ رسالت پر اس پُر آشوب شب میں بے فکر ہو کر سوجانا اللہ اور اس کے رسول پر اعتماد کرنے کی سند نہیں دیتا۔ایسے مطیع اور فرمانبردار اصحابِ مصطفٰی ﷺ سے خدا کیوں نہ راضی ہوگا اور کیوں نہ فرمائے رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَ رَضُوْا عَنْہٗ۔صداقت، عدالت، سخاوت، شجاعت، صلہ رحمی، خداترسی، اخوّت و مساوات، ایفائے عہد، وضع داری، غربا پروری، انکساری ، اقرباپروری، دلجوئی غرض کہ کوئی شعبۂ زندگی ایسا نہیں کہ جسے بانئ اسلام نے ہمیں ودیعت نہ کیا ہو۔ یہ ہماری خوش بختی ہے کہ ہم ایک سچے اور دستاویزی مذہب سے تعلق رکھنے والی قوم ہیں اور ہر دستاویز پر ہمارے حاکم کے کردار و عمل کی مہر لگی ہوئی ہے۔

فکر و نظر ، تدبّرو آگہی کے سارے خزانے رسول اللہﷺ کے دار الارقم سے نکل کر ہی تو زمانے میں پہنچے تھے۔ دنیا کا کونسا ایسا دیانت دار فلسفی و دانشور ہے۔جس نے مذہبِ اسلام کے اصولوں اور حقانیت کی تعریف نہ کی ہو۔ مستشرقین کی ایک بڑی جماعت اس بات پر متفق ہے کہ بانئ اسلام کی ایک ایک بات کو عوام تک پہنچانے کے لیے راویانِ حدیث کی پوری فہرست کے مرتّب ہونے اور ان کے کردار و عمل کے مکمل و مستند ہونے پر ہی اس حدیث کو رسولِ کریم ﷺ سے منسوب کرنا اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ یہ مذہب اپنی حقانیت کی سند کے ساتھ اپنے تشخص کو قائم کیے ہوئے ہے۔ ہم ہی نے تو پوری دنیا کو ترقیوں سے روشناس کرایا،ایجادات ہم نے دیں،نظامِ حکومت چلانے کا ہنر ہم نے دیا، انصاف کے پیمانے ہمارے یہاں سے مرتب ہوئے۔اخلاقی اقدار ہم سے ملیں۔سماجی بہبود کی تعلیم ہم نے سکھائی۔کیا مغرب کے مغرور،جابر اور منافق دشمنانِ اسلام آٹھویں صدی ہجری کے ہمارے زریں عہد کو بھول گئے کہ ان کے تاریک خانوں میں مقفل علم و فن کو فرزندانِ اسلام نے اپنے فکر و فن سے بیت الحکما میں جلا بخشی تھی۔چودہ سو طبیبوں کا پہلا ہسپتال قائم کرنے والے محمد رسول اللہﷺ کے غلام ہی تو تھے۔کیا رازی و غزالی جیسے ایک بھی کسی دوسرے کی صف میں نظر آتے ہیں۔کیا ابو ریحان البیرونی، البتانی ، الخوارزمی، جابر ابن حیان،ابن خلدون کے علمی و تحقیقی فن پاروں کو دنیا فراموش کرسکتی ہے؟ کیا ابن سینا کے قانونِ طب اور الفارابی کی طبی مہارتوں اور لیاقتوں سے زمانہ آج تک سرفراز نہیں ہے۔کیا کیمیا،فلکیات ،طب، جغرافیہ، ارضیات، موسمیات کی تحقیق کی تاریخ میں فرزندانِ اسلام کے تعاون کو فراموش کیا جاسکتا ہے۔

۱۷؍ سال کی عمر میں حکومتوں کو فتح کرنے کی تاریخ فرزندانِ اسلام ہی سے منسوب ہے۔تپتے ہوئے ریگ زاروں اور اپھنتے ہوئے دریاؤں کو اپنے قدموں تلے روندنے کا ہنر ہمارے حوصلوں ہی کی داستان بیان کرتا ہے۔

لیکن ہم اپنی زریں تاریخ کو یاد کے کب تک ماضی کے نوحہ گر بنے رہیں گے۔آج پورے عالمِ اسلام پر ہر اس اور نکبت کے بادل ہیں۔مایوسی کا ایک مہیب سنا ٹاہم پر طاری ہے۔پوری دنیا میں مسلمانوں کو ذلیل و خوار کیا جارہا ہے۔کمال کی بات تو یہ ہے کہ حق کو باطل سے تعبیر کیا جارہا ہے اور حق کے طرف دار ختم ہورہے ہیں۔ہمارے سفید فام پاسبانِ حرم بر بنائے مصلحت ان کے حامی اور ناصر ہوگئے۔غریب مسلم ممالک کی گردنیں یہود و نصاریٰ کے خونی پنجوں میں آہ بکا کررہی ہیں۔مذہبِ اسلام کی حقانیت کو مجروح کرنے کے لیے اسلامی قوانین اور بانئ اسلام پر اوچھے حملے کیے جارہے ہیں۔بدنیت دشمنانِ اسلام قرآن و حدیث کے پیغام کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے لیے نت نئے حربے استعمال کررہے ہیں۔

عراق، افغانستان ،شام، لیبیا اور برما کے حالات ہم سے پوشیدہ نہیں ہیں۔آگے کیا حالات ہونے ہیں وہ بھی ہمارے ذہن کے منظر نامے پر روزا بھرتے ہیں لیکن لا تقنطوا باللّٰہ کی صدائیں بھی روز ہمارے کانوں میں گونج کر ہمارے لیے باعثِ سکون و راحت ہوتی ہیں۔انشاء اللہ خدائے قادر و جبار کی مدد ہم پر ضرورآئے گی اور ہماری قسمت کی تاریکی کامیابی اور کامرانی کی روشنی میں جلد تبدیل ہوگی۔انشاء اللہ۔

آج مسلمانانِ ہند کے پیشِ نظر جو حالات ہیں اس سے کون واقف نہیں آزادی کے بعد سے لے کر دورِ حاضر تک کیسے کیسے نشیب و فراز ہم نے دیکھے ؁ ۱۸۵۷ء کے غدر کا آشوب،مغلیہ سلطنت کا زوال، برطانوی حکومت کا منفی اور منافقت سے بھرارویّہ، آزادی کے بعد اہلِ وطن کے سلوک،مسلم مخالف تنظیموں کی ریشہ دوانیاں ،زعفرانی تحریک کا عروج، بابری مسجد کی شہادت، پرسنل لا میں مداخلت، فرقہ وارانہ فسادات سے مسلمانوں کے جان و مال کا نقصان، فسطائیت کی دستک، بدلتی ہوئی حکومتیں اور ان کی حکومتوں کی ملّت ِاسلامیہ کے خلاف نئی نئی سازشیں، ہم پر ہو رہی ستم ظریفی کی ایک لمبی داستان ہم سے منسوب ہیں۔بظاہر ہمارے پاس عرفان صدیقی کا صرف ایک شعر ہی پڑھنے کو بچ جاتا ہے۔؏

کچھ زباں سے بھی کہو حکمِ ستم گر کے خلاف
صرف چپ رہنے کو انکار نہیں مانتا میں

تو ہم صرف کچھ کہنے کے لیے زبان و قلم کو مضبوط کرلیں۔ ہمارے نظامِ تعلیم میں مداخلت، ہمارے مدارس و دار العلوم میں مداخلت ،عبادت گاہوں خانقاہوں پر بری نظریں،امّت میں افتراق اور انتشار کی سازشیں ،ہمارے اداروں پر جبراً خود ساختہ قانون کے نفاذ کے قواعد ، اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے آئین میں ترمیمات کے منصوبے، شریعتِ محمدیہ ﷺ کے قوانین کو مسلمانوں کا حمایتی بن کر رد کرنے کے گھناؤ نے عزائم، ہمارے اوقاف کو ہمارے نام نہاد اپنوں ہی کے ذریعے غصب کرنے کی پیش قدمی، مسلمانوں کو لا چار بنا کر خود کامر ہون منّت کر کے اپنے آگے سرنگوں کرنے کی خوش فہمی اور یہ کیوں، کیسے اور کب ہوا اس کا جواب تلاش کرنا ہے اور سد ّباب بھی کرنا ہے اور شاید یہی ہمارے لیے مناسب وقت ہے کہ ہم اب تمام حالات سے نپٹنے کے لیے کمر بستہ ہوجائیں۔اپنی صفوں سے انتشار اور اختلاف کو ختم کرنا ہوگا۔ملّی مسائل پر اشتراک عمل کے لیے کوئی احسن شکل نکالنا ہوگا۔اپنے ذہن سے انتہا پسندی کو نکالنا ہوگا۔مزاج میں حلاوت اور کردار میں شرافت پیدا کرنی ہوگی۔ ہماری قوم کے متمول افراد کو آگے بڑھ کر تعلیمی ادارے کھولنے ہوں گے۔اپنی قوم کے تعلیم یافتہ اور دانشور بن کر نوجوان طبقے کے حوصلوں کو بڑھانا ہوگا۔ان کو ملّت کے مسائل کو سمجھنے اور ان کولکھنے پڑھنے کی طرف رغبت دلانی ہوگی۔جو حضرات تعلیمی طور سے مسلمانوں کے حالات کو بہتر کرنے کے قابل ہیں ان سے گزارش ہے کہ وہ قوم کے ہونہار طلبہ کے لیے میڈیکل، انجینئرنگ اورسول سروسز کی معیاری اور بہترین کوچنگ کے انتظامات کریں۔لاانسٹیٹیوٹ قائم کریں۔مختلف اضلاع میں کم پڑھے لکھے طلبہ کے لیے ہنر مندی کے کورسز شروع کریں۔اپنی رہتی زندگی میں کچھ ایسا ضرور کیا جائے کہ بادِ صبا کے انتظار کی مدت کچھ تو کم ہو۔

ہم اپنے علما، مشائخ ، خطبا اور صاحبانِ قلم حضرات سے نہایت ہی ادب و احترام سے گذارش کرتے ہیں کہ اس پُر آشوب دور میں اپنے اپنے حلقوں میں دعوت و تبلیغ کا اپنے اپنے حساب سے کام شروع کریں۔مشائخِ عظام اپنے حلقوں میں اصلاحِ معاشرہ کا کام جتنے بہتر طریقے سے کرسکتے ہیں وہ دوسروں کے لیے اتنا آسان نہیں۔ہمارے مشائخ اپنے متوسلین کو اتحاد ِامّت اور باطنی اصلاح کے لیے خوب خوب راغب کریں۔ایک مرتبہ پھر خانقاہوں کو تربیت گاہوں میں تبدیل کرنے کی سعی فرمائیں۔ اذکار کی محفلیں تزکیۂ نفس کے لیے برپا کریں۔اپنے متوسلین کو جوّا، رشوت، جہیز کی لعنت اور غیبت سے دور رہنے کے لیے مؤثر طریقے سے راغب کریں۔حقوق اللہ اور حقوق العباد کی پابندی کے لیے آمادہ کریں۔

علمائے کرام فروعات کے معاملات میں تھوڑا تحمل سے کام لیں۔مسائلِ شرعیہ جو خواص ہی کے سمجھنے کے لیے ہیں ان کو عوام کے درمیان بحث کا موضوع نہ بننے دیں۔علما عوام ایک دوسرے قریب آئیں گے تو ہر دو حضرات ایک دوسرے کے کلچر کو سمجھیں گے بھی اور غلط فہمیاں بھی دور ہوں گی۔دار الافتا کے ذمہ دار جدید طرز پر اپنا مطالعہ اور مشاہدہ بڑھائیں تا کہ عوام کے مسائل کا جواب جدید دور کے تقاضوں کے مطابق دیا جاسکے۔اسی طرح خطابت اور صحافت کا مزاج بھی ہمیں بدلنا ہوگا۔دونوں طبقوں کے افراد کو یہی ملحوظِ خاطر رکھنا ہوگا کہ کیا نہیں بولنا اور کیا نہیں لکھنا۔

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi