امام احمد رضا خاں کا دس نکاتی منصوبہ


تحریر: غلام مصطفیٰ رضوی نوری مشن مالی گاؤں

مجددِ اسلام اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری برکاتی مُحدّث بریلوی کی ولادت 1272ھ/1856ء میں ہوئی اور وصال 1340ھ/1921ء میں۔ جب ہم عہدِ رضا کا جائزہ لیتے ہیں تو اُس دور میں اسلام کے خلاف درجنوں محاذ سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ قومی و ملی سطح پرجو تحریکات وجود میں آئیں وہ بہ ظاہر انگریزوں کے خلاف تھیں لیکن دوسری طرف مشرکین کی تابع دار، اس طرح ایمانی فصیل میں شگاف پڑ رہا تھا اور قرآنی احکام کی خلاف ورزی بھی ہو رہی تھی۔ امام احمد رضا کو مشیت نے اسی لیے منتخب کیا تھا کہ وہ ایمانی حمیت کو جگا دیں اور جو اسلام کے قصرِرفیع میں نقب لگانا چاہتے تھے اُنھیں بے نقاب کر دیں۔

قرآن بحر حکمت ہے اس میں غواصی کرنے والے آفتاب و ماہ تاب بن کر چمکے اور زمانے کو روشن روشن کر دیا۔ باطل تحریکات اور حوادث و فتن کا مقابلہ وہی مردِ مومن کر سکتا ہے، تائید غیبی جس کے ساتھ ہو، جو قرآنِ مقدّس کی منشا و مراد کو سمجھتا ہو اور اس کے احکام پر عامل بھی ہو۔ اس رخ سے امام احمد رضا کے افکار تاب ناک اور رہ نما نظر آتے ہیں۔ آپ کی فکر قرآنِ مقدّس کے بحرِ علم و حکمت سے مستفیض و مستنیر تھی۔ امام شرف الدین بوصیری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ (694ھ) فرماتے ہیں؂

لَھَا مَعَانٍ کَمَوۡجِ الۡبَحۡرِ فِیۡ مَدَدٍ

وَفَوۡقَ جَوۡ ھَرِہٖ فِی الۡحُسۡنِ وَالۡقِیَمٖ

ترجمہ:ان کے معانی کثرت اور زیادتی میں سمندر کی لہروں کی طرح ہیں اور حسن جمال اور قدر و قیمت میں دریا کے موتیوں سے بڑھ کر ہیں۔ [1]

Description: F:\My System Data [E]\1. ZIA-E-TAIBA WORK\Mudassir\1 PSD files\1 Mahnaama Mujalla Zia-e-Taiba\14 October Safar ul Muzaffar\images\Imam-Ahmed-Raza-ka-Das-Nukati.png قرآنِ مقدس جس کے علم و حکمت کی گہرائی ووسعت کا اندازی نہ لگایا جا سکے اور جس کے معانی کی چمک دمک جواہرات اور بیش قیمت موتیوں سے بڑھ کر ہو، اَن مول ہو تو اس میں جس ذات نے شناوری کی ہو اور موتی چنے ہوں تو اس کی فکر و دانائی کا کیا عالم ہو گا؟ امام احمد رضا اپنے دور کی کسی تحریک اور فکر سے متاثّر نہیں ہوئے بلکہ قرآنی احکام کی بنیادوں پر آپ نے مسلمانوں کی رہ نمائی کی، اس لیے آپ کے پیش کردہ منصوبے قوم کے لیے مفید العمل، کارآمد، فکر انگیز اور تعمیری سوچ کے حامل ہیں اور نفع پہنچانے والے۔

اس مقالے میں ہم احمد رضا کے دس نکاتی مصوبے کا جائزہ لیں گے، جو آپ نے 1330ھ/1911ء میں مولانا شاہ محرم علی چشتی صدرِ ثانی انجمن نعمانیہ لاہور کے استفسار کےجواب میں تحریر فرمائے جس کی اشاعت بھی ہوئی۔ گویہ دس نکات مختصر ہیں لیکن سیکڑوں صفحات پر بھاری بھی۔

ماہرِ علوم فنون:

امام احمد رضا قُدِّسَ سِرُّہٗ کے افکار و خیالات سلف و صالحین کے ترجمان تھے۔ ہر فتنہ و تحریک کے مقابل آپ کی راہ نمائی درست اور مسلمانوں کے مفاد میں تھی۔ فکری قیادت وہی ذات کر سکتی ہے جو حکمت و دانش کے جوہر سے آراستہ ہو اور جس کے خیالات درست ہوں اور علم و فنون کے اعتبار سے وہ یکتاے روزگار ہو۔ امام احمد رضا با خبر تھے اور زمانے کے حالات و تغیرات پر ان کی نگاہ گہری تھی، دشمنوں کی چالوں اور حربوں کو سمجھے تھے۔ اسلاف کے علوم و فنون کے جا نشین اور ان کی علمی امانتوں کے امین تھے۔ ان کے علوم و فنون کا یہ عالم تھا کہ عرب کے جیّد و اکابر علما نے عمدہ تاثّرات سے نوازا۔

چناں چہ علّامہ سیّد اسمٰعیل بن خلیل مکی محافظِ کتبِ حرم تحریر فرماتے ہیں:

اقول و الحق اقول انہ لوراھا ابو حنیفۃ النعمان لأقرت عینہ ولجعل مؤلّفھا من جملۃ الاصحاب۔

"قسم بہ خدا میں بالکل سچ کہتا ہوں اگر امامِ اعظم نعمان بن ثابت ابو حنیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ آپ کا فتاویٰ ملاحظہ فرماتے تو اُن آنکھیں ٹھنڈی ہوتیں اور اس کے مؤلّف کو اپنے خاص شاگردوں میں شامل فرماتے۔" [2]

پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد نے فکرِ رضا کی موزونیت اور وسعت نیز عبقریت سے متعلّق جو ریمارک دیا ہے وہ لائقِ غور ہے، فرماتے ہیں:

"امام احمد رضا برق رفتاری سے سوچتے تھے۔۔۔۔ اُن کا رہ وارِ فکر اپنے زمانے سےآگے دوڑتا تھا۔۔۔۔ ان کی یہ خصوصیت قابلِ توجّہ بھی ہے اور لائقِ تحقیق بھی۔۔۔۔انھوں نے ریاضیات میں اپنے الگ قوانین وضع کیے اور ضابطے تحریر کیے۔۔۔۔وہ یگانۂ روزگار بھی تھے اور عبقری بھی۔۔۔۔" [3]

امام احمد رضا کی جامع العلوم شخصیت سے متعلّق مولانا کوثر نیازی نے جو تاثّر دیا ہے وہ فکر انگیز ہے، موصوف جب امام احمد رضا کے درِ علم پر دستک دیتے ہیں اور تحقیقاتِ رضویہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو کہہ اٹھتے ہیں:

"جب امامِ اہلِ سنّت کی کتابیں مطالعہ کیں اور اُن کے علم کے دروازے پر دستک دی اور فیض یاب ہوا تو اپنی جہل کا احساس ہوا، ا ور اعتراف ہوا۔ یوں لگا کہ ابھی تو میں علم کے سمندر کے کنارے کھڑا صرف سیپیاں چن رہا ہوں۔ علم کا سمندر تو امام کی ذات ہے۔" [4]

امام احمد رضا نے اپنے 54 علوم کا خود تذکرہ فرمایا ہے۔ آپ نے علمائے حرمین کے نام اجازات و اسانید جاری فرمائے، اس میں ان کی تفصیل موجود ہے [5] ۔ علم کا معاملہ بڑی وسعت رکھتا ہے، اس میں شاخ در شاخ پھوٹنے اور پھیلنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ اس طرح امام احمد رضا کے علوم کی تعداد کم و بیش 100 شمار کرائی جاتی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد نے سچ فرمایا:

"وہ ایک جہانِ علم و فضل تھے۔۔۔۔ کوئی اس جہان کی سیر تو کرے۔۔۔۔۔ پھر جو نہ دیکھا تھا دیکھے۔۔۔۔ اور جو نہ سنا تھا سنے۔" [6]

امام احمد رضا کی اصابتِ فکر، علمی استعداد اور آفاقی سوچ کا اعتراف اہلِ علم و دانش نے بجا طور پر کیا ہے۔ نابغۂ عصر اور عبقری الشرق جیسے القاب سے یاد کیا ہے۔

آفاقی منصوبے کے دس نکات

1۔ مدارس کا قیام

امام احمد رضا تحریر فرماتے ہیں:

"عظیم الشان مدارس کھولے جائیں باقاعدہ تعلیمیں ہوں۔" [7]

صالح وعلمی اور فکری انقلاب درس گاہوں سے رونما ہوا۔ مدارس اسلامیہ نے دین کے دعوتی، علمی، اخلاقی اور اعتقادی و معاشرتی پیغام کو عام کیا۔ اَلْعُلَمَآءُ وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَآء (علماء، انبیا کے وارث ہیں) کے مطابق انبیائے کرام کے مشن کو پہنچایا۔ آج دین کی جو بہاریں نظر آ رہی ہیں وہ مدارس کی ہی دَین ہے، جہاں سے ہر شعبہ ہائے حیات میں رہ نمائی و قیادت کرنے والے علما پیدا ہوئے۔ اشاعتِ دین اور فروغِ حق کے لیے مدرسوں کا قیام ناگزیر ہے۔

امام احمد رضا نے خود بھی مدارس کے قیام پر توجّہ دی اور اس وقت جب کہ دہلی میں مسلمانوں کی حکومت کا خاتمہ ہو چکا تھا اور انگریز نے اپنے قبضہ و تسلط کے بعد مدارس کو مفلوک الحال بنا ڈالا تھا، نیز مدارس کے لیے مسلم سلاطین کی عطا کردہ جائیدادوں کو چھین لیا تھا آپ نے بریلی میں 1322ھ/1904ء میں دارالعلوم منظر ِاسلام قائم کیا جسے برِّصغیر میں مسلمانوں کی دینی، تعلیمی ترقی کے دوسرے دور کی بنیاد قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس درس گاہ نے باقاعدہ اسلامی علوم کے سلسلے کو آگے بڑھایا اور ایسے نادرِ روزگار علما تیار کیے جن کی انقلابی خدمات کی دھمک اب بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔

آپ کے تلامذہ و خلفا نے مدارسِ اسلامیہ کا جال بچھا دیا؛ جن کی تصنیفی، تفسیری، فقہی، سیاسی، تعلیمی اور محدثانہ خدمات سے تاریخِ ہند کے صفحات جگمگا رہے ہیں۔ ہند کی فضا میں تعلیمی سطح پر کئی تحریکیں ابھریں لیکن یہ بھی ضابطے کی بات ہے کہ جب بنیاد ہی کم زور ہو تو عمارت بھی ناقص و کم زور ہو گی، یوں ہی ببول سے گلاب کا حصول محال ہے، جو تحریکات نمودار ہوئیں ان کے عقائد و مقاصد درست نہیں تھے۔ مثلاً تحریکِ سر سیّد کو ہی دیکھتے ہیں، موصوف نے معاصر علوم کی درس گاہ قائم کی جہاں سے دانشور تو ضرور نکلے لیکن وہ دینی قیادت کے اہل افراد قوم کو نہ دے سکے، اور ایسے فارغین انگریزی تمدن و تہذیب کے حملوں سے قوم کو کیسے بچا پاتے جب کہ وہ خود کچھ اس طرح کے ماحول کے پروردہ تھے۔ تحریکِ ندوہ کا آغاز بہ ظاہر اسلام کے فروغ کے جذبے کے تحت ہوا لیکن در پردہ ایسی جماعت کی تیاری کا فسانہ سامنے آیا جس کا مقصد حق و باطل کے فرق کو اٹھا دینا تھا، جن لوگوں نے اہانتِ رسالت مآبﷺ کا ارتکاب کیا تھا اور وہ تائب بھی نہیں ہوئے تھے، ان سے مل کر ا س تحریک کو آگے بڑھایا گیا۔ اسی طرح دارالعلوم دیوبند بھی بد اعتقادی کے جراثیم سے آلودہ ہو کر ملّت کے لیے قابل اورعشقِ رسول کے جوہر سے مالامال افراد تیار نہ کر سکا۔ اس طرح کی تحریکات کی امام احمد رضا نے سختی سے تردید فرمائی اور عقیدہ و ایمان کی سلامتی کو فائق رکھا۔ اسی طرح دہریت و نیچریت کی تحریک کا آغاز و ارتقا بھی ہو چکا تھا، اس کے ابطال و تردید میں آپ کی خدمات بے مثل ہیں۔

ایک مقام پر دہریت و نیچریت کے سد ِ باب میں علمِ دین کی اشاعت کے رخ پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

"جب تک یہ (بے سود و تضیعِ اوقات تعلیمیں) نہ چھوڑی جائیں اور تعلیم و تکمیل عقائدِ حقّہ و علومِ صادقہ کی طرف باگیں نہ موڑی جائیں دہریت و نیچریت کی بیخ کنی ناممکن ہے۔" [8]

آپ اس فکر افزا نکتے میں باطل تحریکات کے سدِ باب کے لیے علمِ دین کی اہمیت واضح کر رہے ہیں۔

امام احمد رضا کے نزدیک اشاعتِ علمِ دین اہم تھی جیسا کہ آپ نے تحریر فرمایا ہے:

"دینِ متین علمِ دین کے دامن سے وابستہ ہے۔" [9]

اور اس کی اشاعت کے لیے تعمیری فکر کے حامل مدارس کا قیام ضروری ہے۔

نظامِ تعلیم میں نصاب کا کردار کلیدی ہوتا ہے، نیز نصاب کی تدریس بھی اہمیت رکھتی ہے۔ امام احمد رضا ایک ماہرِ تعلیم تھے۔ آپ نے جہاں مدارس کے قیام کی ضرورت کو اجاگر کیا وہیں باقاعدہ تعلیمی نظام پر بھی زور دیا تاکہ جو ٹیم تیار ہو کر نکلے وہ اپنے علم اور فن کے اعتبار سے پختہ ہو، ساتھ ہی تعمیری مزاج کی حامل بھی، اور اس کا انداز بھی خوب ہوتا ہے کہ امام احمد رضا کے تلامذہ میں سے ہر ایک کسی نہ کسی شعبے کا ماہر اور یگانہ تھا۔

کوئی صدر الافاضل ہے کوئی صدر الشریعہ ہے
یہ سارا فیض ہے کس کا امام احمد رضا خاں کا

طلبہ کو وظائف

امام احمد رضا تحریر فرماتے ہیں:

"طلبا کو وظائف ملیں کہ خواہی نخواہی گرویدہ ہوں۔" [10]

ایک صدی قبل جب کہ تعلیمی فیلڈ میں طلبہ کو وظائف دینے کا با قاعدہ کوئی اہتمام نہیں تھا اس کی افادیت مستقبل میں کس قدر ہو گی اسے امام احمد رضا نے بہ خوبی سمجھ لیا تھا۔ اس نکتے کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہےکہ وہ طلبہ جو معاشی مشکلات کے سبب تعلیم چھوڑ بیٹھتے ہیں وظیفہ ملنے پر وہ تعلیم سے محروم نہیں رہ سکیں گے اور قوم کو ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع بھی ملے گا۔ امام احمد رضا کے اس نکتے پر اگر عمل کی سبیل نکالی جاتی تو قابل افراد کی خاطر خواہ تعداد آج موجود ہوتی اور والدین جو اپنے بچوں کو افلاس و غربت کے سبب کام کرنے پرمجبور کر دیتے ہیں وہ شوق سے مدرسے بھیجتے۔

جو کام ہمارا اپنا تھا اس سے ہم دور ہو رہے ہیں جب کہ ایک صدی قبل مفکرِ اسلام امام احمد رضا نے فکروں کو بیدار کیا تھا۔ اغیار نے اس پہلو کو دیکھا، عمل کیا، آج متعدد ممالک بالخصوص ان میں جو ترقی یافتہ کہلاتے ہیں وہاں تعلیم کی مفت سہولت دست یاب ہے اور وظیفہ بھی دیا جاتا ہے پھر جو اعلیٰ تعلیم کا عزم رکھتے ہیں انھیں آگے بھی وظیفہ دیا جاتا ہے، اس طرح وہ اپنے قومی دھارے کومضبوط کررہے ہیں، ہر فیلڈ کے لائق افراد تیار کررہے ہیں، تعلیم کی طرف لوگوں کو مائل کر رہے ہیں اور یہاں معاملہ برعکس ہے گرچہ بعض مدارس کے بعض شعبہ جات میں اس سمت پیش رفت ہوئی ہے ،مثلاً الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور، جامعہ امجدیہ گھوسی وغیرہ اور معاصر علوم کے اداروں میں بھی اس پر توجّہ ہے۔ ضروری ہے کہ مدارسِ اہلِ سنّت کے ذمّے داران غریب و نا دار اور مفلس طلبہ کو وظائف دے کر ان کے تعلیمی سفر کو مضبوط و مستحکم کریں، اس کا نتیجہ یہ بھی ظاہر ہوگا کہ طلبہ دل جمعی سے پڑھائی کریں گے۔

3۔ مدرّس اور اُن کی قابلیت کا اعتراف

امام احمد رضا اپنے تعلیمی منصوبے میں تیسرا نکتہ تحریر فرماتے ہیں:

"مدرّسوں کی بیش قرار تنخواہیں ان کی کارروائیوں پر دی جائیں کہ لالچ سے جان توڑ کر کوشش کریں۔" [11]

مرحلۂ تربیت میں معلّم کے کردار کو اساسی حیثیت حاصل ہے، لیکن معلّم کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ قومی و ملی تعمیر کی لگن رکھتا ہو اور اس کا عقیدہ صحیح و درست ہو۔ وہ اپنی تدریس میں حق و صداقت کی تعلیم دے نہ کہ ایسی تعلیم جس سے فسادِ فکر واقع ہو۔ امام احمد رضا نے مدرّس کے لیے ایسے ضابطے دیے ہیں جن پر عمل کرلیا جائے تو جو طلبہ تیار ہوں گے ان سے اشاعتِ حق کا فریضہ بہ طریقِ احسن پورا ہوگا۔

امام احمد رضا نے اس پہلو سے جو ضابط دیا ہے اسے بہ شکلِ نکات دیکھیں:

(1) انہماکِ فلسفیات و توغل مزخرفات نے معلّم کے نورِ قلب کو منطقی اور سلامتِ عقل کو منتفی نہ کردیا ہو کہ ایسے شخص پر خود ان علومِ ملعونہ سے یک لخت دامن کشی فرض اور اس کی تعلیم سے ضر رِ اشد کی توقّع۔

(2) وہ عقائدِ حقّہ اسلامیہ سنیہ سے بروجہِ کمال واقف و ماہر اور اثباتِ حق و ازہاقِ باطل پر بِعَوْنِہٖ تَعَالٰی قادر ہو ورنہ قلوبِ طلبہ کا تحفّظ نہ کرسکے گا۔

(3) وہ اپنی اس قدر کو بہ التزامِ تام ہر سبق کے ایسے محل و مقام پر استعمال بھی کرتا ہے ہر گز کسی مسئلۂ باطلہ پر آگے نہ چلنے دے جب تک اس کا بطلان متعلّم کے ذہن نشین نہ کردے۔

(4) متعلّم کو قبلِ تعلیم خوب جانچ لے کہ پورا سنّی صحیح العقیدہ ہے اور اس کے قلب میں فلسفہ ملعونہ کی عظمت و وقعت متمکن نہیں۔

(5) اس کا ذہنِ سلیم اور طبعِ مستقیم دیکھ لے، بعض طبائع خواہی نخواہی زیغ کی طرف جاتے ہیں، حق بات ان کے دلوں پر کم اثر کرتی اور جھوٹی جلد پیر جاتی ہیں۔

(6) معلّم و متعلّم کی نیت صالحہ ہو، نہ اغراضِ فاسدہ۔

(7) تنہا اسی پر قانع نہ ہو بلکہ دینیات کے ساتھ ان کا سبق ہو کہ اس کے نور سے متجلی ہوتی رہے۔

ان شرائط کے لحاظ کے ساتھ بِعَوْنِہٖ تَعَالٰی اس کے ضرر سے تحفظ رہے گا۔ اور اس تعلیم و تعلّم سے انتقاع متوقّع ہوگا۔ [12]

اصولی مدرّس کے لیے ان شرائط میں کوئی پہلو نہیں چھوٹتا۔ مطلوبہ شرائط کی روشنی میں فرض شناس مدرّس کا تصوّر ابھرتا ہے۔ امام احمد رضا ایسے قابل مدرّس کے لیے ان کی خدمات کے پیشِ نظر عمدہ تنخواہ مقرر کرنے کی تلقین فرماتے ہیں کہ جب وہ معاشی لحاظ سے آسودہ حال ہوں گے تو اپنی صلاحیتوں سے قوم کو راحت پہنچائیں گے اور جو طلبہ ان کے گوشئہ تربیت میں ہوں گے وہ فکری لحاظ سے صحت مند ہوں گے۔

4۔استعداد کی جانچ

امام احمد رضا کا چوتھا نکتہ اس طرح ہے:

"طبائعِ طلبہ کی جانچ ہو، جو جس کام کے زیادہ مناسب دیکھا جائے معقول وظیفہ دے کر اس میں لگایا جائے؛ یوں ان میں کچھ مدرّسین بنائے جائیں، کچھ واعظین، کچھ مصنّفین، کچھ مناظرین، پھر تصنیف و مناظرہ میں بھی توزیع ہو۔ کوئی کسی فن پر کوئی کسی پر۔" [13]

موجودہ دور میں تخصص (Specialization) کا مزاج بن چکا ہے، ایک شعبے کا ماہر اپنے منتخب شعبے میں ہی کام کرتا ہے۔ اس نکتے میں امام احمد رضا نے طلبہ کی کیفیت، استعداد، ذوق اور فکری میلان کی تشفی کا پہلو واضح کردیا۔ قوم کی ترقی کے لیے ہر شعبۂ علم و فن میں اس شعبے کے ماہر کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً ایک ماہرِ فن جو معاشیات سے شغف رکھتا ہے اور اسے میڈیکل سائنس کے شعبے میں داخل کردیا جائے تو وہ اپنا فرضِ منصبی ادا نہ کرسکے گا۔ امام احمد رضا نے طلبہ کے ذوق کو ملحوظ رکھا، جو جس فن میں دل چسپی رکھتا ہو اسے اسی شعبے میں آگے بڑھایا جائے تاکہ اس کی صلاحیتوں کا صحیح استعمال ہو۔ اس فکری نکتے میں آپ نے طلبہ کی معاشی تشفی کا بھی خیال رکھا اور وظیفے کی ترغیب دی۔

اشاعتِ دین میں تصنیف و تالیف، وعظ و ارشاد اور مناظرہ سبھی کی ضرورت ہے اور ان سب میں ماہر کی ضرورت ہے، مذکورہ نکتے پر عمل کی صورت میں اس کی تشفی پورے طور پر ہوتی ہے۔

5۔اشاعتِ حق کے شعبے

امام احمد رضا فرماتے ہیں:

اُن میں جو تیار ہوتے جائیں، تنخواہیں دے کر ملک میں پھیلائے جائیں کہ تحریر اً و تقریراً، وعظا ً و مناظرۃ ً اشاعتِ دین و مذہب کریں۔" [14]

یہ نکتہ چوتھے سے مربوط ہے، اس میں اشاعتِ دین کے شعبہ جات میں جو افراد جس شعبے کے لائق ہوں انھیں مختلف مقامات پر ضرورت کے تحت متعین کرنے کی تلقین کی گئی ہے اور آج اس کی اہمیت بھی کھل چکی ہے، عموماً یہی ہوتا ہے کہ جہاں علمائے اہلِ سنّت کی کمی ہوتی ہے ایسے ہی علاقوں میں بد مذہب زیادہ گمراہی پھیلاتے ہیں، اس میں جو اہم نکتہ ہے وہ ’’معاشی تشفی‘‘ ہے۔ اس رخ سے بھی ہماری بے تو جہی قابلِ افسوس ہے۔ قابل علما کو اگر مدعو کیا جاتا ہے تو تنخواہیں اتنی قلیل دی جاتی ہیں کہ وہ صحیح سے خدمت انجام نہیں دے پاتے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ رخصت ہوجاتے ہیں۔ اس سمت ہمارے اصحابِ مال کو متوجّہ ہونا چاہیے۔

امام احمد رضا نے اشاعتِ حق اور تبلیغِ دین کے متعدد شعبے ذکر کیے ہیں: تحریر و تصنیف، وعظ و تقریر، مناظرہ اور دعوت و تبلیغ وغیرہ۔ ہر شعبے میں قابلیت درکار ہے۔ قابلیت کا حصول سابقہ نکات پر عمل سے ہوسکتا ہے۔

6۔تصنیف و تالیف اور مصنّفوں کی پذیرائی

امام احمد رضا تحریر فرماتے ہیں:

"حمایتِ مذہب وردِّ بد مذہباں میں مفید کتب و رسائل مصنّفوں کو نذرانے دے کر تصنیف کرائے جائیں۔" [15]

کتابوں اور لٹریچر کی اہمیت ہر دور میں مسلّم رہی ہے۔ انقلابات کی تاریخ پڑھی جائے جن کا سبب نظریاتی لٹریچر بنے۔ مصنّف کے دنیا سے اٹھ جانے کے بعد بھی اس کی تحریر کے ذریعے اس کا مشن جاری رہتا ہے۔ اسلام کے گلشنِ نور و نکہت میں کھلنے والے پھولوں نے تحریر کے ذریعے وہ کار ہائے نمایاں انجام دیے اور ہر دور میں اٹھنے والے فتنوں کی بیخ کنی نوکِ قلم سے کی جس سے آج بھی دل و دماغ معطّر اور روح تازہ ہے۔ امام احمد رضا کی ذات ہی کو لیجیے، آپ کے دور میں داخلی و خارجی فتنوں کی بھیڑ تھی اور ہر ایک کا حملہ ذاتِ مصطفیٰ ﷺ پر تھا لیکن امام احمد رضا نے اپنی خدا داد صلاحیت اور تدبّرو ذہانت کی بنیاد پر ان فتنوں کو بے نقاب کرکے رکھ دیا اور بجا فرمایا ؎

کلکِ رضؔا ہے خنجرِ خوں خوار برق بار
اعدا سے کہہ دو خیر منائیں نہ شر کریں

قلم کی اہمیت رب عَزَّوَجَلّ نے بتائی:

عَلَّمَ بِالْقَلَمِo عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ۔

"قلم سے لکھنا سکھایا آدمی کو، سکھایا جو نہ جانتا تھا" [16]

امام احمد رضا نے جو کچھ علمی و قلمی اور تصنیفی کام کیا، محض رضائے الٰہی کے لیے کیا۔ مصنّفوں کی ایک ٹیم تیار کردی جن میں ہر ایک فکر و دانش میں ممتاز اور نادرِ روزگار، صالح لٹریچر کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا۔ مذکورہ نکتے میں یہ فکر دی کہ باطل فرقے لٹریچر کے توسّط سے ذہنوں کو برباد کرتے ہیں، لہٰذا صالح لٹریچر حمایتِ دین اور بد مذاہب کی تردید میں شائع کیے جائیں اور اصحاب ِقلم کی حوصلہ افزائی کی غرض سے نذرانے پیش کیے جائیں، اس طرح وہ خوش دلی سے کام کریں گے۔

بِحَمْدِہٖ تَعَالٰی اب خوشبو پھیل رہی ہے۔ امام احمد رضا کی فکر کو سمجھا جا رہا ہے۔ اور اہلِ سنّت میں قلمی ذوق پروان چڑھ رہا ہے۔

اس رخ سے مولانا یاسین اختر مصباحی رقم طراز ہیں:

"مدارسِ اہلِ سنّت کے وہ اساتذۂ کرام اس سلسلے میں بہت اہم رول ادا کرسکتے ہیں جو تحریری مشاغل سے خود بھی دل چسپی رکھتے ہیں اور اپنے ہونہار طلبہ کو بھی اسی راہ پر لگا کر انھیں قوم و ملّت کے لیے مفید تر بنانا چاہتے ہیں۔

جمعیۃ الطلبہ کی طرف سے انعامی مقابلے، کامیاب طلبہ کے لیے خصوصی انعامات اور سالانہ میگزین کا انتظام کیا جائے۔ مرکزی مدارس سال دو سال کے وقفے کے بعد کسی منتخب شخصیت پر تحریری مجلسِ مذاکرہ کا انعقاد کریں اور ان کی رپورٹیں شائع کرتے رہیں ساتھ ہی ان مقالات و مضامین اور کتابوں کی فروخت کے لیے ملک کے مرکزی شہروں یا اداروں میں تجارتی کتب خانوں کا قیام مزید تحریک کا باعث ہوسکتا ہے۔ جس سے کتابیں جلد تر نکل جائیں گی اور عوام و خواص کی ضرورتیں بھی پوری ہوتی رہیں گی۔ المجمع الاسلامی مبارک پور اعظم گڑھ یوپی کی تشکیل (1396ھ/ 1976ء) انھیں مقاصد کے تحت کی گئی۔" [17]

شعلہ بار مقررین کو نذرانے پیش کرنے کا رواج تو ہے لیکن مصنّفین کی حوصلہ افزائی کا رجحان عنقا۔ جماعت کی سر کردہ شخصیات اور اداروں کو مصنّفین اور اصحابِ قلم کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔

7۔اشاعتِ کتب ورسائل

امام احمد رضا اپنی معطّر فکر کا ساتواں نکتہ اس طرح دیتے ہیں:

"تصنیف شدہ اور نو تصنیف رسائل عمدہ اور خوش خط چھاپ کر ملک میں مفت شائع کیے جائیں۔" [18]

یہ نکتہ پہلے نکتے سے مربوط ہے۔ اس میں اشاعتی ترغیب ہے اور مطبوعہ مواد کی ترسیل کا پہلو بھی۔ ایک صدی قبل وضع کردہ اس تجویز کی اہمیت عہدِ رواں میں مزید کھلتی ہے۔ آج مادّی چمک دمک دیکھی جاتی ہے، حالاں کہ باطن دیکھا جانا چاہیے، حسن تو باطن میں ہوتا ہے۔ ظاہر پر فریفتہ ہونے والے محرومی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بہر کیف علمی مواد کیسا ہی عمدہ ہو اگر اسے ظاہری حسن کے بغیر پیش کیا جائے تو لوگ متوجّہ نہیں ہوتے۔ تو جب سلف صالحین، علما و صوفیا نیز ہمارے اصحابِ قلم کی تصانیف کو جن کی ایک شان ہے کیوں نہ انھیں اشاعتِ حق کی غرض سے دیدہ زیب انداز میں شائع کیا جائے۔ پھر جو ذوقِ مطالعہ رکھتے ہیں ان تک بلا قیمت پہنچایا جائے۔

وہ جماعتیں جو توہینِ رسالت کو اپنا معمول بناچکی ہیں وہ ریال اور ڈالر کے سہارے اہانت آمیز لڑیچر بلا قیمت ساری دنیا میں تقسیم کرتی ہیں، اس طرح فکروں کو آلودہ کرتی ہیں تو ہمارے اصحابِ ثروت صالح تصانیف کی اشاعت میں کیوں بے تو جّہی برتتے ہیں اور رغبت نہیں دکھاتے؟

اَلْحَمْدُ لِلہ! امام احمد رضا کے اس نکتے پر عمل کی غرض سے ماضیِ قریب میں کئی ادارے وجود میں آئے اور عمدہ نتائج مرتّب ہوئے۔ رضا اکیڈمی ممبئی، المجمع الاسلامی مبارک پور، مرکزی مجلسِ رضا لاہور، ادارۂ تحقیقاتِ امام احمد رضا کراچی، رضا فاؤنڈیشن لاہور، امام احمد رضا اکیڈمی بریلی شریف، برکاتِ رضا پور بندر اور اس طرح کے ہمارے دوسرے ادارے دل جمعی کے ساتھ خوب صورت انداز میں لٹریچر کی اشاعت و تقسیم کا کام انجام دے رہے ہیں۔ یوں ہی درجنوں کے حساب سے تجارتی نوعیت کے مکتبے بھی قائم ہوچکے ہیں۔

امام احمد رضا کے اس نکتے پر عہدِ رضا میں کسی قدر عمل شروع ہوگیا تھا، اس وقت بریلی، پٹنہ، امرتسر، آگرہ، سیتا پور، لاہور، رام پور کے اشاعتی ادارے تصانیف رضا اور دیگر علمائے اہلِ سنّت کی دینی و علمی کتابوں کی اشاعت کیا کرتے تھے۔ خود امام احمد رضا کی سو سے زیادہ کتابیں 1330ھ تک شائع تک شائع ہوچکی تھیں اورعلمی دنیا میں مقبول بھی، اور ایسی کہ بار بار چھپیں۔

آپ تحریر فرماتے ہیں:

"نیاز مند کی چار سو تصانیف سے صرف کچھ اوپر سو اب تک مطبوع ہوئیں اور ہزاروں کی تعداد میں بلا معاوضہ تقسیم ہوچکیں جس کے سبب جو رسالہ چھپا جلد ختم ہوگیا۔ بعض تین تین چار چار بار چھپے۔" [19]

انجمنِ نعمانیہ لاہور جو عہدِ رضا میں ایک سرگرم دینی و اشاعتی ادارہ تھا اس کے صدرِثانی مولانا شاہ محرم علی چشتی تصانیف ِرضا طلب فرمایا کرتے تھے۔

اسی پہلو سے اور نکتے کے دوسرے گوشے (مفت تقسیم) سے متعلّق امام احمد رضا لکھتے ہیں:

"انجمن نعمانیہ میں غالباً رمضانِ مبارک 1320ھ میں اس وقت تک کے تمام موجودہ رسائل میں نے خود حاضر کیے ہیں اور انجمن سے رسید بھی آگئی۔"

چند سطور کے بعد لکھتے ہیں:

"دو برس سے عنانِ مطبع ایک انجمن نے اپنے ہاتھ میں لی ہے۔ جس نے طریقۂ فقیر تقسیمِ کتب بلا عوض کو منسوخ کردیا۔ پھر بھی انجمن نعمانیہ کے لیے ہدیہ حاضر کرنے سے اس انجمن کو بھی انکار نہیں ہوسکتا۔" [20]

وہ ادارے جو جلسوں کے انعقاد میں زیادہ سر گرمی دکھاتے ہیں انھیں اس کے ساتھ ساتھ اشاعتی کاموں میں بھی ذوق دکھانا چاہیے اور کتابوں کی مفت تقسیم بھی کرنی چاہیے۔ اس طرح اہلِ سنّت کے لٹریچر کا ابلاغ وسیع تر ہوسکے گا؛ یوں ہی امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا کی تصانیف کی اشاعت بھی اشاعتِ دین کے لیے مؤثّر ذریعہ ہیں۔

8۔ تنظیم و اصول

امام احمد رضا تحریر فرماتے ہیں:

"شہروں شہروں آپ کے سفیر نگراں رہیں، جہاں جس قسم کے واعظ یا مناظر یا تصنیف کی حاجت ہو آپ کو اطلاع دیں۔ آپ سرکوبیِ اَعدا کے لیے اپنی فوجیں، میگزین، رسالے بھیجتے رہیں۔" [21]

یہ نکتہ جماعتی نظم اور اتحاد و اتفاق، تحریک و تنظیم کے لحاظ سے کافی اہم ہے۔ اس رخ سے کام کا آغاز آپ نے اپنی حیات میں ہی کردیا تھا اور کئی تنظیموں کی ضرورت کے تحت بنا ڈالی۔ جن کی خدمات سے ہند کی تاریخ منوّر ہے۔ اقتصادی و سیاسی سطح پر ایمان سوز تحریکات نے آپ کے عہد میں جس تیزی کے ساتھ جنم لیا اس کی مثال نہیں ملتی اور ان کا سدِباب آپ کا عظیم کارنامہ ہے۔ آپ نے برِّصغیر کے ساتھ ساتھ عالمِ اسلام کے حالات پر نظر رکھی اور ضرورت کے پیشِ نظر کام کے اہل افراد تیار کیے۔ ملک کے طول و عرض سے قابل افراد طلب کیے جاتے اور بارگاہِ رضا سے علما بھیجے جاتے۔

ملک العلما علّامہ ظفر الدین بہاری جو مصنّف، محقق، مدقّق، مُناظر، مدرّس، منتظم، ماہرِ علوم ہیٔت و فلکیات تھے اور حاجی منشی لعل محمدخاں (کلکتہ) جو اشاعتی و تنظیمی امور میں پیش پیش رہا کرتے تھے ان کے تذکرے میں امام احمد رضا کا جماعتی درد اور ملی کرب ملاحظہ ہو، ملک العلما کے نام اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:

"افسوس کہ ادھر نہ مدرّس، نہ واعظ، نہ ہمت والے مال دار، ایک ظفر الدین کدھر کدھر جائیں اور ایک لعل خاں کیا کیا بنائیں۔" [22]

امام احمد رضا کی تعمیری فکر سے ان کے تلامذہ کو وافر حصّہ ملا، چناں چہ جماعتی اتحاد اور احکامِ شرع پر عمل کے لیے دعوتِ فکر دیتے ہوئے تلمیذِ رضا، صدر الشریعہ علامہ امجد علی اعظمی رضوی لکھتے ہیں:

"بے جا ضد اور ہٹ سے باز آؤ اور اسلام کی مضبوط رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو۔ آپس میں خلوص و محبّت سے پیش آؤ۔ ہماری عزّت اسلام سے ہے اور بہبودی و فلاح، اتباعِ شریعت میں ہے۔" [23]

آپ کے محبین، متوسّلین، مریدین و خلفا اور تلامذہ نے مختلف بلاد و امصار میں حالات اور تقاضے کے تحت مسلمانوں کی رہ نمائی کی اور نکتہ مذکورہ پر غور و فکر کے ساتھ عمل کی تدبیر نکالیں۔

9۔استعداد کا استعمال

امام احمد رضا اپنے فکر پرور منصوبہ کے نویں نکتے میں تحریر فرماتے ہیں:

"جو ہم میں قابل کار موجود اور اپنی معاش میں مشغول ہیں، وظائف مقرر کرکے فارغ البال بناے جائیں اور جس کام میں انھیں مہارت ہو لگائے جائیں۔ " [24]

دوسرے، تیسرے اور چوتھے نکتے میں وظائف سے متعلّق گفتگو کی گئی، اس میں جو پہلو واضح کیا گیا وہ یہ ہے کہ با صلاحیت افراد کو ان کے متعلقہ شعبے میں مقرر کیا جائے تاکہ ان کی صلاحیت کا مثل "حق بہ حق دار رسید" عمدہ نتیجہ قوم کو حاصل ہو، اس کے لیے معاشی آسودگی ضروری ہے اور وظائف کے ذریعے اس مسٔلے سے نمٹا جا سکتا ہے۔

ماضی میں جب کہ علمی و تحقیقی امور کی انجام دہی کے لیے مسلم سلاطین نے بڑے بڑے جامعات و مدارس قائم کیے تھے، باصلاحیت علما کو وظائف دے کر معاشی ضروریات کا تصفیہ کیا جاتا تھا، اس طرح وہ یک سوئی کے ساتھ علمی کام انجام دیاکرتے تھے اور قوم کی ترقی کا آفتاب پورے آب و تاب کے ساتھ نصف النہار پر چمک رہا تھا۔ امام احمد رضا نے اس میں قابل افراد کی قدر سکھائی ہے اور بیدار رہ کر قومی تعمیر کے فریضے کو بہتر طور پر انجام دینے کا ذہن دیا، یہ فکری نکتہ ہمیں جھنجھوڑ کر کہہ رہا ہے کہ ؎

دلوں میں وَلوَلے آفاق گیری کے نہیں اٹھتے
نگاہوں میں اگر پیدا نہ ہو اندازِ آفاقی

10۔حمایتِ دین اور صحافت

امام احمد رضا فرماتے ہیں:

"آپ کے مذہبی اخبار شائع ہوں اور وقتاً فوقتاً ہر قسم کے حمایتِ مذہب میں مضامین تمام ملک میں بہ قیمت و بلا قیمت روزانہ یا کم از کم ہفتہ وار پہنچاتے رہیں۔" [25]

ایک صدی قبل جب کہ تجویز امام احمد رضا نے پیش کی صحافت اور میڈیا کی اہمیت اجاگر نہیں تھی۔ یہودی جو آج میڈیا پر کافی حد تک اثر انداز ہیں انھوں نے ایک خفیہ منصوبہ بنایا تھا جیسا کہ ان کے دستاویز میں ہے:

"آج دنیا میں پریس ایک طاقت ہے۔ پریس کے حقیقی رول کو دراصل بہت کم سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ریاستیں اس بے پناہ طاقت کا صحیح استعمال نہیں جانتیں اور یہ طاقت اب ہمارے قبضے میں ہے۔ پریس کی قوّت سے ہمیں پس پردہ (Shade) رہتے ہوئے سارے عالم پر اثر انداز ہونے کی قوّت حاصل ہو گئی ہے۔" [26]

"یہودی اس زعم میں تھے کہ وہ پریس کی قوت اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں اور ہمارے مفکر امامِ اہلِ سنّت نے مسلمانوں کو راہ دکھا دی تھی، ان کی دور بیں نگاہ دیکھ رہی تھی کہ اس شعبے میں ہم نے غفلت و تساہلی برتی تو مستقبل میں دشمنانِ اسلام اسے اسلام کے خلاف بہ طور ہتھیار استعمال کریں گے، اور یہی ہوا بھی۔ یہود و نصاریٰ سرگرم رہے اور ہم کھوئے اور سوئے۔ ہم نے اسلاف کی باتوں پر توجّہ نہ کی، ان کی تجاویز سے منھ موڑا اور جہاں بانی کے منصب سے محروم ہو بیٹھے"۔

امام احمد رضا کے افکار کے ایک مبلغ اور صاحبِ قلم علّامہ ارشد القادری کا ایک اقتباس ملاحظہ کریں، لکھتے ہیں:

"ایک عرصے سے چیخ رہا ہوں کہ زندہ رہنا ہے تو سوچنے اور برتنے کا انداز بدلنا ہوگا۔ فولاد کی تلوار کا زمانہ ختم ہو گیا، اب قلم کی تلوار سے معرکے سر کیے جا رہے ہیں۔ پہلے کسی محدود رقبے میں کفر و ضلالت کی اشاعت کے لیے سال ہا سال کی مدّت درکار ہوتی تھی۔ اور اب پریس کی بدولت صرف چند گھنٹوں میں شقاوتوں کا ایک عالم گیر سیلاب امنڈ سکتا ہے۔ ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھیے! آج ہندوستان کا ہر فرقہ قلم کی توانائی اور پریس کے وسائل سے کتنا مسلح ہو چکا ہے۔ اتنا مسلح کہ اس یلغار سے ہمارے دین کی سلامتی خطرے سے دوچار ہوتی جا رہی ہے۔" [27]

اغیار تو پہلے ہی سے ہر روشِ بد کو اپنا چکے تھے، وہ بھلا کب صحافت میں صداقت و دیانت کا مظاہرہ کرتے۔ نتیجے میں پروپیگنڈہ کا سہارا لے کر حق کو چھپانے کی کوشش کی گئی اور جھوٹ کو پیش کیا گیا۔ اسلام کے بارے میں ایسا ہی میڈیا کے دونوں شعبوں (پرنٹ اور الیکٹرک میڈیا) میں دیکھنے میں آرہا ہے۔ جب کے صحافت کی جو تو ضیح Exploring Journalism کے مصنّفین نے کی وہ اس طرح ہے:

"صحافت جدید وسائل ابلاغ کے ذریعے عوامی معلومات، رائے عامّہ اور عوامی تفریحات کی باضابطہ اور مستند اشاعت کا فریضہ ادا کرتی ہے۔" [28]

اس پر کتنا عمل کیا جا رہا ہے یہ بات وضاحت طلب نہیں۔ ایک صدی پہلے ہی قوم بیدار ہو جاتی اور اسلامی اصولوں پر اخبارات جاری کیے جاتے تو ہمیں صحافت پر مغربی عناصر کی اجارہ داری کا شکوہ نہ ہوتا اور میڈیا کو مسلمانوں پر اتہامات و الزامات تھوپنے کی ہمت بھی نہ ہوتی۔

1330ھ میں جب کہ متعدد اخبارات خود امام احمد رضا کے متوسّلین پٹنہ، امرتسر، لاہور، بریلی، رام پور وغیرہ سے شائع کیا کرتے تھے ان کے احیا اور ابلاغ کے لیے امام احمد رضا بہ ذاتِ خود علمی و قلمی اور مالی تعاون فراہم کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ اہلِ سنّت کو ترغیب بھی دیا کرتے تھے، اس وقت کا ایک نمایاں اخبار "دبدبۂ سکندری" تھا،جس کے لیے امام احمد رضا نے تعاون کی اپیل جاری کی، اس کا ایک گوشہ درج کیے دیتا ہوں، جس میں امام احمد رضا کی صحافتی فکر و بصیرت کا پہلو بھی نمایاں ہے۔

فرماتے ہیں:

"عوام میں اشاعت و خیالات کا سہل تر ذریعہ اخبارات ہیں۔ بہ استثنا بعض وہ خود آزادی کے دل دادہ ہیں، مذہبی بلکہ لا مذہبی کے خیالات آئے دن شائع ہوں وہ نہ جھگڑا ہے نہ نفسیات، مگر حق کی تائید اور اس کے لیے اپنا کوئی صفحہ دینا جھگڑے میں پڑنا اور نفسیات پر اڑنا ہے؛ الاماشاء اللہ و قلیل ماہم "تحفۂ حنفیہ" عظیم آباد اپنے مالک کے وصال سے انتقال کر گیا۔ "اہلِ فقہ" (امرتسر)سنّیوں کی کم توجّہی سے بند ہو گیا، مگر اللہ تعالیٰ جزائے خیرِ کثیر وافر دونوں جہاں میں میرے معزّز گرامی دوست جناب مولانا شاہ محمد فاروق حسن خاں صاحب صابرؔی مدیر اخبار"دبدبۂ سکندری" اور ان کے صاحب زادے عزیز بہ جان سعادت اطوار گرامیِ شان عزیزی مولوی فضل حسن خاں نائب مدیر کو عطا فرمائے کہ ان کے اخبار کے صفحات تائید و دینِ حق و مذہبِ اہلِ سنّت کے لیے بِحَمْدِ اللہِ تَعَالٰی بلا معاوضہ و طمعِ دنیا وقف پائے۔ یہ اللہ عَزَّوَجَلّ کا فضلِ حسن ہے۔" [29]

اس اقتباس میں بڑے درد و کرب کے ساتھ دبدبۂ سکندری (رام پور) کی حمایت اور دین کے لیے اس کی خدمات کا اعتراف کیا گیا ہے اور افسوس کا اظہار ہے کہ ہماری صحافت کے کئی چراغ گل ہو گئے۔ یہ پہلو بھی واضح ہوتا ہے کہ اشاعتِ حق کی بنیادوں پر جاری ہونے والے اخبارات کی حوصلہ افزائی و معاونت کی جانی چاہیے۔

عہدِ رضا میں متوسّلینِ رضا کی صحافتی خدمات و بصیرت پر مولانا عبد السلام رضوی استاذ جامعہ نوریہ رضویہ (بریلی شریف) نے بڑا تحقیقی مقالہ قلم بند کیا ہے، جس میں کئی ایک گوشے واکیے ہیں، تاریخی تناظر میں یہ بڑا اہم مقالہ ہے۔

امام احمد رضا کا دس نکاتی منصوبہ جہاں فکری وسعت و آفاقیت وہمہ گیریت رکھتا ہے وہیں یہ تقاضا بھی کرتا ہے کہ اس پر عمل کی سبیل نکالی جائے۔ ایک صدی کا عرصہ گزرا اس پر ویسی توجّہ نہیں دی گئی جیسی دی جانی تھی۔ اب مزید غفلت ہمیں مزید پستی کی طرف لے جائے گی۔ اب خوابِ غفلت سے جاگ جانا چاہیے۔ باطل فرقوں اور دشمنانِ اسلام سے مقابلے کے لیے ان ٹھوس نکات پر کام آگے بڑھا دینا چاہیے؂

تعمیر کی جانب صفتِ سیلِ رواں چل
وادی یہ ہماری ہے وہ گلشن بھی ہمارا



[1] ۔ نفیس احمد مصباحی، مولانا: کشفِ بردہ، الجممع القادری مبارک پور، 2005ء، ص 311۔

[2] ۔ احمد رضا بریلوی، امام: اَلْاِجَازَاتُ الْمَتِیْنَۃ لِعُلَمَآءِ بَکَّۃَ وَالْمَدِیْنَۃ، مشمولۂ رسائلِ رضویہ، ادارۂ اشاعتِ تصنیفاتِ رضا، بریلی، ص 106۔107۔

[3] ۔ محمد مسعود، پروفیسر ڈاکٹر: رہبرو رہ نما، المجمع الاسلامی، مبارک پور، ص6۔

[4] ۔ کوثر نیازی، مولانا: امام احمد رضا ایک ہمہ جہت شخصیت، ادارۂ تحقیقاتِ امام احمد رضا کشمیر، 2004ء، ص 29۔

[5] ۔ ملاحظہ فرمائیں: اَلْاِجَازَاتُ الْمَتِیْنَۃ لِعُلَمَآءِ بَکَّۃَ وَالْمَدِیْنَۃ از امام احمد رضا، مشمولۂ رسائلِ رضویہ، ادارۂ اشاعتِ تصنیفاتِ رضا، بریلی، ص 149تا 193۔

[6] ۔ محمد مسعود احمد، پروفیسر ڈاکٹر: رہبرو رہ نما، المجمع الاسلامی، مبارک پور، ص12۔

[7] ۔ احمد رضا بریلوی، امام: فتاوٰی رضویّہ، رضا اکیڈمی، ممبئی، جلد 12، ص 133۔

[8] ۔احمد رضا بریلوی، امام: اَلْمَحَجَّۃُ الْمُؤْتَمِنَۃ فِیْٓ آیَۃِ الْمُمْتَحِنَۃ، عرفی نام : ترکِ موالات، رضا اکیڈمی، ممبئی، 1998ء، ص 23۔

[9] ۔ احمد رضا بریلوی، امام فتاوٰی رضویّہ، رضا اکیڈمی ممبئی، جلد12، ص 178۔

[10] ۔ احمد رضا بریلوی، امام فتاوٰی رضویّہ، رضا اکیڈمی، ممبئی، جلد12، ص 133۔

[11] ۔ احمد رضا بریلوی، امام: فتاوٰی رضویّہ، رضا اکیڈمی، ممبئی، جلد12، ص 133۔

[12] ۔ احمد رضا بریلوی، امام: فتاوٰی رضویہ (مترجم)، برکاتِ رضا پور بند، جلد 23، ص 635۔

[13] ۔ احمد رضا بریلوی، امام: فتاوٰی رضویہ، رضا اکیڈمیج، ممبئی، جلد 12، ص 133۔

[14] ۔ احمد رضا بریلی، امام: فتاوٰی رضویہ، رضا اکیڈمی، ممبئی، جلد 12 ص 133

[15] ۔ احمد رضا بریلی، امام: فتاوٰی رضویہ، رضا اکیڈمی، ممبئی، جلد 12 ص 134۔

[16] ۔اَلْقُرْآنُ الْکَرِیْم، اَلْعَلَق: 4۔5/کنزالایمان۔

[17] ۔ یاسین اختر مصباحی، مولانا: پیغامِ عمل، دار القلم، دہلی، 2002ء،ص 34۔

[18] ۔ احمد رضا بریلوی، امام: فتاوٰی رضویہ، رضا اکیڈمی ممبئی، جلد 12، ص 134۔

[19] ۔ احمد رضا بریلوی، امام: فتاوٰی رضویہ، رضا اکیڈمی، ممبئی، جلد 12، ص 132۔

[20] ۔ احمد رضا بریلوی، امام: فتاوٰی رضویہ، رضا اکیڈمی، ممبئی، جلد 12، ص 132۔

[21] ۔ احمد رضا بریلوی، امام: فتاوٰی رضویہ، رضا اکیڈمی، ممبئی، جلد 12، ص 134۔

[22] ۔ محمد ظفر الدین بہاری، مولانا: حیاتِ اعلیٰ حضرت، ترتیبِ جدید: مطیع الرحمٰن رضوی، مفتی، ادارۂ ترویج و اشاعت، مسجد نور الاسلام، بولٹن، 2003ء، جلد 3، ص 391۔

[23] ۔ یٰسٓ اختر مصباحی، مولانا: پیغامِ عمل، دارالقلم، دہلی، 2002ء، ص 72۔

[24] ، احمد رضا بریلوی، امام، فتاوٰی رضویہ، رضا اکیڈمی، ممبئی، جلد 12، ص 134۔

[25] ۔ احمد رضا بریلوی، امام: فتاوٰی رضویہ، رضا اکیڈمی، ممبئی، جلد 12، ص 134۔

[26] ۔ ماہ نامہ ضیائے حرم لاہور نے جولائی 1972ء کے شمارے میں یہودی خفیہ دستاویز کا خلاصہ شائع کیا، جس کی اصل زبان تو عبرانی ہے، غالباً انگریزی ترجمے سے اردو کے قالب میں ڈھالا گیا۔

[27] ۔ یاسین اختر مصباحی، مولانا: پیغامِ عمل، دارالقلم، دہلی 2002ء، ص 10۔

[28] ۔ ماہ نامہ ضیائے حرم لاہور، نومبر 2001ء۔

[29] ۔ غلام جابر شمس مصباحی، ڈاکٹر: کلیاتِ مکاتیبِ رضا، دارالعلوم صابریہ برکاتِ رضا، کلیر، جلد 2، ص 345۔

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi