مطالعہ کیسے اور کیوں؟


تجربہ ومشورے: تحرير: صاحبزاده ڈاکٹر مفتی حق النبی سكندری ازہری (شاہ پور چاکر، سندھ) مشہور عرب شاعر و ادیب عباس العقاد کا مقولہ کسی دور میں پڑھا تھا جو اچانک یاد آیا تو سوچا اس اہم موضوع پر ہمارے دينی مدارس کے طلبہ کے لئے خاص طور پر اور دیگر پڑھے لکھے افراد كے نفعِ عام كے لئے مطالعے اور اس کی اہمیت کے متعلق چند نکات لکھ دیے جائیں تا کہ طلبۂ کرام اس سے استفاده كريں۔

ہمارا ذاتی تعلق پڑھنے پڑھانے کی فيلڈ سے ہے جس میں شدت سے خارجی و ہم نصابی(غير نصابی کہنا غلط رہے گا) کتب کے مطالعے سے طلبہ کی دوری شدید طور پر محسوس كی گئی ہے جس کے مضر اثرات معاشرے میں ہر طرف ديکھنے کو مل رہے ہیں۔

’’المتشبع بما لم يعط‘‘كے حاملين سوشل ميڈیا اور ہر محاذ پر نظروں کے سامنے ہیں جو کسی معاشرے کے فكری تنزل اور علمی كساد بازاری كی خطرناک صورت ہے۔

خير! عباس العقاد کہتے ہیں:

اچھا قاری وہ نہیں جو دن بھر میں کسی کتاب کے سو صفحات پڑھ ڈالے، بلکہ اچھا قاری وہ ہے جو کسی کتاب کو پڑھ کر اس کے اصل مفہوم كو كَمَا حَقُّہٗ سمجھ سکے اور اس پر کچھ مزيداضافے کی صلاحيت اس میں پیدا ہو۔

عباس العقاد كے اس سارے فن کو تدریسی زبان میں کسی قاعدے کے قلب میں ڈھالا جائے تو قاعدہ یہ بنے گا:


العبرة بالكيف لا بالكم والمقدار۔

’’اصل اعتبار’’ كَيْف‘‘( كوآلٹی) کا ہونا چاہیے، نہ کہ تعدادِ اوراق کا۔‘‘

مناہجِ تعلیم، جو اب ایک مستقل ’’علم‘‘ بن چکا ہے، اُس سے ہمارے دینی مدارس کے تدریسی سسٹم میں استفادے کی کوئی صورت اب تک نظر سے نہیں گذری، جو خوش آئند امر نہیں کہلائے گا۔

اِس علم کو بطورِ ’’فن‘‘ متعارف كرانے کا سہرا اگرچہ جدید علمائے تعلیم کے سر جاتا ہے، لیکن ایسا ہرگز نہیں کہ ’’علومِ اسلامیہ‘‘ کا دامن اس سے خالی ہو، بلکہ سب سے پہلے اس موضوع پر لکھنے والے ہمارے علمائے اسلام ہی ہیں، جن میں محدثينِ كرام سرِفہرست ہیں۔ سر دست یہ گزارش کرنی ہے کہ ’’مطالعہ کیسے کیا جائے اور اس کے مقاصد وطرق کیا ہیں‘‘ جیسے موضوع پر ہمارے علما کی عمدہ کتب موجود ہیں،جن کے تعارف میں الگ مقالہ پیش کیا جائے گا۔

اِس وقت جو مطالعے کی اہمیت اور افاديت كے حوالے سے چند گزارشات پیش کرنی ہیں ان کا تعلق من حيث المجموع مطالعے سے ہی ہے۔

طلبۂ کرام خصوصاً دينی مدارس کےجو ہمارے اس موضوع كا ہدفِ خاص ہیں وہ ان باتوں کو پلّے سے باندھ لیں تو سفر تعليم ميں بظاہر لکھے گئے یہ چند نکات بہت ہی کارآمد ثابت ہوں گے۔

۱۔کتب سے لگاؤ اور مطالعے کی عادت کبھی بھی نصابی و مقررہ کتب سے پیدا ہوتے نہیں دیکھی۔مطالعے کا ذوق خارجی و ہم نصابی کتب سے پروان چڑھتا ہے۔

مطالعے میں شغف پیدا کرنے كے اہم اسباب میں سے ایک اہم سبب ’’اپنے تخصص کی خارجی کتاب کا پڑھنا‘‘ بھی ہے۔ کیوں کہ نصابی ومقررہ كتاب محض ڈیوٹی کی ادائیگی یا فرض ادا كرنے کے مترادف ہے، جس میں،عزّتِ نفس كی مجروحی، خوفِ استاذ، امتحان ميں ناکامی وغيره جيسے اسباب ملحوظ ہوتے ہیں،جس کی وجہ سے نصابی كتب سے ذوقِ مطالعہ نہیں بڑھتا؛لہٰذا اَسباقِ مدرسہ کو اچھی طرح سنا كر خود كو ’’صاحبِ ذوقِ مطالعہ‘‘ سمجھنے والا خيال عبث ہے۔

۲۔مطالعے کا ذوق بھی عمر اور تجربے کے اعتبار سے پروان چڑھتا ہے،جس میں رياضتِ نفس(عادت) كو بڑا دخل ہے،جس قدر عادت مستحكم ہوگی اس قدر یہ جذبہ و شوق پروان چڑھے گا۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ والدِ گرامی حضرت مفتیِ اعظم سندھ علامہ مفتی عبدالرحيم سكندری نور الله مرقده اپنی شان دار لائبریری سے بڑی سے بڑی کتاب اٹھانے سے منع نہیں کیا کرتے تھے اور ہمیشہ فرمايا كرتے تھے: ’’آپ لگے رہیے، یہ بڑی کتاب بھی سمجھ آ ہی جائے گی۔‘‘

مطالعے کی عادت ڈالنے کے لئے آپ کا حكيمانہ طرزقابلِ تقليد تھا کہ اپنے مطالعے کےلئے کوئی شے درکار ہوتی تو میری موجودگی میں اپنے کسی شاگرد سے طلب نہ کیا کرتے تھے بلکہ مجھے مطلوبہ کتاب لانے کا کہتے، کتاب لا کر پیش کرتا تو چند منٹ جو تین سے زیادہ نہ ہوں گے آپ اس کتاب کے مصنّف،موضوع،ابواب وفصول بتاكر اس كتاب كا کوئی نہ کوئی دل چسپ پہلو ضرور بتايا كرتے تھے جو میرے دل ودماغ ميں اس کتاب سے دل چسپی وتعلق کا سبب بن جاتا تھا اور ساتھ ہی کتاب کے تعارف كا حسبِ استعداد وفہم حصّہ بھی ذہن نشین ہوجاتا تھا۔

یہاں اہم بات یہ کرنی ہے کہ چوں کہ مطالعے کا ذوق، عمر اور تجربے كی طرح بڑھتا ہے پروان چڑھتا ہے؛ لہٰذا، اس میں دیگر اکابر علما کی جیسی ہمت اور استعداد نہ ہونے کی وجہ سے دل برداشتہ ہوکر کتب بینی چھوڑنی نہیں چاہیے۔

۳۔مطالعے کا ذوق بڑھانے یا پیدا کرنے کا ایک اہم ذریعہ ’’خواه مخواه مكتبات كی سیر‘‘ بھی ہے۔ یہاں ’’خواه مخواه‘‘ كا لفظ مقصود ہے، کیوں کہ کتاب خریدنے کے لئے تو مکتبات پر جانا ہی پڑتا ہے، اس کے بغير چارہ نہیں ہوتا؛ مگر مکتبات کی خواه مخواه سير بھی نہایت مفيد ہے۔

فقير زمانۂ طالبِ علمی کے دوران جامعہ نظاميہ لاہور سے جمعرات کی چھٹی ہوتے ہی اردو بازار کا رخ كيا كرتا تھا، جس کی گواہی میرے تمام ہم سبق ساتھی دیں گے اور ابتدا میں تو یہ بات بھی پیشِ نظر رہتی تھی اور جھجک کا باعث بھی رہی کہ مکتبے والا کیا کہے گا کہ کتاب تو خريدتا نہیں، بس یوں ہی دیکھ کر اور پوچھ پچھا کر چلاجاتا ہے۔ کبھی اس شرمندگی پر کنٹرول اور صاحبِ مكتبہ کو یہ باور کرانے کے لئے کتاب خريدنا بھی ضروری ہوجاتا تھا،جو بہر حال مفيد رہا۔

یہ عادت اس قدر محكم رہی کہ اردو بازار لاہور کے مشہور (غير سنّی) مكتبے ’’احمد شہید‘‘ جسے ہم سبق ساتھی ’’احمد قتيل‘‘ كہنا پسند کرتے تھے کے مالک سے اچھی خاصی شناسائی ہوگئی۔ وه مجھے دیکھ کر کھڑا ہوجاتا اور کہتا:

’’مَاشَآءَ الله! صاحبزاده صاحب آگئے۔‘‘

چوں کہ آنے جانے کی وجہ سے وہ میرے خاندانی پس منظر سے بھی واقف ہوچکا تھا، اس لئے وہ اس نام سے پکارتا تھا۔ سن ٢٠٠٨ء ميں جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور سے اکتسابِِ فيض كے بعد جامعة الازهر شريف قاہرہ پہنچا تو یہ عادت پکی ہوچکی تھی اور اب ہفتے میں ایک دن کے بجائے دو دن مكتبات کا چکر لگانے میں گزرتے تھے، جو آخر ایام میں تعداد کی اس قید سے نکل کر ’’جب دل چاہا مکتبے پر آگئے‘‘ کی شکل اختيار كرچکے تھے۔

مکتبہ احمد شہید کے اس سفيد ريش مالک کے حافظے پر(یا غالباً ميرا كثرت سے آنا سبب تھا ) بھی مجھے حيرانی ہوئی، جب میں ۲۰۱۷ء میں اتنے عرصے بعد لاہور گیا تو ایک کتاب خريدنے اسی مکتبے کا رخ كيا، مجھے دیکھتے ہی کچھ دیر تامّل کیا اور فوراً بول پڑا آپ اتنے سال کہاں گم تھے؟

ميں ذاتی طور پر، مكتبوں کے اس خواه مخواه چکر کو مطالعے کے ذوق میں زیادتی کا اہم سبب سمجھتا ہوں، اس لئے طلبۂ کرام دورانِ تعلیم اس عادت کو اپنائیں گے تو فائدہ ہوگا۔

۴۔ابتدا میں کسی موضوع کی چھوٹی کتب یا رسائل پڑھنا بھی استیعابِِ موضوع کے لئے ممد ومعاون ہونے کے ساتھ ایک شعور پیدا کرتی ہیں جسے کسی ’’تکمیلِ کتاب‘‘ کی خوشی کہیے تو مناسب رہے گا جس کی وجہ سے طبيعت ميں چستی پیدا ہوتی ہے اور انسان مطالعے کی عادت کی طرف بڑھتا جاتا ہے۔

ويسے بھی اسے علمِ تصوف كے ساتھ علمِ نفسيات كا بھی اصول کہیے تو بجا ہوگا کہ اس میں: ترويض النفس علي صغار الأشياء قبل كبارها. (نفس كو چھوٹی چھوٹی اشیا کی عادت بڑی اشیا سے قبل ڈالنا) کے اصول پر عمل ہوجاتا ہے اور مطالعے کی عادت مزید مستحكم ہوجاتی ہے۔

ہمارے استاذ حضرت شرفِ ملّت علامہ عبدالحكيم شرف قادری ﷫نے جب ترجمۂ قرآن کی تکمیل کی تھی، تب ہم سب ساتھی اتفاقاً حضرت استاذ گرامی علامہ خادم حسين رضوی كی معیت میں ان کی طبع پُرسی کو حاضر تھے آپ نے فرمايا: چلیں اچھا ہوا کہ آپ سب طلبہ آگئے،میرے ترجمۂ قرآن کی آخری آيت كا ترجمہ رہتا ہے، وہ آپ حضرات علما وطلبہ کی موجودگی میں لکھ کر مکمّل کردوں، یہ کہہ کر آپ اٹھے اور مسند پر جابیٹھے اور ترجمہ لکھا اور دعائے خير ہوئی۔ یہ ایک پر کيف محفل تھی جس کا منظر میں کبھی نہیں بھولتا۔ میں نے جب یہ سنا کہ آپ نے سورۂ نجم کی آخری آيات كا ترجمہ کیا تو پوچھے بنا نہ رہ سکا کہ یا تو ترجمے کی ابتدا سورۃ البقرۃ سے فرمائی ہوتی یا سورة الناس سے یہ غير معہود طريقہ کیوں اپنایا؟ کوئی سبب؟

آپ کا جواب میری سابقہ گفتگو میں بیان کیےگئے قانون کا خلاصہ نکلا وہ یہ تھا کہ: بیمار ہوں تو لمبی سورت کا ترجمہ کرنے کی ہمت بوجہِ علالت نہیں ہوتی تھی تو سوچا پہلے قصار سورت کا ترجمہ کرلوں تو دل کو خوشی حاصل ہو پھر ایک نئے جذبے سے دوسری سورت کا ترجمہ کیا کرتا تھا،اس لئے ایسا ہوا۔

۵۔کتاب میں دل چسپی پیدا کرنے کا اہم ذريعہ اس کے موضوع اور ابواب كے خلاصے کا علم بھی ہے۔

کبھی کبھار آپ کتاب کے ہوش رُبا عنوان کی وجہ سے کتاب خريدليتے ہیں، مگر اس کے اندر قابلِ قدر معلومات يا موضوع سے انصاف نہیں پایا جاتا تو آپ مایوسی کا شکار ہوکر کتب بینی ومطالعے سے دور ہٹ سکتے ہیں۔

لہذا کسی بھی کتاب کا خلاصہ جاننے کے لئے سب سے پہلے اس کی فہرست پر نظر ڈالنا نہایت ضرور ی ہے، جسے دیکھنے کے بعد آپ کے ذہن میں کتاب کا ایک تصورِ عام آجاتا ہے جو بعد میں کسی پریشانی سے بچنے کا اہم ذریعہ ہوا کرتا ہے۔

مزید ہوسکے تو کتاب کے مقدمے پر سرسری نظر ڈال کر اطمینان کرلیں۔

۶۔مطالعے کی عادت میں چاشنی وترقی کا ایک ’’گر اور ہنر‘‘ یہ بھی ہے کہ بیک وقت مطالعے میں اپنی پسند کے دو الگ الگ موضوعات پر دو کتب رکھیے۔وہ اس لئے کہ اگر ایک کتاب یا موضوع سے طبيعت اچاٹ ہوجائے، دل بھر جائے تو تفريحِ طبع كے لئے دوسرے موضوع كی کتاب پڑھ لیجیے، یوں ایک تازگی بھی آجائے گی اور آپ دونوں صورتوں میں اكتسابِِ علم بھی کریں گے اور طبيعت بھی بوجھل نہ ہوگی۔

اس اصول كو فقير يوں تعبیر کرنا مناسب سمجھے گا:

أرتاح من كتاب إلي كتاب آخر أو الإرتياح من كتب إلي كتب أخریٰ۔

٧۔ مُلَحِ علم اور لطيف عناوين پر مشتمل کتب پڑھیے۔

ہمیشہ فقہ و اصول،علمِ کلام و منطق يا كسی مشكل فن کی کتب کا لگاتار مطالعہ بھی ممکن نہیں ہوتا۔انسان بیزار ہوسکتا ہے۔

اس کے لئے علمی لطيفوں اور ادبی چاشنی سے بھرپور کتب کے مطالعے سے یہ بیزاری دور کی جاسکتی ہے۔

ہر فن كے لطيفے یا ادبی چاشنی کے حصول كی کتب الگ الگ ہیں، اگر اپنے متعلقہ فن و تخصص کے لطائف پر مشتمل کتب پڑھیں گے تو ڈبل فائدہ ہوگا وگرنہ کسی بھی اچھے ادبی موضوع کو پڑھ کر تھکن دور کی جاسکتی ہے۔

اس کے لئے: ابن الجوزی اور جاحظ كی كتب اچھی ہیں۔ دیگر علما نے بھی اس پر عمدہ کتب لکھی ہیں۔

۸۔مختصر وقت يا چھوٹی کتاب کے بغور اور استنتاجی مطالعے سے ایک طالبِ علم وہ نکات و فوائد حاصل كرسكتا ہے جو شاید لمبے عرصے اور ایک بڑی کتاب سے حاصل نہ ہوسکیں، اس کے لئے يہ چیزیں شرط ہیں:

حفظ،بحث وتكرار،استنتاج و استنباط كا ملكہ،اور ہمیشگی۔

جو طالبِ علم ان چیزوں پر عمل کرلے جو آہستہ آہستہ پیدا ہوتی ہیں وہ مختصر وقت يا چھوٹی کتاب سے بھی وہ کچھ سیکھ سکتا ہے جو کئی لوگ بڑی کتب سے بھی حاصل نہیں کرسکتے۔

استنباطی يا استنتاجی ملکہ پیدا کرنے کے لئے مطالعے کے دوران اپنے ہاتھ میں قلم اور کاغذ رکھیے اور مطالعے کے دوران جو فوائد اور نکات ذہن میں آئیں ان کو لکھ لینا نہایت کارگر ہوتا ہے۔

۹۔فارغ التحصيل، بمعنیٰ فارغ از مطالعہ؟

جی ہاں یہ عادت مدارسِ دینیہ کے طلبہ میں (إلَّا مَا شآءَ الله ) مرض کی حد تک بڑھ چکی ہے کہ فارغ التحصيل ہوکر دستاربند شاگرد خود كو مطالعہ سے مبرا سمجھتا ہے!

ہمیں مدارسِ دینیہ کے طلبہ کے ذہن میں يہ بات ڈالنی ہوگی کہ درسِ نظامی سے فراغت كی ڈگری كی مثال محض اس چابی کی طرح ہے جو کسی خزانے کو کھولنے کے کام آئے، درسِ نظامی ميں جتنے علوم پڑھائے جاتے ہیں وہ مکمّل تو پڑھائے نہیں جاتے، البتہ محض ان علوم كی مفاتيح(چابیاں) طالبِ علم کے حوالے کی جاتی ہیں، جس کے استعمال کا طريقہ سکھانے کے بعد طلبہ کو یہ سمجھانا ہم بھول جاتے ہیں کہ ’’یہ چابیاں ہیں خزانہ نہیں ہیں‘‘۔ مجھے درسِ نظامی كے فضلا كو عرفاً اور مجازاً ’’عالم‘‘ کہنے میں کوئی تامّل نہیں ہے، پر حقیقتاً يہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ہمارا یہ کورس کسی کو مکمّل عالم نہیں بناتا، بلکہ علم کا راستہ دکھاتا ہے۔

آپ حضرات تاریخِ اسلام كا مطالعہ کیجیے گا تو معلوم ہوگا کہ حقيقی ومتبحر علما وہی بنے جن کی زندگی میں مطالعہ و کتب بینی کا وافر حصّہ تھا۔

لہٰذا، مدارسِ دینیہ کے طلبہ کے اندر فراغت كے بعد کتاب و مطالعےسے دوری کی عادت و سوچ کو ختم كرنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی حاجت ہے وگرنہ... يَحْمِلُوْنَ أَسْفَارًا كا منظر كثرت سے دیکھنے کو ملنا کچھ بعید نہ ہوگا۔

۱۰۔ہم ذوق ساتھی۔

مطالعے کی عادت میں ترقی کے لئے ہم ذوق و ہم خيال ساتھی کا انتخاب کیجیے کہ جس سے آپ کتاب پڑھنے کے بعد یا پہلے اس موضوع پر بحث وتكرار كرسكيں۔

اس سے کتب بینی ومطالعہ کے حامل طلبہ پر مشتمل ماحول بھی بنتا ہے اور طالبِ علم کے اس ذوق کے پروان چڑھنے کے مواقع مزید بڑھتے ہیں۔

ياد رکھیے کہ انسان علم کے بغير کچھ نہیں،بالخصوص عالم دين كے جو اس پُر فتن دور ميں الحاد، مادّیت،فرقہ واريت و تكفير جيسے چیلنجز سے دوچار ہے اسے ان سب خطرات كا مقابلہ فقط علم سے کرنا ہے جس کے لئے انتھک کوشش سے مطالعہ و علم کے شائق علما کی کھیپ تیار کرنا ضروری ہے۔

پڑھیے کہ پڑھے بغير اور بلا علم تبلیغ،تنفير بن سکتی ہے،بغير علم كے عبادت بھی بدعت كے زمرے میں شامل ہوسکتی ہے، بلا علم جہاد دہشتگردی کی صورت اختيار كرجاتا ہے جس سے معاشرے برباد ہوتے ہیں۔

آخر ميں تنظيم المدارس اہلِ سنّت کے صدرِ گرامی و دیگر عہدیداران کی خدمت میں عرض ہے کہ شهادة العالميۃ کےلئے لکھے گئے مقالات کی نشر واشاعت كا مستقل شعبہ بناکر مدارسِ دينیہ کے طلبہ میں موجود جمود کو ختم كيا جاسكتا ہے۔ جب طالبِ علم كے مقالے کا مقصد محض پاس ہونا ہو تو وہ ڈیوٹی کی ادائیگی اور پاس ہونے کی حد تک دل چسپ رہے گا،تکوینِ ملکہ علم میں اسے کوئی دخل نہیں ہوتا۔

اچھے موضوعات پر لکھے گئے مقالات کی نشر و اشاعت حوصلہ افزائی کے ساتھ ایک نئے علمی ماحول کے پیدا ہونے کا اہم ذریعہ ہوگا،عالمی سطح کی جامعات میں اہم مقالات کی نشر و اشاعت پابندی سے جاری ہے جو محنتی و قابل طلبہ کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ان کی دریافت كا بھی اہم سبب ہے۔ اس کے لئے ایک جامع پلان تنظيم المدارس اہلِ سنّت کے منتظمين کی خدمت میں پیش کرنے کا ارادہ ہے جو مناسب وقت پر پیش کرنے کی سعادت حاصل كروں گا۔

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi