شام میں خون کی ہولی کیوں جاری ہے؟ ضیائے طیبہ اصل حقائق سامنے لے آیا،خصوصی رپورٹ


شام میں جاری جنگ کی اصل وجہ پورے عالم اسلام میں کسی کو معلوم نہیں، مغربی میڈیا نے ہماری آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی ہے اصل حقائق پر مبنی چشم کشا رپورٹ، شام کی جنگ کا وہ تجزیہ جو دنیا میں آج تک کوئی پیش نہیں کرسکا،داعش کے نام کی حقیقت کھل گئی بدمعاش مغربی میڈیا اس جنگ کو یوں دکھاتا ہے جیسے مسلمان فرقہ پرستی کی لڑائی میں اندھے ہوکر آپس میں قتل عام کر رہے ہیں کراچی(ضیائی تجزیاتی رپورٹ از علی زبیر )شام میں جاری جنگ میں اب تک لاکھوں مسلمان شہید ہوچکے ہیں، شہید ہونے والوں کی تعداد آٹھ لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے،جبکہ زخمی اس تعداد سے کئی گنا زیادہ ہیں،اپاہج اور معذور ہونے والوں کی تعداد بھی دس لاکھ سے زائد ہے جبکہ چالیس سے ساٹھ لاکھ شامی اپنے وطن گھر بار سے دور ہوکر پناہ گزینی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ شام کی جنگ کے بارے میں بظاہر یہی لگتا ہے کہ یہ شامی صدر اور حکومت کے باغیوں کے درمیان ہونے والی جنگ ہے، یہ تاثر بھی سامنے آتا ہے کہ یہ شیعہ اور سنّی جنگ ہے،کبھییہ تاثر بھی دیا جاتا ہے کہ جناب اس جنگ میں کرد ملوث ہیں جو ترکی، عراق اور شام سے اپنی علیحدہ ریاست کے قیام کی جدوجہد کررہے ہیں، شام کی جنگ کے بارے میں ایک چوتھا تاثر یہ بھی دیا جاتا ہے کہ جناب بد امنی اور باغیوں کی شورش کی وجہ سے شدت پسند تنظیموں داعش، القاعدہ وغیرہ کو شام میں قدم جمانے کا موقع مل گیا ہے، لہٰذا ان تنظیموں کی اثر پزیری کی وجہ سے جنگ طول پکڑے ہوئے ہے۔ یہ وہ تاثرات ہیں جو مغربی ذرائع ابلاغ پھیلانے میں مصروف ہیں اور انھی کے پھیلائے ہوئے تاثرات کو مسلمان میڈیا بھی محض آگے بڑھانے کا کام انجام دے رہا ہے۔یہ سارے تاثرات محض جھوٹ کے پلندے کے سوا کچھ بھی نہیں ، اس جنگ کا اصل محرک کوئی سامنے نہیں لاتا۔ ہم ضیائے طیبہ کے پلیٹ فارم سے عالم اسلام کو اس خونی جنگ کے اصل محرکات سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس جنگ کا سب سے بڑا محرک امریکا ہے، دوسرا محرک اسرائیل ہے اور تیسرا محرک روس ہے، بنیادی طور پر یہ امریکا اور روس کی لڑائی ہے جس میں علاقائی پارٹنر حصہ لینے پر مجبور کردیے گئے ہیں۔اصل قصہ یوں ہے کہ امریکا عراق کے تیل اور معدنیات پر قابض ہوچکا ہے۔ عراق کا امریکی اسٹیشن دراصل امریکا کی معاشی پالیسی میں بے پناہ اہمیت کا حامل ہے ۔ عراق میں بیٹھ کر وہ براہ راست یورپ سے تجارت اس وقت تک نہیں کرسکتا جب تک دمشق کی بندرگاہ اس کے قبضے میں نہ ہو۔ یورپ کی فیکٹریوں کا مال مشرق وسطی اورو سطایشیا افریقہ بذریعہ امریکا پہنچانے کے لیے دمشق کی بندرگاہ سے بہتر کوئی جگہ نہیں،جبکہ عراق کا تیل اور معدنیاتیورپ کو بیچنے کے لیے بھی دمشق کا ساحل ہی سستا ترین اور تیز ترین راستہ ہے۔ عراق سے بذریعہ بغداد یورپ کا سفر کئی ہزار کلومیٹر پر مشتمل ہے جبکہ عراق سے بذریعہ دمشق یورپ کا سفر چند سو کلومیٹر پر ہی مشتمل ہے۔ امریکا کے گریٹ عراق مشن کی تکمیل کے لیے شام پر بھی امریکی تسلط انتہائی ضروری ہے۔ اگر شام پر امریکی تسلط قائم نہیں ہوتا تو اس کی بیس سالہ عراق جنگ بیکار ہوجائے گی۔ عراق مشن کی تکمیل شام پر قبضے کے بعد ہی ممکن ہوگی، اسی لیے امریکا نے داعش نامی تنظیم بنائی۔ داعش یعنی دولت اسلامیہ عراق و شام بنانے کا مقصد محض یہی تھا کہ عراق اور شام کے مسلمانوں میںیہ تصور پھیلایا جائے کہ شام اور عراق ایک ہی ملک ہیں۔ ذرا سوچیے کہ خلافت اسلامیہ اور امارت اسلامیہ کا نعرہ لگانے والی تنظیم نے محض شام و عراق کو اپنے نام کا حصہ کیوں بنایا، کوئی ایسا نام کیوں نہ رکھا جس سے پورے عالم اسلام کی عکاسی ہوتی۔ داعش کا قیام امریکی گریٹ عراق مشن کا حصہ تھی۔ اس کے بعد امریکا نے پہلے بشار الاسد کا بغاوت کے ذریعے تختہ الٹنے کی کوشش کی مگر نادان اور بے خبر عالم اسلام کی طرح روس بھی خوب خرگوش کے مزے نہیں لوٹ رہا تھا، وہ امریکا کی ہر ہر حرکت پر نظر رکھے ہوئے تھا،روس جانتا تھا کہ اگر اس خطے میں ایک مرتبہ امریکا مستحکم ہوگیا اور دمشق کا ساحل امریکا کے ہتھے چڑھ گیا تو پورے ایشا کی تجارت کا وہ بلا شرکت غیرے مالک بن جائے گا۔لہاذا امریکا کو روکنے کے لیے روس اس جنگ میں کود گیا۔ امریکا نے شام میں بغاوت کے لیے شیعہ سنی نعرہ بلند کیا تھا اور شام سے حکومت لینے کے لیے شام کی سنی قوتوں کو متحرک کیا تھا، چنانچہ روس نے بھییہی جوابی وار کیا روس بشار الاسد کی حمایت میں ایران کو لے آیا، جبکہ ایران کے اپنے علاقائی مفادات بھی اس جنگ سے وابستہ ہیں، شام پر اگر امریکا کی حمایتیافتہ حکومت قائم ہوگئی تو ایک انتہائی مضبوط امریکا ایران کی سرحد پر بیٹھ جائے گا۔ امریکا کو خطے میں مستحکم ہونے سے پہلے پچھاڑنا ایران کا ذاتی مفاد بھی ہے جبکہ دمشق سے جڑا ہوا اسرائیل بھی ایران میں بغاوتیں پھیلانے کے لیے سرگرم ہوجائے۔ ایران کے اس جنگ میں کودنے کے بعد امریکا نے سعوی عرب ایران دشمنی کو استعمال کیا اور سعودی عرب کو اپنی حمایت میں اس خونی جنگ کا حصہ بننے پر مجبور کردیا۔ شام کی جنگ دراصل بحیرہ احمر کے عرب ساحل پر قبضے کی جنگ ہے۔ دمشق کا ساحل عراق میں بیٹھے ہوئے امریکا کے لیے اسی طرح اہمیت رکھتا ہے جس طرح چین کے لیے گوادر کا ساحل۔ اس صورتحال کو مزید سمجھنے کے لیے اگر آپ گوگل پر دنیا کے نقشے میں شام عراق اوراسرائیل اوران کی ساحلی پوزیشن دیکھیں گے تو عالمی طاقتوں کے بدمست ہاتھی کی طرح لڑنے کی وجہ سمجھ آجائے گی۔ بدمعاش مغربی میڈیا اس جنگ کو یوں دکھاتا ہے جیسے مسلمان فرقہ پرستی کی لڑائی میں اندھے ہوکر آپس میں قتل عام کر رہے ہیں۔ جھوٹا اور ابلیسی میڈیایہ ہرگز نہیں بتاتا کہ ان کے سامراجی آقا ایک زمین کے ٹکڑے پر قبضے کے لیے کس بیدردی سے مسلمانوں کا لہو بہارہے ہیں۔سی آئی اے ،موساد اور کے جی بی اپنی پوری قوت سے شام میں لڑ رہی ہیں،شام کی جنگ ایک سیدھے سادے فارمولے کے تحت بھڑکائی گئی۔ پہلے دونوں اطراف کے کچھ لوگ قتل کروائے گئے پھر بدلے کی آگ بھڑکائی اور بدلے کی آگ میں بھڑکے ہوئے نوجوانوں کے ہاتھ میں بے دریغ جدید ترین اسلحہ تھمادیا گیا، کتنی حیرت کی بات ہے کہ چند کلومیٹر فاصلے پر جدوجہد کرنے والے فلسطینی پتھروں سے لڑ رہے ہیں اور شام میں متحرک گروہوں کے پاس وہ اسلحہ ہے جو دنیا کی بڑی فوجوں کے پاس بھی نہیں ہے۔ اس صورتحال میں بیچارے مسلمان ممالک۔۔۔ بس خاموشی سے تماشائی بنے ہوئے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ غفلت میں پڑے رہنے والے مسلمانو! دشمن نے فرقہ پرستی کے ٹول کا استعمال سیکھ لیا ہے۔ جسے اب وہ شام کے بعد تمھارے ملکوں میں بھی استعمال کرنے ولا ہے خدا کے لیے اپنی صفوں میں اتحاد قائم کرو، فرقہ پرستی اور اشتعال انگیزی سے مکمل گریز کرو۔ خاص طور پر مسلمانان پاکستا ن سے التجا ہے کہ اپنی صفوں میں مکمل اتحاد رکھیں، ایسی کسی بھی سازش سے دور رہیں جو وفاق پاکستان اور افواج پاکستان کو کمزور کرنے کا باعث بنے۔ ورنہ ہنستے بستے شام کو کھنڈر بنانے والوں سے کچھ بعید نہیں ،بمباری کر کے مسلمانوں کے چیتھڑے اڑا کر ان ظالموں کو مزہ آتا ے

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi