جب غیر اللہ کی قسم کھائی جائے


از: تاج الشریعہ مفتی محمد اختر رضا خاں قادری ازہری دامت برکاتہم العالیہ

تخریج: عبید الرضا مولانہ محمد عابد قریشی

علامت قیامت میں سرکارعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ بھی بتایاکہ لوگ غیر اللہ کی قسم کھائیں گے اور غیر اللہ کی قسم کھانا شرعاً ممنوع ہے۔

حدیث شریف میں ہے: ’’من حلف بغیر اللہ فقد اشرک‘‘[1] یعنی جوغیر اللہ قسم کھائے وہ مشرک ہے ۔

یعنی حقیقتاً مشرک ہے اگر غیر اللہ کی وہ تعظیم مراد لے جو اللہ کے لئے خاص ہے ، اسی قبیل سے بتوں کی قسم کھاناہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے حدیث ہے: جو قسم کھائے تو اپنی قسم میں یوں کہے: ’’لات وعزی ٰ کی قسم ‘‘ تو وہ کلمۂ توحید پڑھےاور اپنے دوست سےکہے: ’’آؤتم سے جو اکھیلوں ‘‘ تو وہ صدقہ دے۔[2]

حدیث کےاس فقرے سے معلوم ہواکہ گناہ کا اردہ جب دل میں پختہ ہوجائے تو یہ بھی گناہ ہےاوراس کوظاہرکرنا  دوسرا گناہ۔ صدقہ دینے کاحکم اس گناہ کے کفارہ کے لئے بطور استحباب ہے۔

 حدیث میں ہے: ’’الصدقۃ تطفی غضب الرب کما یطفی الماء النار‘‘[3] یعنی صدقہ اللہ کے غضب کی آتش کو ایسے بجھادیتاہے جیسے پانی آگ کو ۔

اس حدیث میں  ’’لاالہ الااللہ‘‘ پڑھنے کا جو حکم دیا اس میں دو احتمال ہیں ایک یہ کہ نو مسلم سے عادت سابقہ کی وجہ سے سہواً  سبقت لسانی سے بتوں کی قسم صادر ہو تو اس کے لئے متحسن ہےکہ ’’لاالہ الاللہ محمد رسول اللہ‘‘ اس برے کلمے کے کفارے  کے طور پر پڑھے اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ لات و عزٰی اور بتوں کی تعظیم مقصود ہو۔

اس صورت میں وہ شخص مرتد ہوجائےگا اور کلمۂ خلاف اسلام سے تبری کے ساتھ تجدید ایمان لازم ہوگی اور کلمۂ توحید پڑھنا ضروری ہوگا اور اگر غیر اللہ کی قسم میں وہ تعظیم مراد نہیں جو اللہ کے لئے خاص ہے تو یہ حقیقتاً شرک نہیں لیکن صورتاً  اہل شرک کے فعل سے مشابہ ہونے کی صورت کی وجہ سے اس پر  بھی شرک کا اطلاق آیا اور زجر وتشدید کے طور پر اس کے    مرتکب کو بھی مشرک کہا گیا۔

اس صورت میں مراد یہ ہے کہ اس شخص نے مشرکوں جیسا فعل کیا اس قبیل سے باپ ، دادا،  بیٹے وغیرہ کے نسب پر تفاخر کےطور پر قسم کھاناہے جیساکہ زمانہ جاہلیت میں رواج تھا۔  حدیث میں اس سے بھی ممانعت آئی۔

اقول:  ہمارے طرز بیان سے صاف معلوم ہواکہ حضور ﷺ کاایک اعرابی کے متعلق  ’’افلح وابیہ ان صدق‘‘ [4] فرمانا یعنی یہ فلاح کو پہنچااپنے باپ کی قسم اگر سچا ہے ممانعت کے تحت داخل نہیں بلکہ بیانِ جواز کے لئے ہے۔

گویاسرکار ﷺاپنے فعل سے یہ بتارہے ہیں کہ باپ کی قسم کھانا ناجائز نہیں جب کہ رسم جاہلیت کے طور پر تفاخر کے لئے نہ ہو، نہ اس سے تعظیم مفرط کہ ممنوع ہے، مقصود ہو اور ایک احتمال یہ ہے کہ ایسی جگہ تاکید کلام اور تقویت بیان مقصود ہوتی ہےتواس صورت میں قسم شرک نہیں۔             

تنبیہ:  غیر اللہ سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں جنہیں شرعاًاللہ ورسول جلاوعلا  ﷺسے کوئی علاقہ نہیں نہ شرعاًان کی کوئی حرمت ہے، نہ ان کی تعظیم کاحکم ۔ نبی ورسول کعبہ وملائکہ اس معنی پر غیر اللہ میں داخل نہیں  (اگرچہ باب حلف میں یہ بھی ٖ غیر اللہ ہیں مگر یہ مند رجہ بالا کے لحاظ سے غیر اللہ نہیں ) کہ شرعاًان کی تعظیم کاحکم ہے۔

ازاں جاکہ اللہ نے ان کی تعظیم کاحکم دیا تو ان کی تعظیم اللہ ہی کی تعظیم ہے۔

ان کی قسم کھاناحرام نہیں مگر علمانے بہ مقتضائے احتیاط اس طرح کی قسم

کھانےکو مکروہ کہابلکہ اس سے ممانعت خود حدیث میں آئی۔قسم شرعی           جس کاکفارہ لازم ہے، وہ اللہ کی وہ قسم ہے جو اللہ کی ذات سے یااس کی صفات سے متعارف طور پر کھائی جائے ۔

ٖٖغیر اللہ کی قسم ، قسم شرعی نہیں۔ علماء فرماتےہیں: اگرغیر اللہ کی قسم کو قسم شرعی جانے اور اس کاپورا کرنالازم سمجھے، اس صورت میں آدمی کافر ہوجائے گا۔

امام رازی نے فرمایا: ’’میری جان کی قسم ، تیری جان کی قسم‘‘ [5]  کہنے والے پرمجھے کفر کا اندیشہ ہے اور لوگ عام طور پر یہ نادانی میں کہتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتاتو میں کہتایہ شرک ہے۔ [6]

امام رازی کے اس قول سے یہ ظاہر ہے کہ غیراللہ کی قسم کوقسم شرعی جاننے میں علماء کے دوقول ہیں ۔ ایک میں آدمی مطلقاً کافر ہوجائے گااور دوسرایہ کہ اس میں اندیشۂ کفر ہے۔ یہ دوسرا قول محتاطین متکلمین کی روش پرہےاوران کامذہب مختار ومعتمد ہے جس کی تفصیل آگے  آرہی ہے۔

 اقول: یہ اس صورت میں ہے کہ کہنے والا اسے قسم شرعی سمجھنے اور اس کاپورا کرنا ضروری جانے اور قسم پوری نہ ہونے کی صورت میں کفارہ دیناضروری قیاس کرے ، جیسے بعض جاہل اپنے بچے کی قسم کھاتے ہیں اور اس کاپورا کرناضروری سمجھتےہیں اور نہ کرنے کی صورت میں کفارہ لازم خیال کرتےہیں۔

اگر یہ صورت نہ ہو یعنی قائل اسے قسم شرعی نہ جانے نہ تعظیم مفرط کاقصد کرے اس پر یہ محذورلازم نہیں آتا ’’کمالا یخفیٰ‘‘اور اس حدیث میں غیر اللہ کی قسم کھانے والے کو جومشرک فرمایا گیا ا س شخص کابھی حکم ظاہر جو یوں قسم کھائے ’’اگر میں یہ کا م کرو ں (والعیاذ باللہ تعالیٰ)  تویہودی یانصرانی یاملت اسلام  سے بری وبیزار ہوجاؤں ‘‘ ایسی قسم کھانا سخت حرام بدکام کفر انجام ہے۔

بعض علماء نے اس پر مطلقاًقائل کو کافر کہا مگر صحیح یہ ہے کہ اس مسئلہ میں وہی تفصیل ہے جو ’’من حلف بغیر  اللہ فقد اشرک ‘‘ جو غیر اللہ کی قسم کھائےوہ مشرک ہے ، میں بیان ہوئی اس تفصیل کی طرف خود دوسری حدیثوں میں ارشاد ہو: ’’من حلف علی ملۃ غیر الاسلام کاذ باً  فھو کماقال‘‘[7] یعنی جو مذہب اسلام کےعلاوہ کسی اور مذہب کی قسم کھائے دراں حالیکہ وہ اس قسم میں جھوٹا ہوتووہ ویسا ہی ہے جیسے اس نے کہا۔

حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی لکھتے ہیں: ’’کسے کہ سو گند خورد بردین کہ جزءاسلام است۔ چنانکہ گوئیداگر ایں کارکنم یہودی باشم یانصرانی شوم یا بیزارم ازدین اسلام یااز پیغمبر یااز قرآن (کاذباً) درحال کہ بدروغ خور نداست ایں سوگندر ا چنانکہ بکند ایں سوگند برائے منع فعل است کہ نکنند ہ پس صدق دے بآنست کہ نکنند کاذب باشد (فھو کماقال) پس آں کے ہمچناں است کہ گفت یعنی یہودی ونصرانی وبری ازدین اسلام ظاہر حدیث آنست کہ قائل ایں حدیث کافر میگر ودبمجر وحلف یابعد ازحنث از جہت اسقاط حرمت اسلام۔ الخ‘‘[8]یعنی اگر دین اسلام کےعلاوہ کسی دین کی قسم کھائے مثلاً یوں کہے کہ اگر وہ یہ کام کرے تو یہودی نصرانی یا دین اسلام سے بیزار یا پیغمبر یا قرآن سے بری ہوجائے اور حال یہ ہو کہ وہ جھوٹی قسم کھائے یعنی وہ کام کر بیٹھے اس لئے کہ قسم کھانا اس فعل سے باز رہنے کے لئے ہے تو قسم کاسچا ہونایہ ہے کہ وہ کام نہ کرے جس کے نہ کرنےکی قسم کھائی تھی اگر وہ کام کرےگاتوجھوٹا ٹھہرے گا۔ حدیث میں اس شخص  کے متعلق فرمایا کہ: ’’وہ ویسا ہی ہے جیسااس نے کہا ۔‘‘ یعنی یہودی یا نصرانی یا دین اسلام سے بری ۔ اس حدیث کا ظاہر یہ ہے کہ ایسی قسم کھانے والا قسم سے کافر ہو جائے گا، اس لئے کہ اس جہت سے کہ اس نے حرمت اسلام کو ساقط کیااور کفر پر راضی ہوا۔

بعض علمانے نظر بر ظاہر حدیث ایسی قسم کھانے والے کو مطلقاً کافرکہااور

بعض علمانے فرمایاکہ مراد اس قسم سے یہ ہے کہ وہ شخص اپنے نفس کو تحدید اور اس کے وعید میں مبالغہ کررہا ہے تاکہ اس کام سے اپنے آپ کو باز رکھے تو مقصود قسم سے بشدت   زجرنفس وتحدید ہے لہٰذا ہمارے نزدیک وہ جب تک قسم نہ توڑے محض اس قول سے کافر نہ ٹھہرے گا۔ اس طرح اگر فعل ماضی پر دین اسلا م سے برأت کومعلق کیا تو محتاطین کے نزدیک کافر نہ رہے گا اور بعض مشائخ کے نزدیک فعل ماضی پر معلق کرنے کی صورت میں کافر ہوجائے گا۔

مگر صحیح یہی ہے کہ اس صورت میں بھی کافر مطلق نہ ہوگا۔ اس لئے کہ کافر اعتقاد کفر سے ہوتاہےاور یہاں ظاہر یہ ہے کہ اس کی مراد قسم سے زجر نفس اور تحدید ہے یعنی جب کہ کسی فعل مستقبل پر اس حکم کو معلق کرے یا برأت کو مؤکد طور پر یقین دلانا ہے یہ اس صورت میں ہے کہ فعل ماضی پرمعلق کرے گویا وہ بتانا چاہتا ہے کہ یہ کام اس کے نزدیک ایسا ہی مکروہ وناپسند ہے جیسا کہ اس کایہودی یا نصرانی یا اسلام سے بر ی ہونا۔ اس لئے تحدید نفس کےلئے ایسی چیز پر معلق کیا جو اس کے نزدیک مکروہ محذور ہے۔

اقول: حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے اس باب میں جو دوسرا قول ذکر کیا وہ محتاطین کا ہے جو متکلیمین کی روش پر ہے اوران کی روش یہ ہے کہ وہ شخص ظاہر پر حکم کفر نہیں لگاتے اور کلام میں ادنی احتمال مانع تکفیر ہو، اس کالحاظ کرتے ہیں اور قائل کو جب تک اس کی مراد ظاہر نہ ہوجائے کافر  کہنے سےگریز کرتے ہیں اور یہ احتمال جو ان علماکو ایسی قسم کھانے والے پر حکم کفر لگانے سے باز رہنے کا مقتضی ہو اوہ خود حدیث سے ظاہر ہے کہ فرمایا: ’’اگر وہ اس قسم میں جھوٹا ہوتو ویساہی ہے جیسا اس نے کہا۔‘‘

جس کاصاف مطلب یہ ہے کہ اگر وہ اس قسم میں سچا ہے اور اسی معنی کفری کاابتدا ءً ارادہ نہ کیا ہو (یعنی یہودی یانصرانی ہونے پر اب اس سے راضی ہونا) تو وہ ایسا نہیں جیسا کہا اور اس احتمال کی تصریح دوسری حدیث میں ارشاد ہوئی جو حضرت بریدہ سے مروی ہےکہ حضورﷺنے فرمایا: جویہ کہے کہ وہ اسلام سے بری ہے (اگر یہ کام کرے ) تو وہ ایسا ہی ہے جیسا اس نے کہا اور اگر وہ اس قسم میں سچا ہے تو اسلام میں گناہ سے سلامتی کے ساتھ نہ رہے گا۔

امام قاضی عیاض رحمۃاللہ علیہ نے فرمایاکہ اس حدیث کا ظاہر یہ ہے کہ

اس قسم سے اس کا اسلام ظاہر ہوجائے گااور وہ ویسا ہی ہوجائے گاجیسا اس نےکہا اور یہ بھی احتمال ہے کہ وہ اس کافر ہونے کو قسم ٹوٹنے پر معلق کرے۔اس کی دلیل وہ حدیث ہے جوحضرت بریدہ نے روایت  کی حضور ﷺنے فرمایا: ’’من قال انی بریٔ من الاسلام فان کان کاذبا فھو کما قال‘ [9] یعنی جس کسی نے کہا میں اسلام سے بری ہوں اور اپنے قول میں جھوٹا ہوتو وہ ویسا ہی ہےجیسااس نے کہا۔

شاید اس سے قائل کی مراد نفس کی تحدید اور خود کو وعید شدید ہے نہ یہ کہ یہ حکم لگاناکہ وہ ابھی سے یہودی ہوگیایا اسلام سے بری  ہوگیاتو گویاوہ یوں کہہ رہاہے کہ وہ قسم ٹوٹنے کی صورت میں اسی عقوبت کا سزاوار ہے جس کا یہودی مستحق ہے اور اس کی نظیر حضور ﷺکایہ قول ہے: ’’من ترک الصلاۃ متعمداً فقد کفر‘‘ [10] یعنی جو جان بوجھ کر نماز چھوڑے وہ کافر ہوجائے یعنی وہ کافر کی عقوبت کا سزاوار ہے۔

حضرت امام قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی کی طرح یہاں دو قول ذکر کئے مگر صراحۃ ًکسی قول کی صحت کاافادہ نہ فرمایاالبتہ دوسرے احتمال کی تو ضیح و تعلیل ارشاد فرمائی جس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کے نزدیک بھی یہی مختار ہے کہ قائل مطلقاًکافر نہ ٹھہرے گا بلکہ قسم ٹوٹنے کی صورت میں رضا بالکفر کے تیقن کی وجہ سے کافر ہوگااور یہی حدیث کاظاہری مفاد ہے کہ اس کے اسلام سے بری ہونےکو کاذب ہونے پر معلق فرمایاتووہ اس باب میں نہ صرف ارشادِ علماء سے بلکہ خود حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر مسلم کے کلام میں متعدد احتمالات ہو جو اس کے کفر کے مقتضی ہوں اور ایک وجہ سے اس کے اسلام کے متقاضی ہوں توہم پر لازم ہے کہ ایک وجہ کی طرف میلان رکھیں اور جب تک احتمال قائم ہو مسلمان کو کافر نہ کہیں ۔

اس لئے ’’رد المحتار‘‘ میں فرمایا: ’’لایفتی بکفر مسلم ان امکن

حمل کلامہ علی محمل حسن او کان فی کفرہ اختلاف ولو کان روایۃ ضعیفۃ‘‘ [11] یعنی مسلمان کے کافر ہونے کافتویٰ نہ دیا جائے گاجبکہ اس کے قول وفعل کو اچھے پہلو پر رکھنا ممکن ہو یا اس کے کفر میں اختلاف ہو ا گرچہ روایت ضعیفہ ہو۔

ثم اقول: ہمارے کلمات جو ابھی گزرے ان سے صاف ظاہر ہے کہ حدیث کاظاہری مفاد اس قائل کابصدورحنث (جب قسم توڑے) کافر ہونا ہے، نہ کہ مطلقاًکافر ہوناتو اس صورت میں ظاہر حدیث بھی اس دوسرے قول کے قائلین کے ساتھ ہے اور قائل کے مطلق کفر کے ظاہر ہونے کا دعوی ٰ محل نظر ہے۔

اس کو ظاہر اًتسلیم بھی کرلیں تو اس پر قائل کی تکفیر اسی صورت میں ممکن ہے جب کہ ظاہری معنی کے مراد ہونے کااحتمال آشکار ہو اور اگر قرینہ عرف یا اور کوئی قرینہ اس بات پر قائم ہو  کہ قائل نے وہ معنی اصلاًمردانہ لئے تو اس صورت میں وہ احتمال ہی نہ رہے گااور ظاہر متروک ٹھہرے گا اس کی بہت مثالیں ممکن ہیں۔

عام بول چال میں کہتے ہیں کہ: ’’فصل بہارنے سبزہ اگایا، حاکم نے بچایا، اس مرض کایہ شافی علاج ہے، یہ زہر قاتل ہے‘‘ یہاں ان سب مثالوں میں مومن کاایمان،عرف سب گواہ ہیں کہ اس کی مراد حقیقی معنی جو لفظ سے ظاہر ہے نہیں بلکہ ان تمام مثالوں میں سب کی طرف اسناد کی گئی ہے کہ اعتقاد مومن کایہ ہے کہ مؤثرحقیقی اللہ تعالیٰ  ہے  اوریہ چیز یں خود مؤثر نہیں بلکہ اللہ کے قائم کردہ اسباب ہیں جن میں اللہ تعالی ٰ نے یہ تاثیر رکھی ہے۔

یہ وہابیہ کاظلم ہے کہ ان عام محاورات سے آنکھیں میچتےہیں اور ان کے بولنے کو تو مسلمان جانتے ہیں مگر اسی طور پر اولیاء انبیا کے لئے جومسلمان تصرف و مددثابت کرے تو اسے مشرک گر دانتے ہیں جس میں راز یہ ہے کہ ان کےنزدیک اولیادرکنار رسول ہی کی تعظیم شرک ہے جیساکہ ’’تقویت الایمان ‘‘ کے مطالعہ سے ظاہر ہے۔

اعلیٰ حضرت عظیم البرکت ان ہی کے حق میں فرماتے ہیں       ؎

شرک ٹھہرے جس میں تعظیم حبیب
 اس  برے  مذہب پہ لعنت کیجئے

آمدم بر سر مطلب !اب اس مسئلہ ظاہرہ کی طرف لوٹئےاور تقریر مندرجہ بلا کو مد نظر رکھ کر سوچئے۔ جب کہ قائل کی مراد اپنے نفس کو زجر وتہدید اور وعید شدید اور اس مکروہ محذور کام پر معلق کرنے سے اس کام سے امتناع واجتناب کی تاکید ٹھہری تو یہ اگر عرف عادت سے معلوم ہو تو ایسی صورت میں وہ ظاہری معانی جن کامفاد مطلقاً کافرہوناہے نہ محتمل، نہ مراد بلکہ قطعاًمتروک ہیں اور اسکے حق میں ظاہر بلکہ فوق الظاہر قائل کی وہی مراد ہے جو عرف واسلوب معتاد سے معلوم ہوئی ۔

لہذا قائل جب تک حانث نہ ہو ، کافر نہ ٹھہرے گا۔ ہاں یہ ضرور  ہے کہ ایسی قسم کھانا سخت شنیع اشد حرام ہے ،جس سے قائل پر توبہ لازم ہے اور احتیاطاًتجدید ایمان بھی ضرور!

’’درمختار ‘‘/جلد :۴ /ص :۲۴۶، ۲۴۷ پر ہے : ’’یکون کفر اتفاقا یبطل العمل والنکاح (واولادہ اولادزنا) ومافیہ خلاف یومر بالاستفار والتوبۃو تجدید النکاح (ای تجدید الاسلام وتجدید النکاح)‘‘ [12] یعنی جو بات متفق علیہ کفر ہے وہ عمل کو اور نکاح کو باطل کردیتی ہے ایسے شخص کی اولاد، اولادالزناہے اور جس کے کفر ہونے میں اخلاف ہے ، اس میں قائل کو توبہ (تجدید ایمان ) تجدید نکاح کا حکم ہے۔  رہی یہ بات کہ بصورت حنث اس پر کفارہ ہے یا نہیں تو ائمہ حنفیہ کامذہب یہ ہے کہ قسم توڑنے کی صورت میں اس پر کفارۂ قسم لازم ہوگا جب کہ کسی فعل آئندہ پر قسم کو معلق کیا ہو اور اس کی نظیر تحریم مباح ہے یعنی کسی فعل مباح کو اپنے اوپر بذریعہ قسم حرام کرلے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺسے فرمایا:

                یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللہُ لَکَ

یعنی اے غیب بتانے والے (نبی) تم اپنے اوپر کیوں حرام کئے لیتےہووہ

چیز جو اللہ نے تمہارے لئے حلال کی۔[پ:۲۸/التحریم:۱]

سید عالم ﷺحضرت ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے محل

میں رونق افروز ہوئے۔ وہ حضور ﷺکی اجازت سےاپنے والدحضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عیادت کو تشریف لے گئیں۔ حضور ﷺ نے ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالٰی عنھاکو سرفرازِ خدمت فرمایا، یہ حضرت حفصہ پرگراں گزرا۔ حضورﷺنے ان کی دلجوئی کے لئے فرمایا: میں نے ماریہ کو اپنے اوپر حرام کیااور میں تمہیں خوش خبری دیتاہوں کہ: ’’میرے بعد امت کے مالک ابو بکرو عمر ہوں گے۔‘‘ وہ اس سے خوش ہوگئیں اور نہایت خوشی میں انہوں نے یہ تمام گفتگو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھاکو سنائی اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ اس آیت کے متصل سرکا ’’ﷺ‘‘ سے یہ ارشاد ہوا:

                قَدْ فَرَضَ اللہُ لَکُمْ تَحِلَّۃَ اَیۡمَانِکُمْ

بے شک اللہ نے تمہارے لئے تمہاری قسموں کااتار مقرر فرما دیا۔  

[پ:۲۸/التحریم :۲/ترجمۂکنزالایمان]

اس طرح یہاں بھی قائل نے اس طرح قسم کھا کر کہ وہ اگر یہ کام کرے تو وہ یہودی یانصرانی ہے اپنے اعتقاد میں مباح کو حرام ٹھہرالیا۔ لہٰذا بصورت حنث یہاں بھی کفارہ لازم ہوگا۔ یہ اس صورت میں ہے جبکہ کسی فعل آئندہ پر ایسی قسم کھائی جائے اور اگر فعل ماضی پر ایسی قسم کھائی اور اس قسم میں وہ شخص جھوٹا تھاتو اس صورت میں کفارہ نہیں،محض توبہ لازم ہے اور احتیاتاً تجدید ایمان، تجدید نکاح بھی ضروری ہے۔

اس قِسم کی قسم عرف شرع میں ’’یمینِ غموص‘‘ کہلاتی ہے اور اس میں بھی حسب سابق دو قول ہیں پہلا یہ کہ وہ شخص مطلقاً کافر ٹھہرے گااور اس صورت میں ظاہر حدیث کہ فرمایا: اگر وہ جھوٹا ۔۔۔الیٰ آخر ہٖ‘‘ اس کاقول شدید ہے اور دوسرا قول یہ کہ محض قسم مراد لی تو  کافر نہ ہوگا۔

یہاں تک قسم کی دوقسمیں بیان ہوئیں اور تیسری قسم ’’یمین ِ لغو‘‘ ہے یعنی غلط فہمی میں کسی بات پر قسم کھائی اور واقعہ اس کے گمان کے خلاف ہو مثلاًیوں کہے: ’’خداکی قسم میں نےزید  سے بات نہ کی، خداکی قسم میں گھر میں داخل ہوا‘‘ اس کاحکم یہ ہے کہ اس میں نہ گناہ، نہ کفارہ۔قال اللہ تعالیٰ:لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللہُ بِاللَّغْوِ فِیۡۤ اَیۡمَانِکُمْ وَلٰکِنۡ یُّؤَا

خِذُکُمۡ بِمَا عَقَّدۡتُّمُ الۡاَیۡمانَ یعنی اللہ تمہیں نہیں پکڑتاتمہاری غلط فہمی کی قسموں پر ہاں ان قسموں پرگرفت فرماتاہے جنہیں تم نے مضبوط کیا۔ [پ:۷/ المائدہ : ۸۹/ترجمہ کنزالایمان]

یہاں تو غیراللہ کی قسم کے متعلق  تفصیل احکام بروجہ تمام ہوئی اور خود اللہ کے اسماء وصفات کی قسم کھاناسخت محل احتیاط ہے لہٰذا اس میں بھی زیادتی نہ چاہئے۔

حدیث شریف میں آیا: ’’من کان حالفافلیحلف باللہ اولیصمت‘‘ [13] یعنی جوقسم کھانے کاارادہ کرے تو اللہ کی قسم کھائے یاچپ رہے۔

اور اکثر احوال میں اللہ کی قسم کھانےسے باز رہنااور نام الہٰی کو ابتذال سے بچانامقتضائےاحتیاط ہے اور بکثرت اللہ کی قسم کھانا جرأت وبے باکی ہے۔ اسی لئے قرآن کریم میں فرمایا:

                وَ لَا تَجْعَلُوا اللہَ عُرْضَۃً لِّاَیۡمَانِکُمْ

یعنی اور اللہ کو اپنی قسم کانشانہ، نہ بنالو۔ [پ:۲البقرۃ:۲۲۴/ کنزالایمان]

مفسرین نے اس آیت کے معنی یہ بتائےکہ اللہ کے نام کو نشانہ نہ بناؤاور جاوبےجااس کو مبتذل نہ کرو کہ تم نیکو کار رہو ۔ جب نادر اًقسم کھاؤاورگناہ سے بچو جب کہ تمہاری قسمیں کم ہوں۔ اس لئےکہ قسموں کی کثرت نیکی اور تقویٰ سے دور کرتی ہےاور گناہ اور اللہ کے حضور بے باکی سے قریب کرتی ہے۔

چنانچہ علامہ جصاص رازی فرماتےہیں: ’’فالمعنی لا تعتر ضوااسم اللہ

وتبذلوہ فی کل شئی لان تبروا اذا حلف تم وتتقواالماثم فیھا اذا قلت ایمانکم لان کثرتھاتبعد من البر والتقویٰ وتقرب من الماثم والجرأۃ علی اللہ تعالٰی‘‘ [14] تو مطلب یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالی ٰتم کو کثرت قسم سے منع کرتا ہے اور بے باکی سے باز رکھتا ہے۔اس لئےاس سے باز رہنے  میں ہی نیکی وپریز گاری اور  تمہاری اصلاح

ہے۔(’’آثار قیامت ‘‘، مطبوعہ دارالنقی،کراچی:ص:52تا62(

 

[1]  ۔ سنن ابی داؤد /کتاب الأیمان والنذور / باب فی کراھیۃ الحلف  بالآباء/ رقم الحدیث: 3251 ج: /3ص: 223

[2]  ۔صحیح البخاری /کتاب تفسیر القرآن / باب افر أیتم الات والعزیٰ/رقم الحدیث: 4860 ج:  6ص: 141

[3]  ۔ المعجم الکبیر / باب الکاف / اسحاق بن کعب بن عجرۃ عن ابیہ کعب /  رقم الحدیث: 318ج: 19/ص: 145

[4]  ۔صحیح مسلم /کتاب الایمان/ باب بیان الصلوات التی ھی احدار کان الاسلام / رقم الحدیث : 9ج: 1/ص: 41

 [5] ۔ آج کل لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ’’تیری قسم ، تیری جان کی قسم‘‘ جیسی قسمیں کھانے لگتے ہیں حالانکہ ایسی قسم کھانے سے انھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچتابلکہ حضرت امام رازی کے مطابق ایسی قسم کفر سے زیادہ قریب ہے بعض لوگ بات بات پر اگرمیں ایسانہ کرو ں یا ایساکہوں تو ایساہوجاؤںمثلاً: ’’حضورﷺکی شفاعت سے محروم ہوجاؤں یا میرا بیٹا مرجائے یامیں کوڑھی ہوجاؤں ‘‘ کہہ ڈالتے ہیں ایسے لوگ مذکورہ بیان سے سبق حاصل کریں ۔۱۲/فاروقی غفرلہ

[6] ۔ التفسیر الکبیر

[7]۔مصنف عبدالرزاق / کتاب الأیمان والنذور/ باب من حلف علی ملۃ غیر الاسلام/رقم الحدیث: 15972/ج: 8/ص: 479

[8] ۔اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰ ۃ/ج:3/ص:211

 [9]۔سنن النسائی /کتاب الأیمان والنذور/الحلف بالبراءۃمن الاسلام /رقم الحدیث: 3772/ج: 7 ص: 6

 [10]۔المعجم الاوسط /باب الجیم /من اسمہ جعفر /رقم الحدیث: 3348 ج:  3 ص :343

 [11] ۔ردالمحتار /کتاب الجھاد / باب المرتد /ج: 4/ص: 224

 [12] ۔الدرالمختار/کتاب الجھاد /باب المرتد /مطلب توبۃ الیأس مقبولۃ(الخ)/ج: 4/ ص: 247

 [13]۔صحیح البخاری /کتاب الشھادات / باب کیف یستحلف / رقم الحدیث:2679 ج: /3 ص: 180

[14]۔احکام القرآن /سورۃ البقرۃ/تحت ال آیۃ 224ج:2/ص:42اور43

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi