علما کو اسمبلیوں میں جانا کیوں ضروری ہے


تحریر: صدر الافاضل مولانا سیّد نعیم الدین مراد آبادی ﷫

علمائے دین و پیشوایانِِ اسلام! اب آپ قدم اٹھائیں، گوشۂ تنہائی سے نکلیں، اس لیے نہیں کہ آپ کو جاہ ملے، منصب ملے، اس لیے نہیں کہ آپ حکومت کامزہ حاصل کریں، فقط اس لیے کہ دین کی حفاظت ہو، اسلام اورمسلمانوں کے مفاد کے خلاف پیش ہونے والی تجاویز کو روک سکیں، اور مسلمانوں کے مستقبل کو خطرے سے محفوظ رکھ سکیں، جو قانون ایک دفعہ پاس ہوجاتا ہے، پھر اس کے خلاف کامیابی حاصل کرنا بہت دشوار ہوجاتا ہے، اگر اسمبلی میں علما کا بھی کوئی عنصر ہوتا تو ’’سار دا کا قانون‘‘ پاس نہ ہو سکتا تھا اور مسلمانوں کے ممبر پہلے روز بیدار کردیے جاتے، لیکن قانون پاس ہونے کے بعد جو کوشش کی گئیں وہ اس وقت تک نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئیں، طبقۂ علما کا سیاسیات اور ملکی نظم و ضبط کی طرف سے اغماض کرنا، مسلمانوں کو بہت سخت ضرر پہنچتا ہے، اس وقت حکومتِ ہند ’’ گول میز کانفرنس‘‘ اجلاس کر رہی ہے، ہندوستان کے لیے دستورِ حکومت تجویز ہے، ہر فرقے کے نمائندے وہاں پہنچ گئے ہیں، سب نے اپنے اپنے مطالبات کا ایک ایک مسودہ مرتب کرلیا ہے، ہر ایک اپنے اپنے مقاصد کا ایک ایک نقشہ نظر کے سامنے رکھتا ہے، لیکن ہمیں شکایت ہے اور بجا شکایت ہے کہ ہمارے طبقہ علمائے اہلِ سنّت اور مشائخ نے آج تک اس کی طرف التفات ہی نہیں کیا، جو جو مسوّدے تجویز ہوئے ان پر نہ نظر ڈالی اور نہ دیکھا کہ اسلام اور مسلمانوں پر ان کا کیا اثر پڑتا ہے؟ اسلام کے تحفظ اور مسلمانوں کی فلاح اورمذہب کی تجویزوں میں اضافہ ہونا چاہیے اور کون کون سی چیزیں ہماری نظر میں قابلِ احتراز ہیں جن کی مدافعت لازم ہے؟ ہندوستان کا تمام طبقہ علما اس سرے سے اُس سرے تک ساکت و خاموش ہے، انہوں نے اس پر نظر نہیں ڈالی کہ کیا حیثیت دین سے یہ کوئی ضروری امر نہیں ہے؟ گزشتہ کو چھوڑدیے خدارا آئندہ کے لیے ہی مستعد ہوجائیے اور جلد تر ایک نظر ڈالیے کہ دنیا کیا کر رہی ہے؟ اور مسلمانوں کے مستقبل کے لیے کیا تجویزیں در پیش ہیں، ان کے کیا نتائج ہوں گے؟ ضروریات کا اقتضا کیا ہے؟ پہلے جو کچھ رائے ہو اس سے ایک اجتماعی شکل میں اپنے نمائندوں کو باخبر کیجیے، پچھلی غفلت قابلِ افسوس ہے، لیکن ابھی اور غفلت رہی تو کام قبضے سے باہر ہوجائے گا، جس طرح ممکن ہے صورتِ حالات پر اطلاع پانے کے بعد ایک مسوّدہ تجاویز مرتّب کی جائے اور خواہ جلسوں میں یا ڈاک کے ذریعے سے اس پر دوسرے علما کی رائیں حاصل کر کے ایک نقشہ عمل مرتب فرمایئے اور ممبران کونسل کو جس امر میں توجہ دلانے کی ضرورت ہو اُنھیں زور کے ساتھ توجہ دلائیے۔ یہ بھی دیکھیے کہ ڈسٹرکٹ اور میونسپل بورڈوں میں کیا ہورہا ہے؟ آپ کو جلد سے جلد مستعد ہوجانا چاہیے اور اگر سنّی جمعیت العلما اس طرح عمل میں آگئی تو ان شآء اللہ العزیز اسلام اور مسلمین کی بہت بڑی حمایت ہوسکے گی۔ ستم ہے کہ جاہل عالم بن کر میدان میں آئے اور ان کی تعداد سے دُنیا کو دھوکہ دیا جائے اور ان کی خود ستائی و نفس پرستی کو علما کی رائے قرار دیا جائے اور علما کا پورا طبقے کا طبقہ ساکت و خاموش بیٹھا یہ سب کچھ نہ دیکھے نہ اس کے منہ میں زبان ہو، نہ زبان میں حرکت ہو، نہ ہاتھ میں قلم، نہ قلم میں جنبش، اب آپ کا یہ تقاعد زہد و انکسار کی حد سے گزر کر غفلت و کسل کے دائرے میں آگیا ہے اور اس اندازِ سکوت سے اسلام و مسلمانوں کو جو نقصان پہنچ رہا ہے، شاید آپ کواس کا اندازہ نہیں۔ اب آپ اس عقیدے کو چھوڑ دیجیے کہ آپ کے فرائض ایک مجلس میں وعظ کہہ کر، ایک حلقے میں درس دے کر، یا خلوت خانے میں فتویٰ لکھ کر ادا ہو جاتے ہیں اور آپ کو اس پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ دنیا میں کیا ہورہا ہے؟ اور بد خوانِِ اسلام تخریب کے لیے کیا تدابیر عمل میں لارہے ہیں؟ یقیناً یہ آپ کا فرض ہے اور آپ سے بروزِ حشر اس کے متعلق سوال کیا جائے گا، اٹھیے، اٹھیے اور اپنے فرائض کو ادا کیجیے۔ (ماہنامہ ’’السواد الاعظم، شمارہ رجب المرجب ۱۳۴۹ھ، ص۴؛ تحریکِ پاکستان میں مولانا سیّد محمد نعیم الدین مراد آبادی اور اُن کے مشاہیر خلفا کا حصّہ، پروفیسر ڈاکٹر جلال الدین احمد نوری الحنفی البغدادی، رئیسِ کلیہ معارف ِاسلامیہ، جامعہ کراچی، ص 84-86)

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi