ننھا چوزہ


ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی

شبّو مرغی بڑے جتن سے اپنا ایک انڈہ بچا پائی تھی، کیوں کہ اُس کے سارے انڈے ناشتے میں کھا لیے گئے تھے۔ بے چاری شبّواُسے لے کر ایک کونے میں بیٹھ گئی۔ بیس بائیس دن کی لمبی محنت کے بعد انڈے کا چھلکا توڑ کر چوزہ باہر آ گیا۔ شبّوکی خوشی کاٹھکانا نہ رہا۔

چوزہ تھا بڑا چنچل اور شریر … شبّودانہ چگنے جب با ہر جانے لگی تو اس نے چوزے کو نصیحت کی کہ یہاں سے ہٹنا نہیں۔ ماں جب باہر چلی گئی تو چوزہ گھر کا معائنہ کرنے لگا۔ اُسے سامنے چوہے کا بِل دکھائی دیا۔ چو ہا ابھی ابھی گھوم پھِر کر واپس آیا تھا۔ اُس نے چوزے کو دیکھا تو للچا اُٹھا، اور دل ہی دل میں کہنے لگا: ’’ہاے ! اتنا پیارا چوزہ!‘‘ اس کے من میں کھوٹ آ گیا، وہ سوچنے لگا ، کاش! اس کے نرم و ملائم اور ریشمی پر مِل جائیں تو میں اپنا گدّا بنا کر سکون کی نیند سو سکوں۔

وہ چوزے سے بول اُٹھا: ’’پیارے چوزے مجھ سے دوستی کرو گے؟‘‘

’’ہاں! ہاں !‘‘، چوزہ کہہ اُٹھااورحیرت سے پوچھا:

’’کیا تم مجھے اپنا دوست بناؤگے؟‘‘

’’کیوں نہیں!‘‘، چوہے نے جھٹ سے جواب دیااور کہا:

’’میں تمہیں دُنیا کی سیرکراؤں گا، مالکن کے کچن روم میں لے جاکر اچھے اچھے کھانے کھلاؤں گا۔‘‘

’’سچ مچ!‘‘، چوزہ چہک اُٹھا اور چوہے کی چکنی چپڑی باتوں میں آ گیا۔ چوہا ترکیٖب سوچنے لگا کہ کس طرح اِس کے پرکترے جائیں؛ سو اُس نے کہا:

’’دوست! میرے گھر نہیں آؤ گے؟‘‘

چوزے نے کہا: ’’کیوں نہیں؟ دوستی کی ہے تو اُس کو نبھا ؤں گا بھی۔‘‘ اتنا کہہ کر چوزہ چوہے کے بِل میں گھسنے لگا ، لیکن وہ اُس باریک سوراخ میں کہاں جا پاتا؟ اُس کی گردن اُس میں پھنس گئی۔ چوہا فوراً اُس کے نرم و ملائم اور ریشمی پر و ں کو کترنے لگا۔ چوزہ بولا: ’’میرے دوست! مجھے بہت درد ہورہا ہے اور مجھ کو گھٹن محسوس ہورہی ہے، کہیں میرا دم نہ نکل جائے۔‘‘

’’میرے پیارے دوست! تھوڑا اور ٹھہرو میں بِل کا سوراخ بڑا کررہا ہوں۔‘‘ چوہے نے چالاکی سے کہا۔

تب ہی شبّومرغی دانہ چُگ کر واپس آ گئی، اپنے پیارے بچے کی گردن چوہے کے بِل میں پھنسی دیکھ کر کراہ اُٹھی اور فوراًاس کو باہر کھینچ لیا۔ اسی جھٹکے میں چوزے کا پر کترنے میں مصروف چوہا بھی بِل سے باہر آ گیا ۔ شبّواُس کے کرتوت کو سمجھ کر غصّے سے بپھر گئی ۔ اس نے زور سے چوہے کو چونچ ماری کہ اس کی ہڈی پسلی ایک ہوگئی ۔

چوزہ اپنی بگڑی ہو ئی حالت دیکھ کر زور زور سے رونے لگا۔ کیوں کہ اس کی گردن کے پاس کے سارے پر صاف ہوگئے تھے۔ شبّو نے بڑے لاڈ سے اس کو کہا: ’’ کوئی بات نہیں میرے لعل یہ بچپن کے پر ہیں کچھ دنوں کے بعد تمہارے دوسرے پر اُگ آئیں گے۔‘‘ اور پھر سمجھایا کہ

’’تمہیں میری نصیحت یاد رکھنی چاہیے تھی نا!‘‘ ……

’’ہاں! امّی جان!‘‘ چوزہ بہت شرمندہ ہوا۔

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi