مسلمانوں کے لیے لمحۂ فکریہ


تحریر: محققِ اہلِ سنّت حضرت علامہ نسیم احمد صدیقی

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ

توہینِ رسالت کے مکروہ اور قبیح ترین جرم کی اپنی ایک تاریخ ہے جس کے سیاہ ابواب کا پہلا باب شیطان لعین نے حضرت آدم علیہ السلام کے لئے سجدہ تعظیمی کے حکم خداوندی کے موقع پر حکم عدولی سے رقم کیا۔ بلاتمہید و تمثیل راقم عرض کرتا ہے کہ یہ حقیقت ہے، حضرت آدم صفی اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وجود کی تخلیق کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے روح جسم آدم میں داخل ہوئی لیکن فوراً باہر آگئی اور عدم استقرار کی وجہ ظلمت و تاریکی بیان کی کہ مجھے اندھیرے سے وحشت ہوتی ہے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ عزوجل نے روح پر یہ کرم فرمایا کہ اپنے پیارے محبوب مصطفی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کے پہلے ہی سے تخلیق کردہ (یعنی عالم پست و بالا سے قبل) نورِ مقدس کو حضرت آدم علیہ السلام کی پیشانی مبارکہ میں رکھا، نتیجے میں پیکر آدم داخلی و خارجی دونوں اعتبار سے روشن و منور ہوگیا، حکم ربی سے روح اندر داخل ہوئی اور قلب آدم کو اپنا مستقر بنایا۔ رب ذوالجلال نے اپنے محبوبِ مکرم ﷺکے نور مقدس کو حقیقتاً اور حضرت آدم علیہ السلام کو مجازاً تعظیما سجدہ کرانے کے لئے ملائکہ اور جنات کو حکم دیا۔ (۱)سب ہی نے تعمیل کی، لیکن عزازیل جسے اپنی ذات پر ناز تھا اس نے تکبر اور عناد کے باعث سجدہ نہیں کیا۔ بارگاہِ شاہِ کونینﷺمیں سب سے پہلی اہانت کی فرد جرم اللہ تعالیٰ نے ابلیس پر عائد کی اور مرحلہ اول میں اس پر سجی ہوئی دستارِ فضیلت کی جگہ طوق لعنت ڈال کر سزا بھی سنا دی۔ مرحلہ دوم میں اس کی انتہائی خوفناک سزا روز محشر سنائی جائے گی(۲)۔ ازاں بعد مختلف ادوار گذرتے گذرتے توہینِ رسالت کے متعدد مقدمات سامنے آئے، توہین کرنے والے مجرموں کو یہ دھرتی زیادہ عرصہ اپنی چھاتی پر شاد رہنے کا موقع نہیں دیتی۔ جو اپنے قلم و زبان کو آزادانہ استعمال کر کے محبوب خدا اور ان کے غلاموں کی اذیت کا باعث بنتے ہیں پھر ان کی آزادی سلب ہو جاتی ہے وہ پھر آزادانہ گھومتے پھرتے نہیں۔

عیسائیوں سے توہینِ رسالت کا صدور:

گیارہویں ، بارہویں اور تیرہویں صدی عیسوی کے دوران مسلمانوں اور مسیحی یورپ کے درمیان صلیبی جنگوں نے کلیسا کے کار پردازوں کے دلوں میں اسلام اور شارع اسلام ﷺکے خلاف نفرت کے جذبات کو مزید بھڑکا دیا تھا اس دور میں عیسائی پادریوں کی طرف سے اسلام کے خلاف تحریر کی جانے والی کتابوںمیں سرورِ کائنات ، محسنِ انسانیتﷺ کے خلاف بے حد اہانت آمیز اور گھٹیا الزام تراشی پر مبنی تحریریں ملتی ہیں۔ جب دنیا پر عیسائیوں کا تسلط تھا تو اس وقت انہوں نے نبی کریم ﷺکے اسم مبارک کو بری طرح مسخ کر دیا ۔ مثلاً انگریزی زبان میں ’’محمد ‘‘ﷺکو بگاڑ کر Mohometبنادیا۔ اس سے بھی بڑھ کر ان خبیثوں نے Muhammaed تلفظ بھی کیا اور Mahound بھی تلفظ کیا۔ ماہائونڈ مشتق ہے Me-Houndسے ۔ ہائونڈ کے معنیٰ ہیں شکاری کتا اور می کے معنیٰ ہیں میرا۔ فخر موجودات ﷺکی شان میں عیسائی یہ گستاخی صدیوں سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ "Mahound"کا لفظ اب بھی انگریزی زبان کی بڑی بڑی لغات میں موجود ہے ۔

مسلم اسپین کی تاریخ میں ایک جنونی پادری نے مسیحی نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں پر مشتمل ایک گروہ تشکیل دیا تھا جنہیں تربیت دی جاتی تھی کہ وہ نماز جمعہ کے فوراً بعد قرطبہ کی جامع مسجد کے بیرونی دروازے پر کھڑے ہو کر جناب رسالت مآب ﷺکی شان میں گستاخانہ کلمات (معاذ اللہ) کہیں ایسے مسیحی گستاخانِ رسول کو جنت کی بشارت دی جاتی تھی، مسلمان شاتمان ِ رسول کو پکڑ کر قرطبہ کے قاضی کے حوالے کر دیتے ۔ قاضی کے سامنے جرم کا اعتراف کرنے والوں کو موت کی سزا دی جاتی تھی۔ یہ سلسلہ اس وقت ختم ہوا جب اس بڈھے جنونی پادری کو سزائے موت ہوئی۔ مشہور یورپی مورخین سٹینلے لین پول ، ڈوزی، واشنگٹن ارونگ اور پی ۔کے ۔ہٹی نے اس گروہ کو جنونی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔

پروفیسر فلپ ۔ کے۔ ہٹی(Philip K. Hitti)دورِ حاضر میں عربی زبان اور تاریخ کے ماہر سمجھے جاتے ہیں ۔ وہ پرنسٹن یونیورسٹی میں اسلامی ادب کے پروفیسر رہے ہیں ۔ ۱۹۶۲ء میں ’’اسلام اور مغرب‘‘ کے عنوان سے امریکہ میں ان کی ایک کتاب شائع ہوئی ۔ اس کتاب کا چوتھا باب ’’اسلام مغربی لٹریچر میں‘‘ کے نام سے ہے جس میں انہوں نے اسلام ، اسلامی تاریخ اور اسلامی شخصیات کے بارے میں ۲۹ اقتباسات نقل کیے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں ’’قرونِ اولیٰ و وسطیٰ کے مغربی لٹریچر میں پیغمبرِ اسلام ﷺ کو عام طورپر (نعوذباللہ،عیاذاًباللہ) جعل ساز (Imposter) جھوٹے رسول کی حیثیت سے متعارف کرایا جاتا تھا۔ اسی طرح ان کے نزدیک (نعوذباللہ ) قرآن ایک بناوٹی کتاب اور اسلام ایک نفس پرستانہ طریق حیات ہے۔

فلپ۔ کے۔ ہٹی نے شام کے مشہور عیسائی عالم سینٹ آف دمشق (۷۴۹ئ) کا ذکر کیا ہے جو بازنطینی روایات کا بانی تھا۔ اس نے اپنی کتاب میں اسلام کا تعارف ایک بُت پرستانہ مذہب کی حیثیت سے کیا ہے ، جس میں (نعوذباللہ)ایک خود ساختہ رسول کی پرستش ہوتی ہے۔ اٹلی کے مشہور شاعر دانتے (۱۳۲۱ء)نے ’’ڈیوائن کامیڈی‘‘ میں(نعوذباللہ) حضرت محمدﷺاور حضرت علی رضی اللہ عنہٗ کا ذکر بے حد اہانت آمیز طریقے سے کیا ہے۔ بازنطینیوں میں پہلا شخص جس نے حضرت محمد ﷺکا باقاعدہ ذکر کیا اور اسلام پر گفتگو کی وہ مورخ تھوفین (Theo-Phane)تھا ، جس کی موت۸۱۸ء میں ہوئی۔ وہ بغیرکسی حوالے کے حضرت محمد ﷺکو (نعوذباللہ) مشرقی باشندوں کا حکمران اور خود ساختہ رسول لکھتا تھا۔ قرطبہ کا ایک بشپ یولوگیس (Eulogius)جو اپنے وقت کا بہت بڑا عالم تھا ، وہ حضور اکرمﷺ کے بارے میں اپنے بغض کا اظہار بے حد توہین آمیز طریقے سے کرتا تھا۔ عیسائی عالموں نے ایک مضحکہ خیز کہانی ایجاد کی کہ اسلام کے بانیﷺ نے ایک سفید کبوتر کو تربیت دے رکھی تھی تاکہ وہ ان کے کندھے پر بیٹھا رہے اور کان کے اندر پڑے دانے کو چگنے کیلئے کان میں چونچ مارتا رہے۔ اس سے وہ عیسائیوں کو یقین دلانا چاہتے تھے کہ کبوتر کے ذریعہ روح القدس ان کو الہام کر رہا ہے۔ یہ بے ہودہ افسانہ اس قدر مشہور ہوا کہ وہ انگریزی ادب میں شامل ہوگیا۔ چنانچہ شیکسپئیر نے اپنے ایک کردار کے ذریعے اس کہانی کو دہرایا ہے۔ ایلزبتھ دور (اول) کا ایک نامور مصنف فانسس بیکن اپنے مضامین میں پیغمبر اسلامﷺ کو سخت تضحیک اور استہزاء کا نشانہ بناتا تھا۔ ۱۶۷۹ء میں ایک انگلش پادری لانس لاٹ ایڈیسن نے ایک کتاب لکھی جس کا مقصد صرف یہ ثابت کرنا تھا کہ اسلام ایک مکارانہ مذہب کا معیاری نمونہ ہے۔

فرانس کا مشہور ادیب والٹیر اپنی تمام تر روشن خیالی کے باوجود ۱۷۴۲ء میں شائع ہونے والی ’’ٹریجڈی‘‘ میں رسول عربیﷺ کا ذکر بے حد قابل اعتراض پیرائے میں کرتا ہے۔ انیسویں صدی کے معروف مستشرق ولیم میور نے حضور اکرم ﷺکی حیات پر ’’لائف آف محمدﷺ‘‘ کے نام سے لکھی جانے والی کتاب میں آپ ﷺکی شان میں دریدہ دہنی اور گستاخیاں کی ہیں ۔ ملکہ وکٹوریہ کے دور میں بر صغیر پاک و ہند میں آنے والے عیسائی مشنری اسلام اور بانی اسلام ﷺکے خلاف نازیبا حملے کیا کرتے تھے(ماخوذ ماہنامہ مسیحائی ناموسِ رسالت نمبر)

گستاخی اور اہانت کی مستقل عالمی مہم کیوں ہے؟

جب جغرافیائے عالم کے بعض خطوں کے ممالک یا اقوام نے دنیا کی تسخیر کے لیے علوم و فنون اور تمدن و ہنر کے حصول کے لیے ترقی کی شاہراہوں پر آغاز سفر کیا ۔ وسعت مملکت کا مفاد اور متاع دنیا کے لالچ نے اقوام یورپ کو بھی شاہراہ ترقی پر عازم سفر کر دیا۔ اقوام یورپ کی ثقافتی و تمدنی حالت سمجھنے کے لیے ابن بطوطہ سمیت دیگر سیاحوں کا یہ قول کافی ہے کہ " یورپ پر اندھیروں کا راج ہوتا ہے ، یورپ کے شہر کیچڑ میں ڈوبے ہوئے ہیں" ۔ جبکہ اسلامی دنیا کی تہذیب و ثقافت اور معیشت و سیاست کے علاوہ عمرانی اور تمدنی علوم کے آگے دیگر تہذیبیں خود کو گم اور مدغم کر رہی تھیں اور دین اسلام فاتح کی حیثیت میں بھی انتشار و خلفشار کے بجائے دنیا میں امن و سلامتی کا عملی ماحول قائم کر رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک کی حاکمیت اعلیٰ کے اقتدار کو نافذ کر رہا تھا۔ مسیحی اقوام نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی بناء پر اسلام کو للکارا جس کے نتیجے میں مسیحی اقوام کو صلیبی جنگوں میں مسلمانوں کے ہاتھوں ایسے کاری زخم لگے جنہیں یہ نصرانی آج بھی چاٹ رہے ہیں۔ دنیا کی تمام اقوام (یہودی، نصرانی، مجوسی، ہنود وغیرہ ) مسلمانوں کے ہاتھوں شکست خوردہ اور زخم خوردہ رہی ہیں۔ مسیحی اقوام نے اپنے کینے کے باعث اپنے زخموں کو مندمل نہیں ہونے دیا بلکہ اپنے زخموں کو ناسور بنا لیا۔ ایسے ہی یہودی بھی ماضی میں مسلمانوں کے ہاتھوں (مدینہ منورہ سے جلا وطنی سے لے کر خیبر میں شکست فاش تک) لگے ہوئے زخموں کو چاٹ رہے ہیں۔ یہود و نصاریٰ کی کینہ پروری اور کمینگی نے یہ طے کر لیا ہے کہ مسلمانوں سے براہ راست میدان جنگ میں مقابلہ کرنا ممکن نہیں۔ سلطان صلاح الدین ایوبی علیہ الرحمہ کے ہاتھوں ان کی پیشانی شکست سے آلودہ ہو چکی ہے ۔ یہ مزید اپنے سینوں پر رسوائی کے تمغے سجانا نہیں چاہتے۔ اسی لیے یہود و نصاریٰ نے مسلمانوں کے مزاج اور نفسیات کا گہرا مطالعہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ ہماری طاقت مسلمانوں کا شیرازہ منتشر نہیں کر سکتی۔ چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کی اصل قوت و توانائی " عشق رسول ﷺ" کو کمزور کرنے کے لیے سازشیں کیں اور ان سازشوں کا مرکزی نکتہ و خیال یہی تھا کہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے مسلمانوں کی صفوں میں " دوسرا نبی" کھڑا کرو اور یہ ثابت کرو کہ رسول اللہ ﷺکے مثل کئی ہو سکتے ہیں ۔ پھر عملاً ان کی مثل لانے کے لیے ان کی زندگی پر مبنی فلم بناوپھر ان کی تصویر ویب سائٹ پر جاری کرو ۔ پھر (نعوذ باللہ) ان کے مضحکہ خیز کارٹون بناو۔

سابق امریکی صدر بل کلنٹن کا اعتراف ہے کہ ’’امریکہ میں دینِ اسلام سب سے تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ ‘‘مائیکل ۔ ایچ ۔ ہارٹ کی کتاب جس کا اقتباس نیچے مندرج ہے ، کی اشاعت کے بعد عالم اسلام کو جو فخر حاصل ہوا اس سے دنیائے عیسائیت بہت مضطرب نظر آتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی دل آزاری کا ہر ممکن سامان مغرب کے ادیبوں اور صحافیوں کے پاس موجود ہے ۔

امریکی مصنف مائیکل۔ ایچ۔ ہارٹMICHAEL H. HART اپنی کتاب دی ہنڈریڈ، اے رینکنگ آف دی موسٹ انفلینشل پرسنز ان ہسٹری

The Hundred (100) A ranking of the most influential persons in History

"My choice of Muhammad to lead the list of the world's most influential persons may surprise same readers and may be questioned by others, but he was the only man in hisotry who was supremely successful on both the religious and secular levels. (Page 33, Newyork 1989)

بیسویں صدی کے وسط میں پروفیسر فلپ۔کے۔ ہٹی نے بھی دنیائے عیسائیت کے خوف میں مبتلا ہونے کا تذکرہ کیا ہے کہ اسلام دنیا پر نہ چھا جائے۔

’’زر تشت ، بدھ ازم اور کم ترقی یافتہ مذاہب کی کبھی اس طرح سے نفرت اور تحقیر نہیں کی گئی جیسا کہ اسلام کے ساتھ پیش آیا ۔ بنیادی طور پر اس کی وجہ خوف، دشمنی اور تعصب تھا جس نے اسلام کے بارے میں مغرب کے نکتۂ نظر کو متاثر کیا ۔‘‘

گستاخ کو کون معاف کرے؟

قارئین محترم! ابلاغیات (Media)کے ذرائع مختلف عالمی سطح کے مذہبی، سیاسی اور سماجی راہنمائوں کے تبصرے نشر و شائع کر رہے ہیں، ان عالمی راہنمائوں میں سے چند دانشوروں اور مدبروں نے عالم اسلام سے یہ سفارش کی ہے کہ گستاخ کارٹونسٹ و مدیران جرائد کی معذرت کے بعد ان بدترین مجرموں کو معاف کر دیا جائے۔ ایک تعجب انگیز امر یہ ہے کہ اسلامی کانفرنس تنظیم (O.I.C) کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر اکمل الدین احسان اوغلو نے کہا ہے کہ "توہین آمیز خاکے بنانے والے کارٹونسٹ کے خلاف بعض علماء کی طرف سے قتل کا فتوی درست نہیں" (روزنامہ جنگ کراچی، ۲۲ فروری ۲۰۰۶ء (فرنٹ پیج) صفحہ اول جلی سرخی کے تحت) اس کا مطلب ہے کہ وہ بھی ان بدترین مجرموں کو معاف کرنے کا اپنا ذاتی عندیہ دے چکے ہیں۔ اس کے برعکس دوسرا تعجب خیز بیان سابق امریکی صدر بل کلنٹن کا ہے جو ۱۷ فروری ۲۰۰۶ء کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں یہ کہہ چکے ہیں، " میں توہین آمیز خاکوں کی اشاعت سے اختلاف رکھتا ہوں، یہ مذہبی اور اخلاقی اقدار کے خلاف ہیں، پرامن احتجاج مسلمانوں کا حق ہے اور انھیں پرامن احتجاج پر کوئی اعتراض نہیں ہے تاہم یہ تشدد اور توڑ پھوڑ کا وقت نہیں ہے بلکہ یہ دنیا میں بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے اور اس مسئلہ پر اکھٹے کھڑے ہونے کا وقت ہے، مذہبی عقائد کا ہر قیمت پر احترام کیا جانا چاہئے اور کسی بھی میڈیا کو لوگوں کے مذہبی جذبات سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ امریکا میں لوگوں نے ان خاکوں کی اشاعت کی مذمت کی ہے اور انہیں اس پر گہری تشویش ہے وہ لوگ اسلام کی عزت کرتے ہیں، امریکا میں "اسلام" تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے۔ جن ممالک میں ان خاکوں کو شائع کیا گیا ہے ان ممالک ہی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان خاکوں کو شائع کرنے والوں کو سزا دیں" (نمائندہ جنگ، اے پی پی۔ روزنامہ "جنگ "کراچی ہفتہ ۱۸، فروری ۲۰۰۶ء، زیر لوح، جلی سرخی)

بعض عالمی مبصرین کا معافی کے لئے سفارش کرنے کا عمل بھی ناقابل معافی ہے۔ اس ضمن میں راقم اپنے قارئین کی توجہ کے لئے فقہاء ملت کے مرتب کردہ اصول کی روشنی میں یہ پیراگراف سپرد قلم کر رہا ہے۔ فرض کریں کہ ناموس رسالت مآب ﷺکی پاسبانی کے قوانین و ضابطوں اور اخلاقی و حقوق انسانی کی ا علی ترین قدروں کے تسلیم کر لیئے جانے کے بعد، اور فرض کریں کہ ا س کے تحت توہین رسالت کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف عدالتی کاروائی جب اس موڑ پر آجائے کہ مرتکبین جرم کے اعتراف کے بعد معذرت کے خوستگار ہوں، تو اسلامی عدالت کیا کرے؟

وفاقی شرعی عدالت اسلام آباد کے جسٹس ڈاکٹر فدا محمد خان لکھتے ہیں، " حضور اکرم ﷺرحمۃ للعالمین ہیں اور امت پر آپ کی شفقت و رحمت بے مثال رہی ہے، اس لئے آپ ا کو اختیار حاصل تھا کہ اپنے دور میں، جو اسلام کے آغاز اور ارتقاء کا دور تھا، اس سلسلے میں سختی و نرمی اور عفو و درگذر کی ایسی مثالیں قائم فرمائیں جو اس وقت کے حالات سے مناسبت رکھتی ہوں لیکن امت مسلمہ کے کسی فرد کا یہ حق کبھی تسلیم نہیں کیا گیا کہ وہ اس ضمن میں خود اس قسم کی حرکتوں پر معافی نامہ جاری کرسکے۔ امت کا مفاد بھی اس کا متقاضی ہے کہ اس عظیم ترین مرکزی شخصیت ﷺ کے حقوق اور مفادات کا دفاع کرے تاکہ معاشرہ میں امن و امان برقرار رہے اور افراد کی اصلاح کے لئے بھی ضروری ہے کہ اس مثالی شخصیت ﷺکے ساتھ عقیت و محبت میں ذرہ بھر بھی کمی نہ ہو۔ عشق رسول ﷺ لازمہ ایمان ہے اور ہر مسلمان کے رگ و پے میں خون کی طرح جاری و ساری ہے حقیقی مسلمان کبھی بھی یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ کوئی دریدہ دہن شان رسالت مآب ﷺ میں کسی گستاخی کا بھی مرتکب ہو۔ تاریخ شاہد ہے کہ ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان نے بھی اپنے خونی رشتہ داروں کے ضمن میں چشم پوشی یا عفو و درگزر سے تو کام لیا ہوگا، مگر ختم المرتبت، رسالت ماب ﷺکی شان اقدس میں کبھی بھی رو رعایت کا روادار نہیں"۔ (ناموس رسول اور قانون توہین رسالت، مطبوعہ لاہور، صفحہ ۲۰)

غزالی زماں حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی نور اللہ مرقدہ اپنی تحریر میں بعض منافقین کی گستاخی و دریدہ دھنی پر آقائے کائنات ﷺ کا حداً قتل کی سزا نہ دینے کو اختیارات مصطفی سے تعبیر کرتے ہیں اور یہ علماء و فقہاء کے نزدیک مسلمہ عقیدہ ہے کہ حضور سید عالم ﷺ "مختار کل" ہیں۔ قبلہ کاظمی صاحب لکھتے ہیں،

"یہاں اس شبہ کو دور کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر توہین رسول کی سزا حداً قتل کرنا ہے تو کئی منافقین نے حضورﷺ کی صریح توہین کی، بعض اوقات صحابہ کرام نے عرض کی کہ حضور! ہمیں اجازت دیں کہ ہم اس گستاخ منافق کو قتل کر دیں، لیکن حضور ﷺ نے اجازت نہیں دی" ۔

علامہ کاظمی علیہ الرحمۃ نے اجازت نہ دینے کی متعدد وجوہات لکھنے کے بعد "گستاخ کی سزا قتل ہے"کے عنوان سے دلیل دیتے ہوئے لکھا ہے،

"منافقین کے ارتکاب توہین کے موقع پر صحابہ کرام کا حضورسے ان کے قتل کی اجازت طلب کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ کرام جانتے تھے کہ گستاخ رسول کی سزا قتل ہے۔ گستاخان شان رسالت ابو رافع یہودی اور کعب بن اشرف کو قتل کرنے کا حکم رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو دیا تھا اس حکم کی بنا پر صحابہ کرام کو علم تھا کہ حضور ﷺ کی شان میں توہین کرنے والا قتل کا مستحق ہے۔ رسول اللہ ﷺکے لئے جائز تھا کہ وہ اپنے گستاخ اور موذی کو اپنی حیات میں معاف فرما دیں، لیکن امت کے لئے جائز نہیں کہ وہ حضور کے گستاخ کو معاف کر دے۔ (گستاخ رسول کی سزا قتل، ناشر مرکزی مجلس رضا لاہور، صفحہ ۲۶،۲۷)

گستاخ رسول کو اللہ تعالیٰ بھی معاف نہیں فرماتا:۔

حضور سید المرسلین، محبوب رب العالمین ﷺ خالق کائنات جل شانہ کے ایسے محبوب ہیں کہ ان ہی کی خاطر زمین و آسمان اور کل کائنات کو نہ صرف تخلیق فرمایا بلکہ بنانے والے نے یہ اعلان بھی فرمایا، "کہ میری الوہیت، ربوبیت و خلاقیت کا اظہار محض اس لئے ہے کہ محبوب محمدرسول اللہ ﷺ کی تخلیق مقصود ہے"۔ (حدیث قدسی) حدیث قدسی کا مفہوم یہ ہے کہ اظہار ربوبیت اس لئے ہوا کہ تخلیق محمدی کا ارادہ ہوا، لہٰذا ربوبیت والوہیت کا اظہار بھی جلوہ محمدی ہی کے لئے ہوا، اور ازاں بعد تخلیق کائنات و موجودات پر اللہ تعالیٰ کی شان خلاقیت و ربوبیت کی صفات کو محبوب معظم ﷺ نے آشکارا فرمایا۔ موجودات و مخلوقات نے آپ ﷺ کے وجود مبارک کو اپنے درمیان پاکر آپ کے ذریعے سے خالق کا پتہ حاصل کیا۔ خلاصہ کلام یہ فارمولا ہے۔

(خالق کائنات) اللہ تعالیٰ کی التفات و مرکز توجہ محمد مصطفی ﷺمحمد مصطفی ﷺ کی شان عبدیت اللہ تعالیٰ جل شانہ کے لئے

جملہ مخلوق و موجودات کے لئے مرکز نگاہ آقائے کائنات حضور رحمۃ اللعالمینﷺ

یہ مخلوق اپنے وجود کے لئے محبوب خدا ﷺ کی مرہون منت ہے اس لئے قول و عمل اور اشارہ و کنایہ یعنی رائے کے اظہار کے ہر اعتبار سے مخلوق کو مدح و ثنا کا خوگر (یعنی عادی) ہونا چاہئے۔ تو اس عمل پر اللہ تعالیٰ راضی و خوش ہوتا ہے۔ جب کہ اس کے محبوب کے لئے جو موذی ثابت ہو، اس پر رب مصطفی، ذوالجلال اور منتقم (یعنی انتقام لینے والا) ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں کبھی (اسباب عادیہ کے بغیر) خود ہی اپنے محبوب کے گستاخ کو دھرتی کا بوجھ نہیں بننے دیتا اور کبھی (اسباب عادیہ کے ساتھ) اپنا قانون اپنے محبوبﷺ کے غلاموں میں جاری فرما کر ملت اسلامیہ کے ایمان (یعنی عشق رسولﷺ) کا امتحان لیتا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔

(آیت۱) اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَاَعَدَّ لَھُمْ عَذَاباً مُّھِیْناً (پارہ ۲۲، سورۃ الاحزاب آیت ۵۷) (ترجمہ) بے شک جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کو ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ نے ان کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ (کنزالایمان)

(آیت ۲) لَئِنْ لَّمْ یَنْتَہِ الْمُنَافِقُوْنَ وَالَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ وَّالْمُرْجِفُوْنَ فِی الْمَدِیْنَۃِ لَنُغْرِیَنَّکَ بِھِمْ ثُمَّ لاَیُجَاوِرُوْنَکَ فِیْھَا اِلاَّ قَلِیْلاً مَّلْعُوْنِیْنَ اَیْنَمَا ثُقِفُوْا اُخِذُوْا وَ قُتِّلُوْا تَقْتِیْلاًo ) پارہ ۲۲، سورۃ الاحزاب، آیات ۶۰،۶۱) (ترجمہ) اگر باز نہ آئے منافق اور جن کے دلوں میں روگ ہے اور مدینہ میں جھوٹ اڑانے والے (یعنی افواہ) تو ضرور ہم تمہیں ان پر شہ (زور) دیں گے پھر وہ مدینہ میں تمہارے پاس نہ رہیں گے مگر تھوڑے دن پھٹکارے ہوئے، جہاں کہیں ملیں پکڑے جائیں اور گن گن (یعنی چن چن) کر قتل کئے جائیں۔ (کنزالایمان)

یہ آیت مقدسہ شاتم رسول کو قتل کرنے پر قوی دلیل فراہم کرتی ہے۔

کلمات آخر :

وقت جہاد آگیا :

خاکے بنانے اور چھاپنے والوں کو او۔ آئی ۔سی کے حوالے کرو

قارئین محترم ! اقوام یورپ تو اس قطعے پر عمل کر رہے ہیں :

 

ہر سفید و سیاہ کر ڈالو      انتقاماً گناہ کر ڈالو

امن اپنا مقدر نہیں تو        امن عالم تباہ کر ڈالو

دلی کیفیات تو بیان نہیں کی جا سکتیں، ہمارے آقا و مولیٰ سرور کائنات، فخر موجودات علیہ الصلوٰۃ و التسلیمات کی بارگاہ میں صریحاً اور مکرراً گستاخیاں بس یہی وقت جہاد ہے۔ ناموس رسالت ﷺ پر حملہ، ایمان پر حملہ ہے اور شرعاً ایمان بچانے کے لیے جہاد کرنا ہوگا۔ میدان کارزار میں مسلم امہ کی صفوں کو سجانا ہوگا۔ عالمی امن کو بچانا ہوگا یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب اقوام مغرب و یورپ کو سبق سکھایا جائے اور اس کاز کے لیے عالم اسلام کے راہنمائوں کو الٹی مٹیم دینا ہوگا، ملعون کارٹونسٹوں اور ایڈیٹروں کو اسلامی کانفرنس تنظیم کے حوالے کیا جائے بعض مسلم رہنمائوں کا مؤقف ہے کہ " دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ سوچ سمجھ کر قدم اٹھایا جائے، تمام عالم اسلام کو جنگ کی بھٹی میں جھونک دینا ناقابل فہم اور حکمت عملی کے خلاف ہے، فقیر عرض کرتا ہے کہ اگر جذباتی اقدام حکمت عملی کے خلاف ہے تو طویل المیعاد حکمت عملی سے ان شاتموں اور مجرموں کو اپنی مقررہ زندگی پوری کرنے کا موقع ملے گا جو مسلم امہ کے لیے تازیانہ اور ڈوب مرنے کا مقام ہوگا کہ گستاخ رسول زندہ رہے۔

غلامان رسول ، امام حسین کے نقش قدم پر چلیں :

امام عالی مقام، جگر گوشۂ بتول، سیدنا امام حسین ﷜ کو بھی سمجھانے والوں نے سمجھایا تھا لیکن سنت رسول ﷺکی توہین کرنے والے گستاخ یزید کے خلاف امام حسین نے پرچم حق بلند کیا۔ آج کے دانشور سمجھا رہے ہیں کہ یورپ کی طاقت اور اپنی قوت کا موازنہ کرو، ان کے وسائل اور ٹیکنالوجی کو دیکھو۔ فقیر ایسے دانشوروں سے پوچھنا چاہتا ہے کہ امام حسین ﷜ یزید کے خلاف صف آرا ہوئے تو آپ نے یزید کی افواج اور وسائل کو کس پیمانے پر تولا ہوگا ؟

اے مسلمانو اپنا اپنا کام کر گذرو:

اگر بعض غلامان مصطفی ﷺ جو کمانڈو ایکشن لے سکتے ہیں وہ ضرور خاکے بنانے اور چھاپنے والوں کو جہنم رسید کریں۔ اسلامی کانفرنس تنظیم مجرموں کو طلب کرنے کا مطالبہ کرے۔ کیا دنیا نے نہیں دیکھا؟ جب امریکہ کو یوسف رمزی اور عامل کانسی مطلوب تھے تو اسپیشل طیارہ چارٹرڈ کر کے پاکستان میں غیر قانونی طور پر داخل ہو کر ہمارے شہریوں کو گرفتار کر کے لے گئے۔ افغانستان سے مجاہدین کو گرفتار کر کے گوانتاموبے میں قید کر دیا۔ عراق کے صدر صدام حسین کو تکریت سے گرفتار کیااور پھانسی دی۔ لہٰذا عالم اسلام کے مجرموں کو ملت اسلامیہ کے حوالے کیا جائے اس لیے کہ سزا دینے کا حق مسلمان ہی کو حاصل ہے ۔

مسلمان تاجروں کو چاہیے کہ یورپی یونین کے ممالک سے تجارت نہ کریں، اقتصادی بائیکاٹ کریں، مسلمان صارفین کو چاہیے کہ ان کی مصنوعات کا استعمال بند کر دیں۔ مسلم حکومتیں سفارتی تعلقات ختم کریں۔

عالم اسلام گستاخوں کا منہ کیسے بند کریں ؟

یہی اہم ترین اور قابل غور ایشو ہے کہ کوئی بھی گستاخ جو منہ پھاڑے بکواس کرتا ہے یا اپنے سیاہ قلم سے اپنے نامہ ٔ اعمال کو مزید سیاہ کرتا ہے۔ اسے یہ سب کچھ کرنے کی توانائی کہاں سے حاصل ہو رہی ہے ؟ غور کیجئے! اگر گستاخ کا سوشل بائیکاٹ کر دیا جائے تو " معاشی مقاطعہ" کے نتیجے میں گستاخ توبہ کرنے پر مجبور ہو سکتا ہے اور اگر ایک گستاخ نہ ہو بلکہ کوئی مملکت یا قوم (یعنی ڈنمارک، ہالینڈ اور ان کے حمایتی وغیرہ) تو ، عالم اسلام کو چاہیے کہ متذکرہ ممالک کی مصنوعات کے استعمال پر پابندی لگائی جائے۔ نہ تجارت ہو، نہ مصنوعات خریدی جائیں، یعنی مکمل اقتصادی بائیکاٹ ۔ تو یقینا ۔۔۔

گستاخوں کا منہ بند ہو جائے گا۔۔۔

گستاخوں کا قلم ٹوٹ جائے گا۔۔۔

گستاخوں کی برتری کا سحر ختم ہو جائے گا۔۔۔

قارئین محترم! گستاخوں کے جغرافیائی خطوں میں بننے والی مصنوعات کا استعمال اگر ہم نہ کریں تو کیا ہم زندہ نہیں رہیں گے ؟ اگر ہم " بوک" پنیر کا استعمال بند کر دیں تو کیا ہم مر جائیں گے؟ اگر ہم " نور پاک" مکھن کا استعمال بند کر دیں تو کیا ہم مر جائیں گے؟

قارئین کرام! درج ذیل ڈنیش مصنوعات کا بائیکاٹ کر کے اپنی ایمانی غیرت کا ثبوت دیجئے۔

Danish Product List :

Aria Product Major Danish Company

Milk Products Cravendale Lactofree

Flavored Milk Break Time

Dairy Cream

Butters

Yorkshire Butter Anchor Lurpak

Yoghurt

Bob The Builder Postman Pat

Scooby Doo

Cheese

Rosenbor

Anchor Cheese Discover

Apetina Castello

Country Life Butter 250 g

Country Life Spreadable Butter 250g

Express Double Cream 142ml

Express Double Cream 284 ml

Express Single Cream 284 ml

Express Whipping Cream 284 ml

Stripes Flavoured Milk . Banana 500 ml

Stripes Flavoured Milk . Chocolate 500 ml

Stripes flavoured Milk Strawberry 500 ml

Ubley Fruit Yogurt 4 Pack

Yakult 7 Pack

Break Time Milkshake 500 ml

YORKSHIRE BUTTER

Bob the Builder fromage frais

Scooby Doo Yogurt

Post Man Pat Yogurt & fromage frais

Mineral Water

Abbey Well Sparkling Fruits . Black Cherry 1 L

Abbey Well Sparkling Fruits . Mandarin 1 L

Abbey Well Sparkling Fruits . Peach 1 L

Abbey Well Sparkling Fruits . Pear 1 L

Abbey Well Sparkling Fruits . Strawberry 1 L

Abbey Well Sparkling Fruits . Citrus 1 L

Abbey Well Sparkling Fruits . Forest Fruits 1 L

Abbey Well Sparkling Fruits . Peach and Apricot 1 L

Highland Spring Sparkling Mineral Water 1.5 L

Highland Spring Still Mineral Water 1.5 L

Highland Spring Still Mineral Water . 6 Pack 1.5 L

Highland Spring Still Mineral Water 6 Pack 500 ml

Fruit Juices

Express Bottled Orange Juice 1 Paint

Express UHT Apple Juice 1 L

Express UHT Grape fruit Juice 1 L

Express UHT Orange Juice 1 L

Express UHT Orange Juice . 4 Pack 1 L

Express UHT Pineapple Juice 1 L

(If there are any others please do list them anہd lets try and do at least our bit.)

یاد رکھیے! یہود و نصاریٰ، مجوس و ہندو ہمارے کھلے ہوئے دشمن ہیں ان کی کاروائی کھلی ہوئی ہوتی ہے تو ہم ہوشیار ہو جاتے ہیں لیکنس ان کے ایجنٹ جو پونڈز اور ڈالروں پر پلتے ہیں وہ ہمارے لیے زیادہ خطرناک ہیں۔ اللہ تعالیٰ ملت اسلامیہ کو تمام کھلے اور چھپے ہوئے دشمنوں کی مکاریوں اور ریشہ دوانیوں سے محفوظ رکھے۔ (آمین)

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi