ضیائے قرآن و ضیائے حدیث


ضیائے قرآن

اللہ کا احسان مانو!

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُلُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ وَاشْکُرُوۡا لِلہِ اِنۡ کُنۡتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوۡنَ﴿۱۷۲﴾ اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیۡکُمُ الْمَیۡتَۃَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنۡزِیۡرِ وَمَاۤ اُہِلَّ بِہٖ لِغَیۡرِ اللہِۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیۡرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیۡہِؕ اِنَّ اللہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۷۳﴾ (سورۃ البقرۃ: ۱۷۲تا ۱۷۳)

ترجمہ: اے ایمان والو! کھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں اور اللہ کا احسان مانو اگر تم اسی کو پوجتے ہو۔ اس نے یہی تم پر حرام کیے ہیں مردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور وہ جانور جو غیرِ خداکا نام لے کر ذبح کیا گیا؛ تو جو ناچار ہو نہ یوں کہ خواہش سے کھائے اور نہ یوں کہ ضرورت سے آگے بڑھے تو اس پر گناہ نہیں؛ بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (کنزالایمان)

ضیائے حدیث

چھپکلی مارنا

فاکہ بن مغیرہ کی آزاد شدہ کنیز سائبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھَا سے روایت ہے، کہتی ہیں کہ وہ سیّدہ عائشہ صدّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھَا کے پاس حاضر ہوئیں تو آپ کے گھر میں ایک نیزہ پڑا ہُوا دیکھا۔ عرض کرنے لگیں: اے اُمّ المومنین! آپ اس سے کیا کرتی ہیں؟ اُمّ المومنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھَا نے ارشاد فرمایا: اِس سے چھپکلیاں مارا کرتی ہوں (اِن کو قتل کرنے کی وجہ یہ ہے) کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ہمیں خبر دی ہے کہ جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کو آگ میں ڈالا گیا تو سوائے اس چھپکلی کے، زمین میں کوئی جانور ایسا نہیں تھا جس نے اُس آگ کو بجھانے کی کوشش نہ کی ہو۔ فَاِنَّہٗ یَنْفُخُ عَلَیْہِ فَاَمَرَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ بِقَتْلِہٖ لیکن یہ چھپکلی (آگ کو مزید بھڑکانے کی کوشش میں) پھونکیں مارتی تھی اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اُسے قتل کر دینے کا حکم دیا (کیوں کہ پیغمبروں عَلَیْھِمُ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام کا دشمن، چاہے جانور ہی ہو، قابلِ معافی نہیں۔ علاوہ ازیں اُس کی سانس سے ہُوا بھی زہرآلود ہوتی ہے، جس سے بیماریاں پھیلتی ہیں)۔ (اَلتَّرْغِیْب وَالتَّرْہِیْب، اُردو ترجمہ، جلد ۲، ص440 تا 441)

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi