جشنِ صد سالہ عرسِ اعلیٰ حضرت رپورٹ


الطاف احمد خان مجاہد

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں بریلوی ﷫ علم کی دنیا کا بہت بڑا نام، صدہا کتب کے مصنف، ہزارہا نہیں، لاکھوں افراد کے فیض رساں  اور ایک ایسے مکتبِ عشق کے راہبر کہ جس سے نسبت برِ صغیر پاک و ہند میں نہیں عرب و عجم، یورپ و افریقہ کے لوگ بھی فخر گردانتے ہیں۔1340ھ میں آپ کا وصال ہوا تو یہ سن 1440ھ آپ کے صد سالہ عرسِ مقدس کی وجہ ٹھہرا۔ انجمن ضیائے طیبہ نے  جو مسلکِ حقّہ اہلِ سنّت کے فروغ کے لئے کوشاں ہے، اس برس جشنِ  عرسِ صد سالہ اعلیٰ حضرت کا اہتمام کیا، یہ انجمن کے تحت جاری عرس کی 47 ویں سالانہ تقریب تھی جس میں پورے ملک سے مقتدر علمائے اہلِ سنّت شریک ہوئے۔ انجمن کے بانی سیّد اللہ رکھا قادری ضیائی، سرپرست مفتی محمد اکرام المحسن فیضی،  چیئرمین سیّد محمد مبشر قادری اور اُن کے دیگر رفقا و اراکینِ انجمن نے خصوصی اہتمام کیا تھا نیو میمن مسجد بولٹن مارکیٹ کراچی نعرہ ہائے تکبیر و رسالت سے گونج رہی تھی، ذکرِ رضا جاری تھا۔ حمدِ باری تعالیٰ، نعتِ رسولِ مقبولﷺ، منقبت بارگاہ غوث پاک کے ساتھ ساتھ فضائل اعلیٰ حضرت  امام احمد رضا﷫ بیان ہورہے تھے اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ فضا میں انوار و برکات کی بارش کا سلسلہ ہے جسے اہل دل سمیٹ رہے ہیں۔

ہفتہ،3؍نومبر کو بعدِ عشا،کراچی کے مختلف علاقوں اور بستیوں سےعاشقانِ رسول اور محبانِ رضا کے قافلوں کا رخ کراچی کے اولڈ سٹی ایریاکی سمیت تھا، جہاں نیو میمن مسجد بقعۂ نور تھی اور وہاں یاد گارِ اسلاف، خلیفۂ قطبِ مدینہ، رئیس المتکلمین، پیرِ طریقت علامہ سیّد محمد محفوظ الحق شاہ آف بُورے والہ، خطیبِ اسلام، مفکرِ ملّت ڈاکٹر خادم حسین خورشید الازہری آف لاہور، فاضل جلیل مقرر شریں بیاں علامہ محمد حامد سرفراز قادری رضوی آف فیصل آبادو دیگر علمائے کرام اور صاحبانِ دانش نے خطاب کیا، فیضِ رضا جاری تھا، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کی زندگی کے مختلف گوشوں پر نکتہ رسی  جاری تھی، تحریکِ خلافت اور تحریکِ ترکِ موالات کے ایام میں مسلمانانِ ہند کی اعلیٰ حضرت نے جوفکری رہ نمائی کی اور ہندوؤں کی سازشی ذہنیت اور امّتِ مسلمہ کو پہنچنے والے ممکنہ نقصانات سے آگاہ کرنے کی جو سعی کی اُس  پر آج تسلم کیا جاتا ہے کہ گاندھی کی قیادت میں ہند  و مسلم  اتحاد کا تجربہ غلط تھا، یہی بات عرسِ اعلیٰ حضرت ﷫ میں کئی مقررین نے کہی۔ قائدِ اعظم نے پاکستان کے قیام کو ممکن کر دکھایا، لیکن یہ اسی وقت ہوا جب اعلیٰ حضرت ﷫نے بروقت مسلم کو ہندو سے الگ قوم بتایا اور ٹھہرایا۔ عرس کی تقریب کا خصوصی پہلو یہ تھا کہ روایتی تقاریر کی بجائے یہاں فکرِ اعلیٰ حضرت کو آگے بڑھایا جارہاتھا۔ تقریبِ عرس میں مقریرین نے  انجمن ضیائے طیبہ کی  سرگرمیوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ انجمن نے اُس عظیم مشن کا آغاز کیا جس کی بنیاد عشقِ رسالت ﷺہے۔

سینکڑوں قومیں وجود میں آئیں
دہر میں خشک و تر کے رشتے سے
ہم نے بنیادِ دوستی رکھی۔۔۔!
یادِ خیر البشر کے رشتے سے

اعلیٰ حضرت ﷫کے بارے میں  تمام مقررین نے مختلف پہلو آشکار کیے اور اپنے اپنے زاویۂ نگاہ سے روشنی ڈالی، لیکن رئیس المتکلمین پیر سیّد محفوظ الحق شاہ  صاحب کا خصوصی خطاب معرکۃ الآرا تھا، ان کا کہنا تھا کہ

’’آپ کی تحریروں سے عظمتِ خدا،  عشقِ مصطفیٰﷺاور محبتِ اہلِ بیت و اولیا کا درس ملتا ہے۔ آپ کے فتاوٰی ہوں یا کتب ایک ایک لفظ سے عشقِ مصطفیٰﷺ کی خوشبو آتی ہے، آپ کے علمی کارناموں میں فتاوٰی رضویہ اور کنزالایمان اہم ہیں، جن میں اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خاں ﷫ نے صحابۂ کرام، اولیائے عظام اور اکابرین کی تعلیم کو خالصتاً بیان کردیا۔ اس میں اپنے اور غیر کا فرق روا نہیں رکھا۔ آپ کا ترجمۂ قرآن ’’کنزالایمان‘‘ پوری دنیا میں معروف ہے، دنیا کی متعدد اہم زبانوں میں اس کاترجمہ ہو چکا ہے، جو اس پر شاہد ہے کہ آپ نے روحِ قرآن کو اردو زبان میں منتقل کردیا۔ ‘‘

علامہ حامد سرفراز قادری رضوی کی آواز نیو میمن مسجد میں مؤثر اور دل نشیں انداز میں گونج رہی تھی، آپ نے ایک خوبصورت نکتہ بیان کیا کہ

’’اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں ﷫ نے ساری زندگی بدعات، رسومات اور جہالت کے خلاف جہاد کیا۔ آپ ﷫ کی تعلیمات زندگی کے تمام شعبہ جات میں راہ نمائی فراہم کرتی ہیں۔آج سے سو برس قبل آپ نے اسلامی بینکاری کی طرف مسلمانوں کو متوجہ کیا تھا۔آج وقت نے ثابت کر دیاہے کہ آپ کی نظر جو منظر دیکھ رہی تھی ویسا ہی ہُوا۔ آپ نے تحریر کیا تھا: اسی طرح مسلمان صنعتیں قائم کریں، تجارت کو فروغ دیں، آپس میں لین دین میں دین کو ترجیح دیں تاکہ نفع مسلمانوں میں تقسیم ہوتا رہے۔ نفع کی شرح کم سے کم رکھیں۔ عدالتوں اور کچہریوں میں پیسہ خرچ کریں، اپنے معاملات کے حل کے لئےدین دار اور نیک لوگوں کو حاکم مقرر کریں۔ یہ سوچ ایک روایتی عالمِ دین کی نہیں، بلکہ ایک  مدبّر اور مفکر کی تھی جو آنے والے دنوں میں ایک مسلم مملکت کے قیام، ایک مسلم معاشرے کی تشکیل اور مسلم تجارتی برادری کےاحیا کا متمنی تھا، نتیجتاً مسلمان بالخصوص گجرات و دہلی کی مسلم تاجر برادری اس سمت آئی اور نوتشکیل مملکت پاکستان میں ہندو بنیے کی منتقلی سے مسائل پیدا نہ ہوئے۔‘‘

خطیبِ ملّت ڈاکٹر خادم حسین خورشید کا اندازِ بیان الازہری ہونے کے ناطے سننے والوں کو اپنا گرویدہ کر لینے والا تھا۔ انھوں نے اعلیٰ حضرت کے کارناموں کو تائیدِ ربّانی سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ

’’جب بھی دینِ متین پر کوئی حملہ کرتا ہے تو دین کی حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ اس عہد میں اپنے چنیدہ بندوں کو مامور کردیتا ہے کہ وہ ان حملوں کا مقابلہ کریں، دین کا دفاع کریں اور اللہ و رسول ﷺ کی تعلیماتِ حقّہ کا پرچار کریں۔ یزیدِ لعین نے شعائرِ اسلام کی توہین کی تو امام حسین ﷜ سامنے آئے، عباسی خلفا نے خلقِ قرآن کا فتنہ پروان چڑھانا چاہا تو امام احمد بن حنبل ﷫ نے للکارا؛ اکبر بادشاہ کے دینِ الٰہی کو حضرت مجددِ الف ثانی نے چیلنج کیا اور جب قادیان کا مرزا اور اسی قبیل کے لوگوں نے شانِ رسالت کو گھٹانا چاہا تو امام احمد رضا کا انتخاب ہُوا، جنھوں نے صدہا  کتب لکھیں، فتاوٰی دیے اور گستاخوں کا تعاقب کیا یہاں تک کہ مسلکِ رضویت کا نام ہی عاشقانِ رسول ﷺکی جماعت ٹھہرا۔‘‘

 عرسِ اعلیٰ حضرت کی تقریب بعدِ نمازِ عشا شروع ہوئی تھی، جوں جوں رات ڈھلتی جارہی تھی، ذکرِ رضا لطف دے رہا تھا اور بات تھی بھی ایسی ہی کہ گزشتہ صدی میں وعظمتِ مصطفیٰﷺ کے تحفّظ کا جو معرکہ درپیش تھا وہ آج بھی جاری ہے۔ آج بھی یہود و ہنود، نصارٰی و دیگر اور ان کے حواری، مسلمانوں سے عشقِ مصطفیٰﷺ کا سرمایہ لوٹنا چاہتے ہیں۔ وقت کی اہمیت اور ضرورت ہے کہ فکرِ اعلیٰ حضرت کو عام کر کے پیغامِ مصطفیٰ ﷺ کو پھیلایا جائے۔ جب تک نئی نسل اعلیٰ حضرت کی تعلیمات سے آگاہ نہیں ہوگی، اُسے رہزن بہکاتے رہیں گے۔

اس موقع پر، علامہ مولانا جمیل احمد قادری کی زیرِ نگرانی،  جامعہ ضیائے طیبہ؛ اور قاری خضر حیات سعیدی کی زیرِ نگرانی،  مدارسِ ضیائے طیبہ کے حفّاظِ  قرآن کی رسمِ دستار بندی بھی ادا کی گئی۔

نیو میمن مسجد میں منعقدہ عرس کے تاریخی اجتماع میں، کثیر عوامِ اہلِ سنّت اور  سادات برادریوں کے علاوہ،  جو  اہم شخصیات  شریک تھیں اُن میں سے قابلِ ذکر نام یہ ہیں:

  1. حضرت صاحبزادہ علامہ سیّد وجاہت رسول قادری
  2. حضرت علامہ ابرار احمد رحمانی
  3. حضرت علامہ مولانا پیر فضل احمد کریمی
  4. حضرت علامہ اکرام المصطفیٰ اعظمی
  5. صاحبزادہ مولانا صلاح الدین صدّیقی قادری
  6. حضرت علامہ مفتی قاسم فخری (ایم پی اے)
  7. حضرت صاحبزادہ مولانا مسرور احمد نقشبندی
  8. حضرت پیر طریقت جناب کمال میاں سلطانی
  9. حضرت علامہ سیّد زمان علی جعفری
  10. حضرت علامہ مولانا محمد عرفان ضیائی
  11. حضرت علامہ مفتی محمد عطاء اللہ نعیمی
  12. حضرت علامہ محمد رئیس قادری
  13. علامہ مولانا محمد سلطان مدنی
  14. علامہ مفتی محمد حسن فاروقی
  15. علامہ مولانا محمد اشرف گورمانی
  16. علامہ صاحبزادہ رضاء النبی فخری
  17. علامہ کامران قادری تُرابی
  18. علامہ مولانا اللہ رحم قادری
  19. مولانا قاری محمد الیاس ہزاروی مع وفد
  20. علامہ مولانا قاضی حسن مجددی
  21. علامہ مفتی ڈاکٹر عبدالوہاب اکرم قادری
  22. علامہ محمد شعیب قادری
  23. علامہ مفتی امام بخش قادری
  24. ابو الخیر پیر محمد الطاف قادری
  25. علامہ مولانا محمد احسن اویسی
  26. علامہ مفتی محمدراشد مسعودی
  27. معروف نعت خواں زبیر مکی وغیرہم۔

جشنِ صد سالہ اعلی حضرت امام احمد رضا بریلوی ﷜ کے موقع پر شرکاء نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ انجمن ضیائے طیبہ جس مشن کو گزشتہ کئی عشروں سے لے کر چل رہی ہے اس کی تقلید دیگر انجمنوں اور اداروں کو بھی کرنی چاہیے، بالخصوص زندگی کے دیگر شعبوں میں فکرِ رضا کو اجاگر کیا جائے تاکہ دلوں میں عشقِ رسولﷺ کو عروج حاصل   ہو اور زبان پر ذکرِ مصطفیٰ ﷺ زیادہ سے زیادہ جاری ہو۔

رہے گا یوں ہی ان کا چرچا رہے گا
پڑے خاک ہو جائیں جل جانے والے

انجمن  ضیائے طیبہ، نیومیمن مسجد (بولٹن مارکٹ، کراچی) کی پوری انتظامیہ، بالخصوص اس کے چیئرمین محترم جناب حاجی محمد رفیق پردیسی برکاتی صاحب کی انتہائی شکرگزار ہے، جس نے نیو میمن مسجد میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi