قصور کس کا ہے


تحریر: محمد اسماعیل بدایونی

باہر کوئی زور زور سے دروازہ پیٹ رہا تھا، کسمساتے ہوئے اٹھا، سائیڈ ٹیبل پر نگاہ ڈالی تو گھڑی رات کے تین بجا رہی تھی۔ اس وقت کون آ گیا؟ باہر جھانکا تو پولیس کی موبائل اور سول کپڑوں میں اہلکار موجود تھے ۔

میں نے دروازہ کھولا تو انہوں نے روایتی بد تمیزی سے پوچھا شاہ رخ کہاں ہیں؟

شاہ رخ گھر میں موجود ہے لیکن مجھے یہ تو بتائیے کہ بات کیا ہے ؟ آپ کس معاملے میں اس سے تفتیش کرنا چاہتے ہیں؟ میری پریشانی بہت بڑھ چکی تھی، طرح طرح کے خیالات آرہے تھے یہ کسی دہشت گردی کے واقعے میں تو ملوث نہیں ہو گیا ۔

میرا خیال ہے آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے وہ بہت شریف لڑکا ہے، میں نے اپنے بیٹے کا دفاع کرتے ہوئے پولیس سے کہا۔

ابھی تھانے چلیے گا آپ ہمارے ساتھ، آپ کے شریف بیٹے کے کارنامے آپ کے سامنے آجائیں گے۔۔۔ پولیس آفیسر نے کہا۔

گھر کے تمام افراد جاگ چکے تھے، شاہ رخ بھی میرے پیچھے موجود تھا کہ انسپکٹر نے کہا اس کو موبائل میں ڈالو پھر میری نظروں کے سامنے ہی انہوں نے شاہ رخ کو گھسیٹتے ہوئے موبائل وین میں ڈالا اور مجھے بھی ساتھ چلنے کو کہا ۔

شاہ رخ کو لاک اپ میں بند کرکے مجھے بتایا گیا کہ آپ کا بر خوردار اپنی فرسٹ ائیر کی اسٹوڈینٹ کے ساتھ تسلسل سے ریپ کرتا رہا ہے اور اب وہ پریگنینٹ ہے ۔۔۔اور اس بچی کے والد نے آپ کے بیٹے کے خلاف ایف آئی آر کٹوائی ہے۔۔۔

خبر تھی یا کوئی دھماکہ میرے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا۔۔۔۔۔یا اللہ، خیر!

میں نے شاہ رخ سے لاک اپ میں جا کر پوچھا: کیا یہ لوگ سچ کہہ رہے ہیں؟

شاہ رخ کی جھکی نظروں میں اقرا ر موجود تھا ۔۔۔

شاہ رخ یہ تم نے کیا کیا ؟

میں بوجھل قدموں سے چلتاہوا واپس آیا اور تھانے میں موجود بینچ پر بیٹھ گیا ۔۔۔ جب تفصیلات سامنے آئیں تو وہ کچھ یوں تھیں شاہ رخ اس لڑکی کو پڑھایا کرتاتھا۔۔۔ فرسٹ ائیر کی لڑکی عموماً اتنی سمجھدار نہیں ہوتی وہ یہ خواہش رکھتی ہے جیسے سر سب لڑ کیوں سے بات کرتے ہیں مجھ سےبھی کیا کریں سر کا مجھ سے بھی ایک اچھا تعلق بن جائے۔۔۔ لڑکیوں کی اس کمزوری کو شاہ رخ جیسے نوجوان بہت اچھے طریقے سے جانتے ہیں۔۔۔۔

شاہ رخ نے اس لڑکی کو جان بوجھ کر اگنور کیا وہ فرسٹ ائیر کی بچی کیا سمجھ پاتی وہ تو اسے استاد ہی سمجھ رہی تھی ایک دفعہ اس سے بات کی تو وہ خوشی سے نہال ہو گئی اور اس کے بعد شاہ رخ نے اس سے کہا : مجھے تمہاری ایک بولڈ تصویر چاہیے۔۔۔ جب لڑکی نے منع کیا تو شاہ رخ نے کہا : بے بی! تم میرے ساتھ نہیں چل سکتیں ۔لڑکی نے اپنے تعلق کو قائم رکھنے کے لیے بھیج دی پھر یہ سلسلہ رکا نہیں روز بروز بڑھتا چلا گیا اورنتیجہ آج میرے سامنے موجود تھا۔

دوسرے دن شاہ رخ کی تصویر کے ساتھ یہ خبر میڈیا پر موجود تھی ۔۔۔ میرا اور گھر والوں کے لیے سراٹھا کر چلنا دوبھر ہو گیا تھا ۔جہاں جاتے پیچھے سے آواز آتی یہ شاہ رخ کے والد ہیں ۔۔۔۔بڑی بیٹی کا رشتہ اسی وجہ سے لڑکے والے ختم کر کے چلے گئے اور محلے کو چھوڑ کر کہیں دوسری جگہ بھی جاتے تو لوگ پہچان لیتے۔ میں کس کس کو صفائی پیش کرتا کہ میرا قصور نہیں، نہ ہی میرے دیگر بچوں کا قصور ہے۔ یہ صرف شاہ رخ کا قصور ہے ۔۔۔۔

لیکن کون سُنتا؟۔۔۔۔بابا جی بتائیے نا آپ میرا کیا قصور؟ یہ معاشرہ مجھے اور میرے خاندان کے باقی افراد کو سزا کیوں دے رہا ہے؟

بابا جی نے میری بات غور سے سُنی اور پھر مجھ پر فردِ جرم عائد کرتے ہوئے کہا :قصور تمہارا ہی ہے۔۔۔۔

میرا قصور؟

ہاں! تمہارا قصور۔

تم نے کبھی سوچا کب بچے نے بلوغت کی سرحد عبور کی۔۔۔ کب سوشیل میڈیا اور انٹرنیٹ نے اسے وقت سے پہلے کئی سنگِ میل عبور کرا دیے ۔۔۔میڈیا نے اس کے پوشیدہ احساسات کو کس حد تک بھڑکا دیا؟

نہیں تم نے کبھی نہیں سوچا۔

تم نے کبھی نہیں سوچا اب اس کی شادی کر دی جائے۔۔۔

تمہاری سوچ تو یہ تھی پہلے یہ گھر بنا لے گھر بناتے بناتے یہ چالیس سال کا ہو گیا اس کی جوانی قحبہ خانوں کی نذر ہو گئی۔۔۔

تم تو یہ کہتے تھے پہلے بڑے بھائی کی شادی ہو جائے۔۔۔ بڑے بیٹھے ہیں اور چھوٹے میاں کو اپنی شادی کی سوجھ رہی ہے ۔۔۔

تمہیں اپنے الفاظ یاد ہیں تم کہتے تھے نااوہو!!! ابھی بہنیں بیٹھی ہیں اور تمہیں اپنی شادی کی لگی ہو ئی ہے ۔۔۔

بینک ،بیلنس ، کوٹھی اور گاڑی کی ہوس میں تم نے بچوں سے ان کی جوانی کے ساتھ ان کی پاکیزگی بھی چھین لی اور مادہ پرست ہونے کے باوجود پوچھ رہے ہو میرا قصور کیا ہے؟

یہ شاہ رخ کوئی اور نہیں آپ کا اپنا بیٹا ہے جیسے زینب آپ کی بیٹی تھی۔ سوشیل میڈیا پر روایتی نوحہ مت پڑھیے بلکہ اپنے بچوں کو شاہ رخ بننے سے بچائیے۔۔۔۔اور شاہ رخ کے ہاتھوں کسی زینب کو بھی بچا لیجیے ۔۔۔۔ اس کا علاج یہ ہی ہے کہ جلد از جلد اپنے بچوں کی شادی کیجیے ۔۔۔۔بیٹیوں کی وجہ سے بیٹوں کو مت بٹھائیے۔۔۔۔

ورنہ کسی دن ایسی ہی کوئی خبر آپ کے گھر کی بھی میڈیا پر چل رہی ہو گی اور آپ بھی پوچھ رہے ہوں گے میرا قصور کیا ہے؟

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi