آج کیوں رنگِ سیہ میں رنگ گیا سارا جہاں


قصیدۂ متضمن سہ تاریخ درمنقبت اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خاں بریلوی قدس سرہ القوی

از: حضرت مولانا ابو المساکین محمد ضیاء الدین صاحب پیلی بھیتی ﷫

آج کیوں رنگِ سیہ میں رنگ گیا سارا جہاں
نیل گوں کس کی مصیبت میں ہے رنگِ آسماں
کس کے درد و حزن میں کھوتا ہے عالم اپنی جان
کس لئے کرتے ہیں مرغان چمن آہ و فغاں
اَبر کیوں فرطِ اَلم سے ہو گیا یہ کناں
جوش پر آئی ہیں جوشِ غم سے چشمانِ جہاں
غارِ مغرب میں گرا  کیوں بے خودی سے آفتاب
اوڑھ لی کالی رِدا شرقی اُفق نے نا گہاں
کس کے خونی آنسوؤں سے تر ہے دامانِ شفق
چاک ہے جیب سحر ہو غم کا اس کے کیا بیاں
ماہِ کامل ہو گیا اندوہ سے گھٹ کر ہلال
آ گیا سورج گہن میں ہو گیا وہ بے نشاں
کیوں نہیں چلتی ہے نبض گردشِ دور اس گھڑی
کیوں ہوئی ہے آج ساکن آسیائی آسماں
کیوں نہیں تھمتا ہے عین[1] غین [2] سے غین[3] سرشک
اشک ہائے اعین[4] اعیاں [5] ہیں کیوں باراں پیہم رواں
اس قدر کیوں فرطِ غم سے ہیں تلاطم پر بحار
بے خودی موجوں میں ہے ایسی کہ کھوتی ہیں رواں
کوہ بھی اس صدمۂ جاں کاہ سے کہ ہو گیا
خم ہوئی پشتِ فلک ایسا ہوا وہ ناتواں
قلبِ مہ میں کس کے صدمے سے ہوا داغِ سیاہ
داغ بھی وہ داغ جو باقی رہے گا جاوداں
ریح کس کے رنج میں یک جا نہیں پاتی قرار
غایتِ حیرت سے غنچہ ہو گیا بستہ دہاں
کس کے ماتم میں سراسر خاک بر سر ہے زمیں
اضطراب ایسا ہے کیوں چکر میں جو آسماں
کیوں عروسِ حُسنِ باغِ دہر پردے میں ہوئی
اس قدر کیوں چل رہی ہے تیز اَب بادِ خزاں
ہے کوئی گُل زرد، کوئی نیلگوں، کوئی سیاہ
کس کی فرقت، کس کے غم میں ہے بہارِ گلستاں
بے کلی کلیوں میں ہے ایسی کسی میں بالکل نہیں
بادِ صدمہ کے اثر سے اس کے دل کو کل کہاں
کیوں جگر غنچے کا پھٹ کر پارہ پارہ ہوگیا
بوئے گل کیوں بے قراری میں ہے مثلِ وحشیاں
عالَم سکتہ میں کیوں بے حس کھڑا ہے سرو آج
چشم لالہ حزن میں کس کے ہوئی ہے خوں چکاں
چشم ہائے اہلِ حق سے اس قدر آنسو بہے
ہوگیا ان سب کے مل جانے سے اک چشمہ رواں
زلزلہ ایسا قیامت خیز آیا کس لئے
ہل گئے جس سے قلوبِ جن و انس و قدسیاں
کوئی بے خود کوئی نالاں اور کوئی دم بخود
کیا کہیں کس طور کا یہ دونوں عالَم کا سماں
دفعۃً ایسا ہوا کیوں انقلابِ قلب دہر
ہوگیا زیر و زبر کیوں نظم اوراقِ جہاں
کیا اسی دم دم نکل جائیں گے دم سے صور کے
کیا ابھی ہو جائیں گے یا رب فنا کون و مکاں
کیا ابھی ہو جائے گا ہنگامۂ محشر بپا
کیا صدائے نفسی نفسی سے پریشاں ہوگی جاں
پوچھا گھبرا کر سبب اس کا ضیاء الدین نے
کس کی فرقت میں ہے ایسی حالتِ پیر و جواں
حالتِ گریہ میں مجھ سے کہا یہ احباب نے
کیا یہ اندوہِ قیامت خیز تجھ پر ہے نہاں
لو سنو فخرِ زماں محبوبِ محبوبِِ خدا
شہد نامِ حق سے جس دم کر چکا شیریں زباں
نا گہاں پیکِ اجل لایا یہ مولا کا پیام
چھوڑو دنیا کو آؤ وصل سے ہو شادماں
سن کے یہ مژدہ عناصر کے قفس سے مرغِ روح
کر گیا پرواز فوراً سمت گلزارِ جناں
تھا وہ ایسا شاہ دینی جس کے اوصافِ حسن
ہیں بکثرت مختصر کرتا ہے یہ عاجز بیاں
ظل لطف و رحمت حق نائب فخر رُسل
روحِ عالَم، روحِ ارواحِ ہمہ روحانیاں
تاج اس کا علم تھا اور تاج کی زینت عمل
خلعت اس سلطان کا خلق حَسنْ حُسنِ بیاں
اس کا تختِ مملکت تھا نصرت و فتح و ظفر
مسند اس کی تھی رضائے مرضیِ ربِّ جہاں
ہر زماں اس کی وزارت میں زبان و خامہ تھا
بس یہی کرتے تھے جاری حکم آں شاہِ زماں
میر منشی تھا فصاحت اور بلاغت کا ثمر
زہد اس کا ہم نشیں تھا اور تقویٰ ہمقراں
لشکرِ کرار اس کا حُسنِ توفیقِ خدا
تھا سپہ سالار رحم و لطف ربِّ انس و جاں
اس کا بیت المال تھا گنجینۂ ہر علم و فن
عام بخشش پر وہ بڑھتا مثلِ سیلابِِ رواں
انکساری و تواضع علم تھا اس کا سمند
تھا توکّل اور قناعت ہمرکاب و ہم عناں
توپ اور بندوق اس کی رُعب اقبال و جلال
حق نورری(؟)، راست گوئی اس کی صمصام و سناں
تھا یہی باعث کہ جس بد خواہِ دیں کا سر اُٹھا
کر دیا اس کو قلم فوراً بشمشیرِِ بیاں
زور کو اپنے جو کوئی آزماتا اہلِ شر
ایک دم میں اس کو کر دیتا وہ بے تاب و تواں
شیرِ حق کے ایک ہی نعرے سے پھٹ جاتا جگر
مذہبِ اقدس پہ ہوتا جو کوئی حملہ کناں
سیکڑوں بد کیش مل کر دین پر کرتے ستم
خاک میں تنہا ملا دیتا تھا ظلمِ ظالماں
خبث باطن کو چھپاتا کیسے ہی کوئی مگر
کھول دیتا تھا وہ اس چالاک کا رازِ نہاں
فتنہ و شر اور ضلالت نے کیا جس دم ظہور
صفحۂ ہستی سے محو اس کا کیا نام و نشاں
نارِ ذلّت میں جلایا اس وَقُوْدُ النَّار کو
یک سرِمو جس نے کی توہینِ شاہِ انس و جاں
کتنے ہی تھے کور باطن ان کو نورِ رشد سے
کر دیا بینا، نظر آئی انھیں راہِ جناں
مقتدائے اشقیا آتے تھے بہرِ گفتگو
منہ کی کھا کر بھاگتے اور بند ہو جاتی زباں
مرحبا صد آفریں اے بحرِ زخار علوم
چشمۂ رشد و ہدایت نورِ چشم کاملاں
آفتابِِ علم سے تیرے ہوا جو مستفید
ہوگیا وہ علم کا مہ کر دیا روشن جہاں
نور سے تیرے ہزاروں مہ زمیں پر ہوگئے
آفتابِ چرخ تجھ پر کیوں نہ ہو نازش کناں
تجھ میں اور اس میں زمین و آسماں کا فرق ہے
اس میں فیضِ ظاہری اور تجھ میں دونوں ہمقراں
دونوں نہریں تجھ سے جاری ہوگئیں آفاق میں
تو ہے بحرِ اعظمِ شرع و طریقت بے گماں
فخر تیری ذات پر کرتا ہے خود ہر علم دفن
کیوں نہ میں تجھ کو کہوں فخرِِ جہاں حبرِ زماں
لکھ ضیا! تاریخ اب جس سے زمانے کو رہے
یاد سالِ رحلت آل مقتدائے سنیاں
ایک مصرع میں ہیں دو سن، ہے عجب یہ لطفِ خبیر
پیشوائے اعظم(۱۳۴۰)  و شیخِ کرم قطبِ جہاں(۱۳۴۰)
پھر کہو ’’بے ساختہ شیرِِ خدا بدرِ ہدیٰ‘‘(۱۳۴۰)
ہو گیا مرقوم اب یہ تیسرا سن بھی یہاں
روح مطلع[6] سے بساؤ سامعیں کے پھر دماغ
ہے جوانی پر بہارِ گُلشنِ مدح و بیاں
خوب جولانی پہ ہے اس دم مِری طبعِ رسا
ہے سجا بادل سے پیہم بارشِ مضموں رواں
تابِ حُسنِ علم تو آرم چگونہ بر زبان
لمعۂ افتاد خنداں شد از و باغِ جہاں
اِنَّکَ[7] شَمْسُ الضُّحٰی اَشْرَقْتَ سَاحَاتَ الْاَوَان
اِنَّکَ قَلَّدْتَّ عُقْدَ الْمَنِّ فِیْ جِیْدِ الزَّمَانِ
رفت صیت مجدد و فضلت در ہمہ ردی زمیں
جملہ آفاق ست در توصیف تو رطب اللسان
نعمت جود و نوالت خوان گیتی پر نمود
خوشہ چیں از خرمنِ فیضتِ ہمہ اہلِ جہاں
مرجع ارباب افتاد فضیلت ذات تو
گشتۂ علام دہر و مقتدائے کاملاں
آمدی در دورِ آخر خوردی آں جام جلال
پیش دستی بردۂ اے شاہ بر پیشی نیاں
مہر و حبت آمدہ مر اہلِ سنّت را دلیل
بغضِ تو لاریب باشد از نشانِ گمرہاں
اے ملقّب با امامِ اہلِ سنّت بودۂ
نام تو احمد رضا خاں وردِ ہر پیر و جواں
کنیت نغزے کہ نبہادی بہ عبد المصطفیٰ
راست آمد بر تو اے شیدائی شاہِ انس و جاں
می تراود(؟) از لبِ مینائے ہر تصنیف تو
بادۂ حُبِّ حبیبِ خالقِ ہر دو جہاں
اِنَّ بَدْرَ عِلْمِکَ قَدْ نَوَّرَ اَھْلَ الْوَرٰی
قَدْ اَدَامَ فَیْضَکَ اللہُ الْکَرِیْمُ الْمُسْتَعَانُ[8]
رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْکَ فِیْ الصَّبَاحِ وَ المَسَآءِ[9]
راضی از تو باد دائم مالکِ کون و مکان
نَوَّرَ اللہُ الرَّحِیْمُ قَبْرَکَ[10] ای مہرِ دیں
قَدَّسَ اللہُ تَعَالٰی سِرَّکَ[11] اے دل بخواں
دستگیری من بے دست و پاکن اے کریم
یک نگاہ مرحمت افگن بسوئے ناتواں
بارِ عصیان و گناہاں پشت من کردہ دوتا
راست گردد گر شفاعت خواہی اذ ربِّ زماں
ہست امیدم کہ آئی بہر امداد ضعیف
در ہمہ رنج و غم و کرب و بلائے دو جہاں
انجمِ فیضِ علومت بر سماتِ کمال
جملہ عالم را منور می نماید جاوداں

 

[1] ۔  آنکھ

[2] ۔  ابر

[3] ۔  باران

[4] ۔  آنکھیں

[5] ۔  اشیا

[6] ۔ نسیمِ رحمت دبوئے خوشی۔

[7] ۔ بے شک آپ پھر دن چڑھے کے افتاب ہیں کہ اس وقت وہ اپنی تجلی میں کامل ہو جاتا ہے۔ آپ کے آفتابِ علم نے میدان و فضائے زمانہ کو روشن کردیا۔ بے شک آپ نے احسان کا ہار زمانے کے گلے میں پہنا دیا۔

[8] بے شک آپ کے علم کے کامل چاند نے اہلِ زمانہ کو روشن کر دیا۔ آپ  کے فیض کو خدائے کریم ہمیشہ رکھے!

[9] صبح و شام آپ پر خدا کی رحمت ہو!

[10] خدائے رحیم آپ کی قبر کو نورانی فرمائے!

[11] اللہ تعالیٰ آپ کے بھید کو پاک کرے!

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi