سخن ضیائے طیبہ


سخن ضیائے طیبہ اداریہ کچھ یاد آیا ۔۔۔! کبھی اے نوجواں مسلم! تدبّر بھی کیا تونے؟ وہ کیا گردوں تھا، تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا؟ تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبّت میں کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سردارا غرض میں کیا کہوں تجھ سے وہ صحرا نشیں کیا تھے جہاں گیر و جہاں دار و جہانبان و جہاں آرا اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ہے وہ نظارا تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی کہ تو گفتار، وہ کردار، تو ثابت وہ سیارا گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا قارئین نے اداریے کا عنوان تو پڑھ ہی لیاکہ ۔۔۔ کچھ یاد آیا!۔۔۔لیکن! کیسے یاد آئے گاتجھے ۔۔۔؟ کیوں کہ کبھی بھی اےنوجواں مسلم! تدبّر نہیں کیا تونے۔۔۔؟تجھے تیری سوچ نے وہ نظارے اس لئے نہیں دکھائے کہ تجھ پر افعالِ عبث کو غالب کر دیا گیا ۔۔۔ وہ سنہرے نظارے گر تو اپنے تخیل سے دیکھ لیتا کہ ۔۔۔جس نبی ﷺ کا خلیفہ اپنے ساتھیوں سمیت ٹپکتی چھت کے نیچے، بوسیدہ ٹاٹ کی چٹائی پر بیٹھ کر قرار و کسریٰ کو فتح کرنے کا منصوبہ بنائے۔۔۔ جو بدر و اُحد کے میدان میں عشق و وفا پر سبقت کے مقابلے کرے ۔۔۔ جوکربلا کے دشت پر قوم کو سچے کردار و صبر کاپیغام دے۔۔۔ جو ساسانی تاجدار کے تاج و تخت کو روند ڈالے ۔۔۔ جو لیڈر اپنے لشکر کے پیچھے ہٹنے کے خوف سے ساحل پر لنگر انداز اپنی کشتیوں کو جلا ڈالے۔۔۔ ان سب کا یاد آنا تو تاریخ کے مطالعے سے ہوگا ناں۔۔۔ تاریخ ۔۔۔ یادِ ماضی ۔۔۔ اور مطالعہ ۔۔۔یہ ہوگا تو آج کا نوجواں مسلم تدبر و تخیل سے اپنی قابلیت و صلاحیت کا لوہا منواسکے گا۔۔۔ قرآنِ کریم فرقانِ حمید کا زیادہ تر حصّہ ماضی پر مشتمل ہے۔ ۔۔مذاہبِ عالم کے معمولات بھی ماضی کے بغیر نامکمل ہیں۔۔۔قرآنِ مجید میں تاریخ کو ’’عبرۃ لاولی الالباب‘‘اور’’موعظۃ للمتقین‘‘ کے گراں پایہ اور موزوں ترین خطابات سے سرفراز کیا گیا۔۔۔ اور اس کی اہمیت و افادیت کے پیشِ نظر قرآنِ مجید نے اس پر خاص زور دیا ہے۔۔۔ اور بار بار ہمیں دعوت دی ہے کہ ہم اپنے سے پہلی قوموں کے حالات اور ان کے عروج و زوال کے اسباب پر غور کریں ۔۔۔اور ان سے سبق و عبرت حاصل کریں۔۔۔کیوں کہ ہمارا حال ہمارے ماضی کا مجموعہ برائے عمل ہے ۔۔۔اور ہمارا ماضی سمجھنے کے لئے پھیلا ہوا ہے۔۔۔ ابنِ خلدون لکھتا ہےکہ۔۔۔فلماضی اشبہ بالاتی من الماء بالماء۔۔۔ یعنی عہدِ گزشتہ ، عہدِ آئندہ سے اس قدر مشابہ ہے کہ پانی بھی اس قدر پانی سے مشابہ نہیں ہوتا۔مطالعہ تاریخِ اسلاف کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے، بلکہ انسان کا مرقوم ماضی تحقیق و دانش کے لئے ایک چیلنج ہوتا ہے۔ سیسرو نے کہا تھا کہ ’’تاریخ زمانے کی مشاہد، صداقت کی روشنی اور زندگی کی ملکہ ہے، لہٰذا اس کا مطالعہ غور وفکر کا متقاضی ہے۔‘‘ جرمن مفکر ہیگل کا کہنا ہے کہ ’’ فلسفۂ تاریخ یہ ہی ہے کہ تاریخ کا مطالعہ غور و فکر کے ساتھ کیا جائے۔‘‘ اے جواں مسلم ۔۔۔! اتنا کچھ ہے یاد کرنے کے لئے۔۔۔ یادوں سے کچھ سیکھنے کے لئے۔۔۔ پھر آخر کیوں تیرے تخیل سے فزوں تر ہیں یہ نظارے۔۔۔یقیناً نسلِ نو کو اُن کے استاد ہی شاید بے پڑھے ملے ہیں ۔۔۔ لیکن یہ یقین اس وقت ٹوٹا جب نسلِ نو کو دورِ جدید کی جدیدیت میں بیمار پایا۔۔۔اور اس بیماری نے نوجواں کو گفتار کا غازی بنادیا ۔۔۔ کچھ سینئرز کی اور اداروں کے کرتادھرتاؤں کی سرخیاں اخبار میں پڑھنے کو ملیں۔۔۔ چینلز پر ٹاک شوز میں بیٹھے نظر آئے۔۔۔ لیکن کہاں نوجوان۔۔۔ یوتھ ۔۔۔ ینگرز۔۔۔ جماعتِ طلبہ۔۔۔ مدارس کی فوج۔۔۔کالج کے لڑکے۔۔۔ یونیورسٹی کے ایجوکیٹرز۔۔۔ نہ ہی سرخیوں میں۔۔۔ نہ ہی ہیڈ لائنز میں۔۔۔ غیرتِ ایمانی تو کوسوں دور۔۔۔ آج کا نوجواں فیس بکی مسلم ۔۔۔ فلسطینی و شامی مظلوم کےلئے جہادی کردار کا جوش چار لائن کے کمینٹ سے کر دیتا ہے۔۔۔ آج کا سوشلسٹ نوجواں مسلم۔۔۔ فلسطینی و شامی و کشمیریوں کی تذلیل کی گئی اور ظلم کی گئی تصاویر شئیر کردیتا ہے۔۔۔ آج کا فوٹوگرافر نوجواں مسلم ۔۔۔ امداد ونیکی کی آڑ میں درحقیقت مجروح کی گئی عزّت نفس بھری فوٹو سیشن تقاریب کو ترجیح دیتا ہے۔۔۔ آج کا لائیو آن لائن نوجواں مسلم۔۔۔ غیر معمولی و حساس حرکات و معاملات پر اپنا قیمتی اسمارٹ فون کا کیمرہ آن کرلیتاہے۔۔۔ آج کا کیپٹلسٹ نوجواں مسلم ۔۔۔ فقط اپنے پیٹ کے لئے مفاد پرست معاش کے پیچے دوڑ رہا ہے۔۔۔ غرض ۔۔۔ ماں باپ کی نظروں سے اوجھل ۔۔۔آج کا سیکیولر و کمیونسٹ نوجواں مسلم دنیا کی نظروں میں نظریں ملا کر کن اسمارٹ خیالات کی بھینٹ چڑھ رہا ہے ۔۔۔ یہ نوجواں مسلم جب خود اپنی آنکھوں سے اپنی اولاد کو بھی اسی مکافاتِ عمل میں دیکھے گا تب شاید ندامت کے آنسو بہا ئے گا۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کی یہ گلوبل ورلڈ بہت اسمارٹ ہے ۔۔۔ سوشل میڈیا کا دور ہے۔۔۔ انٹرنیٹ کا دور ہے ۔۔۔ لائیو ٹرانسمیشن کا دور ہے ۔۔۔ ماڈرن اسکول کا دور ہے۔۔۔ ٹیب لیٹ و آئی پیڈ کا دور ہے۔۔۔ اب شیر خوار بچے کے ہاتھ میں بھی فیڈر کی بجائے اسمارٹ فون ہے۔۔۔ لیکن ۔۔۔کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ پچھلے جو بھی تھے سب پتھر کے زمانے کے لوگ تھے۔۔۔؟ کیا ہم ایسا تسلیم کر لیں۔۔۔؟ نہیں، ہر گز نہیں ۔۔۔کیوں کہ اگر ہم نے اسلاف سے پائی ہوئی میراث کو گنوا دیا ۔۔۔ بلکہ گنوا بیٹھے ہیں ۔۔۔تو کچھ کا کچھ حال، ہم حال ہی میں دیکھ چکے ہیں اور کیا اب ہم کو ہماراحال دیکھنے کا انتظار ہے ۔۔۔الامان والحفیظ۔۔۔ قوموں کی حاات ان کے تخل پہ ہے موقوف یہ ذوق سکھاتا ہے ادب مرغِ چمن کو مجذوب فرنگی نے بہ اندازِ فرنگی مہدی کے تخلد سے کا زندہ وطن کو اے وہ کہ تو مہدی کے تخلر سے ہے بے زار نومدب نہ کر آہوئے مشکںک سے ختن کو سیّد محمد مبشر قادری ڈائریکٹر : اسکالرز انسائکلوپیڈیا پروجیکٹ خادم: انجمن ضیائے طیبہ

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi