جب قرآن کو گانے کی طرز پر پڑھا جائے


از:تاج الشریعہ مفتی محمد اختر رضاخاں قادری ازہری دامت برکاتہم العالیۃ

تخریج : عبید الرضا مولانا محمدعابد قریشی

تجوید کےقواعد کا خیال نہیں رکھیں گے اور جو قرأت کا طریقہ سرکار ﷺ کے زمانے سے متوارث ہے اس کی پیروی نہ کریں گے یعنی گانے کے طور پر اتار چڑھاؤکےساتھ قرآن پڑھیں گے یا سازکے ساتھ قرآن کی تلاوت کریں گے۔

بلکہ’’اتقان فی علوم القرآن للامام جلال الدین سیوطی‘‘میں ہے کہ: لوگوں نےتلاوتِ قرآن میں گانوں کی آوازیں ایجاد کرلیں، حضورﷺنے ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ ان کے دل فتنوں میں ہیں اور جنھیں ان کا حال پسند ہو اُن کے دل بھی فتنے میں ہیں ۔

جو طرز انھوں نے ایجاد کیے اُن میں سے ایک کا نام ’’ترعید‘‘ رکھا اور وہ یہ ہے کہ قاری کانپتی ہوئی آواز بنائےگویا کہ وہ ٹھنڈک سے یا تکلیف سے کانپ رہا ہے اور دوسرے طرز کا نام ’’ترقیص‘‘ رکھا اور وہ یہ ہے کہ حرفِ ساکن پر سکوت کا ارادہ کرے، پھر وہاں سےحرکت کے ساتھ چل پڑےگویاکہ وہ دوڑلگارہاہے یا تیز رفتاری میں ہے۔ ایک طرزاور نکالاہے جس کا نام ’’تطریب‘‘ رکھا اور وہ یہ ہے کہ قرآنِ کریم کوترنّم سےاور لحن سے پڑھے اس طور پر کہ جہاں مد نہیں کیا جاتا، وہاں مد کرے اور مد میں بے جا، خلافِ قاعدہ زیادتی کرے اور ایک طرز کا نام ’’ تحزین‘‘ہے اور وہ یہ کہ قرآنِ کریم غمگین انداز میں پڑھے جیسے خشوع و خضوع کے ساتھ روئے دیتا ہو۔ [1]

اقول: اس میں کوئی حرج نہ ہونا چاہیےجب کہ تجوید کے ساتھ پڑھےقواعدِقرأت کا لحاظ رکھے، دکھاوا مقصود نہ ہو بلکہ بے ساختہ رقت طاری ہوجائے۔اس لئے کہ علما نے تصریح فرمائی، ان میں امام جلال الدین سیوطی بھی ہیں، جو اسی’’اتقان‘‘ میں فرماتے ہیں کہ قرأتِ قرآن کے وقت رونا مستحب ہے اور جو رونے پر قادر نہ ہو وہ رونی صورت بنائے اور حزن و خشوع تلاوت کے وقت مندوب ومحبوب ہے۔

قال اللہ تعالٰی:

وَیَخِرُّوۡنَ لِلۡاَذْقَانِ یَبْکُوۡنَ

یعنی اور ٹھوڑی کے بل گرتے ہیں روتے ہوئے۔

[پ:۱۵/ الاسرا: ۱۰۹]

اور ’’صحیحین‘‘ میں وہ حدیث ہے جس میں حضرت عبداللہ ابنِ مسعود کا نبی ﷺ کے لیے قرآن پڑھنا مذکور ہے اس میں ہےکہ حضرت عبداللہ ابنِ مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے دیکھا کہ ناگاہ حضورﷺکی آنکھوں سے اشک رواں تھے۔ [2]

اور بیہقی ’’شعب الایمان‘‘ میں سعد ابنِ مالک سے مرفوعاً روایت ہے کہ: ’’بے شک قرآن حزن وبے چینی کی حالت کےساتھ اترا ہے تو جب تم اس کوپڑھو تو روؤ،پھر اگر تمہیں رونا نہ آئے، رونی صورت بناؤ۔‘‘

اور اسی میں عبد المالک ابنِ عمیر کی مرسل احادیث میں سے ایک حدیث ہےکہ رسول اللہﷺنے فرمایا: ’’تم پر ایک سورت تلاوت کرتاہوں تو جو روئے اس کے لئےجنّت ہے پھر اگر تمہیں رونا نہ آئے روتے بنو۔‘‘ [3]

اور ’’مسندِ ابو یعلیٰ [4] میں ہے کہ:قرآن کو حزن کے ساتھ پڑھو اس لئے کہ وہ حزن کے ساتھ اترا، اور ’’ طبرانی [5] میں ہے کہ لوگوں میں سب سے اچھا قاری وہ ہے جو قرآن پڑھےتوغمگین ہو۔

اور ’’شرع المھذّب‘‘ [6] میں فرمایا کہ تحصیلِ گریہ کا طریقہ یہ ہے جو پڑھ رہا ہے اس میں تہدید و وعیدِ شدید اور جو عہدو پیما ن ہیں ان میں غور کرے پھر اپنی کوتا ہی کو یاد کرے، اب بھی اگر رونا نہ آئے اور غمگین نہ ہوتو اس بات کے نہ ملنے پر روئے اس لئے کہ یہ مصائب میں سے ہے۔ [7]

علامہ جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں کہ: اسی (مذکور طرزوں )کے قبیل سے ایک بدعت وہ ہے کہ بہت سے لوگ اکھٹے ہوکر، بَہ یک آواز پڑھتے ہیں ’’افلا تعقلون‘‘ کو ’’افل تعقلون‘‘ (الف کے حذف کے ساتھ) پڑھتے ہیں اور ’’قالوا اٰمنا‘‘ واؤ کے حذف کے ساتھ ’’قال اٰمنا‘‘ پڑھتے ہیں، جہاں مدنہیں وہاں مد کرتے ہیں تاکہ جوانھوں نے اپنایا ان کا طریقہ بن جائے اور مناسب یہ ہے اس کانام ’’تحریف‘‘ رکھاجائے۔ [8]

اقول: بے شک تحریف ہےاور قصداًاس طور پر پڑھنے والا مستحقِ تحریف قرار پائے گا۔

یہاں سے ظاہر ہوا کہ مجرد تحسینِ صوت اور خوش الحانی جب کہ زیادتی ونقصانِ حروف اور مد مفرط اور تمطیط (بے جا کھیچ تان )سے پاک ہو اور قواعدِ قرآن کی رعایت کی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، بلکہ یہ مسنون ہے۔

حدیث ابنِ حبان وغیرہ میں ہے: ’’زینو القرآن باصواتکم [9] وفی لفظ عند الدارمی [10] حسنوا القرآن باصواتکم فان الصوت الحسن یزید القرآن حسناوأخرج البزار [11] وغیرہ حدیث حسن الصوت زینۃالقرآن وفیہ احادیث صحیحۃ کثیرۃ فان لم یکن حسن الصوت حسنہ ما استطاع بحیث لا یخرج الٰی حد التمطیط [12] یعنی قرآن کو اپنی آوازو ں سے مزین کرو ، اور دارمی کی ایک روایت میں ہے: ’’ قرآن کو اپنی آوازوں سے سنوارو ، اس لئے کہ اچھی آواز قرآن کے حسن کو بڑھاتی ہے‘‘۔ اور بزار وغیرہ نے حدیث روایت کی کہ: ’’اچھی آواز قرآن کی زینت ہے اوراگر قاری خوش آواز نہ ہوتو جہاں تک ہو سکے اچھی آواز بنائے۔ پر رونے کی کوشش میں’’تمطیط‘‘ کی حد تک نہ پہنچے۔

یہاں سے معلوم ہوا کہ ’’تمطیط ‘‘ جو ناجائز ہے، وہ یہ ہے کہ مد میں بہت مبالغہ کرے اور حرکات کے اشباع میں مبالغہ کرے یہاں تک کہ زبر سے ’’الف ‘‘ پیش سے ’’واو‘‘ زیر سے ’’یا‘‘ نمایاں ہوجائے یاجہاں ’’ادغام‘‘ کامحل نہیں وہاں ’’ادغام‘‘ کرے۔

نیز حدیث میں ہے کہ سرکارﷺنے فرمایا: ’’اقراؤالقرآن بلحون العرب وأصواتھا وایاکم ولحون اھل الکتابین وأھل الفسق فانہ سیجئی أقوام یرجّعون بالقرآن ترجیع الغناوالرھبانیۃ (وفی نسخۃ والنوح)لا یجاوز حناجرھم مفتونۃ قلوبھم وقلوب من یعجبھم شانھم أخرجہ الطبرانی [13] والبیھقی [14] یعنی قرآن کو عربوں کے طرز اور اُن کی آواز کے ساتھ پڑھواور یہودو نصارٰی کے طرز سے اپنےآپ کو دور رکھواور اہلِ فسق [15] کے طرزسے بچو۔

اس لئے کہ کچھ ایسے آئیں گے جوقرآن میں گانے کی طرح ’’ترجیع ‘‘(اُتار چڑھاؤ )سے کام لیں گے اور اہلِ رہبانیت کے طور پر پڑھیں گے۔قرآن اُن کے گلوں سے نیچے نہ اترے گا، ان کےدل فتنوں میں پڑے ہیں اور ان کے دل بھی جنہیں ان کا یہ حال بھلا لگتا ہو، اس حدیث کو طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا۔ [16] تلاوت میں ایک مذموم طریقہ یہ بھی ہے کہ عورتوں کی آواز بناکر تلاوت کرے، یہ خود نا جائز ہے تشبیہ کی وجہ سے اور گانے کے طرز پر ہونے کی وجہ سے۔

علمافرماتے ہیں کہ ’’تفخیم‘‘کے ساتھ پڑھنا مطلوب ہے اس لئے حاکم کی حد یث میں: ’’نزل القرآن بالتفخیم [17] قال الحلیمی ومعناہ أنہ یقرؤہ علی قرائۃ الرجال ولا یخضع الصوت فیہ ککلام النساء‘‘ [18] یعنی قرآن’’تفخیم‘‘کےساتھ اترا۔ حلیمی نے فرمایا: ’’تفخیم‘‘ کا معنیٰ یہ ہے کہ قرآن کو مَردو ں کی تلاوت کے طرز پر پڑھے اور اس میں عورتو ں کی بولی کی طرح آواز پست نہ کرے ۔

(’’آثارِ قیامت‘‘،مطبوعۂ دارالنقی،کراچی، ص:25تا30)



[1] الاتقان فی علوم القرآن/النوع الرابع والثلاثون/فی کیفیۃتحملہ/ ج:/1 ص: 351۔

[2] صیح البخاری/کتاب تفسیرالقرآن/باب: فکیف اذاجئنامن کل امۃ بشھید (الآیۃ)/رقم الحدیث:4582/ص:1127۔

[3] شعب الایمان /تعظیم القرآن /فصل فی البکاءعندالقراءۃالقرآن /ج:3 / ص:410۔

[4] لم اجد۔

[5] المعجم الکبیر/باب احادیث عبد اللہ بن العباس /طاؤس، عن ابن عباس / رقم الحدیث: 10852 ج:11 /ص: 8۔

[6] شرح المھذب/باب مایوجب الغسل/ج:/2ص:165۔

[7] الاتقان فی علوم القرآن/النوع الخامس والثلاثون/فی آداب تلاوتۃ (الخ)/ج:1 /ص372،371

[8] الاتقان فی علوم القرآن/النوع الرابع والثلاثون/فی کیفۃتحملہ/ج:1 / ص:351

[9] صحیح ابن حبان / کتاب الرقائق /باب قراءۃالقران /ذکرالا باحۃ تحسین المرء صوتہ باالقرآن /رقم الحدیث:749 /ج:3 /ص :25

[10] سنن الدارمی /کتاب فضائل القرآن /باب التغنی باالقرآن /رقم الحدیث :3544 /ج: 4 /ص: 2194

[11] مسند البزار/مسند عبداللہ بن مسعود /حمادبن ابی سلیمان عن ابراھیم/ رقم الحدیث:1553 /ج:4 /ص:353 (مفھوما)

[12] الاتقان فی علوم القرآن /النوع الخامس والثلاثون /فی آداب تلاوتہ (الخ) /ج:1/ص:372

[13] المعجم الاوسط/ باب المیم /من اسمہ محمد /رقم الحدیث: 7223 /ج:7/ ص: 183۔

[14] شعب الایمان/تعظیم القرآن /رقم الحدیث:2406 /ج:4 /ص: 208۔

اس حدیثِ پاک کو صاحبِ مشکوٰۃ نے ص ۱۹۱ پر اور صاحبِ تیسر نے جلد ۲ ص ۱۹۴ پر حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بایں الفاظ روایت کیا: ’’قال رسول اللہ ﷺ ’’اقرؤاالقرآن بلحون العرب واصواتھا وایاکم ولحون اھل العشق ولحون اھل الکتٰبین وسیجئی بعدی قوم یرجعون بالقرآن ترجیع الغنا والرھبانیۃ والنوح لا یجاوز حناجزھم مفتونۃ قلوبھم وقلوب الذین من یعجبھم شانھم‘‘ یعنی رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ قرآنِ مجید عرب کےلحنوںمیں پڑھواور یہودونصارٰی، اہلِ عشق کے لحنوں سے بچو کہ عنقریب میرے بعد کچھ ایسے لوگ آنے والے ہیں جو قرآن ’’آ، آ‘‘ کرکے پڑھیں گےجیسے گانے کی تانیں اور راہبوں اور مرثیہ خوانوں کی ا تار چڑھاؤ، قرآن اُن کے گلے سے نیچے نہ اترے گا(یعنی ان کے دلوں پر کچھ اثر نہ کرے گا)فتنے میں ہوں گے ان کے دل اور جنھیں ان کی یہ حرکت (اس طرح اتار چڑھاؤ والی قرأت )پسند آئے گی ان کے دل بھی۔

[15] آج یہ بات حفّاظ وقرائے زمانہ میں عموماًمشاہدہ کی جاسکتی ہے کہ خوش الحانی اور اتار چڑھاؤکا بڑا خیال کرتے ہیں اگرچہ سال کے گیارہ مہینے نماز کے قریب تک نہ گئے ،داڑھی منڈوائی ، حرام کا ارتکاب کیااور رمضان آتے ہی مصلے پر کھڑے قرآن سنانےلگے،حد تو یہ ہے کہ عوام بھی صحیح القرآۃقراء کو پس پشت ڈال کر گانے جیسی قرأت اور عورت جیسی آواز والے قراء پسند کرتے ہیں بھلے وہ مخارج کی صیح ادائیگی اور تجوید سے نہ بلد ہو ں۔ ۱۲/فاروقی غفرلہ

[16] الاتقان فی علوم القرآن /النوع الخامس والثلاثون /فی آداب تلاوتہ (الخ) /ج:1/ص:373۔

[17] المستدرک /کتاب التفسیر /من کتاب قراءات النبی/رقم الحدیث : 2908 /ج:2/ص:252

[18] الاتقان فی علوم القرآن /النوع الخامس والثلاثون /فی آداب تلاوتہ (الخ) /ج:1/ص:373۔

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi