مرتد کے احکام


تحریر:علامہ مفتی محمد اقبال سعیدی ﷫

مُرْتَدّ کی تعریف و سزا:

شریعتِ اسلامی کے مطابق جو شخص اسلام کا اقرار کرنے کے بعد کسی کفر کا ارتکاب کرے ’’مُرْتَدّ‘‘ کہلاتا ہے اور مرتد کی سزا قتل ہے، کیوں کہ جب وہ مسلمان ہوا تھا تو اُس نے اسلام کو اُس کے تمام اَحکام و قوانین سمیت قبول کر لیا تھا؛ اب مرتد ہونے کے بعد اُس کا تسلیم شدہ قانون اُس پر نافذ کیا جائے تو عرفِ عام میں ظلم نہیں کہلا سکتا۔

مرتد کی دو قسمیں ہیں:

· جو سبِّ رسول ﷺ کے ارتکاب کے سوا کسی اور چیز کے باعث کافر ہوا تو اُس پر اسلام پیش کریں گے۔ اگر وہ اسلام قبول نہ کرے اور توبہ بھی نہ کرے تو (قتلہ من ساعتہ) اُسے حاکم فوراً قتل کرا دے۔(درّ مختار، جلد ۳، صفحہ ۳۱۲)

· جو شخص سَبِّ رسول ﷺ کے سبب مرتد ہُوا تو صاحبِ درّ مختار، صاحبِ دُرَر، صاحبِ بزازیّۃ، صاحبِ اشباہ، صاحبِ فتح القدیر کے نزدیک اُس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی، بلکہ اُسے لازماً بَہ طورِ حد قتل کیا جائے گا۔ بعض دوسرے علما نے اُس کے لئے بھی توبہ کو مفید قرار دیا اور علامہ ابنِ عابدین شامی نے قبولِ توبہ کے قول کو، بَہ دلائل ، ’’صحیح‘‘ قرار دیا۔ تاہم توبہ سے انکار کے بعد اُس کے قتل پر سبھی حنفی علما کا (غیرِ حنفیہ کی طرح) اتفاق ہے۔ (درّ مختار، جلد ۳۱۷ تا ۳۲۱)

غیرِ مرتد کافر:

رہے وہ لوگ جو پیدائشی غیرِ مسلم ہیں اور کلمہ نہیں پڑھتے، وہ تین قسم ہیں: (۱) حربی (۲) مستامن (۳) ذمّی

(۱) حربی، یہ دارالحرب (یعنی غیرِ اسلامی ملکوں) کے غیرِ مسلم باشندے ہیں۔ وہ اگر ہمارے مُلک میں بغیر ویزا کے گھس آئیں تو اُنھیں کوئی بھی مسلمان قتل کر سکتا ہے، کیوں کہ ہم اُن کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہیں اور حالتِ جنگ میں دشمن کے آدمی جہاں ملیں اُنھیں قتل کیا جا سکتا ہے۔ بحر الرائق ، جلد ۵، صفحہ ۷۰ (طبع ایچ ایم سعید کمپنی) میں ہے:

(ترجمہ) ’’صاحبِ کتاب کا یہ ارشاد کہ پہل کر کے جہاد (کفّار سے جنگ) کرنا فرضِ کفایہ ہے، اس سے تین اَحکام کے ثبوت کا فائدہ حاصل ہوتا ہے: پہلا یہ کہ جہاد فرض ہے اور اس حکم کی دلیل قطعی ہے (واضح، یقینی) اَحکامِ الٰہیہ ہیں، جیسے اللہ تعالیٰ کے ارشادات ’’تو مشرکین کو جہاں پاؤ، قتل کرو‘‘ اور ’’سب مشرکین سے جنگ کرو‘‘ اور ’’جنگ کرو اُن سے جو نہیں ایمان رکھتے اللہ پر، نہ یومِ آخر پر‘‘۔ (صاحبِ بحر فرماتے ہیں) بعض معترضین کی طرف سے ہمارے دلائل کا تعاقب کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ آیات عام مخصوص عنہ البعض کے قبیل سے ہیں، جو ظنّی الدلالۃ ہوتا ہے اور ظنّی سے فرض ہونا ثابت نہیں ہوتا۔

(صاحبِ بحر نے کہا) اس کا جواب دیا گیا کہ یہ آیات ظنّی الدلالۃ (عام مخصوص عنہ البعض) نہیں، اس لئے کہ بچے اور پاگل کا ان کے حکم سے باہر نکلنا انھیں ظنّی نہیں بنا دیتا کہ وہ دلیلِ عقل سے باہر نکلے ہیں نہ کہ دلیلِ نقل سے اور ان کے ماسوا جو لوگ مستثنیٰ سمجھے جاتے ہیں تو نص ابتدا ہی میں اُن سے متعلق نہ تھی، اس لئے کہ نص مقید ہے ان کے ساتھ جو جنگ کیا کرتے ہیں، چناں چہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’تمام کے تمام مشرکوں سے جنگ کرو جیسا کہ وہ تم تمام سے جنگ کرتے ہیں‘‘، تو عورت جو جنگ نہ کیا کرتی ہو آیت کے حکم میں داخل نہ ہوئی۔‘‘ (بحر الرآئق، جلد ۵، صفحہ۷۰)

تنویر الابصار متن در مختار میں ہے ھو فرض کفایۃ ابتداءً پہل کرکے جہاد کرنا فرضِ کفایہ ہے (درّ مختار ہامشی، جلد ۳، صفحہ ۴۳۹، جدید طبع کوئٹہ)۔

اس کے نیچے درّ مختار میں ہے:

(ترجمہ) ’’خواہ کافر ہم سے پہل کرکے جنگ نہ بھی چھیڑیں (تب بھی ان سے جنگ فرضِ کفایہ ہے) رہا اللہ تعالیٰ کا قول کہ اگر وہ تم سے جنگ کریں تو انھیں قتل کردو اور اسی طرح جنگ کو اشہرِ حرم میں حرام فرمانا تو یہ عمومی حکم دینے والی آیتِ کریمہ سے منسوخ ہے، جیسے یہ آیتِ کریمہ کہ قتل کرو مشرکین کو جہاں پاؤ انھیں۔ (اور فرضِ کفایہ سے مراد یہ ہے کہ) اگر بعض مسلمان جہاد کو قائم کر دیں اگرچہ وہ غلام یا عورتیں ہی ہوں تو سب مسلمانوں سے فرض اتر گیا اور اگر کسی زمانے میں کوئی شخص بھی جہاد قائم نہ کرے تو اُس کے چھوڑنے کے سبب تمام مسلمان گنہگار ہوں گے۔ اور اس وہم سے بچنا کہ تم خیال کرو کہ روم کے مسلمان جہاد کےلئے کھڑے ہوں تو مثلاً اہلِ ہند کا فرض اتر جاتا ہے بلکہ جہاد ہر جگہ کے دشمنوں کے قریب رہنے والوں پر، پھر اُن سے قریب والوں پر فرض ہے یہاں تک کہ ضرورت پوری ہو جائے تو اگر بالفرض تمام لوگوں کے بغیر ضرورت پوری نہ ہو تو فرضِ عین ہو جائے گا۔‘‘(درّ مختار، جلد، ۳، صفحہ ۲۳۹ تا ۲۴۰)

خلاصہ یہ کہ کفّار کے تمام ملکوں سے جنگ کرنا مسلمانوں پر فرض ہے اس لئے وہ ان سے ہمیشہ حالتِ جنگ میں ہیں؛ لہٰذا، حالتِ جنگ میں ان کا جو باشندہ ہاتھ لگ جائے تو ظاہر ہے اسے مار دینا کوئی جرم نہیں۔ اسی سے واضح ہو گیا کہ وہاں کا کوئی باشندہ اگر اپنے ملک میں توہینِ رسول اور سبِّ رسول کا اس طرح ارتکاب کرتا ہے کہ اس کی اشاعت ہمارے ممالک میں ہوتی ہے تو بھی جو مسلمان ایسے مردود کو موقع پا کر قتل کرے، شریعت اس مسلمان کو اس کی اجازت دیتی ہے اگرچہ وہ مسلمان اسی کافر ملک کا باشندہ ہی ہو، چہ جائیکہ ہمارے ملک سے جا کر کوئی مسلمان اس کو قتل کرے؛ وہ تو بطریقِ اولیٰ جائز ہے، البتہ مجبوری کے اَحکام جدا ہیں، لیکن مجبوری کے عذر کے پیشِ نظر ساری عمر خوابِ غفلت بھی شرعاً جائز نہیں، بلکہ لازم ہے کہ ہر ممکن طریقے سے ہم اپنی تعداد، ہتھیار اور جنگی صلاحیت میں اضافے کی کوشش میں رہیں تا کہ دشمنوں کی طاقت کا توڑ کر سکیں۔ (عامہ کتب فقہِ حنفیہ)

بہر حال جس حربی کافر کی حفاظت کا ہم نے عہد نہیں کیا، یا ہم سے یہ عہد لینے کے بعد وہ دوبارہ دار الحرب میں داخل ہو گیا تو اُس کاقتل جائز ہے۔ درّ مختار میں ہے: ’’اگر مستامن کافر دار الحرب لوٹ گیا، اگرچہ یہ دارالحرب اُس کا پہلا ملک نہیں تو اُس سابق مستامن کا خون حلال ہو گیا، اس لئے کہ جو امان اس نے حاصل کی تھی ختم ہو گئی۔ (درّ مختار ہامشی، جلد ۳، صفحہ۲۷۵)

مستامن:

یہ دارالحرب کی قومیت رکھنے والے وہ لوگ ہیں جو بطورِ سفیر یا کسی اور جائز مقصد سے قلیل مدّت کے لئے امان لے کر مسلمانوں کے ملک میں داخل ہوں۔

سفیر: رہے سفارت خانے کے ملازمین اور دوسرے مستامنین،ان کا اجمالی حکم ذمّی کا سا ہے، مگر بعض اُمور میں ذمّی سے کم ہے اور بعض میں زیادہ۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ ذمّی کو قتل پر حنفیوں کے نزدیک قصاص لازم ہے، خواہ قاتل مسلمان ہی ہو، لیکن مستامن کے قتل پر، خواہ قاتل مسلمان ہو یا ذمّی کافر، خون بہا لازم ہے، قصاص نہیں؛ جب کہ ایک امر میں مستامن ذمّی پر فوقیت حاصل ہے وہ یہ کہ ملکی قانون کی اکثر سزائیں اُس کو نہیں دی جائیں گی؛ تاہم وہ تمام سزائیں جن میں حق العبد پایا جاتا ہے حتّٰی کہ قصاص و حدود بھی اس پر نافذ ہوں گی، ماسوائے قولِ امام ابو یوسف ﷫ کے، وہ فرماتے ہیں سوائے شراب کی حد کے وہ تمام سزائیں مستامن پر بھی نافذ ہوں گی جو ذمّی پر نافذ ہوتی ہیں۔

ردّالمحتار میں ہے:

(ترجمہ) قاعدہ یہ ہے کہ مسلم حاکمِ اعلیٰ پر مستامنوں کی امداد ضروری ہے، جب تک وہ ہمارے ملک میں ہوں تو اُن کا حکم ذمیوں کی طرح ہوا؛ مگر یہ بات ہے کہ مستامن کو ذمّی کافر یا مسلمان قتل کرے تو قصاص لازم ہے اور قصاص کی ادائیگی کا مطالبہ مستامن کا وارث کرے گااگر وہ اُس کے ہمراہ ہو۔ (بحوالہ شرح السیر، ردّالمحتار، جلد ۳، صفحہ ۲۷۳)

اسی میں ہے:

اور شرحِ سیر میں یہ بھی ذکر کیا کہ مستامن جب ہمارے ملک میں سزا کے موجب جرم کا مرتکب ہو تو اُس پر سزانافذ نہ کی جائے گی سوائے اُن سزاؤں کے جن میں بندوں کا حق پایا جائے۔ قصاص یا حدِّ قذف اور امام ابو یوسف کے نزدیک سوائے حدِّ خمر کے مستامن پر باقی ہر سزا(قصاص، حدود، تعزیر وغیرہا) نافذ کی جائے گی جیسا کہ اہلِ ذمّہ پر نافذ ہوتی ہے۔

(ردّالمحتار، جلد ۳، صفحہ ۲۷۳، بحوالہ شرح سیر)

بہر حال ثابت یہ ہوا کہ غیر مسلم مستامن پر حدِّ خمر تو بَاِتفاقِ علمائے حنفیہ نافذ نہ ہوگی اور امام ابو یوسف کے نزدیک باقی تمام سزائیں جو ذمّیوں پر نافذ ہوتی ہیں مستامن پر بھی نافذ ہوں گی اور امام ابو حنیفہ اور امام محمد رحمہما اللہ کے نزدیک محض حقوق اللہ کی سزائیں اگرچہ ذمّیوں پر نافذ ہوں مگر مستامن پر نافذ نہ ہوں گی؛ البتہ حدِّ قذف اور قصاص اور دیگر وہ سزائیں جن میں مخلوق کا حق بھی ملحوظ ہو مستامن غیرِ مسلم پر نافذ ہوں گی اور ظاہر ہے کہ جب ایک عام مسلمان کو تہمت لگانے پر مستامن سزا سے نہیں بچ سکتا کہ یہ حقّ العبد ہے تو رسول اللہ ﷺ کو گالی دینےپر کیوں کر سزا سے بچ سکتا ہے کہ یہ بھی اس نے حقّ العبد میں جرم کیا ہے اور کس عبد کے حق میں وہ عبد جو عَبْدُہٗ ہے۔

شاعرِ مشرق ڈاکٹر اقبال کے مطابق جو اُنھوں نے قرآنِ مجید کی روشنی میں فرمایا ؏

عَبْد دیگر، عَبْدُہٗ چیزے دگر

تو عَبْدُہٗ جو ہزارہا ’’عبد‘‘ سے بہتر ہے، اُس کا حق بھی تو اُتنا ہی اعلیٰ ہے؛ لہٰذا، مذکورۂ بالا حوالہ جات (از فقہِ حنفیہ) کی روشنی میں وہ اس کی سزا ضرور پائے گا، ہرگز بچ نہیں سکے گا۔

ذمّی:

یہ وہ غیرِ مسلم ہیں جن کے علاقے پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہوگئی اور اُنھوں نے حکومتِ اسلامی کو قبول کر لیا اور اسلام کی بالا دستی قبول کرنے کی شرط پر حکومتِ اسلامی کے زیرِ نگیں رہنے کا عہد کیا اور پھر اسلامی حکومت نے اُن کے تحفّظ کا وعدہ کیا اور وہ لوگ اپنے غیرِ اسلامی دین پر قائم رہتے ہوئے اسلامی ملک کے باشندے بن گئے۔ اُن کے لئے کچھ رعایتیں ضرور ہیں، مگر اتنا نہیں کہ وہ برملا مسلمانوں کے سامنے اپنی تقریر یا تحریر کے ذریعے ہم مسلمانوں کے پیغمبر کو گالیاں دیتے رہیں، یا اپنے لوگوں کے جلسوں میں لاؤڈ اسپیکر پر ایسی بکواس کریں (ہاں، اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم محمد ﷺ کو اللہ کا نبی اور آپ کی کتاب کو اللہ کی کتاب نہیں مانتے تو اِس پر پر اُنھیں کوئی سزا نہیں دی جائے گی کہ معاہدۂ ذمّہ کا مطلب یہی تو ہے کہ اُنھیں اُن کے کافرانہ عقائد پر قائم رہنے کی پوری آزادی ہے)۔اسی طرح انھیں یہ اجازت اور آزادی نہیں کہ مسلمانوں کو اپنے دین کی دعوت دے سکیں۔ اگر وہ اس قسم کے (خلافِ معاہدہ) اُمور کا ارتکاب کریں تو اُن کا ذمّی ہونے کا معاہدہ متاثر ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی، بعض اُمور کی اُنھیں آزادی نہیں۔

سبِّ رسول کے مرتکب ذمّی کا قتل:

بہر حال دارالاسلام میں آکر یا یہاں رہ کر کسی بھی قسم کے غیرِ مسلم کو، خواہ وہ حربی مستامن ہویا ذمّی، اجازت نہیں ہے کہ وہ برملا، نبیِ کریم ﷺ کو گالیاں دے، عیب لگائے یا تنقیص کرے۔ مسلمانوں کے دین کے مطابق ایسے شخص کا قتل مسلمانوں پر ضروری ہے۔ اُمّت کا ایک عالم بھی اس میں اختلاف نہیں رکھتا۔ اہلِ سنّت کے چارون مجتہدین ابو حنیفہ، مالک شافعی اور احمد بن حنبل کے علاوہ دیگر تمام مجتہدین، اہلِ سلف، اہلِ سنّت فقہا، محدثین، مفسرین اور اُن کے علاوہ اہلِ حدیث کہلانے والے ظاہری اور غیرِ مقلّد علما، ان کے علاوہ زیدی شیعہ فقہ اور اثنا عشری فقہ کے علما؛ سب کے سب اس بارے میں متفق ہیں۔ اگر اختلاف ہے تو اِس نقطے پر کہ کوئی ذمّی اپنے گھر میں اپنے آدمیوں سے بات کر رہا تھا، وہاں سے اچانک کم از کم دو مسلمان گزرے اور اُنھوں نے سن لیا کہ وہ ذمّی شخص سرکار ﷺ کی توہین کے کلمات بول رہا ہے، جس سے اُن مسلمانوں کو ایذا پہنچی اور استغاثہ حکومت کے پاس گیا تو کیا اُسے قتل کرنا ضروری ہے یا اُسے کوئی اور سزا دینا ضروری ہے۔ باقی ائمّہ کے نزدیک اُس کا قتل ضروری ہے اور حنفیہ کے دو مسلک ہیں: کچھ حنفیہ اُس کے اس کا قتل ضروری سمجھتے ہیں اور کچھ دوسرے سخت سزا تو ضروری سمجھتے ہیں جو قتل تک بھی ہو سکتی ہے۔ بہر حال بالکل سزاجائز نہ ہونا کسی حنفی عالم کا مسلک نہیں۔

بعدِ توہین،ذمّی کا ذمّہ باقی رہنا:

اس مسئلے میں ایک اور اختلاف بھی ہے اور وہ یہ کہ ذمّی سبِّ رسول کے بعد، ذمّی رہتا ہے یا نہیں؟ حنفیہ اور شافعیہ اسے تب بھی ذمّی مانتے ہیں اور بعض دیگر اسے ذمّی نہیں مانتے۔

(’’جرمِ توہینِ رسالت۔۔۔ فقہِ حنفی کی روشنی میں‘‘، ص 17 تا 24)

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi