قربانی کے مسائل


تحریر: علامہ محمد صدّیق ہزاروی مدّ ظلّہ العالی

تلخیص: علامہ محمد حسان میاری

قربانی کیا ہے:

مخصوص جانور کو مخصوص دن میں بہ نیّتِ تقرب ذبح کرنا ’’قربانی‘‘ ہے۔ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنّت ہے، جو اِس امّت کے لیے باقی رکھی گئی ہے۔

قربانی کا حکم:

چناں چہ قرآنِ مجید میں ارشاد ہے:

فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ (پارہ: 30، الکوثر:2)

’’توتم اپنے رب کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔‘‘

قربانی کی فضیلت:

حدیثِ پاک میں امّ المؤمنین حضرت عائشہ صدّیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھاسے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: یوم النحر (دس ذ والحجہ)میں ابنِ آدم کا کوئی عمل خدا کے نزدیک خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ پیارا نہیں اور وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگ اوربال اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کاخون زمین پر گرنے سےقبل خدا کےنزدیک مقامِ قبول میں پہنچ جاتاہے؛ لہٰذا، اس کو خوش دلی سے کرو۔

(’’جامع الترمزی‘‘ کتاب الاضاحی ، باب ماجاءفی فضل الأضحیۃ، الحدیث :۱۴۹۸،ج۳،ص۱۶۲ )

قربانی کس پر واجب:

مسلمان، مقیم، صاحبِ نصاب (اگر کسی شخص کے پاس اس کی گھریلوضروریات سے زائد رقم ہو، اس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کو پہنچتی ہو اور مقروض نہ ہو اسے صاحبِ نصاب کہتے ہیں )، آزاد مرد یا عورت پر قربانی واجب ہے ۔

قربانی کے جانور:

اونٹ یااونٹنی (کم از کم پانچ سال کے ہوں)۔ گائے، بیل، بھینس، بھینسا (کم از کم دو سال کے ہوں)۔بکری، بکرا ، چھترا، بھیڑ اور دنبہ( کم از کم ایک سال کے ہوں ) دنبہ یابھیڑ کا بچہ چھ ماہ کا ہو،لیکن اتنابڑا ہوکہ دورسے دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہوتو بھی قربانی جائز ہے ۔

جانور میں شراکت:

بکری، بکرا، چھترا اور دنبہ صرف ایک آدمی کی طرف سے قربانی میں ذبح کیاجاسکتاہےجبکہ گائے،بیل،بھینس،بھینسا، اونٹ، اونٹنی کی قربانی میں سات افرادشریک ہوسکتے ہیں یاد رکھیے!! اگر ان میں سے کوئی ایک کافر ہو یا کسی کی نیّت محض گوشت حاصل کرنا ہو یاقربانی سے پہلے کوئی آدمی فوت ہوجائے اور اس کے وارثوں سے اجازت لیے بغٖیر قربانی کی جائے تو کسی کی بھی قربانی نہ ہوگی ۔

جانورکا عیب سے پاک ہونا:

اگر کسی جانورکاسینگ ہڈی کے جوڑ تک (یعنی مینگ تک ) ٹوٹا ہوا ہو تواس کی قربانی جائز نہیں ۔اگر کسی جانور کے پیدائشی طور پر دانت نہ ہوں اور چارہ بھی نہ کھاسکتا ہویا دانت ٹوٹ گئے ہو ں اتنے کہ چارہ بھی نہ کھاسکتا ہو قربانی جائز نہیں ۔گائےکی زبان نہ ہوتو قربانی جائز نہیں۔ بکری کی زبان کٹی ہوئی ہو اور چارہ نہیں کھاسکتی تو قربانی جائز نہیں۔جس جانور کے کان پیدائشی طور پر نہ ہو ں اس کی قربانی جائز نہیں ۔صرف ایک کان ہو یا ایک یا دونوں کان ایک تہائی سےزیادہ کٹے ہوئے ہوں تو قربانی جائز نہیں۔ جس جانور کی دم،یا چکی تہائی سےزیادہ کٹی ہوئی ہو تو اس کی قربانی جائز نہیں۔ جانور اندھا ہو یا ایسا کانا ہو جس کا کانا پن بالکل ظاہر ہواس کی قربانی جائز نہیں۔ جس جانور کی نظر (بینائی ) ایک تہائی سے زیادہ چلی گئی ہو تو اس کی قربانی جائز نہیں ۔ جو جانور پاگل ہوگیااتناکہ چارہ بھی نہ کھاسکے یاکسی جانور کو خارش کی بیماری ہوگئی اور اتنا کمزور ہوگیاکہ ہڈیوں میں مغز نہ رہا تو اس کی قر بانی جائز نہیں ۔لنگڑا جانور قربان گاہ (جہاں اسے ذبح کرنا ہے) تک اپنے پاؤں سے چل کر نہ جاسکے یاجانور اتنا کمزور ہو کہ ہڈیوں میں مغز نہ رہا ہویاجانور کی کوئی ایک ٹانگ بھی کٹی ہوئی ہو تو قربانی جائز نہیں جو جانور لید،گوبر، وغیرہ (گندگی ) کھاتا ہو اسے (اونٹ ہو تو چالیس دن، گائے ہوتوبیس دن، بکری ہوتو دس دن )باندھ کر چارہ دیے بغیر قربانی جائز نہیں ۔ جس جانور میں نر اور مادہ دونوں کی علامات ہوں اس کی قربانی جائز نہیں ۔

قربانی کاوقت:

قربانی کاوقت دسویں ذوالحجہ کے دن صبح صادق کے طلوع ہونے سے بارھویں ذوالحجہ کے سورج غروب ہونے تک ہے (رات کے وقت ذبح مکروہ ہے)۔

جانور کامر جانا یا گم ہوجانا:

اگر قربانی کا جانور مرجائے تو مال دار آدمی پر لازم ہے کہ دوسرے جانور کی قربانی کرےجب کہ فقیر پر دوسرا جانور خریدنا لازم نہیں ۔

اور اگر قربانی کا جانور گم ہوجائے یا چوری ہوجائے اور اب دوسرا جانور خریدلیا جائے اس کے بعد پہلا جانور بھی مل جائے تو غنی کو اختیار ہے کہ دونوں میں سے ایک کی قربانی کرے اور فقیر دونوں کی قربانی کرے ۔

ذبح کاطریقہ:

بلند آواز سے بسم اللہِ اَللہ اکبر پڑھتے ہوئے چھری چلائے، اس طرح کہ چاروں رگیں کٹ جائیں یاکم از کم تین رگیں کٹیں ورنہ جانور حلال نہ ہوگا۔۔ہو سکے تو قربانی کرنے والا خود جانور ذبح کرے یا کسی مسلمان سے ذبح کروائے( اگر کسی مشرک سے ذبح کروایاتو وہ مردار ہے اور قربانی نہ ہوگی )،دو یا تین آدمیوں نے قربانی کے لیے بکریاں خریدیں اب پتا نہیں چل رہا کہ کس کی کون سی بکری ہے توایک دوسرے کووکیل بنادیں اس طرح سب کی طرف سے قربانی ہوجائے گی۔

قربانی کاگوشت :

قربانی کاتقاضا یہ ہے اور یہی مستحب ہے کہ اپنی خواہشات کوبھی قربان کیاجائے اور گوشت کے تین حصّے کیے جائیں:

ایک حصّہ گھروالوں کا،ایک حصّہ غریبوں اور مسکینوں کا اور ایک حصّہ دوست احباب کا۔ اگر کسی جانور کی قربانی میں کئی لوگ شریک ہو ں، گوشت کو وزن کرکے برابر تقسیم کیاجائے(محض اندازے سے تقسیم جائز نہیں )۔

(’’قربانی کے فضائل و مسائل‘‘ از علامہ محمد صدّیق ہزاروی، مُلَخَّصًا)

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi