فواحش اور اُن سے اجتناب


از:علامہ مفتی ڈاکٹر سیّد شجاعت علی قادری﷫

اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیۡطٰنِ الرَّجِیۡمِo

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِo

قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ وَالۡاِثْمَ وَالْبَغْیَ بِغَیۡرِ الْحَقِّ وَ اَنۡ تُشْرِکُوۡا بِاللہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا وَّ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا عَلَی اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوۡنَ (اَعراف: 33)

ترجمہ:اے رسول ﷺ! فرمادیجیے میرے رب نے تو تمام فواحش کو،کیا ظاہر اور کیا باطن، اثم و بغی ناحق کو حرام کردیا ہے اوراللہ کےساتھ شریک کرنے کو جس کی کوئی دلیل و حجت اس نے نازل نہیں کی ہے۔ اور اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کہنے کو جو تم نہیں جانتے ہو(حرام کردیا ہے)۔

تشریحِ لغات:ترجمہ و تفسیر سے قبل مشکل لغات کی تشریح ملاحظہ ہو۔

الفواحش ’’فاحشۃ‘‘ کی جمع ہے، اس کے معنیٰ ہیں ہر وہ چیز یا عمل جس کی برائی فطرتِ سلیمہ اور عقلِ صحیح کے نزدیک بہت زائد ہو۔ الاثم ہر قبیح اور نقصان دہ چیز کو کہتے ہیں،اس میں تمام گناہ آجاتے ہیں خواہ کبائر ہوں یا صغائر ہوں، البغی اس چیز کا طلب کرنا جس کے طلب کرنے کا حق نہ ہو، یا حد سے تجاوز کرنا۔

گزشتہ آیات میں فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے زینت کو اور کھانے پینے کی پاکیزہ اشیا کو حلال کردیا ہے اور کسی کو یہ حق نہیں کہ ازخود ہی ان چیزوں کو حرام قرار دے دے، البتہ اس نے فواحش کو حرام کیا ہے۔

سورۃ الانعام کی آیت:151 میں بھی یہی مضمون ہے:

وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ

یعنی تم فواحش کی قربت تک نہ کرو۔

آپ ﷺنے ایک دن خود سوال کیا کہ تم لوگ زانی، چور اور شرابی کے بارے میں کیا کہتے ہو؟

صحابہ نے جواب دیا:

اللہ اور اس کا رسول ہی جانتے ہیں۔

آپ نے فرمایا:

ھن فواحش و فیھن العقوبۃ

یہ سب گناہ ہیں اور ان میں سزا ہے۔

یہ آیت ان دس وصیتوں میں سے ایک ہے جو سورۂ انعام کے آخر میں کی گئی ہیں اور’’اثم‘‘سے بھی منع فرمایا۔ یعنی فتنہ و فساد کرنا اور کسی چیز کے مطالبے میں حدود اللہ سے گزر جانا۔ عام طور پر ’’بغی‘‘ سے مراد وہ افعال و اعمال ہیں جو معاشرے میں فتنہ و فساد کا موجب بنیں، لوگوں کے اموال اور ان کی جانیں، ان کے قصور و گناہ ضائع ہوں۔

سورۂ یونس کی آیت 23 میں ہے:

فَلَمَّاۤ اَنۡجٰىہُمْ اِذَا ہُمْ یَبْغُوۡنَ فِی الۡاَرْضِ بِغَیۡرِ الْحَقِّ

پس جب اللہ نے ان کو نجات دے دی تو وہ زمین میں ناحق فساد کرنے لگ گئے۔

سورۂ قصص کی 77 ویں آیت میں ہے:

وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِ (القصص:77)

اور تو زمین میں فساد نہ کر۔

پھر اسی سورت کی آیت :۷۶ میں ہے:

اِنَّ قَارُوْنَ کَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰی فَبَغٰی عَلَیْھِمْ (القصص:76)

بے شک قارون موسیٰ کی قوم ہی سے تھا ، پھر اس نے ان پر ظلم کیا۔

فَاِنۡۢ بَغَتْ اِحْدٰىہُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیۡ تَبْغِیۡ (الحجرات :9)

تو اگر ان میں سے ایک جماعت دوسری پر ظلم و زیادتی کرے تو تم زیادتی کرنے والی جماعت سے جنگ کرو۔

علامہ ابنِ قیم فرماتے ہیں: ’’اثم‘‘ کی تو جنس ہی حرام ہے۔ یعنی اس کا ہر فرد حرام ہے۔کوئی اثم ایسا نہیں جو حلال و جائز ہو جب کہ ’’بغی‘‘ صرف وہ ممنوع ہے جس میں حد سے تجاوز کرنا پایا جائے۔ مثلاً ایسا شخص جو بھوک سے مررہا ہو، حرام چیز کھا سکتا ہے، مگر صرف اتنی مقدار میں کہ جان بچ جائے۔اس سے زائد کھانا بغی ہے، جس کو قرآن نے غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ کے الفاظ سے ممنوع قرار دیا ہے۔ اس آیت سے شراب کی حرمت معلوم ہوگئی۔کیوں کہ قرآن میں شراب کے لئے ’’اثم‘‘ کا لفظ آیا ہے، فرمانِ الٰہی ہے:قُلْ فِیْھِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ۔آپ فرمادیجیے کہ شراب اور جوئے میں بڑا گناہ ہے۔ اور اس آیت میں ’’اثم‘‘ کے لئے ’’حرم‘‘ کا لفظ آیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ شراب قرآن کی نصِ قطعی سے حرام ہے، خود کلامِ عرب میں ’’اثم‘‘ شراب کو کہتے ہیں۔حضرت حسن فرماتے ہیں:یہاں اثم سے مراد شراب ہے۔ اور بطورِ استدلال عربی کا یہ شعر پیش فرماتے ہیں:

شربت الاثم حتی ضل عقلی
کذالک الاثم یذھب بالعقول

یعنی شاعر کہتا ہے:

میں نے شراب پی یہاں تک کہ میری عقل بہک گئی اور شراب اسی طرح عقلوں کو بہکادیتی ہے۔

پھر فرمایا کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا بھی حرام و ممنوع ہے۔سلطان حجت اور دلیل کو کہتے ہیں اس لیے کہ سلطان میں غلبہ کا مفہوم ہے اور جس شخص کو اپنے دعویٰ کی دلیل مل جاتی ہے وہ غالب ہوجاتا ہے۔ یہاں یہ بتا یا جارہا ہےکہ تم اللہ کے ساتھ ان چیزوں کو شریک ٹھہراتے ہو جن کےشریک ہونے پر تمہارے پاس کوئی حجت اور دلیل نہیں ہے۔

اسی مضمون کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان کیا گیا ہے:

وَ مَنْ یَّدْعُ مَعَ اللہِ اِلٰھًا اٰخَرَلا لَا بُرْھَانَ لَہٗ

(المؤمنون: 117)

جو اللہ کے علاوہ کسی ایسے معبود کی عبادت کرے گا جس کے لیے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔

ایک جگہ فرمایا گیا:

ءَاِلٰہٌ مَّعَ اللہِ ؕ قُلْ ہَاتُوۡا بُرْہَانَکُمْ اِنۡ کُنۡتُمْ صٰدِقِیۡنَ (النمل :64)

کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟فرما دیجیے :تم اپنی دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو۔

ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں میں سے ہر نبی اور رسول نے اپنے اپنے زمانے کے مشرکوں کو ہمیشہ چیلنج کیا کہ وہ اپنے شرک پر کوئی سلطان کوئی برہان اور کوئی حجت پیش کریں ،مگر تاریخِ مذاہب گواہ ہے کہ دنیائے شرک ہمیشہ ساکت و مبہوت رہی۔ پھر فرمایا کہ شرک بھی ممنوع ہے اور خدا کو ایک مان کر اس کے بارے میں بلا علم و یقین کے اپنی طرف سے محض اپنے ظن و گمان سے ایسی باتیں منسوب کرنا بھی منع ہے جن کا علم نہ ہو، ادیانِ سماویہ میں بدعتوں اور گمراہیوں کی اس مرضی کے سبب راہ ملی کہ لوگ توحیدِ خداوند پر اس کا ایمان رکھنے کے باوجود اللہ کے بارے میں محض اپنی منطق سے ایسی باتیں کہتے تھے جن سے اللہ کی ذات بلند و بالا ہے۔ان تقولو علی اللہ کا ایک مفہومِ ظاہر تو یہ ہے کہ خود اللہ کی ذات و صفات اور اسما و افعال کے بارے میں من گھڑت باتیں کرنا اور دوسرا عام مفہوم یہ ہے کہ ہر وہ چیز جس کو اللہ کی ذات سے نسبت ہو، اس کے بارے میں یا وہ گوئی کرنا، اس میں اوپر دین آجاتا ہے۔

چناں چہ حضرت مقاتل فرماتے ہیں:

ھو عام فی تحریم القول فی ادلین من غیر الیقین۔

یہ عام ہے اس میں دین سے متعلق بلا یقین کے ہر بات آجاتی ہے۔یہاں یہ امر ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے کہ دین کا کچھ حصّہ عقائد پر اور کچھ عبادات و معاملات پر مشتمل ہے۔ عقائد اور ایسے امور جن میں قطعی دلائل کی ضرورت ہے،ان میں ظن اور غالب گمان کا فائدہ نہیں ہوگا، لیکن دوسرے امور میں عمل کے لئے ظنیات پر بنیاد قائم کی جاسکتی ہے۔اس لیے اخبار، احاد اور مجتہدین (کا) اجتہاد و قیاس بھی جحتِ شرعیہ ہے اور اس کی سند خود قرآن ہی میں موجود ہے۔

فرمانِ الٰہی ہے:

فَاعْتَبِرُوۡا یٰۤاُولِی الْاَبْصَارِ۔(الحشر:2)

اے صاحبانِ بصیرت! تم قیاس کرو۔

خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت کی رو سے دین میں ایسی باتیں کہنے کی ممانعت ہے جن کی کوئی سند قرآن و سنّت میں موجود نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں فواحش و منکرات سے بچائے اور قرآن و سنّت کی پیروی کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)

(’’مقالاتِ ابن مسعود مفتی سیّد شجاعت علی قادری‘‘، ص 247 تا 250)

 

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi