توہینِ رسالت کی باد


’’کسی مذہب کے پیروکاروں کے اعتقادات مجروح کرنے کے عمل کو آزادیِ اظہار کا نام نہیں دیا جا سکتا۔‘‘ یہ بیان کسی مسلم دانش ور کا نہیں بلکہ ایک کرسچن پیشوا کا ہے جو حالات کے تجزیے سے اُبھرا ہے۔آزادیِ اظہار کا نعرہ صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بے ادبی، توہین، گستاخی، اہانت، شرعی قوانین پر تنقید کے لیے مختص ہو کر رہ گیا ہے۔

☆آزادی اظہار کا سلوگن: آزادی انسان کا پیدائشی حق ہے۔ لیکن فطری تقاضا یہ ہے کہ آزادی قانون کی لگام سے مستحکم رہے۔ تخریب نہ بن جائے یا زندگی اجیرن نہ کر دے۔ اس لیے آزاد ملکوں میں امن و امان قانون کی بالادستی سے قائم ہوتا ہے۔ اظہارِ خیال کی چھوٹ اگر دی جانی چاہیے تو اس ضمن میں بھی قواعد کی رعایت بہر حال ضروری ہو گی۔ مثلاً سچ کہنا، سچ سُننا، سچ پر چلنا یہ فطری اُصول ہے۔ اگر اسی روش کو اپنا لیا جاتا تو دُنیا سیکڑوں اور ہزاروں مسائل سے بچ جاتی۔ فساد فی الارض پر روک لگتا۔ زمین امن و امان سے بھر جاتی؛ لیکن عصبیت و حسد کی آگ نے آزادیِ اظہار کے دل کش نعرے کو جھوٹ کے پُلندے میں جکڑ دیا۔


☆توہین رسالت کی مہم: صدیوں تک شکست سے دوچار ہونے کے بعد یہود و نصاریٰ نے جب یہ دیکھا کہ؛ ہم اسلام کے سیلِ رواں کو روک نہیں پا رہے، نبوی عظمت کا شہرہ بلند سے بلند تر ہو رہا ہے، نبوی اخلاق کے اثرات و ثمرات انسانیت کو دوام عطا کر رہے ہیں، من کی دُنیا میں اسلام کی حسین چاندنی پھیل رہی ہے، دل و جاں اسلامی نور میں نہا رہے ہیں، قافلہ در قافلہ، جوق در جوق اسلام کے دامن سے وابستگی بڑھ رہی ہے، علاقے کفر سے ٹوٹ کر اسلامی شوکت سے جُڑ رہے ہیں، ٹوٹے دل جُڑ رہے ہیں، غریب خوشی خوشی دامنِ اسلام میں آ رہے ہیں، تو انھوں نے یہ منصوبہ بنایا کہ اب شرعی قوانین پر تنقید کی جائے۔ سیرت کو نشانہ بنایا جائے۔شعائر اسلامی سے مخالفت کو ہوا دی جائے۔ اس کے لیے جھوٹ کا سہارا لیا گیا۔ اگر سچ کا سہارا لیا جاتا تو سازشوں کا محل زمیں بوس ہو جاتا، اسلام کی ضیا، بے نور وجود کو ایمان سے منور کر دیتی ؎

ترے دین پاک کی وہ ضیا کہ چمک اُٹھی رہِ اصطفا
جو نہ مانے آپ سقر گیا، کہیں نور ہے کہیں نار ہے

(اعلی حضرت)

☆ایک جائزہ: توہین رسالت کی سازش پُرانی ہے، اس میں تمام باطل قوتیں متحد ہیں، بعض ان کے آلۂ کار -مؤحد- بھی ایسے ہیں جن کے دامن عصمتِ انبیا میں جرأت سے آلودہ ہیں۔ اس بابت ایک تجزیہ نقل کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ توہین کی بادِ سموم کس قدر وسیع ہے:

[۱] 15؍اپریل 2005: ڈنمارک کی ملکہ مارگریٹ ii نے سرکاری طور پر شائع شدہ اپنی بائیو گرافی میں کہا کہ ’’آئیے اسلام کے خلاف ہم اپنی مخالفت کا کھل کر اظہار کریں۔‘‘

اسی دور میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کی منصوبہ بندی ہوئی۔

[۲] ڈینش مصنف کیری بلجن کی ایڈیٹر جیلنڈس پوسٹس فلیمنگ روز سے ملاقات، ایڈیٹر نے اسی ملعون مصنف کی کتاب کے لیے خاکے تیار کروائے۔اور اگست 2005میں ہی اس کے لیے اشتہار دیا گیا۔

[۳] 30؍ ستمبر 2005جمعہ: ڈنمارک کے اخبار جیلنڈس پوسٹس میں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم)کے تصویری خاکے، کے عنوان سے 12گستاخانہ خاکوں کی اشاعت۔

[ماہ نامہ لانبی بعدی لاہور، تحفظ ناموس رسالت نمبر،ص133 ]

اس کے فوری بعد مسلمان مضطرب و بے چین ہوئے۔ کوپن ہیگ میں 27مسلم تنظیموں کے قائدین نے یورپی کمیٹی براے حرمت رسول قائم کی۔ معافی کا مطالبہ کیا گیا۔ توہین کی مذمت کی گئی۔ 14؍ اکتوبر 2005جمعہ کو، کوپن ہیگ میں پانچ ہزار افراد نے مظاہرہ کیا۔

لیکن تشویش ناک بات یہ رہی کہ مسلم کہلانے والے ملکوں کے صہیونیت پرست اخبارات نے ان کی گستاخانہ فکر کو آگے بڑھایا۔ جیسا کہ مصر کے اخبار الفجر میں خاکوں کی اشاعت ہوئی۔ پھر توہین کی فکر آگے بڑھتی گئی۔ پورا یورپ، امریکہ اس میں شامل ہوئے۔ کئی میگزین نے خاکے شائع کیے۔ آزادی اظہار کے پردے میں اس امرِ خبیث کو سہارا دینے کی کوشش کی گئی۔اسے یورپ سے ایشیا پہنچایا گیا۔

خود ہندوستان میں کئی اخبارات نے اسی منفی فکر کی تائید کی۔ اسلام پر طنز و تشنیع کو شعار بنایا۔ اسلامی اصولوں کا مذاق اڑایا گیا۔ اپنے دامن کے دھبوں کو نظر انداز کر کے اسلامی حسن میں نقص نکالنے کی جرأت کی گئی۔ ان محرکات کے ذریعے کئی اہداف حاصل کیے گئے:

[۱] عصمتِ انبیا کے عقیدے پر ضربِ کاری لگائی گئی۔

[۲] پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلمانوں کے رشتہ و تعلق و محبت کی پیمائش کی گئی۔

[۳] اسلام مخالف تمام قوتوں کو پیغمبراسلام کی توہین کا راستہ دکھایا گیا۔

[۴] مسلمانوں کے زوال کی راہیں متعین کی گئیں۔

[۵] مسلم قوت و شوکت کی پیمائش کی گئی۔

ایسے حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے تقدس کی فضا ہم وار کی جائے۔ تحفظ کے تئیں احترام نبوی کے معاملات کو فروغ دیا جائے۔ میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم و درود و سلام کی محافل کو رواج دیا جائے۔ مسلمانوں کو جہاں عقیدۂ توحید کا درس دیا جائے؛ وہیں شانِ مصطفوی کے ایمان افروز اسباق بھی یاد کرائے جائیں۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ عظمتیں بیان کی جائیں جو شان و رفعت سے تعلق رکھتی ہیں؛ تا کہ کوئی مسلمان اپنے جیسا تصور نہ کر لے۔ محبوبِ رب العالمین کی عظمتوں کی باتیں کہی اور سُنی جائیں۔ محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کام کیے اور کرائے جائیں تا کہ ایمان و عقیدے کے گلشن میں تازگی پھیل جائے۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں امام احمد رضا قادری نے جو کتابیں لکھیں، کتاب و سنت کے احکام بیان کیے انھیں شائع کر کے گھر گھر پھیلایا جائے، اور ان کے اس پیغام کو گرہ میں باندھ لیا جائے تا کہ مغرب کے طلسم کی تہیں چاک ہوں ؎

کروں تیرے نام پہ جاں فدا، نہ بس ایک جاں دوجہاں فدا
دوجہاں سے بھی نہیں جی بھرا، کروں کیا کروروں جہاں نہیں

(اعلی حضرت)

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi