اردو کی زلفیں


تلفظ اور املا کی اصلا ح کے لیے ایک خصوصی انجمن کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ کسی زمانےمیں اردو محض ضرورت کی زبان رہی ہوگی، تاہم اس شجرِ سایہ دار نے اتنی وسعت پیدا کر لی ہے کہ اس کے جلو میں ادبیات کے سارے پہلو جگمگا رہے ہیں،جو ہمارے قلوب واذہان کے لیے باعثِ طمانیت ہیں۔ اور یہ بھی بڑی ہی خوش آئند بات ہے کہ اس نے اپنی حدودِ مملکت میں بھی حیران کن اضافہ کیا ہے۔ کہاں ہندوستان اور دور دراز کے ایشیائی ممالک، پھر ایک طرف برِّ اعظم آسٹریلیا، تو دوسری جانب یورپ، نیزشمالی اور جنوبی امریکہ کی وسعتیں، ہرجگہ اس کا سکہ چل رہا ہے خوب پذیرائی بھی ہورہی ہے۔ میں نے عرب ممالک میں بعض اردواخبارات دیکھے ہیں، جو بڑی تعداد میں شائع ہوتے ہیں اور پھر عرب ممالک میں نہ صرف ہند و پاک کے لوگ اردو بولتے ہیں، بلکہ اچھی خاصی تعداد میں مقامی عرب بھی اردو کے چند جملے کہنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح انگلینڈ سے بھی بہت سارے اخبارات اردو میں شائع ہوتے ہیں، نیز بعض مقامی ریڈیواسٹیشنوں نے بھی چند گھنٹے اردو نشریات کے لیے مخصوص کر رکھے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح امریکہ اور کناڈا سے کئی ہفتہ وار اخبارات مختلف شہروں سے نکلتے ہیں، جسےہ پاکستان نیوز، پاکستان پوسٹ، اردوٹائمز اور پاکستان کرونیکل وغیرہ، نیز مقامی طور پر کئی شہروں سے اردو میں ریڈیو کی نشریات ۲۴ گھنٹے جاری رہتی ہیں۔ یوں کہہ لیجیے کہ پہلے اردو ایک علاقائی زبان تھی، تاہم اب رفتہ رفتہ عالمی زبانوں کی فہرست میں شامل ہوچکی ہے۔اور یہ بات کہنے کی نہیں کہ جب کوئی زبان وسعت اختیار کرتی ہے، تو ایسے لوگ بھی قریب آنے کی کوشش کرتے ہیں، جن کی مادری زبان اردو نہیں ہے۔اس طرح قدم قدم پر اس بات کی ضرورت پڑتی ہےکہ زبان کی نوک پلک بہتر سے بہتر کرنے کے لیے حالات کے مطابق قابلِ قبول ضابطے بنائے جاتے رہیں۔ خیال رہے کہ انفرادی طور پر اس حوالے سے کتابیں لکھی جارہی ہیں اور تجویزیں بھی سامنے آتی رہتی ہیں، لیکن یہ بات غور کرنے کی ہے کہ لوگوں کے ذوق اور معیار پسند و ناپسند باہم مختلف ہوتے ہیں، اس لیے متذکرہ تجاویزات بھی ایک دوسرے سے متصادم ہوسکتے ہیں۔ایسی صورت میں اب عام لوگ اپنی اپنی سہولت کے مطابق اسے اپناتے رہے، تو زبان وبیان کی یکسانیت متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ آگے بڑھنے سے پہلے چند مثالوں پر غور کرتے چلیے۔ میرے سامنے جناب رشید حسن خان کی کتاب اردو املا ہے۔محترم نے نہایت ہی عرق ریزی کے بعد اسے ترتیب دیا ہے،جس کےلیے وہ محبانِ اردو سے بجا طور پر شکریے کے مستحق ہیں۔آپ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ یہ لفظ جب کسی مرکب کا جزو آخر ہوں گے، تب بھی ان کو الف کے ساتھ لکھا جائے گا، خواہ وہ مرتّب بَہ ترکیبِ عربی ہو یا بہ قاعدۂ فارسی، جیسے مجلسِ شورا، من وسلوا، مشرق وسطا، مسجدِ اقصا، علیِ مرتضا، محمدِ مصطفا، احمد ِمحبتبا، اَعلاوادنا۔ (ص:۵۵) اسی طرح زکات،صلات،مشکات۔۔۔ (ص:۶۱) اسی طرح ’تماشا، معما، ناشتا، قورما، شوربا، تمغا، مربّا‘ (ص:۶۷) اسی طرح ’یاسین‘۔(ص:۶۳) اسی طرح سرمایہ زبان اردو کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ پس جو لوگ اش اش کو بجائے دو الف ،دو عین مہملہ سے لکھتے ہیں،مولف ہیچ مداں کے نزدیک خطا پر ہیں۔ یعنی عش عش نہ لکھیں(ص:۷۱)۔ مولانا احسن مارہروی کےحوالے سے لکھا ہےکہ ہندی الاصل الفاظ کے آخر میں ہائے مختفی نہ ہو،بل کہ الف ہو،جیسے پتا،بھروسا،دھوکا،مہینا،کلیجا وغیرہ(ص:۹۰)۔ اسی طرح علماء،اولیاءاور انبیاءوغیرہ کو بھی بغیر ہمزہ کے لکھنے پر کچھ دنوں سے زور دیا جا رہا ہے، یعنی علما،اولیا اور انبیا۔وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ چوں کہ آخری کا ہمزہ پڑھا نہیں جاتا ہے، اس لیے اسے لکھنے میں بھی حذف کردیا جانا چاہیے۔اگر یہی منطق قابلِ قبول ہے، تو پھر ’بالکل‘، ’امیر الامراء‘، ’مآثر الکرام‘ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اسے بھی ’بلکل‘، ’امیرلامرا‘ اور ’مآثرلکرام‘ لکھنا چاہیے۔اور پھر اس سے بڑی مصیبت تو یہ ہے کہ اردو زبان میں ’ذ‘ اور ’ظ‘ کا تلفظ عام طور پر ’ز‘ کیا جاتا ہے، تو معلوم ہوا کہ اردو کے تمام الفاظ جن میں ’ذ‘ اور ’ظ‘ ہیں، انہیں ’ز‘سے تبدیل کرنا چاہیے۔ اسی طرح ’عین‘اور’ص‘ کے تلفظ کے بارے میں حکم ہوگا کہ ایسے الفاظ ’الف‘اور’س‘ سے لکھے جائیں؟ پھر ’ط‘ کا تلفظ بھی اردو میں ’ت‘ کی طرح ہوتا ہے،تو کیا یہاں بھی یہی تبدیلی کی جائے؟ محبانِ اردو کی حالت کیا ہوجائے گی اور حسن و خوبصورتی کی بات تو جانے دیجیے، خود الفاظ و تراکیب کی اصل ہیئت سے طویل ترین فاصلہ ہو جانے کی وجہ سے مفہوم ومعانی تک پہنچنا بھی نہایت ہی صعب اور دشوار ہو جائے گا۔ اسی طرح ایک نئی تجویز یہ گردش کررہی ہے کہ انگریزی کے الفاظ کو اردو میں توڑتوڑ کر علیحدہ لکھا جائے، جیسے: ’یونیورسٹی‘ کو ’یونی ورسی ٹی‘ اور ’ہیوسٹن‘ کو ’ہی یوس ٹن‘ لکھنا چاہیے، ’رجسٹرار‘ کو ’رجس ٹرار‘ وغیرہ۔ بلا مبالغہ عرض کروں کہ برسوں سے انگریزی الفاظ کے املا کی جو تصویر ذہن میں نقش ہے، اس کی وجہ سے اسے دیکھتے ہی پڑھ لیا کرتے تھے، تاہم متذکرہ تجویز کے قبول کرنے کے بعد تو باقاعدہ ’ہجے‘کرکے ایک ایک حرف پڑھنا پڑے گا اور ہم عالم تصورات میں دوبارہ ’مکتب‘پہنچ جائیں گے! آپ مجھ جیسے طالبِ علم سے دریافت کریں تو عرض کروں گا کہ ہر زبان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ پہلے بولی جاتی ہے اور اس کے بعد قوانین و ضوابط لکھے جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ استثنائی حالات سے شاید ہی کوئی زبان خالی ہو۔ اس لیے میرے خیال میں املا کا وہ قدیم طریقہ جس کے اپنائے رکھنے سے مفاہیم و معانی میں کوئی قباحت لازم نہیں آتی، اسے ’استثنائی حالات‘کے خانے میں یوں ہی برقرار رکھا جانا چاہیے، تاکہ کسی حد تک یکسانیت برقرار رہے اور پڑھنے والوں پر گراں نہ گزرے۔اب یہی دیکھیے کہ’علماء‘ کو’علما‘ لکھنے میں شبہ گزرتا ہے کہ کہیں یہ’علماً‘ تو نہیں ہے۔ایسی صورت میں کیا یہ بہتر نہیں کہ اسے پرانی صورت پر ہی چھوڑ دیا جائے! اسی طرح بعض لوگ ’اردو‘ کو ’عربیانے‘کی کوششوں میں مصروف ہیں یعنی وہ الفاظ جو عربی کے ہیں،انھیں عرب سے بھی کہیں زیادہ مبالغے کے ساتھ نکالنےپر مصر ہیں۔ مثال کے طور پر ’ثواب‘، ’مضمون‘ اور ’ذکر‘ میں موجود ’ث‘، ’ض‘ اور ’ذ‘ کے عربی تلفظ کی ادائیگی کےلیے نہایت ہی اہتمام کرتے ہیں اور تھوڑی دیر کےلیے یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ جناب اردو میں عربی بول رہے ہیں یا عربی میں اردو! صاحبو! بہرکیف،آپ ماتھے کی آنکھوں سے دیکھ رہےہیں کہ متذکرہ بالا توحیزیں کوئی معمولی نوعیت کی نہیں ہیں،بلکہ ان کے اور مروجہ املا کے درمیان زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم کتابیں تو جانے دیجیے، خود عصر حاضر کی کتابوں میں الفاظ مختلف ڈھنگ سے لکھے ہوئے ملتے ہیں۔ مجھے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ انفرادی رائے کی پذیرائی کا یہی عالم رہا، تو اردو اپنے املا کے پس منظر میں یکسانیت برقرار نہ رکھ سکے گی۔ اس لیے کیا ہی بہتر ہوتاکہ انفرادی کوششوں کی توثیق اور قابلِ قبول ہونے کےفیصلے کےلیے اہلِ زبان کے ماہرین کی ایک تنظیم ہوتی جس میں دنیائے اردو سے تعلق رکھنے والے تمام شعبہائے حیات کی مناسب نمائندگی ہوتی۔ یعنی اس میں صحافی ،یونیوسٹی کے اساتذہ، شعراء، ادباء، نقاد، اہلِ قلم اور مدارسِ اسلامیہ کے علمائے کرام سے لے کر فارسی کے ماہرین تک شامل کیے جاتے، نیز ممکن ہوتو پاکستان سے بھی متذکرہ شعبوں سے نمائندے لیے جاتے۔ پھر سال دو سال کے وقفے سے باقاعدہ سیمینار منعقد کیے جائیں اور انفرادی کوششوں سے منصئہ شہود پر آنی والی ساری تجاویز پر غور و خوض کیا جائے اور سبھوں کے اتفاق و اتحاد سے ایک حتمی رائے ہمارے سامنے پیش کردی جائے، تاکہ سارے لوگ ایک ہی ڈھرے پرچلیں۔اس طرح اردو زبان کی شان وشوکت بھی برقرار رہے اور بہت حد تک یکسانیت بھی۔ پس پردہ:انفرادی رائے کی پذیرائی کا یہی عالم رہا،تواردو اپنے املا کے پس منظر میں یکسانیت پرقرار نہ رکھ سکے گی۔اس لیے کیا ہی بہتر ہوتا کہ انفرادی کوششوں کی توثیق اور قابل ِ قبول ہونے کے فیصلے کےلیے اہلِ زبان کے ماہرین کی ایک تنظیم ہوتی، جس میں دنیائے اردو سے تعلق رکھنے والے تمام شعبہائے حیات کی مناسب نمائندگی ہوتی۔

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi