پاکستان کے تعلیمی نظام میں غیر ملکی مداخلت


پاکستان کے تعلیمی نظام میں غیر ملکی مداخلت ڈاکٹر عمیر محمود صدّیقی جنگِ عظیم اوّل اور دوم کے بعد دنیا میں بڑی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ ۱۹۱۷ء میں جنرل ایلن بی بیت المقدس میں داخل ہوا۔ ۱۹۲۳ء میں سلطنتِ عثمانیہ کے حصے بخرے کر دیے گئے۔ لاکھوں انسانوں کا خون بہاکر یروشلم پر قبضہ کرلیا گیا اور دنیا میں نیا عالمی حکم نافذ کرتے ہوئے ’انا ربکم الاعلٰی‘ کا نعرہ فرعونِ وقت نے بلند کیا۔ اقوامِ متحدہ کےمنشور،حقوقِ انسانی، جینیوا کنونشنز اورمختلف بین الاقوامی اداروں کے ذریعے پوری دنیا میں جنگ، امن، معیشت، صحت، زراعت، قانون، ذرائعِ ابلاغ و نشرواشاعت اور تعلیم کو کنٹرول کر لیا گیا۔ دنیا کے تقریبا تمام ہی ممالک نے اس نئے عالمی نظام کے آگےسرِ تسلیم خم کر دیا اور فرعونِ وقت کے دعوی ’انا ربکم الاعلٰی‘ پر ایمان لے آئے۔سولونیں صدی عیسویں سے لے کر بیسویں صدی کے وسط تک کا دور Colonization کا دور کہلاتا ہے ۔اس دور میں یورپ اور روس نے اس کرۂ ارضی پر موجود تقریباً تمام مسلم ممالک پر قبضہ کر لیا تھا۔اس دور میں ان ممالک کی تہذیب وثقافت،زبان،فکری زاویے، مذہب و نظامِ تعلیم کو بدلنے کی بھر پور کوشش کی گئی تا کہ ان ممالک کے وسائل پر قبضہ کرنے کے ساتھ ان کی نئی نسل کو غلامی کے آداب سکھاتے ہوئے ہمیشہ کے لئے محکوم بنایا جا سکے۔ استعماری دور میں سب سے زیادہ توجہ مسلمانوں کے نظامِ تعلیم پر دی گئی جس میں مسلمانوں کے طرزِ تعلیم کو جدید مغربی نظام سے تبدیل کر دیا گیا۔ لارڈ کرومر نے اس کا اعتراف ان الفاظ میں کیا: England was prepared to grant eventual political freedom to all of her colonial possessions as soon as a generation of intellectuals and politicians, imbued through English education with the ideals of English culture, were ready to take over, but under no circumstances would the British Government tolerate for a single moment an independent Islamic state.) Lord Cromer, In Modern Egypt 1908([1] ’’انگلینڈ اس پر راضی تھا کہ جیسے ہی دانشوروں اور سیاست دانوں کی ایک ایسی نسل جس پر انگریزی تعلیم کا انگریزی تہذیب کے ساتھ رنگ چڑھا ہوا ہو، نظام سنبھالنے کے لیے تیار ہوں تو اپنی تمام نو آبادیاتی ملکیتوں کو سیاسی آزادی عطا کر دے، لیکن کسی بھی قسم کے حالات میں برطانوی حکومت ایک لمحے کے لیے بھی ایک آزاد اسلامی ریاست قبول نہیں کرے گی۔‘‘ کے جی بی کے سابق آفیسر تھامس شو مین کے مطابق کسی بھی ملک کی نظریاتی تخریب کاری کے لیے اسے چار مراحل سے گزارنا ضروری ہے : • Demoralization • Destabilization • Crisis • Normalization Demoralizationکے لیے دس سے پندرہ سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے جس میں خاص طور پر نظام تعلیم اور مذہب کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔اس کے لیے ملک کے مذہب کو Commercialized اور Politicized کرنے کے ساتھEntertainment کا ذریعہ بنا دیا جاتا ہے ۔ 9/11 کے بعد اس ہمہ جہتی جنگ نے شدت اختیار کر لی ہے جس میں نئے نظامِ تعلیم کا مقصد عالمی طاقتوں کے لیے ایسے مخلص مجاہد اور جنسی و معاشی حیوان پیدا کرنا ہے جن کی زندگی کا مقصد محض سرمایہ کی بڑھوتری ہو۔ سقوطِ مغلیہ سلطنت، ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش کی تخلیق اور مشرق وسطیٰ میں مسلم ممالک کے بدلتے ہوئے جغرافیائی حالات اور گذشتہ سترہ سالوں میں پچاس لاکھ مسلمانوں کے ہولوکاسٹ کی روشنی میں اس صورتِ حال کو واضح طور پر سمجھا جا سکتا ہے ۔ پاکستان کے نصابِِ تعلیم کے حوالے سے USCIRFکی رپورٹ پڑھنا ضروری ہے، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جہاد، نظریۂ پاکستان، مسلم قائدین، اقبال اور قائدِ اعظم سے قوم کو دور کرتے ہوئے اسلام پر بطور واحد حقیقت ہونے کے ایمان کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ موجودہ نظام تعلیم مصنوعی طبقاتی کشمکش کا بھی شکار ہے۔ کہیں دینی و دنیاوی تعلیم کی تقسیم ہے اور کہیں امیر اور غریب کا فرق۔ جدید تعلیمی نظام میں طلبہ آہستہ آہستہ اردو زبان سے نابلد ہوتے جا رہے ہیں اور غیر نصابی و ہم نصابی سر گرمیوں کے نام پر اپنی تہذیب، ثقافت اور اقدار سے کوسوں دور، جنہیں Samsonنامی یہودی خود کش حملہ آور پر لکھی گئی John Milton کی نظم Samson Agonistesبھی پڑھائی جاتی ہے جس میں 3000 افراد کے قتل کو فخر کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے ۔[2] ہم مسلمان ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل31 کے مطابق، پاکستان کے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگیاں اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق بسر کرنے کے قابل بنانے اور(ایسی) سہولتیں مہیا کرنے کے اقدامات کیے جائیں گے جس کے ذریعے وہ قرآن و سنّت کے مطابق زندگی کے معنیٰ سمجھنے کے قابل ہو سکیں۔مملکت، پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں کوشش کرے گی کہ قرآنِ پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قرار دیتے ہوئے عربی زبان کو سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرے اور اس کے لیے سہولت بہم پہنچائے۔آئین کی یہ شقیں حکومتوں پر اس بات کو لازم کرتی ہیں کہ پاکستانی مسلمان طلبہ کو اسلامی اقدار کی حفاظت اور پابندی کی تربیت دی جائے اور بین الاقوامی سطح پر کسی بھی قسم کا ایسا معاہدہ نہ کیا جائے جو اسلام اور پاکستان کے مقاصد کے خلاف ہو۔ وہ قوم جو توحید، رسالت اور قرآنِ مجید پر ایمان رکھتی ہو، دنیا کو آخرت کی کھیتی اور انسان کو عبد اور اللہ کا خلیفہ سمجھتی ہو اور خیر و شر کا تعین وحیِ الہٰی کی روشنی میں کرنے پر ایمان رکھتی ہو، اس کا نظامِ تعلیم اس قوم سے یک سر مختلف ہو گا جو وجودِ خدا کی منکر ہو، خیر و شر کا تعین عقل و خواہشاتِ نفسانی کی بنیاد پر کرتی ہو اور حیات بعد الممات کی منکر ہو۔ کیوں کہ ہمارے عناصر ِترکیبی اقوامِ مغرب سے مختلف ہیں، اس لیے قومِ رسول ہاشمی ﷺ کی امّت کے نظامِ تعلیم کو ان پر ہر گز قیاس نہیں کرنا چاہیے۔ اسلام کے اصولِ تعلیم، طلبہ کی تعلیم، تربیت، تادیب اور تزکیہ پر زور دیتےہیں جو طلبہ کی اخلاقی، روحانی، جسمانی، عقلی اور جمالیاتی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ تعلیم کا مقصد اصلاحِ انسان اور اپنے عبد اور خلیفۃ اللہ ہونے کو معلوم کرنا ہے نہ کہ ریاست کی ترقی، پیداوار، مادی قوت کا حصول اور نفسانی خواہشات کی پیروی۔ پیشِ نظر مضمون کا مقصد اسی بین الاقوامی حکومت کے تناظر میں پاکستان کے تعلیمی نظام میں غیر ملکی مداخلت،نظریۂ پاکستان کی مخالفت، اسلامی اقدار کی پامالی اور جنسی تعلیم (SEX EDUCATION)کے داخلِ نصاب کیے جانے کے حوالے سے مقتدر اداروں، والدین، اساتذہ اور شعبۂ تعلیم سے وابستہ ماہرین کی توجہ مبذول کروانا ہے۔ کئی بین الاقوامی ادارے اس وقت پاکستان میں اربوں ڈالر کی فنڈنگ کر رہے ہیں تا کہ پاکستانی مسلمانوں کی ذہنی تخریب کاری کرتے ہوئے ان کو Demoralized کر دیا جائے ۔ ان اداروں سے تربیت پانے والے طلبہ بین الاقوامی سطح پر ان کے قائم کردہ نظام کے مخلص وفا دار ہوتے ہیں۔ اخلاقی گراوٹ کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ رقص و سرود، شراب و کیٹ واک سے بات اس قدر آگے بڑھ گئی کہ لاہور کی ایک جامعہ کے Department of Information & Technology and Liberal Arts کے لڑکوں اور لڑکیوں نے ساتھ مل کر بھارت کی تقلید میں’’یوم ایام مخصوصہ‘‘ منایا اور sanitary padsپر اپنے پیغامات لکھ کر انہیں یونیورسٹی کی دیوراوں پر چسپاں کیا گیا۔ [3] ایک خبر کے مطابق اسی یونیورسٹی کے طلبہ نے World Press Freedom کے دن پاکستان آرمی کے خلاف یونیورسٹی کے اندر پوسٹرز بھی لگائے۔[4] حال ہی میں سندھ کی جامشورو یونیورسٹی میں طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کی خبریں میڈیا پر نشر ہوئیں۔ طالبات کی طرف سے انتظامیہ کی لاپرواہی کے بعد انسٹی ٹیوٹ آف انگلش لینگویج اینڈ لٹریچر، سندھ یونیورسٹی کے اساتذہ کے خلاف سپریم کورٹ، وزیرِ اعلیٰ سندھ اور وزیرِ اعظم پاکستان کو درخواست لکھی گئی جس میں تفصیل سے بتا یا گیا کہ تحقیق کے کام کو آگے بڑھانے اور امتحان میں پاس کرنے کے لیے طالبات کو برطانیہ سے تعلیم یافتہ اساتذہ نے مجبور کیا کہ ان کے ساتھ جنسی تعلق قائم کیاجائے۔درخواست کے مطابق گذشتہ سال نائلہ رند نے بھی خودکشی بعض اساتذہ کے جنسی تشدد کی وجہ سے کی تھی۔ قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ اس جرم میں ملوث تمام اساتذہ برطانیہ میں اپنی تعلیم مکمل کر نے کے بعد پاکستان آئے ہیں ۔ پاکستان کے نظامِ تعلیم میں غیر ملکی مداخلت : پاکستان کے تعلیمی اداروں میں غیر ملکی مداخلت کومالی معاونت ،نصاب میں تبدیلی اور اساتذہ کی تربیت کی صورت میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے تعلیمی نظام پر غیر ملکی امداد کی فراوانی کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ ورلڈ بینک نے پاکستان میں ۳۶تعلیمی پروجیکٹس پر 2016ء تک 3161 ملین ڈالرز انویسٹ کیے، جن میں سے 8تا حال سر گرم ہیں جب کہ 28 کو مکمل کیا جا چکا ہے۔[5] یو ایس ایڈ پاکستان میں انرجی، زراعت،صحت اورمعاشی کے علاوہ ترقی دیگر شعبہ جات میں اپنی خدمات پیش کرنے کے ساتھ ساتھ خاص طور پر تعلیمی نظام کو اپنی نگرانی میں لینے کے لیے مصروفِ عمل ہے۔ ان تمام پروجیکٹس کے لیے امریکا نے 742200000 ڈالر مختص کیے ہیں، جنہیں سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی مدد سے مکمل کیا جا رہا ہے۔[6] یو ایس ایڈ پاکستان کے Interactive Map پر دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ ادارہ درجِ ذیل شعبہ جات میں اپنی تعلیمی خدمات پاکستان میں پیش کر رہا ہے : • S.-Pakistan Centers for Advanced Studies • Improving Education Quality • Merit and Needs Based Scholarship Program • Sindh Basic Education Project • S. Pakistan Science & Technology Cooperative Program • Women’s Hostel Project • Faculties of Education یو ایس ایڈ نے پاکستان کے اساتذہ کی خصوصی تربیت کے لیے درج ذیل جامعات میں17کلیات بھی قائم کر لی ہیں تا کہ اساتذہ کی تربیت کے ذریعے اپنے مقاصد کو پورا کیا جا سکے۔ان اساتذہ کو(3100)تعلیمی وظائف بھی دیئے گئے۔ ان کلیات کے نام درج ذیل ہیں : [7] • Faculty of Education at Bahauddin Zakariya University • Faculty of Education at Fatima Jinnah Women’s University • Faculty of Education at Gomal University • Faculty of Education at Hazara University • Faculty of Education at Islamia University • Faculty of Education at Karakoram International University • Faculty of Education at Lasbela University • Faculty of Education at Sardar Bahadur Khan Women’s University • Faculty of Education at Shah Abdul Latif University • Faculty of Education at University of Azad Jammu & Kashmir • Faculty of Education at University of Education • Faculty of Education at University of Karachi • Faculty of Education at University of Malakand • Faculty of Education at University of Peshawar • Faculty of Education at University of Punjab • Faculty of Education at University of Punjab (IER) • Faculty of Education at University of Sindh 2015ء میں مشال اوباما نے پاکستان میں بالغ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ایک پروجیکٹ Let Girls Learn کا آغاز کیا، جس کے لیے پاکستان میں بالغ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے 70 ملین ڈالر منظور کیے۔[8] اس کے علاوہ اس ادارے نے 2011ء سے تا حال پاکستان میں 1135 اسکولز قائم کیے، 2014ء سے تا حال 25 ہزار اساتذہ اور منتظمین کو تربیت دی اور 17 ہزار طلبہ و طالبات کو اسکالرشپس بھی مہیا کیں تا کہ وہ مکمل طور پر اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں دل چسپی لے سکیں۔[9] امریکا کا ایک اور انتہائی اہم اقدام ہائر ایجوکیشن میں پاکستان کو مدد فراہم کرنا ہے۔ 2009ء سے تا حال فل برائٹ پروگرام کے تحت امریکا پاکستان کے 800ماسٹرز اور 200پی ایچ ڈی کے حاملین اور 100 سے زائد سینئر ریسرچ اسکالرز کو مدد فرماہم کر چکا ہے ۔[10]اس کے علاوہ متعدد پروگرامز ایسے ہیں جو صرف پاکستانی نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے لیے امریکا نے ترتیب دیے ہوئے ہیں، جن کی تفصیلات حواشی میں مذکور ویب سائٹس پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ اسی طرح ڈی فڈ، برطانیہ نے صرف چار سالوں کے لیے پاکستان کے نظامِ تعلیم کو تبدیل کرنے کے لیے £9,519,999 کا بجٹ منظور کیا، جسے خصوصی طور پر پاکستان کی ایک غیر سرکاری فاؤنڈیشن کو پیش کیا گیا۔[11] جس نے پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کو ’’پڑھنے لکھنے کے سوا پاکستان کا مطلب کیا۔ میں تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ پاپ موسیقی کی ملکہ میڈونا نے مواچھ گوٹھ کراچی میں Dream School کے نام سےDream Foundation Trust کے تحت ایک اسکول کا آغاز کیا، جس میں Chime for Change نے بھی اپنی خدمات پیش کیں ۔[12] ان تعلیمی خدمات کے علاوہ امریکا پاکستان میں انتہا پسندی روکنے کے لیے بھی بے دریغ پیسہ خرچ کر رہا ہے۔ پاکستان کے مقبول وقیع اخبارروزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ نے لکھا: ”امریکانے انتہا پسندی روکنے کے لیے پاکستان میں پہلا یونٹ تشکیل دے دیا: واشنگٹن پوسٹ ’’واشنگٹن(آئی این پی)امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے انکشاف کیا ہے کہ امریکا نے پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا یونٹ تشکیل دے دیا جو ملک میں پر تشدد رجحان رکھنے والے انتہا پسندوں کو روکنے کا کام کرے گا۔ اتوارکو اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ یونٹ پاکستان میں موجود امریکی سفارت خانے میں قائم کیا گیاہے اور دنیا میں کسی اور ملک میں اس نوعیت کا یہ پہلا یونٹ ہے۔اخبار کے مطابق امریکا نے اس یونٹ کے لیے پاکستان کا انتخاب اس لیے کیا ہے، کیوں کہ وہ اسے انتہا پسند وں کے وسیع نیٹ ورک کا گڑھ سمجھتا ہے۔تین افراد پر مشتمل یہ یونٹ امریکی سفارت خانے کے عوامی رابطہ سیکشن کے تحت جولائی میں تشکیل دیا گیا تھا، تا ہم اب اس نے عملی طور پر اپنا کام شروع کیا ہے۔ یہ یونٹ مقامی شراکت داروں جن میں معتدل مزاج مذہبی رہ نما بھی شامل ہیں،کے ساتھ مل کر انتہا پسندانہ پیغامات اور پروپیگنڈا کے توڑنے کا کام کرتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ٹی وی شوز، ڈاکومینٹریز، ریڈیو پروگرامز اور پوسٹرز کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مذہبی علما اور عوام کے ساتھ امریکی حکام کے درمیان رابطے کا پروگرام بھی چلایا جا رہا ہے۔اخبار کے مطابق سفارت خانے کا کہنا ہے کہ پاکستان میں انتہا پسندی کے خلاف کافی جرأت مندانہ آوازیں موجود ہیں، ہمارا کام بس ان کو ڈھونڈ کر ان کے پیغام کو پھیلانا ہے۔ امریکی حکام کے مطابق ابتدائی طور پر اس یونٹ کے لیے 50 لاکھ ڈالر مختص کیے گئے ہیں، انہوں نے فنڈنگ سے چلنے والے پروگراموں کی تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا، کیوں کہ انہیں خدشہ ہے کہ امریکی مداخلت ثابت ہونے سے ان کے شراکت داروں کا کام متاثر ہو سکتا ہے۔ اخبار کے بقول پاکستان میں کسی مذہبی رہ نما کی جانب سے امریکی معاونت حاصل کرنے کا انکشاف دیگر کو اس منصوبے سے دور ہٹا سکتا ہے۔ اخبار کے مطابق حکام کو ایک مشکل یہ بھی ہے کہ معتدل عالم عام افراد کے قتل کو تو برا کہتے ہیں مگر وہ افغانستان میں امریکی فوج سے لڑنے والے افراد کی حمایت کرتے ہیں یا بھارت کے مخالف ہیں۔‘‘[13] پاکستان کے تعلیمی اداروں میں غیر ملکی مداخلت کی یہ صرف ایک ہلکی سے جھلک ہے جس پر دیگر اطراف سے آنے والی غیر ملکی امداد کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے۔اس غیر ملکی امداد کے اثرات کا جائزہ لینے میں اگر چہ بہت تاخیر ہو چکی ہے، تا ہم یہ امر ضروری ہے کہ ان اثرات کا ریاستی اداروں کی سطح پرتفصیلی تجزیہ کیا جا ئے۔ اقبال نے کہا تھا کہ اس رزق سے موت اچھی ہے جس سے بندۂمومن کی پرواز میں کوتا ہی آتی ہو۔یہی وجہ ہے کہ ہماری نئی نسل اپنے ماضی سے جاہل، حال سے بیزار اور مستقبل سے مایوس ہے اور اپنا نجات دہندہ انہی مغربی قوتوں کو سمجھتی ہے جنہوں نے ان کی ذہنی تخریب کاری کا کارِ بد سر انجام دیا ہے ۔اورنگ زیب نے جب ایسٹ انڈیا کمپنی کو اپنے ملک میں تجارت کی اجازت دی تو اسے یہ معلوم نہ تھا کہ ہندوستان سے مسلمانوں کی حکومت کے خاتمے پر مہر ثبت کر رہا ہے۔ صرف ڈھائی سو برس کے عرصے میں انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کر لیا، جس کا نتیجہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت کے سقوط کی صورت میں ظاہر ہوا۔ امریکا سے پاکستان کے نظامِ تعلیم پر شائع ہونے والی دو رپورٹس • “Teaching Intolerance in Pakistan: Religious Bias in Public Text Books” • “Connecting the Dots: Education and Religious Discrimination in Pakistan” کا مطالعہ اس سلسلے میں انتہائی اہم ثابت ہو سکتا ہے۔ ان دو رپورٹس میں امریکا نے پاکستان کے سرکاری اسکولوں میں پڑھائی جانے والی درسی کتب کا تفصیلی تجزیہ کیا ہے۔اس سلسلے میں پاکستان میں قائم ایک غیر سرکاری تنظیم Peace Education Foundation کی تحقیق سے استفادہ کیا گیا۔ اس غیر سرکاری تنظیم کی پاکستان میں مذہبی عاملوں کی تربیت اور نصاب کی تشکیل کے حوالے سے خدمات انتہائی قابلِ توجہ ہیں۔ ان رپورٹس کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ متحدہ امریکا کے کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (USCIRF) کی انتہائی گہری نظر اس بات پر ہے کہ پاکستان کے تمام صوبہ جات کے تمام شہروں کے محلوں ،گلیوں میں کتنے سرکاری و غیر سرکاری سکولز ہیں اور ان تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والی درسی کتب کے کس صفحے اور سطر پر کیا پڑھایا جاتا ہے۔ ان رپورٹس کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ حرام رزق کی وجہ سے ہم نے بہت سے مقامات پراپنے نصاب میں اسلامی تعلیمات، اسلامی تاریخی شخصیات اورنظریۂ پاکستان سے متعلق عبارات کو تبدیل کر لیا ہے اور بعض کو تبدیل کرنے کا ان کا مطالبہ تا حال جاری ہے۔ نصاب کی تیاری کے لیے جو تجاویز دی گئی ہیں ان میں ایک تجویز یہ بھی ہے: ’’اسلام کا بطورِ واحد صحیح ایمان ہونے کو درسی کتب سے ختم کیا جانا چاہیئے۔‘‘ ان رپورٹس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نظریۂ پاکستان جیسی عظیم تعلیم کو ختم کرنے کے ساتھ پاکستان اور اسلام کے تعلق کو نصاب سے ختم کرنے کی بھی کوششیں جاری ہیں۔[14] ان رپورٹس میں جن باتوں پر اعتراض کیا گیا ہے اور انہیں تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے ان میں سے چند ایک کے نمونے درجِ ذیل ہیں : ۱۔نبی کریم ﷺ پر درود و سلام پر اعتراض (نعوذ باللہ) • Tell every child to say “SallAllah-o-Alaih-e-Wasallm [Peace be upon the Holy Prophet]” five times. • Tell children whenever they hear, read, speak, or write the name of the Holy Prophet, [they] must recite Darood, “SallAllah-o-Alaih-e-Wasallm [Peace be upon the Holy Prophet]”.[15] میری کتاب میں اساتذہ کو یہ ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ طلبہ کو نبی کریم ﷺ پر درودو سلام پڑھنے کی تلقین کریں۔ رپورٹ میں ان ’’ہدایات‘‘ کی نشاندہی کی گئی ہے کہ انھیں تبدیل کیا جائے۔ ۲۔نظریۂ پاکستان اور دو قومی نظریے پر اعتراض “The religious beliefs of the Muslims and Hindus are absolutely different. The Hindus worship many Idols. They have many Gods and Goddesses. The Muslims believe in one Allah, Who is Almighty and Who is Creator of the universe. The Muslims worship Allah. In the Hindu religion the men are divided into different classes by their system of caste and creed, whereas in Islam all the Muslims are equal and are brotherly with one another. In Hindu religion the women are given a low status, whereas Islam teaches to give due respect to the women.” [16] درسی کتب میں مذکورنظریۂ پاکستان اور دوقومی نظریے پر مشتمل عبارات پر اعتراض کیا گیا ہے۔ درجِ بالا عبارت کو مثال کے طور پر ہم نے نقل کیا ہے اس طرح کے متعدد جملوں پر اپنے تحفظات اس رپورٹ میں پیش کیے گئے ہیں ۔ ۳۔پاکستان اور اسلام کے تعلق کو توڑنے کی کوشش اس رپورٹ میں درسی کتب میں موجود ان عبارات کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں پاکستان کی اسلامی شناخت کا تعین کرتے ہوئے طلبہ کو یہ سکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ پاکستان کا دفاع کرنا گویا اسلام کا دفاع کرنا ہے، کیوں کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے۔ نصابی کتب میں ان عبارتوں پر بھی اعتراض کیا گیا ہے جن میں غیر اسلامی و غیر مشرقی تہذیب کو اختیار کرنے کی مذمت کرتے ہوئے اپنی اقدار اور روایات کو محفوظ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ قابلِ اعتراض عبارات میں سے چند ایک کو مثال کے طور پر ذیل میں ذکر کیا جا رہاہے: Sense of threat to Islamic National Identity The textbook content would seem to give students the sense that: (1) the defining characteristic of Pakistan is its Islamic identity and (2) defense of Pakistan is equivalent to the defense of Islam. The Islamic identity of Pakistan is established throughout the Social Studies and Pakistan Studies textbooks, often to the exclusion of religious minorities. Some textbook passages imply or directly state that Pakistan’s Islamic identity or Islam itself is under threat, which creates the possibility that the reader could come to view the influence of religious minorities as threatening. “Pakistan is an Islamic country and Muslim citizens are brothers to one another.” “To keep the Islamic identity and existence it is necessary for our country to safeguard religion and its values. Pakistan is the only country which came into being in the name of Islam.” “The foreign cultures are leaving deep influence over the Islamic values because of the electronic media. There is every danger that we may lose our cultural identities. In such circumstances and because of the vast changing cultural and religious situations, it is necessary for us that we must fully defend our political borders; take care of our basic views with love and devotion for Islam. This can ensure the safety of our country. The anti-Islamic forces are always trying to finish the Islamic domination of the world. This can cause danger for the very existence of Islam. Today, the defense of Pakistan and Islam is very much in need. It is more needed today because Pakistan is the only Islamic country which is an atomic power. Some people call this atomic power of Pakistan as Islamic bomb. Today, all the anti-Islamic powers look at Pakistan in such a way that we may remain away and aloof from the leadership of the Islamic world… The spirit of jihad may be inculcated among the people and Islamic view points may be propagated.” “Islamic society was devoid of every kind of evil, but gradually the Muslims began turning away from the Islamic principles and un-Islamic ways popularized, which became one of the reasons of Muslim downfall.” “There were many reasons for the downfall of Muslims [in South Asia]. The most important reason was the internal conflicts which resulted in the division of their state in several small states. The second important reason was the end of the spirit of Jihad among Muslims.” [17] ان عبارات میں واضح طور پر یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کے اذہان سے یہ نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ان کے زوال کا سبب قرآن و سنّت کو ترک کرنا ہے اور اگر وہ دوبارہ عروج کی منزلیں پا سکتے ہیں تو اس کا سبب صرف اور صرف اسلام ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا ہے اور اسلام کے نام پر ہی قائم رہے گا۔ اس راز کو دشمنانِ اسلام و پاکستان اچھی طرح سمجھتے ہیں، اسی لیے پاکستان کی اس روحانی اساس کو ختم کرنے اور پاکستانیوں کے قلوب و اذہان سے اسے کھرچنے کی کوشش جاری ہے۔ اس کےساتھ ان طلبہ میں الحاد،کفر اور اہانتِ دین جیسے افکار کو عام کرنے کی بھی کوشش کی جارہی ہے، جس کی واضح مثالیں تعلیمی اداروں کے ملحداساتذہ کا اسلام کے خلاف تحریر و تقریر کی صورت میں اپنے مسموم افکار کا اظہار ہے۔ اس رپورٹ میں یہ تجویز بھی پیش کی گئی ہے، صدرِ پاکستان اور وزیرِ اعظم کے لیے مسلمان ہونے کی شرط کے علاوہ مسلمان ہونے کے لیے ختم نبوت پر ایمان کے لازمی قرار دیے جانے کو بھی ختم کیا جائے۔[18] کچھ عرصے قبل ہی پاکستان کی دو جامعات میں اسرائیلی تہذیب کا دن منایا جانا اور ’’Defeat Jihad and Save Israel‘‘ جیسے پروگرامز منعقد کرنا ایسے سنجیدہ مسائل ہیں جن کی طرف سے مقتدر اداروں کا غافل ہونا قابلِ تشویش ہے ۔آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 31کے مطابق ملک میں قرآن و سنّت کے مطابق مسلمانوں کی تربیت کرنا اور اس کی تعلیم دینا حکومت کی ذمّے داری ہے۔حال ہی میں حکومت کا قرآنِ مجید کی تعلیم کو تمام تعلیمی اداروں میں لازم قراردینا انتہائی لائق تحسین عمل ہے ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کے خلاف مغرب زدہ لوگ ہی آواز اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں جس کی وجہ واشنگٹن پوسٹ کی سابقہ اوراق میں ذکر خبر میں دیکھی جا سکتی ہے ۔یقینی طور پر جب پاکستان میں اسلام کی بالا دستی مغربی طاقتوں کو کسی طور پر قبول نہیں تو یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ قرآنِ مجیدکو ہی اس نظامِ تعلیم کا حصّہ بنانے پر سر ِتسلیم خم کر دیں گے۔ جنسی تعلیم Sex Education: پاکستان کے تعلیمی اداروں میں نصابِِ تعلیم کا اسلام سے دوری کا سب سے خطرناک نتیجہ جنس پرستی کا عام ہونا ہے۔ تعلیمی اداروں میں رقص و سرود کی محافل، طلبہ و طالبات کا شراب و مسکرات کی لعنت کا شکار ہوجانا ،مخلوط نظامِ تعلیم کی وجہ سے جنس پرستی،کیٹ واک اور ہماری اقدار کےمنافی کلچرل شوز عام ہو چکے ہیں۔ اس کی عملی مثالیں دیکھنے کے لیے کسی بھی ویڈیو ویب سائٹ پر تعلیمی اداروں کی ان ’’غیر نصابی یا ہم نصابی سرگرمیوں‘‘کو باآسانی دیکھا جا سکتا ہے ۔بچوں کے لیے کارٹونز، فنون اور جمالیات کے نام پر جن اقدار کو پروان چڑھایا جا رہا ہے وہ یقینی طور پر اسلام اور نظریۂ پاکستان کے خلاف ہیں۔ دورِ جدید میں جنسی تعلیم کو بھی نصابِ تعلیم کا حصہ بنایا جا رہا ہے ۔عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے ’’جنسی و تولیدی صحت و حقوق“Sexual and Reproductive Health and Rights(SRHR) سے متعلق شعور پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس کے ذریعے طلبہ و طالبات میں خصوصی طور پر یہ شعور پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ اپنی جنسی آزادی کے ساتھ کس طرح ایک صحت مند جسم،صحت مند سوچ اورمعاشرتی خوش حالی کے ساتھ جنسی تعلق قائم رکھتے ہوئے تولیدی صحت و حقوق کو حاصل کر سکتے ہیں۔ Hayat-Lifeline Campaignنے اسی سلسلے میں پاکستان میں پہلا (SRHR)نصابِ تعلیم بھی متعارف کروادیا ہے ۔[19] اسی شعور کے ایک حصے کی تعلیم کو “Life Skills Based Education (LSBE) یعنی ’’زندگی گزارنے کی مہارتوں پر مبنی تعلیم“بھی کہا جا تا ہے۔ پاکستان کی تعلیمی پالیسی 2009ءمیں بھی یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ پاکستان میں LSBEکو پروان چڑھایا جائے گا۔[20] زندگی گزارنے کی مہارتوں پر مبنی تربیت اور جنسی تعلیم کو پاکستان میں مروج کرنے کے لیےمعروف این جی او ’’آہنگ‘‘ کی خدمات قابلِ ذکر ہیں جس کے لیے ان کی ویب سائٹ کو وزٹ کیا جا سکتا ہے ۔[21] ’’پاکستان میں ورلڈ پاپولیشن فاؤنڈیشن‘‘ نے 2009ء میں پاکستانی نوجوانوں کے لیے ایک پروگرام’’ہمارا کل‘‘کے نام سے یورپی یونین کی مالی معاوت کے ساتھ پاکستان کے تین اضلاع کراچی، ملتان اور مٹیاری میں شروع کیا ۔اسی ضمن میں زندگی گزارنے کی مہارتوں پر مبنی تعلیمی پروگرام کو ان تمام اضلاع کے 300سے زائد اسکولوں میں 1250اساتذہ کی رہ نمائی اور تعاون سے تقریبا 150000 نوجوان طلبہ و طالبات کے ساتھ مکمل کرنے کی کوشش کی گئی۔ پاکستان میں ’’ورلڈ پاپولیشن فاؤنڈیشن‘‘، غیر سرکاری تنظیمیں’’آہنگ‘‘، ’’ہینڈز‘‘ اور ’’آواز سی ڈی ایس‘‘ نے کراچی، ملتان اور مٹیاری کی ضلعی حکومتوں کے تعاون سے اس جنسی تعلیم پر مبنی کتب کو بھی شائع کیا تا کہ اس ’’منفرد‘‘ پروگرام کے ذریعے پاکستانی طلبہ و طالبات کو جنسی و تولیدی صحت سے متعلق آگاہ کیا جا سکے ۔[22] “آواز “نے’ ہمارا کل ‘ کی کامیابی کے بعد ایک نیا پروگرام Unite For Body Rights (UFBR) کے نام سے شروع کیا ہے جس کا لوکل نام ’’پروان‘‘ رکھا گیا ہے۔ اس پروگرام کا مقصد پاکستان میں جنسی تعلیم کو عام کرنا ہے۔جنسی و تولیدی صحت و حقوق سے متعلق اس تعلیم کو پاکستان میں Netherlands Ministry of Foreign Affairs کی مدد سے عام کیا جا رہا ہے جس میں دیگر پانچ غیر ملکی تنظیمیں Rutgers WPF, Simavi, Amref, dance4life , Choice بھی شامل ہیں۔[23] اسی حوالے سے UNESCO نے UNAIDS اور وزارتِ قومی ورثہ یکجہتی، حکومتِ پاکستان کے اشتراک سے ’’لڑکپن سے جوانی تک کا سفر‘‘کے نام سے ایک کتاب شائع کی ہے۔[24] SRHR اور LSBE کے علاوہ پاکستان میں LGBT کے حقوق کے لئے بھی کام کیاجا رہا ہے جس سے مرادGay, Bisexual, Transgender اور Lesbianکے جنسی حقوق مراد ہے۔ نیز 4 جولائی 2011 میں امریکی سفارتخانے نے اسلام آباد میں LGBT کے حقوق پر ایسے ہی لوگوں کا اجتماع کیا ۔ زندگی گزارنے کی مہارتوں پر مبنی تعلیمی نصاب کو ان اضلاع کے اسکولز میں جاری کرنے کی مکمل کوشش کی گئی۔ اس کتاب کے خلاف والدین کی جانب سے احتجاج بھی کیاجا چکا ہے تاہم درجِ بالا سطور میں مذکور معلومات کی بنیاد پر یہ جاننا ضروری ہے کہ تا حال یہ کتنے اداروں میں شاملِ نصاب ہے۔ ہم نے اس کتاب کا ایک نسخہ حاصل کیا۔ ذیل میں پیشگی معذرت کے ساتھ اس کتاب کے چند اقتباسات نقل کیے جا رہے ہیں تا کہ معلوم ہو سکے کہ ہمارے نوجوان طلبہ و طالبات کو زندگی گزارنےکی کس نوعیت کی مہارتوں پر مبنی تعلیم دینے کے لیے غیر ملکی اور ملکی غیر سرکاری تنظیمیں کوشاں ہیں اور ہم نے بھی اس کی ترویج کو اپنی تعلیمی پالیسی کا حصہ بنا لیا جو یقینی طور پر حلال و حرام کی تعلیم کے فرق کے بغیر کس قدر بڑی تباہی لا سکتا ہے اس کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے : ۱۔”عامر اپنے دوستوں کے ساتھ بلیئرڈ پارلر میں جانا پسند کرتا ہے۔وہ اکثر دیکھا کرتا تھا کہ لڑکے پیچھے کی طرف ایک کمرے میں جاتے ہیں۔ وہ حیران ہوا کرتا تھا کہ لڑکے وہاں کیا کرتے ہیں۔ایک دن اس نے بلیئرڈ پارلر کے مالک سے پوچھا کہ لڑکے وہاں کیا کرتے ہیں۔ اس آدمی نے وضاحت کی کہ لڑکے وہاں عریاں فلمیں دیکھ رہے ہوتے ہیں اور اس نے عامر کو بھی دعوت دی کہ وہ بھی چلے اور فلمیں دیکھے۔ عامر گھبرا رہا تھا، مگر وہ بہت زیادہ پر تجسس تھا۔ جب وہ اس آدمی کے ساتھ وہاں گیا تو کمرے میں اندھیرا تھا اور وہ اس کے ساتھ اکیلا تھا۔انہوں نے فلم دیکھنی شروع کی تو عامر کو بہت بے چینی محسوس ہونا شروع ہوئی۔ وہ آدمی اس کے نزدیک بیٹھا ہوا تھا اور اس نے عامر کے خاص حصوں کو چھونا شروع کر دیا تھا۔ عامر اس قدر خوف زدہ تھا کہ وہ حرکت بھی نہیں کر سکتا تھا۔‘‘[25] ۲۔عامر کی کہانی: ”بلوغت کی ابتدائی علامات شروع ہونے کے بعد عامر کا یہ پہلا رمضان تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اب اس پر روزے فرض ہیں،مگر ایک صبح جب وہ سو کر اٹھا تو اس نے اپنے پاجامے پر سامنے کی جانب سفید اور چکنے مواد کے دھبے دیکھے۔ دھبے دیکھ کر عامر بہت پریشان ہو گیا۔ اس کے دوستوں نے بتایا کہ اس مواد کے نکلنے کو احتلام کہتے ہیں۔اس نے سنا تھا کہ احتلام ایک ایسی بیماری ہے جو لڑکوں کو کمزور کر دیتی ہے اور یہ بھی کہ احتلام ہونے پر جسم کو پاک کیے بغیر روزہ نہیں رکھا جا سکتا۔اسے بے پناہ گھبراہٹ ہورہی تھی مگر وہ شرمندگی کے مارے کسی سے اپنی مشکل بیان کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا۔‘‘[26] ۳۔”تاہم اس سبق میں ہم صرف ہیپا ٹائٹس بی اور سی کے اسباب، علامات، منتقلی کے ذرائع، پیچیدگیاں اور بچاؤ کی تدابیر پر غور کریں گے کیوں کہ اس کے یہ وائرس خون اور جسم کی دوسری رطوبتوں (تھوک، پیشاب،آنسو، عورتوں کی جنسی رطوبت اور مردوں کی(منی) میں پائے جاتے ہیں ۔‘‘[27] ۴۔طلبہ کو ایچ آئی وی ایڈز اور دیگر بیماریوں کے منتقلی کے ذرائع بتاتے ہوئے بتا یا گیا ہے کہ ’’ایڈز کوئی مغربی بیماری نہیں ہے۔ ہندوستان میں اس کے لاکھوں مریض موجود ہیں جن میں مسلمان بھی شامل ہیں۔ پاکستان میں بھی لوگ اس وائرس کا شکار ہیں۔ اس کے بعد طلبہ کو ایڈز اور ہیپاٹائٹس کے منتقلی کے ذرائع سے آگاہ کرتے ہوئے محفوظ جنسی طریقہ ان الفاظ میں سکھایا گیا : ”متاثرہ فرد یا کوئی اور جس کے بارے میں معلوم نہ ہو اس کےساتھ جنسی ملاپ کے دوران کنڈوم کا استعمال کیا جائے۔‘‘[28] محض اہلِ درد کی توجہ اس اہم مسئلے کی طرف مبذول کروانے کے لیے ہم نے نہ چاہتے ہوئے بھی یہ چند ایک اقتباسات پیشگی معذرت کے ساتھ نقل کیے ہیں تا کہ باقی مواد کا اندازہ وہ خود لگا سکیں۔ سرکاری اسکولوں کے علاوہ پرائیویٹ اسکولوں کا ماحول اسی نوعیت کی بد ترین خرابی کی طرف جا چکا ہے۔ جہاں توحید، رسالت، قرآن اور آخرت سے دور ہونے کے ساتھ بے حجابی پر مبنی مخلوط نظامِ تعلیم نے ہماری نوجوان نسل کو تباہ کر دیا ہے۔ وہاں نشہ آور اشیا کے استعمال کے ساتھ جنسی بہرہ روی ان اداروں میں عام ہو چکی ہے۔ ان اداروں میں شامل نصابی کتب میں اہانتِ دین کے بشمول جنسی مواد اس قدر بے حیائی کے ساتھ شامل کیا گیا ہے کہ جب ابتدائی کلاسز میں بیٹی اپنی ماں سے کتاب میں لکھے ہوئے مباشرت کے طریقے پر بات کرنا چاہتی ہے تو ایک باحیا ماں شرم سے زمین میں گڑھ جاتی ہے۔ ہم ان جدید مہنگے تعلیمی اداروں میں ساتویں سال کے لیے رائج نصابی کتب میں سے ایک اقتباس معذرت کے ساتھ نقل کر رہے ہیں : “Before sexual intercourse can take place the penis must become erect. This happens by the action of a muscle at the base of the penis. The blood collects in spongy tissue and makes it expand and become hard. Prior to intercourse the vagina may also widen to ease the passage of the penis into it. The lining of the vagina may secrete fluid that acts as a lubricant and further helps the penis to enter the vagina. When the penis is inside the vagina both the male and female may make thrusting movements to stimulate the sensitive areas of the penis tip and clitoris. This may give each partner a feeling of pleasure called an orgasm. When the male has an orgasm it is accompanied by a contraction of the muscles in the epididymis and sperm ducts which propels the semen through the penis into the vagina. The action of releasing semen is called an ejaculation. The volume of semen ejaculated is usually about 3-5 cm.”[29] ہم نے پیشِ نظر مضمون میں کوشش کی ہے پاکستان کے نظامِ تعلیم میں غیر ملکی مداخلت اور اس کے اثرات کی ایک جہت اور جھلک قارئین کے سامنے پیش کریں۔ ملک کے مخلص اور مقتدر افرا د کے لیے ضروری ہے کہ وہ پاکستان کے تعلیمی نظام کو غیر ملکی مداخلت اور اثرات سے پاک کریں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح یو ایس ایڈ، ورلڈ بینک اوردیگر عالمی ادارے اپنی خدمات کے ذریعے ہماری نسلوں کی ذہنی تخریب کاری کر نے میں کامیاب ہو رہے ہیں جس کے نتیجے میں ہم بحیثیت پاکستانی اور مسلمان اپنی شناخت کھو دیں گے۔ ہمیں اپنے تعلیمی نظام کی طرف مکمل توجہ دینے کی ضرورت ہے، آخر ہماری ہی بے توجہی، بے اعتنائی اور اداروں کی مفلسی کی وجہ سے غیر ملکی اداروں کویہ موقع ملتا ہے کہ وہ اپنی بے تحاشہ مالی امداداور اپنے اسکولنگ سسٹم کے ذریعے ہمارے ذہین ترین دماغوں کو متاثر کریں۔ نصاب کی تیاری سے لے کر اساتذہ کی تربیت اور طریقۂ تدریس تک تمام ہی امور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ امر انتہائی ضروری ہے کہ ایک ایسا کمیشن تشکیل دیا جائے جو ملک کے تمام سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی اداروں میں پھیلنے والے اس زہر کا جائزہ لے سکے۔ ہمارے تعلیمی بحران کے حوالے سے حضرت ڈاکٹر فضل الرحمٰن انصاری علیہ الرحمۃ کی کتاب The Present Crisis in Islam and Our Future Educational Programme کا مطالعہ ضروری ہے کیوں کہ آپ نے یہ منصوبہ قائدِ اعظم محمد علی جناح کی کراچی میں تقریر میں نظامِ تعلیم کی تشکیلِ نو کے مطالبے کے بعد پیش فرمایا تھا۔اللہ تعالیٰ اہلِ پاکستان کو خوابِ غفلت سے بیدار فرمائے،آمین!از خواب گراں خیز! حواشی [1] Jewish Conspiracy and the Muslims World, Edited by Misbahul Islam Farooqi, Feb 1967, Published by Misbahul Islam Farooqi, I.G 6/3 Nazimabad Karachi, Pakistan, Page:3. [2] Slections From English Verses Class 9th and 10th, Edited by D.Y. Morgan.O.B.E, Education Officer for Pakistan British Council (Chairman), Sindh Textbook Board, Jamshoro, Sindh, Pakistan, Printed at The Times Press (Private) LTD Karachi. Page: 44-45 [3]https://tribune.com.pk/story/1083272/heres-why-students-at-lahores-bnu-covered-campus-walls-with-sanitary-pads/ Retrieved on 17/05/2017 [4]https://en.dailypakistan.com.pk/pakistan/in-the-name-of-creativity-bnu-media-students-target-pak-army-on-press-freedom-day/…Retrieved on 17/05/2017 [5] http://smartereducation.worldbank.org/sep/ Retrieved on 29/12/2016 [6] http://www.foreignassistance.gov/explore…Retrieved on 13/05/2017 [7] https://www.usaid.gov/pakistan/interactive-map#?…Retrieved on 13/05/2017 [8]https://www.usaid.gov/news-information/press-releases/oct-22-2015-white-house-announces-70-million-girls-education-pakistan…Retrieved on 29/12/2016 [9] https://www.usaid.gov/pakistan/education…Retrieved on 13/05/2017 [10] https://obamawhitehouse.archives.gov/the-press-office/2015/10/22/fact-sheet-united-states-and-pakistan-%E2%80%93-strong-and-enduring-relationship Retrieved on 13/05/2017 [11]http://webarchive.nationalarchives.gov.uk/20131204132828/http://devtracker.dfid.gov.uk/projects/GB-1-202491/transactions/…Retrieved on 29/12/2016 [12]https://tribune.com.pk/story/768771/madonnas-dream-school-opens-in-karachi/ Retrieved on 29/12/2016 [13]NAWAI WAQT, KARACHI 2 Jan, 2012, Page: 8 [14] Teaching Intolerance in Pakistan, www.uscirf.gov [15] Connecting the Dots, page: 41, www.uscirf.gov [16] Connecting the Dots, page: 43, www.uscirf.gov [17] Connecting the Dots, page: 47 to 48, www.uscirf.gov [18] Connecting the Dots, page: 127 to 128, www.uscirf.gov Remove pejorative content from the Constitution of 1973. The followed sections of the Constitution present a challenge in the creation of an unbiased environment for religious minorities both in the education system and society at large: 1. A person shall not be qualified for election as President unless he is a Muslim… Pakistan Constitution (1973), art. 41(2) 1. After the election of the Speaker and the Deputy Speaker the National Assembly shall, to the exclusion of any other business, proceed to elect without debate one of its Muslim members to be the Prime Minister. Pakistan Constitution (1973), art. 91(3) 2. … “non-Muslim” means a person who is not a Muslim and includes a person belonging to the Christian, Hindu, Sikh, Budhist [sic] or Parsi community, a person of the Quadiani group or the Lahori group (who call themselves “Ahmadis” or by any other name), or a Bahai, and a person belonging to any of the scheduled castes. Pakistan Constitution (1973), art. 260(3)(b) [19]http://moent.gov.pk/frmDetails.aspx?id=161&opt=newsevents https://tribune.com.pk/story/609338/first-sexual-health-curriculum-launched-in-pakistan/ Retrieved on 17/05/2017 [20]http://itacec.org/document/2015/7/National_Education_Policy_2009.pdf Retrieved on 15/05/2017 [21]http://www.aahung.org/whatwedo/3…Retrieved on 15/05/2017 [22] زندگی گزارنے کی مہارتوں پر مبنی تعلیم، ہمارا کل: نوجوانوں کی ترقی کا منفرد پروگرام، اسٹوڈنٹس ورک بک، ناشر ورلڈ پاپولیشن فاؤنڈیشن پاکستان۔ [23] http://awazcds.org.pk/parwan-project/۔۔۔ Retrieved on 23/06/2017 [24] لڑکپن سے نوجوانی تک کا سفر، نوجوانوں کے لئے رہ نما کتابچہ، اردو سائنس بورڈ، 299۔اپر مال، لاہور، اپریل 2012ء۔ ISBN: 978-969-477-213-4۔ [25] زندگی گزارنے کی مہارتوں پر مبنی تعلیم، ہمارا کل: نوجوانوں کی ترقی کا منفرد پروگرام،اسٹوڈنٹس ورک بک،ناشر ورلڈ پاپولیشن فاؤنڈیشن پاکستان، ص:۳۷۔ [26] زندگی گزارنے کی مہارتوں پر مبنی تعلیم،ہمارا کل: نوجوانوں کی ترقی کا منفرد پروگرام،اسٹوڈنٹس ورک بک،ناشر ورلڈ پاپولیشن فاؤنڈیشن پاکستان، ص:۴۹۔ [27] زندگی گزارنے کی مہارتوں پر مبنی تعلیم، ہمارا کل: نوجوانوں کی ترقی کا منفرد پروگرام،اسٹوڈنٹس ورک بک،ناشر ورلڈ پاپولیشن فاؤنڈیشن پاکستان، ص:۵۲۔ [28] زندگی گزارنے کی مہارتوں پر مبنی تعلیم، ہمارا کل: نوجوانوں کی ترقی کا منفرد پروگرام،اسٹوڈنٹس ورک بک ،ناشر ورلڈ پاپولیشن فاؤنڈیشن پاکستان، ص:۵۴۔ [29] Cambridge Checkpoint Science 2, New Edition, Hodder Education, an Hachette UK company, 338 Euston Road, London NW1 3BH. 2015. ISBN:978 1444 14375 1, Page: 70. (جامِ نورآن لائن، شمارہ اپریل ۲۰۱۸ء)

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi