سخن ضیائے طیبہ


سخن ضیائے طیبہ

اداریہ طریقۂ واردات

 سونا جنگل رات اندھیری چھائی بدلی کالی ہے    سونے والو! جاگتے رہیو چوروں کی رکھوالی ہے

آنکھ سے کاجل صاف چرا لیں یاں وہ چور بلا کے ہیں          تیری گٹھری تاکی ہے اور تو نے نیند نکالی ہے

سونا پاس ہے سونا بن ہے سونا زہر ہے اُٹھ پیارے           تو کہتا ہے میٹھی نیند ہے تیری مت ہی نرالی ہے

آنکھیں ملنا، جھنجھلا پڑنا لاکھوں جمائی انگڑائی    نام پر اُٹھنے کے لڑتا ہے اٹھنا بھی کچھ گالی ہے

ساتھی ساتھی کہہ کے پکاروں ساتھی ہو تو جواب آئے     پھر جھنجھلا کر سردے پٹکوں چل رے مولیٰ والی ہے

پھر پھر کر ہر جانب دیکھوں کوئی آس نہ پاس کہیں           ہاں اک ٹوٹی آس نے ہارے جی سے رفاقت پالی ہے

دنیا کو تو کیا جانے یہ بِس کی گانٹھ ہے حَرّافہ     صورت دیکھو ظالم کی تو کیسی بھولی بھالی ہے

شہد دکھائے زہر پلائے قاتل ڈائن شوہر کش                 اس مُردار پہ کیا للچانا دنیا دیکھی بھالی ہے

 

رات کی تاریکی میں چور گھر کے دروازے اور دیوار پر پتھر مار کر چھپ جاتا ہے۔۔۔ چور اپنے اس عمل کو تین سے چار راتوں تک مسلسل دوہراتا ہے۔۔۔ اگر پہلی رات ہی گھر سے شور و غل سنائی دے تو چور اپنا رخ کسی دوسرے گھر کی جانب موڑ لیتا۔۔۔ اور اگر پہلی رات اور دیگر مسلسل راتوں میں گھر میں غفلت بھری نیند سونے والے حرکت میں نہ آئیں تو چور اس گھر میں واردات کر گزرتا ہے۔۔۔

راقم کا تجزیہ یہ ہے کہ چور اور یہود و نصارٰی میں طریقۂ واردات کچھ یک ساں پایا جاتاہے ۔۔۔

یہودیوں کا یہ سلسلہ پچھلی کئی دہایوں سے جاری ہے۔۔۔ وہ لوگ جانچنے کے لئے مسلمانوں کے عقائد و نظریات پر حملہ کرتے ہیں ۔۔۔اوراللہ و رسول و قرآن کی ناموس وحرمت کی پامالی کا ارتکاب کرتے ہیں ۔۔۔تاکہ دیکھا جائے کہ مسلم امّہ میں جذبۂ ایمانی کتنا باقی ہے۔۔۔

یہ بات روزِ ازل سے عیاں ہے کہ مسلمان سب سے زیادہ اپنے نبی ﷺ کی حرمت و ناموس پر پہرہ دیتے ہیں۔۔۔ اور اس مسئلے پر اپنی سب سے قیمتی شے ’’جان ‘‘ کی بھی پروا نہیں کرتے۔۔۔اور یہ جذبہ مذاہب عالم میں فقط مذہبِ اسلام ہی میں پایا جاتا ہے۔۔۔ جو اغیار کو برداشت نہیں۔۔۔

مغرب کے سنجیدہ دانشور ۔۔۔ بہت پہلے اس حقیقت کا ادراک کر چکے تھے کہ ۔۔۔ اللہ ۔۔۔ محمد۔۔۔ اور قرآن۔۔۔ کی حاکمیتِ اعلیٰ اور تقدیس۔۔۔ دینِ اسلام کی بنیادیں ہیں۔۔۔ جب تک یہ بنیادیں نہ ہلائیں گئیں۔۔۔ اسلام کا غلبہ روکنا ناممکن ہوگا۔۔۔ مستشرقین بیسویں صدی سے بھی پہلے اس پراجیکٹ پر کام کررہے تھے۔۔۔ تاہم وہ کتابوں اور مقالوں کی صورت میں محدود طبقات پر منفی اثرات مرتّب کررہے تھے۔۔۔ اس کا مرکزی ہدف اہلِ مغرب تھے۔۔۔ لیکن آج یہ براہِ راست مسلم امّہ کو نشانہ بنارہے ہیں ۔۔۔

محمد فہیم امتیاز (سوشل میڈیا ایکٹیو سٹ، سی ڈی سی) لکھتے ہیں:

’’اس بات میں کوئی ابہام موجود نہیں کہ عالمی برادری سمیت دنیا کی سپر پاورز اور یہود و نصارٰی کی ہر ممکن کوشش اسلام / مسلمان کو ٹارگیٹ کرنا ہے۔ وجہ ان کا وہ خوف ہے جو صلاح الدین ایوبی نے ان کے دل میں ڈالا، وجہ بیت المقدس ہے، وجہ گریٹر اسرائیل ہے، وجہ اکھنڈ بھارت ہے، وجہ پاکستان کا وجود ہے، وجہ ون ورلڈ آرڈر ہے،وجہ دجّالیت ہے۔ جب بھی کوئی چال چلی جاتی ہے تو بہت سوچ سمجھ کر، ہمیں پرکھ کر، جج کر کے اثرات کا اندازہ لگایا جاتا ہے، تو ہمیں ان کے اندازے غلط ثابت کرنے ہوں گے۔ہمیں لبرل ازم ، سیکولرازم، نظامِ تعلیم اور میڈیا کے ذریعے مولڈ کیا جاتا ہے۔ شعوری طور پر (Consciously)اور غیر شعوری طور پر (Unconsciously) امّتِ مسلمہ کی ایمانی غیرت کو ختم کرنے کا انتظام کیا جاتا ہے۔پھر ایک وار کیا جاتا ہے اور دیکھا جاتا ہے کہ کیا واقعی ہم مکمّل بے غیرت ہو گئے ہیں؟ کیا ہم دجالیت کو قبول کرنے پر راضی ہوگئے ہیں؟ جیسے ایک وار راج پال کی کتاب تھی۔۔۔ ایک وار ڈینمارک میں کی جانے والی گستاخیاں تھی۔۔۔ ایک وار مسلم خواتین کے حجاب پر پابندی تھی۔۔۔ ایک وار جرمنی کی مسلم مخالف ریلیاں تھی۔۔۔ ایک وار بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا تھا۔۔۔ ایک وار برطانیہ میں ’’Punish a Muslim Day‘‘ کا انعقاد تھا۔۔۔ ایک وار پاکستان میں ختم نبوّت ﷺ کی شق میں ترمیم تھی۔۔۔ اور اسی طرح ایک وار، نیدر لینڈ کے ملعون کا گستاخانہ کارٹون کانٹیسٹ (Contest) ہے۔امّتِ مسلمہ کو مولڈ کیا جارہا ہے کہ ان کی تذلیل اتنی کی جائے کہ انہیں اس تذلیل کی عادت ہوجائے۔‘‘

پھر ایک واردات کا انکشاف :۔۔۔ رواں سال جون کی خبر ۔۔۔ ہالینڈ کی اسلام مخالف جماعت فریڈم پارٹی آف ڈچ کے ۔۔۔ متشدد، متعصّب اور انتہا پسند رہ نما گیرٹ ویلڈرز کی جانب سے ۔۔۔ گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ کروانے کا قبیح اعلان کیا گیا۔۔۔جس کے بعد سے اس قابل صد مذمّت مقابلے میں دنیا بھر سے اسلام دشمن عناصر حصّہ لے رہے ہیں اور 10 نومبر کو ایک امریکی شہری کی سرپرستی میں نتائج کا اعلان متوقع ہے۔۔۔

ہالینڈ کی اس شر انگیز و نفرت انگیز مہم پر عالم اسلام میں شدید تشویش و بے چینی کی لہر دوڑ گئی ۔۔۔اور پاکستان سمیت مختلف اسلامی ملکوں میں عوامی احتجاج اور مطالبات کے مناظر اور خبریں سامنے آئیں۔۔۔خاکم بدہن اگر یہ مقابلہ حسب پروگرام ہوگیا تو یہ بات عیاں ہو جائے گی کہ مسلم دنیا اپنے کردار میں مکمّل طور پر بے روح ہوکر مردہ ہوچکی ہے۔۔۔اور اس کا دنیا پر اس قدر بھی اثر نہیں رہا کہ وہ مل کر ایک ملعون شخص کو اس کے ناپاک عزائم سے روک سکے۔۔۔

واردات پر ردِّعمل :۔۔۔ الحمدللہ تبارک و تعالٰی۔۔۔ امّتِ مسلمہ نے بروقت بیداری کا ثبوت دیا اور اس ناپاک جسارت کو ہر صورت رُکوا کر اپنے وجود کی افادیت کا ثبوت فراہم کیا۔۔۔بالخصوص پاکستانی مسلمانوں کا ردِّ عمل اور تحریکِ لبیک کے احتجاج بین الاقوامی سطح پر اثر انداز ہو کر رنگ لائے۔۔۔مسلم امّہ نے ہالینڈ(نیدرلینڈز) کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا اور عملی جامہ پہناکر ثبوت دیا۔۔۔کہ یہ عمدہ ہتھیار ہے۔۔۔ دنیا کا کوئی ملک عالم اسلام کی مارکیٹوں کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔۔۔ دنیا کی اہم آبی تجارتی گزرگاہیں مسلم دنیا کے پانیوں سے گزرتی ہیں۔۔۔ اور بہترین محل وقوع و کثیر آبادی والے حصے بھی مسلم دنیا میں واقع ہیں۔۔۔ بس مسلمانوں کو سائنس و ٹیکنالوجی اور جدید علوم و فنون میں آگے بڑھنا ہوگا اور مغرب کی محتاجی سے نکلنا ہوگا۔۔۔ البتہ خاکوں کی روک تھام کے لئے کردار ادا کرنے والے خراجِ تحسین کے مستحق ہیں۔۔۔دنیا کو یہ بات سمجھنا چاہیے کہ مسلمانوں کے دینی جذبات و احساسات کو ئی کھیل نہیں ہیں۔۔۔ کیوں کہ دنیا کی قریباً 8؍ ارب آبادی میں 1؍ ارب 60 کروڑ مسلمان ہیں جو دنیا کے ہر کونے میں اپنی شناخت کے ساتھ موجود ہیں۔۔۔چناں چہ دنیا بھر میں جرمنی سمیت جہاں بھی توہین آمیز سرگرمیوں کا ارتکاب کیا گیا۔۔۔ مسلم نوجوانوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر ایسے فتنے پرور عناصر کے خلاف اپنی بساط کی حد تک اقدام ضرور کیا ہے۔۔۔اور عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق پاکستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان کو ہالینڈ کی عدالت میں پیش کیا جاچکا ہے۔۔۔جس نے فخر سے اعتراف کیا ہے کہ وہ ملعون گستاخ گیرٹ کو قتل کرنے کے لئے کارروائی کرنا چاہتا تھا۔۔۔

واردات پر ردِّ عمل کا نتیجہ :۔۔۔ ہالینڈ کا سرکاری ذرائع کی جانب سے جاری کردہ اعلان سامنے آیا۔۔۔ ہالینڈ کے ملعون گستاخ نے مذموم توہین آمیز خاکوں کا نمائشی مقابلہ منسوخ کردیا۔۔۔ نیدر لینڈز پارلیمنٹ کے اپوزیشن جھگڑالو اور برائے نام پارٹی فار فریڈم تنظیم کا ملعون شرپسند گستاخ کی طرف سے اس مجوزہ نمائش کی منسوخی کی اطلاع سے یہ وقتی مسئلہ تو ختم ہوا۔۔۔ لیکن ۔۔۔انبیائے کرام کی توہین کو بین الاقوامی سطح پر جرم قرار دلوانے کے لئے قانون سازی ضروری ہے۔۔۔

واردات کا خاکوں کے ذرئعے تسلسل : ۔۔۔ گستاخانہ خاکوں کا سلسلہ ستمبر 2004ء میں شروع ہوا تھا۔ 2004ء کے آخر میں ڈینمارک کے مصنّف کرےپلولیٹکن نے ذاتِ رسالت مآب ﷺ پر ایک کتابچہ لکھا۔ وہ اس کتابچے میں نعوذ باللہ آپﷺ کے خاکے شائع کرنا چاہتا تھا، اس نے ڈینمارک کے بے شمارمصوروں سے رابطہ کیا، لیکن انھوں نے معذرت کرلی۔ وہ بعد ازاں ایک دوست کے ذریعے یولاندپوسٹن اخبار کے دفتر گیا۔ اس نے اخبار کے ایڈیٹر سے اپنا مسئلہ ڈسکس کیا اور اس دوران ایڈیٹر کے دماغ میں یہ شیطانی آئیڈیا آ گیا۔ ایڈیٹر نے 40 کارٹونسٹ سے رابطہ کیا۔ 28 نے انکار کر دیا، لیکن کرٹ ویسٹر گارڈ سمیت 12 گستاخ اس قبیح جسارت پر رضا مند ہوگئے۔ یوں یہ خاکے بنے اور انھوں نے پوری دنیا کا امن غارت کردیا۔ اس وقت سے آج تک عالم اسلام اس گستاخانہ حرکت پر کوئلوں پر لوٹ رہا ہے۔

30؍ ستمبر 2005ء کو ڈینمارک کے کثیر الاشاعت اخبار جیلنڈس پوسٹن (Jyllands Posten) نے بارہ گستاخانہ خاکے شائع کیے۔ اس گستاخی کے بعد پورے عالم اسلام میں ہلچل مچ گئی اور عالمی سطح پر احتجاج ریکارڈ کروایا گیا اور ڈینمارک کی مصنوعات کا بائیکاٹ بھی کیا گیا۔ بعد میں یہ مسئلہ عارضی طور پر ٹھنڈا ہوگیا۔ ایک سال بعد اس معاملے کو مزید ہوا دینے کی کوشش کی گئی۔ صیہونی ڈینٹل پائیس پھر میدان میں آیا اور یہودیوں کے زیرِ اثر یورپ کے ساتھ بڑے اخبارات میں یکم فروری 2006ء کو فرانس میں چارلی ہیبڈو (Charlie Hebdo)، جرمنی ، اٹلی ، ہالینڈ، اسپین اور سوئزر لینڈ میں جیلنڈس پوسٹن والے بارہ خاکے دوبارہ شائع کیے گئے۔ اس معاملے کو مزید بڑھایا گیا۔

2008ء میں ہالینڈ کے کارٹونسٹ گریکوری نیکشٹ (Gregory Nekschot) نے اپنے خاکوں سے اسلامی اقدار کا مذاق اڑایا۔ 2008ء میں ہی ہالینڈ میں رکن پارلیمنٹ گیرٹ ولڈرز نے ایک متنازعہ فلم بنائی جس میں قرآنِ کریم کی آیات پر تنقید کی گئی، جس پر پوری دنیا میں مظاہرے کیے گئے، لیکن اس پر بھی کوئی ایکشن نہیں لیاگیا۔ 21؍ مارچ 2011ء کو ملعون پادری ٹیری جونز (Terry Jones) نے بھی قرآنِ کریم کی گستاخی کی۔ اس نے قرآنِ پاک پر مقدمہ بنا کر اسے نعوذ باللہ مجرم ٹھہرایا اور پھر سزا کے طور پر قرآنِ پاک کو نذرِ آتش کیا۔

2؍نومبر 2011ء کے متنازعہ ترین اخبار چارلی ہیبڈو نے پیغمبرِ رحمت ﷺ کی گستاخی والا شمارہ شریعہ ہیبڈو (Sharia Hebdo) کے نام سے جاری کرنے کا فیصلہ کیا جس کے ردِّعمل میں اس پر حملہ ہوا لیکن اس کا ایڈیٹر گستاخیوں سے باز نہیں آیا اور یہ سلسلہ 2012ء میں بھی جاری رہا۔

2015ء میں ایک مسلح مسلمان نے فرانس کے دارالحکومت پیرس میں چارلی ہیبڈو کے دفتر پر حملہ کرکے گستاخانہ کارٹون چھاپنے پر 12؍ افراد کو گولیاں مار کر ہلاک کردیاتھا۔ اس واقعے کے بعد چند عالمی نشریاتی اداروں نے اعلان کیا کہ وہ آئندہ ایسا کوئی گستاخانہ خاکہ نہیں چھاپیں گے جس سے کسی کی دل آزاری ہو، لیکن جس طرح مغرب نے اکھٹے ہو کر پیرس میں یہ اعلان کیا کہ ہم سب چارلی ہیں اور اگلے شمارے میں مزید گستاخانہ خاکے شائع کرکے 6؍ زبانوں میں 30؍ لاکھ کی تعداد میں پوری دنیا میں تقسیم کیے گئے۔

12؍جون 2018 ء۔۔۔ ہالینڈ کی اسلام دشمن جماعت فریڈم پارٹی کے ملعون گستاخ گیرٹ ولڈرز نے ایک بار پھر دنیا کا امن داؤ پر لگاتے ہوئے نومبر 2018ء میں گستاخانہ خاکوں کی نمائش کا اعلان کیا ۔ گیرٹ ولڈرز کو ہالینڈ حکومت کی مکمل سرپرستی حاصل تھی، یہ مقابلہ پارلیمنٹ کی عمارت میں منعقد ہونا تھا، پھر دنیا بھر کے گستاخ کارٹونسٹس کو اس مقابلے میں شرکت کی دعوت دی گئی، جس پر دوسو گستاخ کارٹونسٹس نے خاکے بناکر ملعون گیرٹ کو بھیج دیے تھے، باس فاسٹن نامی ایک البانوی نژاد گستاخ کو اس مقابلے کا جج مقرر کیا گیا تھا، جو تین سال قبل امریکی ریاست ٹیکساس میں ہونے والے ایسے ہی ایک گستاخانہ مقابلے میں اوّل آیا تھا۔ملعون باس فسٹن کا دعویٰ ہے کہ وہ پیدائشی مسلمان تھا، لیکن بعد میں مرتد ہوگیا۔ملعون گستاخ گیرٹ نے پہلے بھی اسلام مخالف ’’ فتنہ ‘‘فلم بنا کر اربوں مسلمانوں کی دل آزاری کی تھی۔

قارئینِ محترم۔۔۔! بات عام فرد کی نہیں بلکہ اس ذات کی ہے جو تخلیقِ کائنات کا باعث ہے۔۔۔ جس کی توہین اللہ تبارک و تعالٰی کی ذات کو بھی کسی طرح گوارہ نہیں۔۔۔ مغرب اور اس کے حکمرانوں کے آشرباد سے توہین رسالت کا تقریری اور تحریری طور پر بار بار ارتکاب کیا جاتا رہا ہے۔۔۔ مسلم امّہ کے جذبات سے کھیلا جاتا رہا ہے، جب کہ برطانیہ اور دوسرے ممالک میں بھی بلاس فیمی (Blasphemy) کا قانون موجود ہے۔۔۔ ڈینمارک۔۔۔ فرانس۔۔۔ ہالینڈ۔۔۔ اور دوسرے ممالک میں توہین آمیز خاکے بنانا اور ان کے مقابلے کرانے کو آزادیِ اظہار کا نام دینا کہاں کا انصاف ہے۔۔۔؟؟ کیا آزادیِ اظہار کا مقصد کسی مذہب اور پیغمبر کی توہین ہے۔۔۔؟؟ سوشل میڈیا پر بھی ایسی اہانت آمیز پوسٹیں ہیں مگر ان کے مجرم ملک کے اندر توہینِ رسالت کیس کے فیصلے کے باوجود کھلے عام دندناتے پھر رہے ہیں۔۔۔یا وہ بیرون ملک بھیج دیے گئے ہیں۔۔۔ٹوئٹر۔۔۔ گوگل۔۔۔ پر، تاحال توہینِ رسالت سے متعلق مواد موجود ہے۔۔۔تو ریاست اور اس کے قوانین کیوں حرکت میں نہیں آتے۔۔۔؟؟

توہینِ رسالت کی مذموم حرکتوں کے جواز میں اہلِ مغرب آزادیِ اظہار کے فلسفے کے حوالے دیتے ہیں ۔۔۔ حالاں کہ اس طرح کی شر انگیزی کا آزادیِ اظہار سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔خود پاپائے روم کہہ چکے ہیں کہ ’’ اگر کوئی میرے سامنے میری ماں کی گستاخی کرے گا تومیں اس کا منہ توڑ دوں گا‘‘ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی کی دل آزاری۔۔۔ گستاخی۔۔۔ بدزبانی ۔۔۔ اور دریدہ دہنی کی آزادی ہر گز نہیں ہے۔۔۔بین الاقوامی قانون کے پیمانے پر اگر دیکھا جائے تو اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کی میثاق برائے سیاسی و شہری حقوق کی دفعہ 20 کی شق 2 میں واضح طور پر لکھا ہے کہ:

Any advocacy of national, racial or religious hatred that constitutes incitement to discrimination, hostility or violence shall be prohibited by low.

’’ کوئی ایسا اظہارِ خیال جو قومی سیاسی ، نسلی یا مذہبی منافرت پر مبنی ہو اور وہ کسی بھی طرح کے ناروا امتیاز ، عداوت یا تشدد کا موجب بنے، اسے قانوناً ممنوع قرار دیا جانا چاہیے۔‘‘

7؍ جنوری 2015ء کو فرانس میں دو اہم واقعات پیش آئے۔۔۔ دونوں واقعات کا بظاہر کوئی تعلق نہ تھا۔۔۔ ان واقعات میں یورپ کے لئے خاصا ایندھن تھا۔۔۔ پہلا واقعہ معروف فرانسیسی ناول نگار Michel Houellebecq کے ناول Submission کی اشاعت تھا، یہ ناول فرانس اور پھر یورپی یونین کی اسلامائزیشن کے تصور پر مبنی تھا، یہ محض فکشن تھا۔۔۔ دوسرا واقعہ جریدہ چارلی ایبڈو پر حملہ تھا، یہ واقعہ گو کہ حقیقی تھا مگر فرانسیسی انٹیلی جنس کی مشکوک حرکتیں بتارہی تھیں کہ بہت کچھ فکشن ہی تھا، یہ بھی دل چسپ باہمی اتفاق تھا کہ حملے سے پہلے چارلی ایبڈو کے آخری شمارے کا سرورق ناول Submission کا اشتہار تھا۔۔۔ اسی جریدے نے 2009 میں اسّی سالہ کارٹونسٹ Maurice Sinet کو نہ صرف اس لئے نوکری سے نکال دیا تھا کہ اس نے سامی مخالف ( یہودی مخالف) کارٹون بنایا تھا،بلکہ کارٹونسٹ پر نسلی منافرت انگیزی کے الزامات لگا کر عدالت میں گھسیٹا بھی گیا تھا۔۔۔ اس وقت یورپ کا حقِّ آزادی اظہار کہاں تھا۔۔۔؟؟ سامی عزّت و ناموس نعوذباللہ کیا شانِ محمدی ﷺ سے بڑھ کر تھی۔۔۔؟؟ چارلی ہیبڈو واقعے میں یورپی منافقت کھل کر سامنے آچکی تھی۔۔۔

واردات پر ہٹ دھرمی :۔۔۔ملعون گستاخ گیرٹ نے اپنے منصوبے کی منسوخی کی خبر کے ساتھ اپنی ہٹ دھرمی بھی ظاہر کی۔۔۔ اور اسلام دشمنی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے اس گستاخی کے سلسلے کو دوبارہ عمل میں لانےسے متعلّق کہا ہے کہ۔۔۔مقابلے کے انعقاد پر دھمکیاں اپنے عروج پر ہیں، اسے ڈر ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ان ’’ جنونی مسلمانوں ‘‘ کو روک نہیں پائیں گے، اور اس قتل عام کی ذمے داری کوئی بھی قبول نہیں کرے گا، اس مقابلے کی وجہ سے میرے علاوہ ہالینڈ بھی مسلم انتہا پسندوں کا ہدف بن گیا ہے اور میں اپنے ملک کو تشدد کا شکار ہوتے نہیں دیکھ سکتا، چنانچہ ’’اسلامی خوں ریزی ‘‘سے بچنے کے لئے یہ مقابلہ منسوخ کر رہا ہوں۔ ملعون گستاخ گیرٹ نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کے ایک عالم ( علامہ خادم حسین رضوی ) نے اس کے خلاف قتل کا فتویٰ دیا ہےاور ایک پاکستانی شخص چوہدری جنید لطیف گجر اسے قتل کرنے کی نیت اور اعلان کے ساتھ ہالینڈ میں داخل ہوا، جسے گرفتارکر لیا گیا ہے، جب کہ ایک پاکستانی کرکٹر (خالد لطیف) نے اس کے سر کی قیمت بھی مقرر کی ۔۔۔ملعون گیرٹ کو اپنے انجامِ بد کا یقین ہے، مگر پھر بھی اس نے اسلام کے خلاف اپنی جدوجہد کو نئے عزم کے ساتھ جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔۔۔

پھر کیوں ناں مسلمان پکاریں کہ

خاک ہوجائیں عدو جل کر مگر ہم تو رضا
دم میں جب تک دم ہے ذکر ان کا سناتے جائیں گے

سیّد محمد مبشر اللہ رکھا قادری

ڈائریکٹر : اسکالرز انسائیکلوپیڈیا پروجیکٹ

خادم: انجمن ضیائے طیبہ

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi