کونڈوں کی شرعی حیثیت


کونڈوں کی شرعی حیثیت

از: مفتی محمد اکرام المحسن فیضی

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کونڈوں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیں۔

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

ہمارے ہاں اسلامیانِ پاک و ہند میں ۲۲؍ رجب المرجب کو ائمۂ اہلِ بیت بالخصوص حضرت سیّدنا امام جعفر صادق﷜ کی فاتحہ کے لیے کونڈوں کا اہتمام کیا جاتا ہے،جو بلا شبہ جائز و مباح مستحسن امر ہے اور اس کا انکار محض جہالت و عناد ہے۔ کونڈے کی فاتحہ جو در اصل ایصالِ ثواب ہی کی ایک شاخ ہے اور ایصالِ ثواب قرآن و سنّت اور ائمہ کرام کے اقوالِ مبارکہ سے ثابت ہے اور مشائخ کرام کا اس پر عمل ہے۔

جو حضرات کونڈوں کو ناجائز و بدعت سمجھتے ہیں ان کو چاہیے اس پر کوئی دلیل پیش کریں کیوں کہ شریعتِ مطہرہ کا قاعدہ ہے الاصل فی الاشیاء الا باحۃ کہ اشیا میں اصل اباحت ہے تو جو اس کو درست نہیں سمجھتے دلیل دینا ان کو لازم ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جو حضرات اس کو ناجائز و بدعت سمجھتے ہیں وہ محض عناد و جہالت کی وجہ سے ایسا کہتے ہیں ان کے پاس اس کے ناجائز و بدعت ہونے پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ اس کے اثبات کے لیے چند دلائل پیشِ خدمت ہیں۔

۱۔ وَالَّذِیْنَ جَآءُ وْا مِنْ بَعْدِ ھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ (پارہ ض ۲۸، حشر:۱۰)

ترجمہ: اور وہ جو ان کے بعد آئے عرض کر تے ہیں اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے۔ (کنز الایمان)

حضرت علامہ اسماعیل حقی حنفی متوفی ۱۱۱۷ھ، ۱۱۳۷ھ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں ارشاد فرماتے ہیں:

وفی الایۃ دلیل علی ان الترحم والاستغفار واجب علی المؤمنین الاخرین للسابقین منھم لاسیما لابائھم ومعلمیھم امور الدین (روح البیان، ج ۲، ص ۲۱۰)

یعنی اس آیت میں اس امر پر دلیل ہے کہ گذشتہ مسلمانوں کے لیے رحمت کی دعا کرنا اور مغفرت چاہنا پچھلے مسلمانوں پر واجب ہے خصوصاً اپنے آبا و اجداد اور دینی علوم کے استاذوں کے لیے۔

حکیم الامت حضرت علامہ مفتی احمد یار خاں نعیمی علیہ الرحمۃ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اس سے دو مسئلے معلوم ہوئے: ایک یہ کہ صرف اپنے لیے دعا نہ کرے سلف کے لیے بھی کرے۔ دوسرے یہ کہ بزرگانِ دین خصوصاً صحابۂ کرام واہلِ بیت کے عرس، ختم، نیاز فاتحہ اعلیٰ چیزیں ہیں کہ ان میں ان بزرگوں کے لیے دعا ہے۔ (نور العرفان مع کنز الایمان، حشر:۱۰)

۲۔ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا (پارہ: ۱۵، بنی اسرائیل: ۲۴)

اس آیت کی تفسیر میں علامہ امام خازن متوفی ۷۴۱ھ فرماتے ہیں:

ای ادع اللہ ان یرحمھا برحمۃ الباقیۃ (تفسیر خازن، ج ۴، ص ۱۲۶)

یعنی اللہ تعالیٰ سے ماں باپ کے لیے دعا کرے کہ وہ اپنی رحمتِ باقیہ کے ساتھ ان دونوں پر رحم کرے۔

علامہ امام ابو البرکات عبداللہ بن احمد نسفی متوفّٰی ۷۰۱ھ فرماتے ہیں:

ای لا تکتف برحمتک علیھما التی لا بقاءلھا وادع اللہ بان یرحمھما برحمۃ الباقیۃ واجعلہ ذلک جزاء لرحمتھما علیک فی صغیرک وتربیتھما لک والمراد غیرہ علیہ السلام (مدارک، ج ۲، ص ۲۴، بحوالۂ فتاوٰی اجملیہ، ج ۳، ص ۴۱۱)

یعنی تو ماں باپ پر اپنی اس رحمت کے ساتھ اکتفا نہ کر جس کے لیے بقا نہ ہو اور اللہ تعالیٰ سے دعا کر کہ وہ اپنی رحمتِ باقیہ کے ساتھ ان دونوں پر رحم کرے اور انہوں نے تجھ پر تیرے چُھٹ پنے میں جو رحم کیا اور تجھے پالا اس کی اس دعا کو جزا دینا اور آیت میں خطاب غیرِ نبی سے ہے۔

احادیث سے ثبوت:

۱۔ حضرت ابو ہریرہ﷜ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:

اذا مات الانسان انقطع عنہ عملہ الامن ثلاثۃ الامن صدقۃ جاریۃ اوعلم ینفع بہ او ولد صالح یدعولہ

(صحیح مسلم؛ مسند احمد ۲، ص ۳۷۲؛ سننِ نسائی، ج ۲ ص ۱۲۳؛ ترمذی،ج۱، ص ۲۵۶؛ ابو داؤد ج ۲، ص ۴۲؛ بیہقی سنن، ج ۶، ص ۲۷۸)

ترجمہ: جب انسان فوت ہوجاتا ہے تو اس کے اعمال منقطع ہوجاتے ہیں، لیکن تین عمل منقطع نہیں ہوتے: صدقۂ جاریہ، علمِ نافع اور نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی رہے۔

۲۔ حضرت ابو ہریرہ﷜ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:

ان اللہ یرفع الدرجۃ للعبد الصالح فی الجنۃ فیقول یا رب انی لی ھذہ فیقول باستغفار ولدک۔

(ادب المفرد للبخاری، ص ۳۰؛ ابنِ ماجہ ۲۶۸؛ مسندِ احمد، ص ۵۰۹؛ طبرانی اوسط، ج ۵، ص ۳۴۹؛ بغوی، شرح السنۃ، ۵، ص ۱۹۷)

اللہ تعالیٰ جنّت میں کسی نیک آدمی کے درجات بلند کرتا ہے تو بندہ عرض کرتا ہے اے میرے رب مرا درجہ کیسے بلند ہوا تو اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ تیرے بیٹے نے تیرے لیے استغفار کیا ہے۔

۳۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

ما المیت فی القبر الا کالغریق المتغوث ینتظر دعوۃ لحقہ من اب او ام او اخ او صدیق فاذا الحقتہ کان احب الیہ من الدنیا وما فیھا وان اللہ تعالٰی لیدخل علی اھل القبو ومن دعاء اھل الارض امثال الجبال وان ھدیۃ الاحیاء الی الاموات (بیہقی، شعب الایمان، ج ۶، ص ۲۰۳؛ دیلمی، ۴، ص ۳۹۱؛ مشکوٰۃ، ص ۲۰۶)

میت قبر میں اس حالت میں ہوتی ہے جس طرح کوئی ڈوبتا ہوا آدمی، اسے انتظار ہوتا ہے کہ کوئی اسے دعا پہنچے ماں باپ یا بھائی یا کسی دوست کی طرف سے تو جب اس کو دعا پہنچ جاتی ہے تو وہ دعا اسے دنیا ومافیہا سے محبوب ہوتی ہے اور بے شک اللہ تعالیٰ زمین والوں کی دعا سے اہلِ قبور کو پہاڑوں کے برابر ثواب عطا کرتا ہے اور بے شک اہلِ قبور کے لیے زندوں کا ہدیہ ان کے لیے دعائے مغفرت کرنا ہے۔

۴۔ حضرت انس بن مالک﷜ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

امتی امۃ مرحومۃ تدخل قبورھا بذنوبھا وتخرج من قبورھا لا ذنوبھا علیھا تمحص عنھا باستغفار المؤمنین (طبرانی اوسط، ج۲، ص ۲۹۰؛ دیلمی، ج ۱، ص ۴۹۸)

میری امّت امّتِ مرحومہ ہے کہ اپنی قبروں میں گناہوں کے ساتھ داخل ہوگی اور جب قبروں سے نکلے گی تو بے گناہ ہوگی مومنین کے استغفار کی وجہ سے۔

۵۔ عن سعد بن عبادۃ ﷜ سے روایت ہے:

انہ قال یارسول اللہﷺ ان ام سعد ماتت فای الصدقۃ افضل قال الماء فحفرا بئرا وقال ھذہ لام سعد (سنن ابو داؤد، ج ۱، ص ۲۳۶؛ مسندِِ احمد، ج ۵، ص ۲۷۵؛ بیہقیِ سننِ کبریٰ، ج ۴، ص ۱۸۵)

انہوں نے عرض کیا یارسول اللہﷺ سعد کی ماں فوت ہوگئی، کون سا صدقہ افضل ہے؟ فرمایا: پانی۔ حضرت سعد نے کنواں کھدوایا اور کہا یہ کنواں سعد کی ماں کے لیے ہے۔

۶۔ حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ عاص بن وائل نے وصیت کی کہ میری طرف سے سو غلام آزاد کیے جائیں چناں چہ اس کے بیٹے ہشام نے اس کی طرف سے پچاس غلام آزاد کردیے پھر اس کے بیٹے عمرو نے اس کی طرف سے پچاس غلام آزاد کرنے کا ارادہ کیا تو کہا کہ میں رسول اللہﷺسے پوچھ لوں تو وہ بارگاہِ نبوتﷺ میں حاضر ہوئے اور عرض کی یارسول اللہﷺ میرے باپ نے وصیت کی تھی اس کی طرف سے سو غلام آزد کیے جائیں اور ہشام نے اس کی طرف سے پچاس غلام آزاد کردیے اور میرے ذمے پچاس باقی ہیں تو کیا میں اس کی طرف سے بقیہ پچاس غلام آزاد کردوں تو رسول اللہﷺ نے فرمایا:

انہ لو کان مسلما فاعتقتم عنہ او تصدقتم عنہ او حججتم عنہ بلغہ ذلک (سنن ابو داؤد، ج ۲ ص ۴۳؛ سنن کبریٰ ۶، ص ۲۷۹؛ مصنّف عبدالرزاق، ج۹، ص ۶۱، ۶۲)

اگر وہ مسلمان ہوتا تو پھر تم اس کی طرف سے غلام آزاد کرتے یا صدقہ کرتے یا حج کرتے تو اس کو ان اعمال کا ثواب پہنچتا۔

کونڈوں کے متعلق علمائے کرام کے فتاوٰی مضامین

۱۔ صد رالشریعہ بدرالطریقہ حضرت علامہ مولانا محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:

اسی طرح ماہِ رجب میں بعض جگہ حضرت سیّدنا امام جعفر صادق﷜ کو ایصالِ ثواب کے لیے پوریوں کے کونڈے بھرے جاتے ہیں یہ بھی جائز ہے مگر اس میں اسی جگہ کھانے کی بعضوں نے پابندی کر رکھی ہے، یہ بے جا پابندی ہے۔ (کونڈوں کی فضیلت ص۷)

۲۔ محدثِ اعظمِ پاکستان حضرت علامہ مولانا سردار احمد چشتی قادری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: سیّدنا امام جعفر صادق﷜ کی فاتحہ کے لیے ۲۲؍ رجب المرجب کو کونڈے بھی شرعاً جائز و باعثِ خیر و برکت ہے۔ مخالفینِ اہلِ سنّت اس کو بلا دلیل بدعت و حرام قرار دیتے ہیں۔ (کونڈوں کی فضیلت، ص ۸)

۳۔ مفتیِ اعظمِ پاکستان خلیفۂ اعلیٰ حضرت حضرت علامہ ابو البرکات سیّد احمد قادری رضوی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: گیارھویں شریف، شبِ براءت، عرس و چہلم کی طرح ۲۲؍ رجب المرجب کو حضرت امام جعفر صادق﷜ کی نیاز کے لیے کونڈے بھرنا بھی اہلِ سنّت کے معمولات میں سے ہے اور اس کے جواز کے وہی دلائل ہیں جو فاتحہ ایصالِ ثواب وغیرہ کے ہیں۔ (کونڈوں کی فضیلت، ص ۸)

۴۔ حکیم الامت مفسر شہیر حضرت علامہ مفتی احمد یار خاں نعیمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: رجب شریف کے مہینےکی ۲۲؍ تاریخ کو یوپی میں کونڈے ہوتے ہیں یعنی نئے کونڈے منگائے جاتے ہیں اور سوا سیر میدہ، سوا پاؤ شکر، سوا پاؤ گھی کی پوریاں بناکر حضرت امام جعفر صادق﷜ کی فاتحہ کرتے ہیں، فاتحہ ہر برتن میں اور ہر کونڈے پر ہوجائے گی۔ اگر صرف زیادہ صفائی کے لیے نئے کونڈے منگا لیں تو حرج نہیں، دوسری فاتحہ کے کھانوں کی طرح اس کو بھی باہر بھیجا جا سکتا ہے۔

بائیس رجب کو حضرت امام جعفر صادق کی فاتحہ کرنے سے بہت اَڑی ہوئی مصیبتیں ٹل جاتی ہیں۔ (کتاب اسلامی زندگی، ص ۶۹، ۱۲۷؛ کونڈوں کی فضیلت، ص ۸، ۹)

۵۔ شیخ الحدیث حضرت علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی فرماتے ہیں:

ماہِ رجب میں حضرت امام جعفر صادق علیہ الرحمۃ کو ایصالِ ثواب کرنے کے لیے پوریوں کے کونڈے بھرے جاتے ہیں یہ سب جائز اور ثواب کے کام ہیں۔ فاتحہ کے وقت ایک کتاب داستانِ عجیب بعض لوگ پڑھتے ہیں اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ فاتحہ دلانا چاہیے، یہ جائز اور ثواب کا کام ہے۔ (جنتی زیور، ص ۳۸۹، ۳۹۰؛ کونڈوں کی فضیلت، ص ۹)

۶۔ خلیل العلما حضرت علامہ مفتی محمد خلیل خاں قادری برکاتی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:

ماہِ رجب میں بعض جگہ حضرت سیّدنا امام جعفر صادق﷜ کو ایصالِ ثواب کے لیے کھیر پوری (حلوہ) پکا کر کونڈے بھرے جاتے ہیں اور فاتحہ دلاکر لوگوں کو کھلائے جاتے ہیں۔ یہ بھی جائز ہے۔ (سنّی بہشتی زیور، حصّۂ دوم، ص ۱۷۶)

پاسبانِ مسلکِ رضا، نباضِ قوم حضرت علامہ مولانا الحاج ابو داؤد محمدصادق رضوی ﷫ فرماتے ہیں:

۲۲؍ رجب کا ختم شریف سیّدنا امام جعفر صادق﷜ کی یاد میں ۲۲؍ رجب شریف و ایصالِ ثواب اہلِ سنّت وجماعت میں معمول و معروف ہے۔ مخالفینِ اہلِ سنّت و منکرینِ گیارھویں چوں کہ محبوبانِ خدا و بزرگانِ دین کی یاد منانے اور ختم شریف دلانے کے شروع ہی سے خلاف ہیں اس لیے وہ میلاد و عرس، گیارھویں کی طرح ۲۲؍ رجب کے (فاتحہ کے) خلاف بھی بلا وجہ وایلا کرتے ہیں۔ (ماہنامہ رضائے مصطفیٰ، شعبان ۱۴۰۲ھ، ص ۲۲؛ کونڈوں کی فضیلت، ص ۹، ۱۰)

واللہ تعالٰی اعلم ورسولہ الا علٰی اعلم۔

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi