تحریر: مولانا عبدالستّار نیازی رحمۃ اللہ علیہ صاحب صدر ! آج ہم سب اعلیٰ حضرت امام اہل سنّت احمد رضا خاں علیہ الرحمۃ کے ۴۸ عرس یاجدید اصطلاح میں یوم رضا منانے کے لئے یہاں جمع ہوئے ہیں۔ تمام اسلامی اصطلاحوں کی مانند’’عرس‘‘ کی اصطلاح بھی خود واضح ہے کہ ہم مسلمانوں غیر مسلم اقوام کی طرح اپنے اکابرین کے ایام ولادت نہیں مناتے۔ ماسوا حضور خاتم النبیین ﷺکے یوم میلاد کے، جوہمارے عقیدے کے مطابق تخلیق کائنات ہی کے وقت سے ماموریت کامنصب، تقدید الہٰی سے پاچکے تھے اور باعثِ تخلیق ہردوعالم تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام کاخدا سے عطاکردہ لقب رَحْمَۃٌ الِّلْعَالَمِیْنَ (یعنی سب جہانوں کےلئے رحمت ) مسلم ہے لیکن تمام اولیاء اللہ اور علما ء کرام کی تاریخ وصال یاتصوّف کی اصلاح میں ’’عرس‘‘ کاذکر کرتے ہیں کیونکہ غیر مامور من اللہ تکوینی جہت سے کسی بھی منصب کے لئے پیدا ہوں ۔ طفولیت میں بہر صورت اس کمال منصب تک رسائی نہیں ہوتی جو خالق حقیقی کے پاس جاتے ہوئے معیار شرعی سے بھی حاصل ہوسکتی ہے۔ اِ س معیار کوملحوظ رکھتے ہوئے میں اپنی تقریر میں اعلیٰ حضرت کی ان فضیلتوں کاذکر دوسرے مقررین پر چھوڑدوں گا جومتعلقہ منصب کوبیان کرنے کی زیادہ اہلیت رکھتے ہیں۔ مثلاً اعلیٰ حضرت کے ہزارہامریدان طریقت آج بھی برصغیر ہندوپاک میں موجود ہیں ۔ وہ طریقت دنیا میں ان کے فضائل مجھ سے بہتر بیان کرسکتے ہیں۔ تمام بّر صغیر کے ہر علاقہ میں ملت اسلامیہ کے سوادِاعظم یعنی نعمانی مسلک فقہ رکھنے والے علماء کرام، مدرسین، خطباء، واعظین وغیرہ یابراہ ِراست اعلیٰ حضرت کے شاگردہیں یاان کے شاگردوں اور عقیدت کیشوں کے تربیت یافتہ ہیں۔ بہرحال راسخ العقیدہ اسلامی روایات کی پیروی میں سلف صالحین سے اخذ کردہ روایات کی مانند ان کے تعاون کوبھی حجّت شرعی تسلیم کرنے کے باعث اعلی ٰ حضرت کے ہم مسلک فقہ توضرور ہیں۔ یہی وجہ ہےکہ اعلی حضرت کوامام اہل سنت وجماعت متاخرین ماناجاتاہے، چنانچہ جن اعتزالی اور انحرافی فقہی تحریکوں نے انگریزی کےدورغلامی میں خدا سے رسول کوجداکرنے، قرآن کوحدیث سے پَرے رکھنے، فقہ کوکتاب وسنّت کامدِّ مقابل بنانے یاخدا اور رسول ﷺکے مابین علم غیب کی تقسیم اپنے ناقص فہم قرآن کے ماتحت کرنے کی کوششیں کی ہیں اورجب عہد حاضر کے مسلمان کواس کے صحیح تبلیغی منصب سے غافل کرکے طول طویل اور دوراز کارذہنی الجھنوں میں مبتلا کرنے کے شاخسانے کھڑے کردیئے ہیں ۔ توان کی تردید میں صحیح عقلی ونقلی دلائل کی تلاش بہر حال کسی نہ کسی مرحلے پر اعلیٰ حضرت کی تصانیف کی مدد سے کی جاتی ہے۔ امام اہل سنت کی حیثیت میں بھی اعلیٰ حضرت کے فتاویٰ کی بارہ جلدوں اور مبیّنہ ایک ہزار بڑی چھوٹی تصانیف کے مطبوعہ یاغیر مطبوعہ نسخوں سے سر سری تعارف کرانابھی اعلیٰ حضرت کے فیض یافتہ علماء کرام کاہی حصہ ہے۔ میَں توآج کی تقریرمیں اپناموضوع یہاں تک محدود رکھوں گاکہ ۱۸۵۷ء میں جب علماء سواد اعظم برصغیر کے سرخیل مولانا فضل حق خیر آبادہ علیہ الرحمۃ کے مرتب کردہ فتویٰ جہاد سے پیدا ہونے والی تحریک کاعسکری سیاسی اقتصادی تعلیمی اور معاشرتی محاذ پراستیصال، انگریز، سرسالار جنگ اوّل مدارالمہام نظام حیدر آباد دکن، سرسیّد اور ارسطو جاہ رجب علی جیسے ملت فروشوں کی مددسے کرچکے تومسلمانوں کی خانقاہوں کے اوقاف، انگریزی فوجوں کے تسلط میں آکر اس حالت کوپہنچ گئے کہ شاہی مسجد لاہور میں گولہ بارود رکھاجاتاتھا، نیلہ گنبدانار کلی کے مزار کو گورا فوج کامطبخ بنایا گیا اور مقبرہ انار کلی میں ملکہ وکٹوریہ کہ پاپائیت کے ماتحت برٹش چرچ کا گرجاقائم کردیاگیااورکم وبیش یہی حالت تمام ہندوستان کے اسلامی مقامات مقدسہ کی تھی، عربی فارسی کی جگہ اردو اور انگریزی زبانیں جبراً مرّوج کی گئیں تواس وقت قضائے ربّی نے، لَوْ لَا دَفْعُ اللہ ِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَفَسَدَتِ الْاَرْ ض‘‘ کے مصداق جون ۱۸۵۶ء ہی میں بریلی شریف کے ایک قدیم ریاست دنیاوی اور فضلیت علمی وروحانی رکھنے والے گھرانے میں اعلیٰ حضرت کوپیدا کیا۔ آپ کے ایام طالب علمی و روحانی رکھنے والے گھرانے میں اعلیٰ حضرت کوپیدا کیا۔ آپ کے ایام طالب علمی جوانی وہی زمانہ ہے جب کہ ۱۸۵۷ء کے بعد ربع صدی تک تمام مسلمانانِ ہندپرقبرستان کی خاموشی اور اجاڑ کی کیفیت طاری تھی۔ کتابیں چھپتی تھیں توصرف ان عالموں اور صوفیوں کی جو تاجداران لندن کے آنجہانی ہونے پر شاہی مسجد دہلی اور شاہی مسجد لاہور میں ان کے لئے دعائے مغفرت پڑھاکرتےتھے (دراصل اسی مقصد کی خاطر یہ مساجد واگزارکرائی گئی تھیں) مدرسے بھی وہی قائم رہ سکے جو ( اپنی سالانہ ردٹدادوں کی اصلی شہادت کے مطابق) ڈپٹٰ کمشنروں اورسرکاری افسروں کے زیر صدارت معاذ اللہ اسلام کی سب بڑی بنیادی تعلیم یہ قرار دیتے تھے کہ حاکم وقت کافر بھی ہوتو اس کی مخلصانہ وفاداری اور اطاعت مسلمان کاشرعی فریضہ ہے، دلیل یہ تھی کہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کے مطابق حبشی سردار کی اطاعت بھی فرض شرعی ہے ( ان قود علیکم عبد مجد ع یقودُ کم بکتاب اللہ ِوَ سُنَّۃِ رَسُوْ لِہٖ فَا تَّبِعُوْہُ انگریز توکالے کلوٹے حبشی نہیں ماشاء اللہ گورے چٹے خوبصورت حکمران ہیں۔ یہ بات تاویل سے گول کردی جاتی تھی کہ حضرت ابو ذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حبشی مسلمان کاتذکرہ کیاتھا۔ اسلام میں معیار فضیلت جلد کی رنگت نہیں لیکن کفر کی سیاہی دل میں رکھنے والےگورے کوایمان کی روشنی رکھنے والے کالے رنگ کےحبشی کی خاکِ پاسے بھی کیانسبت ہوسکتی تھی۔ ان حالات میں اعلیٰ حضرت نے ہوش سنبھالتے ہی اس تحریک کی امامت کامنصب نبھایا جس کی روایات مولانا فضل حق خیر آبادی کے بعد رسول بدایونی اور دیگر اکابر اہل سنّت نے اپنے اپنے علاقے میں اس دور پُر فتن میں بھی زندہ رکھی تھی۔ اس تحریک میں اعلیٰ حضرت نے علوم اعتقادی وعلوم آلاتی میں فضیلت حاصل کی جوتصانیف شائع کیں تحریری مناظرے اور فقہی استدلال سے اپنی برتری جس طرح اپنے حریفوں سے بھی تسلیم کروائی یاجس طرح اپنے کمال کوپہنچ کر غلام آباد ہندوستان کایہ سچامسلمان مبلّغ مکّہ معظّمہ، مدینہ منّورہ اوراس وقت کی تمام قلمر وخلافت عثمانیہ کے فقہا ومشائخ سے قبولِ عام کی سند لیکر ہندوستان واپس آیا اور سیّد جمال الدین افغانی علیہ الرحمۃ نے جس طرح دوست محمد خاں امیرکابل کی انگریزوں کی باجگذاری سے نجات کی تحریک سے لے کرکلکتہ میں جسٹس سیّد امیر علی مرحوم کی دوقوم کے نظریہ کی ابتدائی ہندوستانی تحریک تک یاپھر ایران سے لےکر مصر وشام قسطنطنیہ تک اور بعد ازاں وسط ایشیا کی روسی تسلط سے زبوں حال کثیر مسلمان آبادیوں تک عالمگیر اجماعیّت ملت اسلامیہ کوتازہ کرکے حقیقی معنوں میں محی ملت کے منصب اورلقب کاحق اداکردیا۔ نجد میں خلیفۃ المسلمین کے خلاف بغاوت کے فتنے سے لیکر ہندوستان میں نیچریت وغیرہ کی اعتزالی وانحرافی تحریکیں اور یہاں سے وسط ایشیا میں بہائی اور بابی تحریکوں کوشرک فی الرسالت کے عقدے سے منسلک ثابت کرکے ناخواند عامۃ المسلمین کےدلوں کی گہرائی تک یہ بات اتاردی کہ امکان نظیر رسالت یاامکان کذب باری تعالیٰ۔ کی تحریکیں فقط نصرانیت ویہودیت کے پادریوں کے مابین پروٹسٹنٹ اور کیتھو لک یافریسی وصدوقی صیہونیت کے ربّیوّ ں اور احبار کی مناظر بازی اور کتب فروشی کے حیلے بہانے تک محدود نہیں بلکہ روسی زارئیت اورانگریز قیصریت نے مسلمانوں کے جہاد سے نجات پانے کے لئے آتش بازی کی پھلجھڑیاں چھوڑی ہیں جن کی چنگاریاں سلطنت سے محروم اور مسجدوخانقاہ کی تربیت سے جلاوطن مسلمان خانہ برباد نونہالوں کے خرمن ایمان کے لئے کڑکتی ہوئی عسکریت کی بجلیوں یاعدالت سے مہاجن اور ساہوکار کی ترقی کی ڈگریوں سے اٹھنے والے جگر سوز شعلوں سے بھی زیادہ خطرناک ہیں ۔ ۱۸۷۰سے لیکر ۱۹۲۱ء [1] تک طول وعرض ظلمت کدہ ہند میں اعلیٰ حضرت کی تحریک تکریم رسالت اور انعقاد مجالس میلاد کی یہ تنظیم تھی جس نے ۱۸۵۷ء کے فتنے میں مسلمانوں سے تخت دہلی، اوقاف، دارالعلوم اور مساجد میں انگریز کے گیت گانے والے ( در مندانِ ملت ) کے علی الرغم پہلی مرتبہ عامۃ المسلمین کوایسی تنظیم میں جو ۳۸ ء میں پاکستان کی وکیل بننے والی مسلم لیگ کی پیدائش سے بھی قرنوں پہلے ۱۹۳۰ء میں علامہ اقبال کے خطبہ الہ آباد سے بھی قرنوں پہلے اور ۱۹۱۶ ء میں لیگ کانگرس لکھنو پیکٹ اور مسلم لیگ کانصب العین تاج برطانیہ کی وفاداری ترک کرکے آزادی قرار دینے سے قرنوں پہلے۔ حتی کہ تحریک خلافت وتحفظ حرمین شرفین کے آغاز سے بھی قرنوں پہلے۔ مسجد کانپور میں گولی چلنے یاتقسیم بنگال اورپھر اسی تقسیم کی تنسیخ سے بھی بہت پہلے۔ دور دراز دیہات کے اَن پڑھ دہقان مسلمانوں کے دل میں انمٹ حروف سےیہ نقش کر چکی تھی کہ مسلمان کی سیاست اس کےدین سے جدا نہیں اورکوئی مسلمان لیڈریاپیشوا یاپیر ، شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مکمل شریعت کےسوا کسی غیر قانون کے ماتحت مسلمانوں کوتابع نہیں کرسکتا۔ آخروہ کیا غیبی طاقت تھی کہ جب مولانا محمد جوہر گاندھی کو اپنی جیب میں ڈال کرہند ومسلم کی مشترکہ جے پکارتے پھرتے تھےیاجب مسٹر جناح قائد اعظم بننے سے پہلے ۱۹۲۷ء تا ۱۹۳۷ ء تک بھی ہندوں سے تحفظ ومراعات حاصل کرکے مشترکہ قومیت کے زورسے انگریز کونکالناچاہتے تھے توباربار اور آخر کار ہرمسلمان لیڈر کومسلمان عوام کی اس ضد کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے تھے کہ انگریز نے تو جبرو جوراور مکروفریب سے مسلمان کوشکست دی تھی۔ رضاکارانہ سمجھوتے سے مسلمان سوائے خلافت کےاسلامی قانون کے اور کسی قسم کی مملکت کی اطاعت پربرضا ؤرغبت آمادہ نہیں ہوسکتے ۔ روزنامہ کوہستان کے معروف کالم نگار مسٹر احسان نے ماضی قریب میں پروفیسر اشفاق علی خاں پرنسپل گورنمٹ کالج کے زیر صدارت کسی مذاکرے کایہ لطیفہ لکھاتھا کہ جب سارے قیام پاکستان کے مدعی، قدیم کارکن اپنی اپنی شان میں قصیدے پڑھ چکے توکسی معصوم کالج کے طالب علم نے انجانے پَن سے یہ ستم ظریفانہ سوال جڑدیا کہ قبلہ گاہان ! جب آپ پاکستان کی جنگ لڑنے کی فضیلت حاصل کررہے تھے تومیَں توپیدا بھی نہ ہوا تھالہذا آپ کی روائت کےسچ یاجھوٹ کے متعلق میرے پاس توکوئی عینی شہادت موجود نہیں لیکن یہ الجھن اکثر مرے تپاک کے جذبات کو افسردہ کردیتی ہےکہ جب آپ جیسی مقدس روحوں نے پاکستان اسلام کے نام اور پاکستان کامطلب لااِلٰہ اِ لا اللہ کے زور سے حاصل کیاتو کیاپہیلی ہے کہ قیام پاکستان کے مرحلے سے پہلے توبیشک آپ اسلام پرعمل کرتے رہنے کی جتنی گنجائش تھی اس پر کاربند ہوں گے لیکن یہ کیا معّمہ ہے کہ پاکستان سے لے کر آج تک اس ملک میں جوکچھ بھی ہوتا رہا ہے وہ اور توسب کچھ ہوسکتا ہے اسلام یقیناً نہیں نہیں کہلاسکتا۔ کوہستان کے اس معروف کالم نگارنے اس حکایت کے بعد یہ لکھا کہ پاکستان کے قیام کے کارنامے سنانے والے سب مدعی اس سادہ سے سوال کے جواب میں یوں چپ سادھ گئے گویا کسی نے سوال سناہی نہیں۔ آخر صد ر مذاکرہ پروفیسر اشفاق علی خاں نے استادانہ مہارت سے صورت حال کی تراکت کوپہچانااور سوال کاجواب دیاکہ برخوردارپاکستان کے قیام کے مدعی ہونے والے سب دعویدار ذرا تھوڑا سامبالغہ کرتے ہیں ۔ حقیقت تویہ ہے کہ سرکاری نوکر فقط غیر مسلم حریفوں کے مقابلہ میں ترقی اعلی ٰ عہدے حاصل نہ کرنے سے تلملارہے تھے۔ کار خانہ دار اور بنکوں کے مالک ہندومہاجن یاساہوکارکے سود اور تجارت پر قبضے سے نالاں تھے۔ رہ گئے لیڈر توانہوں نے ہندوسے سمجھوتہ کرکے مشترکہ آزادی کے ذریعے ترقیاتی منصوبے منڈھے چڑھانے کے لئے پورازور لگایا تھا لیکن بقول اکبر الہ آبادی یہ تو ضدی مسیتاتھا جومسجد کوچھوڑنے کے خیال سے ہی تھرتھر اجاتا تھا یابقول پروفیسراشفاق علی یہ توضدی مولوی تھا جواللہ اوررسول کے قانون کےسوا کسی دوسرے مہذب نظامِ حکومت کوتسلیم کرنے پرآمادہ ہی نہیں ہوتاتھا۔ مجبوری یہ تھی کہ انگریز سوائے دونوں کی شہادت کے اور کسی بلند بانگ دعویٰ سننے کے لئے اپنے ملک کی جمہوری رسوم کی بناپر عادت ہی نہیں رکھتا تھا۔ پروفیسراشفاق علی صاحب نے تو تمام برصغیر میں مسلمانوں کی حمیت ناموس رسالت کو مولوی کے علامتی جھنڈے تلے کھڑا کردیا لیکن یقیناً (یہ مولوی کابہتان) مولوی حسین احمد مدنی مرحوم کی مشترکہ قومیت کی وکالت کی مودگی میں ان کے سر نہیں تھوپاجاسکتا۔ امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد نے توبہت پہلے اپنی تفسیر میں وضاحت کررکھی تھی کہ ہر دین میں کم وپیش سچائی موجود ہے۔ لہذا کسی بھی دھرم یامت کے باطل اور معطل مطلق ہونے کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پھر یہ مولوی کاخطاب کس فریق پر صادق آتا ہے صاف ظاہر ہےکہ راسخ العقیدہ قدیم مسلمانوں کے اجماع کثیر کی قیادت کرنے والے علماء حق ہی اس لقب کے مستحق ہوسکتے ہیں ۔ جیسا میں پہلے بیان کرچکاہوں ۔ اس قدیم راسخ العقیدہ ہندوستان میں سواد اعظم کی فکری ودینی رہنمائی کامنصب تو سب زیادہ امام اہل سنّت پر ہی پورا ہوتا ہے۔ تاریخ استاذ کی تفصیلات تو تحقیق کاشوق رکھنے والے خود عصری مسلمان لیڈروں کے بیانات اور اعلیٰ حضرت کے اکتوبر ۱۹۲۰ء کے تاریخی فتویٰ تکفیر ا ’’جدید فرقہ گاندھویہ ‘‘ میں پڑھ سکتے ہیں ۔ ’’فرقہ گاندھویہ ‘‘ اعلیٰ حضرت کی وہ جامع ومانع سیاسی اصطلاح ہے جو ہرنام نہاد اور مستقبل مزاج ’’نیشنلسٹ مسلمان‘‘ کااحاطہ کرلیتی ہے۔ ۱۹۲۰ء کایہ فتویٰ دوقومی نظریہ کی تاریخی لحاظ سے شرعی بنیاد ہے۔ سرشفیع مرحوم نے راونڈ ٹیبل کانفرس میں، سر فضل حسین نے آل مسلم پاڑٹیز کانفرس میں، مولانا محمد علی جوہر کی پشت پناہی سے، اورپھر ۱۹۳۰ میں ڈاکٹر اقبال نے انگریز پرست مسلمانوں کے ضعف استقامت سے سے بیزارہوکر ۱۹۴۰ کی قرار دار پاکستان کے لئے بتدریج جوسیڑھیاں طے کیں ان سب کی خشت اوّل اس فتویٰ میں تھی جس کالب لباب تمام متعلقہ آیات قرآنی جمع احادیث اور کثیر فقہأ سلف کے اقتباسات نقل کرنے کے بعد یہ تھا کہ مسلمان ہرقسم کے کفارسے چاہے وہ مشرکین ہوں یامنکرین ہوں شرعی حدود کے اندر معاملات دنیاوی کے دائرے میں وہاں تک کرسکتے ہیں جہاں تک مسلمانوں کو فائدہ پہنچے لیکن کسی نوع کے کفارسے موالات جوسیاسی اقتصادی یاکسی اور وقتی مصلحت کی بناپر مسلمانوں کے لیڈروں کویاخود مسلمانوں کی اکثریت کوبھی قرین مصلحت محسوس ہووہ نصوص شرعیہ قطعی سے ابداً ابداً ممنوع ہے۔ لہذا ممنوع ہے ۔ لہذا خلاف احکام الہٰی وسنّتِ رسول ہے ۔ لہذا اس موضوع پر کسی جدید اجتہاد یااجماع سے استدلال کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جس طرح پاکستان کی تحریک پراجماع المسلمین لیگ کے کسی جلسے سے بھی زیادہ حتمی طورپراس روز قبول عام سے ثبت ہوگئی تھی جب بغیرکسی رسمی کار روائی کے ملت اسلامیہ نے مسٹر محمدعلی جناح کو قائد اعظم کی عملی سند وکالت سے مشخص کردیاتھا۔ اس طرح امام اہل سنّت اور ملت اسلامیہ بر صغیر کااجماع ’’اعلیٰ حضرت‘‘ کے لقب سے ثابت ہے جو بیساختہ اور بے تکلف اکابر شیوخ فقہانے بطیب خاطر قبول کرلیا۔ مقالات یوم رضا ، ص33تا 40