جب مہینے گھٹ جائیں


از: تاج الشریعہ مفتی محمداختررضاخاں قادری ازہری دامت برکاتہم العالیہ

تخریج : عبید الرضا مولانا محمدعابد قریشی

’’مجمع بحارالانوار‘‘ [1] میں ہے اہل ہیئت نے کہا کہ دائرۃ البروج دائرہ معدل النہار پرمستقبل میں منطبق ہوجائے گا۔ توضیح اس مقام کی یہ ہےکہ قطب شمالی اور قطب جنوبی کے درمیان ایک دائرۂ عظیمہ ماناگیاہے جس کافصل دونوں قطبوں سے برابر ہے یعنی وہ دائرہ عظیمہ قطب شمالی سے ۹۰/ درجہ پرہے اور قطب جنوبی سے بھی ۹۰/ درجہ پر ہے۔ اسی دائرۂ عظیمہ کانام دائرہ معدول النہار ہے۔

۱۲/ مارچ اور ۲۴/ ستمبر کو آفتاب دائرہ معدول النہار پر حرکت کرتاہے اور۲۲/جون کوآفتاب جس نقطہ سےطلوع کرتاہےاس نقطے سے ۲۳/ درجہ۲۷/دقیقہ جنوب میں معدول النہار ہے۔

یونہی ۲۲/جون کو جس نقطہ پر آفتاب غروب کرتاہے، اس نقطے سے بھی ۲۳/درجہ۲۷/دقیقہ جنوب میں معدول النہار ہے اور ۲۲/ دسمبرکوآفتاب جس نقطے سےطلوع کرتا ہے اس نقطے سے ۲۳/ درجہ۲۷/ دقیقہ شمال میں معدول النہارہے۔

Description: F:\My System Data [E]\1. ZIA-E-TAIBA WORK\Mudassir\1 PSD files\1 Mahnaama Mujalla Zia-e-Taiba\14 October Safar ul Muzaffar\Design\Jab-Mahiny-Ghat-jaen.png یونہی ۲۲دسمبرسپرجس نقطہ پرآفتاب غروب کرتاہے، اس نقطہ سے بھی۲۳/درجہ ۲۷/دقیقہ شمال میں معدول النہار ہے یعنی ۲۲/جون اور۲۲/دسمبرکے مطلع کےعین وسط میں معدول النہارہے۔

یونہی۲۲/جون اور ۲۲دسمبر کےمطلع کےجائےغروب کے بیچ وبیچ معدول النہارہے۔ اس کومعدول النہاراس لئے کہاجاتا ہےکہ سورج جب اس دائرہ کےسیدھ میں آتاہےتوتمام مقامات میں دن رات تقریباًبرابر ہوتےہیں جودائرہ معدول النہارکو اس طرح قطع کرتاہے کہ دونوں کے قطبوںمیں۲۳/درجہ ۲۷/دقیقہ فصل رہتاہے۔ اسی دائرۂ عظیمہ کودائرۃ البروج یامنطقۃ البروج کہتےہیں اس دائرہ سےستارو ں کی حرکات کی مقدار طول اور میل شمس معلوم ہوتاہے۔

یہاں سے معلوم ہواکہ جب تک یہ دائرہ عظیمہ، دائرہ معدول النہارکواس طور پرکاٹتاہوا چلےگاکہ مندرجہ بالا فاصلہ دونوں میں قائم رہےاور جب تک حرکت شمس معمول کےمطابق رہے ۔

’’تفسیرکبیر‘‘ میں امام رازی علیہ الرحمہنے ’’اِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ‘‘ کی تفسیر میں ایک قول یہ نقل کیا: ’’القیت ورمیت عن الفلک‘‘ [2] یعنی جب سورج فلک سے نیچےڈال دیاجائے۔

اس سےاس قول کی تائید اور حدیث کی تصدیق مستفاد ہوتی ہےاور اس صورت میں خود آیت کریمہ سےمضمون حدیث کی تصدیق ثابت ہےاور حدیث کا مفہوم آیت کا بیان ہےکہ سورج جب اپنے مدار سے نیچے جو زمین سےکروڑوںمیل اوپرہے، اپنےمدارسےنیچےپھینکاجائےگاتولامحالہ اس کادائرہ چھوٹا ہوتاجائےگااور نیچےآنےکےسبب اس کی حرکت تیز ہو جائے تیز ہوجائےگی تو مسافت بھی کم اور حرکت شمس بھی تیز ہوگی۔

لہذا بداہتہً زمانہ کی مقدار گھٹ جائےگی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے حدیث مروی ہےکہ جب قیامت قریب ہوگی، زمانہ قریب ہوجائے گا (ٹھورارہ جائےگا) تو سال مہینے کی طرح اور مہینے جمعہ کی طرح اور جمعہ کی مدت اتنی ہوگی جتنی دیر میں کھجور کی ٹہنی آگ میں جل جائے۔

حدیث کے الفاظ یہ ہیں: عن ابی ھریرہ قال قال اذا اقترب الساعۃ تقارب الزمان فتکون السنۃ کالشھر والشھر کا لجمعۃ والجمعۃ کا حتراق السعفۃ فی النار‘‘ [3]

سال اور مہینہ وغیرہ کی مقدار قائم رہے گی اور یہ فاصلہ جتنا کم ہوتا جائے گا، اس کےنتیجہ میں یہ دائرۃ البروج معدول النہار سے بتدریج نزدیک ہوتا جائے گااور زمانے کی مقدار گھٹتی جائے گی ۔یہاں سے ظاہر ہوا کہ یہ جو فرمایاگیا کہ مہینے گھٹ جائیں گے، اپنے ظاہری معنی پر ہے اور کوئی وجہ حقیقی معنی سے مانع نہیں تو وہی حقیقتاًمراد ہے اور حدیث جو آخر میں ذکر کی گئی وہ فقر ۂ مذکورہ کی تفسیر ہے۔ واللہ الحمد

بالجملہ مضمون حدیث اپنے ظاہر پر ہے اور ظاہری معنی مراد لینے میں نہ کوئی استحالہ ہے نہ کوئی اور دلیل شرعی ایسی ہے جو ظاہرمعنی سے عدول کی مقتضی ہےبلکہ ’’بخاری شریف‘‘ میں اس مضمون کی مؤیدحدیث موجودہے جس میں ’’تقارب الزمان‘‘ [4] فرمایاگیا، جس سے زمانے کاباہم قریب ہوناظاہر اً مستفاد ہے ۔ ’’مسلم شریف ‘‘ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺنے دجال کاذکر فرمایا، صحابہ نے عرض کیا: ’’زمین میں دجال کی مدت اقامت کتنی ہوگی ؟‘‘ فرمایا: ’’چالیس (۴۰) دن ایک دن ایک سال جیسا ہوگااور ایک دن ایک مہینے جیساہوگااور ایک دن ایک جمعہ جیسا یعنی ایک ہفتہ کے برابر ہوگا اور دجال کے باقی ایام تمہارے دنوں جیسے ہوں گے۔‘‘ تو عرض کی گئی : ’’یارسول اللہ ﷺتو وہ دن جو ایک سال برابر ہوگا تو کیا ہمیں اس ایک دن کی نماز پڑھنا کافی ہوگا کہا نہیں اس کے لئے اندازہ رکھو۔‘‘ [5]

علامہ شبلی، امام کمال الدین ہمام سے حاشیہ تبیین الحقائق سے ناقل انھوں نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرمایا بے شک سرکارﷺنے اس حدیث میں اپنے ارشاد میں عصر کی تین سو نمازیں واجب فرمائیں، اس سے پہلے کہ سایہ ایک مثل یا دو مثل ہو اور اسی پر باقی نمازوں کو قیاس کرو۔ [6]

یہاں سے ظاہر ہوا تقارب زمان اور نقصان مقدار سال و ایام اپنے ظاہر پر ہےجس میں کسی تاویل کی گنجائش نہیں بلکہ حدیث مسلم صاف صاف دافع تاویل ہے یہاں سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ سورج کا میل شمس جو مذکور ہوااس کااسی مقدار معتاد پر قائم رہنا ضروری نہیں بلکہ اسمیں بتدریج کمی ہوتی رہے گی تیزی سے موسم کی تبدیلی جس کامشاہدہ ہے اس کی روشن دلیل ہے۔

نیز قرآن شریف میں فرمایا:

’’وَ الشَّمْسُ تَجْرِیۡ لِمُسْتَقَرٍّ لَّہَا ؕ ذٰلِکَ تَقْدِیۡرُ

الْعَزِیۡزِ الْعَلِیۡمِ‘‘

یعنی اور سور ج چلتاہے اپنے ٹھراؤ کے لئے یہ حکم ہے زبر دست علم والے کا۔ [پ:23/ یٰس :38/ترجمۂ کزالایمان ]

آیت کریمہ سے ظاہر کہ سورج مسلسل اپنے مستقر کی طرف چل رہا ہے اور جب سورج اپنے مستقر کی طرف رواں دواں ہے تو ضرور اس کی اس کے لئے ایک مسافت مقدر ہے جسے اس کو قیامت تک طے کرناہے لہٰذا وہ کسی ایک مستقر پر نہیں ٹھہرتابلکہ جب کسی مستقر پر پہنچتاہے بہ حکم الہی وہاں سے دوسرے مستقر کی طرف رواں ہوجاتاہے یہی سلسلہ اس کی انتہائے سیر تک یعنی قیامت تک جاری رہے گا۔

’’تفسیر کبیر‘‘ [7] میں ہے: ’’وعلی ھذا فمعناہ تجری الشمس وقت استقرارھاای کلمااستقرت زمانا امرت بالجری فجرت ویحمیل ان تکون بمعنی الیٰ ای الیٰ مستقر لھا و یؤیدھذا قرأۃ من قرأ (والشمس تجری الی مستقرلھا) وعلی ھذا ففی ذالک المستقر وجوہ (الاول) یوم القیامۃ وعندہ تستقر ولایبقی لھا حرکۃ۔‘‘ یعنی اور اس تقدیرجبکہ ’’لا‘‘ افادۂوقت کے لئے ہوتو آیت کا معنی یہ ہے کہ سورج اپنےزمانۂ استقرار میں چلتاہےیعنی جب کسی زمانہ میں کسی مستقر پر پہنچتاہے۔ اس کو وہاں سے چلنے کاحکم ہوتاہےتو چل پڑتاہے اور یہ احتمال ہے کہ ’’لام ‘‘بمعنی ’’الٰی‘‘ہو یعنی سورج اپنے مستقر کی طرف چل رہاہے اور اس توجیہ کی مؤید اس کی قرأت ہے جس نے یوں پڑھا: ’’و الشمس تجری الیٰ مستقرلھا‘‘ اور اس توجیہ پر اس مستقر مذکور میں چند توجیہات ہیں پہلی یہ کہ وہ مستقر یوم قیامت ہے اور اس دن سورج ٹھہرجائےگااور اس میں حرکت نہ رہے گی۔

اسی میں ہے: ’’قولہ (ذالک) یحتمل ان یکون اشارۃ الی جری الشمس ای ذالک الجری تقدیر اللہ (الیٰ ان قال) ان الشمس فی ستۃ اشھرکل یوم تمرعلی مسامتۃ شئی لم تمرمن امسھا علی تلک المسامتۃ‘‘ [8] یعنی اوراللہ کا فرمان ’’ذالک‘‘ اس میں احتمال ہے کہ اس میں اشارہ ہو سورج کے چلنے کی طرف یعنی سورج کایہ چلنا اللہ کی تقدیر ہے یہاں تک کہ انہوں نے کہاکہ سورج چھ مہینوں میں ہر دن کسی شئی کی سمت سےگزرتاہےکہ گذشتہ کل اس سمت سے نہ گزاراتھا۔‘‘

اس سے ظاہرکہ سورج مسلسل چل رہاہے اور ایک مسافت طے کررہاہے اور اسے کسی مستقر پر قرار نہیں۔ اعلی ٰ حضرت نے عبدا للہ ابن مسعود [9] کی ایک قرأۃ نقل کی کہ انہوں نے یوں پڑھا: ’’لامستقرلھا‘‘ یہ تفاوت میل اور بتدریج ارتفاع و انخفاض اور بعد وقرب میں تفاوت کا مقتضیٰ ہے اور آخر کار قیامت کےنزدیک سورج کے زمین سے زیادہ قریب ہونے پر دلالت کرتاہے جو تقارب زمان اور یوم وصال میں نقصان کا مقتضی ٰہے جس کا افادہ احادیث نے فرمایا: ’’وفی الایۃوجوہ آخروالقرآن محتج بہ علی جمیع وجوھہ کماافادہ الامام سیدی امجد مولاناالشیخ احمد رضاقدس سرہ نقلاعن الزرقانی علی المواھب‘‘۔

(’’آثار قیامت ‘‘، مطبوعہ دارالنقی،کراچی:ص:42تا46)



[1] ۔ مجمع بحار الانوار

[2] ۔ التفسیر الکبیر / سورۃالتکویر /آیۃ:1/ج: 31/ص: 63

[3] ۔ کنز العمال /کتاب القیامۃ / الباب الاول / الفصل الثالث فی اشراط الساعۃ الکبری / رقم الحدیث: 38503/ ج: 14/ص: 227

[4] ۔ صحیح البخاری / کتاب الجمعۃ / باب ماقیل فی الزلازل والآیات / رقم الحدیث : 1036 / ج: 2/ ص: 33

[5] ۔ صحیح مسلم /کتاب الفتن وا شراط الساعۃ /ذکر الدجال (الخ) / رقم الحدیث: 2937 / ج: 4 /ص: 2250

[6] ۔ حاشیۃ الشبلی معہ تبیین الحقائق /کتاب الصلوۃ /مواقیت الصلاۃ / ج:/ 1 ص:81

[7] ۔ التفسیر الکبیر/ سورۃیٰس /آیۃ: 39 /ج: 26 / ص: 277

[8] ۔ التفسیر الکبیر/ سورۃیٰس / آیۃ: 39 / ج: 26 / ص: 277

[9] ۔ فتاوی ٰرضویہ (قدیم) کتاب الشتیٰ/ج: 12/ص: 285/رسالہ نزولِ آیات فرقان بسکون زمین وآسمان فتاویٰ رضویہ (جدید) /ج: 27ص: 220

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi