حیا برائے فروخت


تحریر: محمد زبیر بیگ

یہ کوئی پرانی بات نہیں، چند ہی سال پہلے ہمارے معاشرتی خدوخال میں حیا موجود تھی، غیرت زندہ تھی۔ گھروں میں عورتیں دوپٹے اتارنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھیں۔ گھرکے مرد گھر میں داخل ہونے سے پہلے کھانستے کھنکارتے تھے کہ عورتیں اپنی چادریں درست کرلیں ۔گھروں میں مردان خانے اورزنان خانے الگ الگ ہوا کرتے تھے۔ بھائی بہنوں کو بے پردہ ساتھ لے جانے میں معترض ہوتے تھے،شادی بیاہ کی تقریبات میں عورتوں اور مردوں کے لیے علیحدہ اہتما م کیا جاتا تھا، مخلوط تقریبات کا تصور تک موجود نہ تھا۔ گھر کی خواتین کے لباس پر بزرگوں کی روک ٹوک کا ایک مسلسل عمل جاری رہتا تھا، جس کی وجہ سے خواتین اپنے لباس کے بارے میں محتاط رہتی تھیں۔ عورتوں کے بازار میں کوئی مرد داخل ہوجاتا تو لوگ اسے مشکوک نظروں سے دیکھتے، یہاں تک کہ اُسے ٹوک دیا جاتا کہ بھائی تمھارا یہاں کیا کام اور بعض اوقات ایسے بے حیا مردوں کی مرمت بھی کردی جاتی تھی۔عورتیں اپنا لباس علاقے، محلے کی سلائی کرنے والی عورتوں سے سلواتی تھیں، حتّٰی کہ مرد ڈاکٹروں سے چیک اپ کروانے کو بھی برا تصور کرتی تھیں۔ علاقے اور محلے میں بے پردہ گھومنے والی عورت سے گھر کی عورتوں کو میل جول رکھنے سے منع کیا جاتا کہ مبادا اس کی صحبت سے ہمارے گھر میں بھی بے پردگی نہ آجائے!

مگر یہ آج چند ہی سالوں میں کیا ماجرا ہوگیا ہے ،اسلام کے نام پر بنائے جانے والے ملک میں پردہ دار خواتین کو دقیانوسی قرار دیاجارہا ہے، بھائی اپنی بے بہنوں کو بڑے فخر کے ساتھ بے

پردہ لے کر گھوم رہے ہیں،شوہر ایسی بیویوں کو ناپسند کرنے لگے ہیں جو ان کے دوستوں سے فرینکلی نہیں ملتیں، شادی بیاہ میں مرد و زن کی مخلوط نشستگاہی اعلی اسٹیٹس کی نشانی بن چکی ہے۔ عورتیں مرد دکانداروں سے اپنی ضرورت کا مخصوص لباس بڑے بیباک بحث و مباحثے کے بعد خرید رہی ہیں اور انھیں کچھ برا محسوس نہیں ہورہا۔یہاں تک کہ بازارکی دکان میں مرد درزی کوسر ِعام ناپ دیتی ہیں جس کا نہ انھیں خود برا محسوس ہوتا ہے، نہ ان کے گھر کے مردوں کو اور نہ ہی بازار کے دیگر گزرنے والوں کو۔

بھائیو! یہ سچ ہے کہ ہمیں خبر ہی نہیں ہوئی اورہماری اسلامی حیا کو مغربی چور اچکے لوٹ کر لے گئے ہیں۔آخر اتنی بڑی واردات کیسے ہوگئی کہ ہمیں کانوں کان خبر تک نہ ہوسکی۔ یہ سب کچھ راتوں رات اور اچانک نہیں ہوا، یہ اغیار کی طویل منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ یہ منصوبہ بندی کیوں کی گئی یہ جاننے سے قبل آقائے دوجہاں حضرت محمد ﷺ کا یہ فرمانِ مبارک پڑھیے، ارشاد فرمایا، ’’ہر دین کا ایک خُلق ہوتا ہے، اسلام کا خلق حیا ہے۔‘‘

اسلام کے دشمن یہ راز جان چکے ہیں کہ خاکم بدہن اسلام کو اگر شکست دینی ہے تومسلمانوں کے جسم سے حیا نکال دو۔سو وہ کام کر رہے ہیں۔ ہمارے دل دماغ سے خُلقِ حیا کو نوچ کرپھینکا جارہا ہے۔ جس عورت کو اسلام نے عفت و تقدس کے اعزاز سے نوازا تھا اُس عورت کو ہمارے ذرائع ابلاغ نے جنسِ بازار بنادیا ہے۔آج کے اس نام نہاد ترقی یافتہ بیہودہ زمانے میں عورت کی وقعت بازار کے بکاؤ مال سے زیادہ نہیں رہی۔میں پوری ذمے داری اور تحقیق سے یہ عرض کر رہا ہوں کہ آج کے دور کی تمام ترقی صرف ایک نکتے پر کھڑی ہے اوروہ یہ ہے کہ عورت کے حسن و جمال کے ذریعے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کیا جائے!

ذرا نظر دوڑائیے کہ ہمارے چاروں جانب کیا ہورہا ہے؟ ہر کوئی اپنا منجن عورت کی تصویر کے ذریعے بیچ رہا ہے۔بڑے سے بڑا ادارہ ہو یا چھوٹے سے چھوٹا، استقبالیہ پر خوبصورت عورت بیٹھی ملے گی۔ پہلے ہوائی جہازوں میں بے حیائی کے نام پر ایئر ہوسٹسیں تھیں، اب لوکل بسوں میں بھی بے چاری غریب اور ضرورت مند لڑکیوں کو سرخی پوڈر لگا کر بے حیائی کا بازار گرم کردیا گیا ہے۔ اشتہار بلڈنگ کے سریے کا ہو یہ کسی حکیم کی دوائی کا، عورت لازم و ملزوم ہے،وہ آدمی سیٹھ ہی نہیں کہلاتا جس کے پاس خوبصورت سیکرٹری نہ ہو۔ اخبارات و رسائل اٹھا کر دیکھ لیجیے! ہر سرورق پر کسی نہ کسی عورت کی بے حیائی سے لتھڑی ہوئی تصویر ہی ملے گی۔ نیوز چینل والوں سے کوئی پوچھے کہ لوگوں تک خبریں پہنچانے کے لیے میک اپ زدہ بے پردہ عورتوں کی آخر کیا ضرورت ہے، خبر کے نام پر بھی عورت کا چہرہ فروخت کیا جارہا ہے۔ آخر کیوں؟ہوٹلوں سے بھی اب مرد ویٹر دھیرے دھیرے غائب ہوتے جارہے ہیں اور ان کی جگہ بے حیائی پر مبنی چست لباس پہنے ہوئی عورتیں لیتی جارہی ہیں۔ سوال تو یہ ہے کہ لوگ کھانا کھانے جاتے ہیں یا بے پردہ عورتوں کو دیکھنے؟

نَعُوْذُبِااللہ! ہم ایسے مسلم معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں مارکیٹ کی سب سے بڑی پروڈکٹ جو برائے فروخت ہے وہ حیا ہے۔ کیا ہم واقعی مسلمان ہیں؟ کیا واقعی ہم اپنی سوسائٹی کو اسلامی سوسائٹی کہہ سکتے ہیں۔ اگر ہم خود کو مسلمان معاشرہ کہنے پر بضد ہیں تو پھر قرآنِ مجید فرقان حمید کے ان احکامات پر بھی نظر کیجیے!

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

مسلمان عورتوں کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ نہ دکھائیں مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے، دوپٹے اپنے گریبانوں میں ڈالے رہیں اور اپنا سنگھار ظاہر نہ کریں۔(سورۃ النور: 31)

اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ رہو جیسے اگلی جاہلیت کی بے پردگی۔(سورۃ الاحزاب:31)

اللہ عَزَّوَجَلّ عورتوں کو گھروں ہی میں ٹھہرے رہنے کا حکم فرما رہا ہے،دورِجاہلیت کی بے پردگی سے بچنے کا حکم فرما رہا ہے مگر یہاں تو بات بے پردگی سے کہیں آگے نکل چکی ہے،آج کی بے پردگی دیکھ کر تو دورِ جاہلیت کی بے پردگی بھی شرماجائے گی۔اسلامی احکامات کی سرِعام دھجیاں اڑائی جارہی ہیں، اور کوئی نہیں جو اس بے حیائی کے شیطانی طوفان کو روکے، کوئی نہیں ہے جو اُمّتِ محمدیّہ کے خُلق کو بچائے،اورمجھے توحیرانی ان رہبانیانِ دین پر ہوتی ہے جو بڑے بن ٹھن کر مارننگ شو میں بیٹھے بے پردہ عورت کو دینی تعلیمات کے بارے میں انٹرویو دے رہے ہوتے ہیں،یہ انٹرویو نہیں ہوتا بلکہ یہ علما کی طرف سے بے حیائی کو جاری کیا جانے والا سرٹیفکیٹ ہوتا ہے کہ سجی سنوری اینکرز پرسن کا یہ مارننگ شو اسلامی فقہ کے مطابق جائز ہے(مَعَاذَاللہ!)۔ان بے دینوں نے اللہ کے ماہِ رمضان المبارک پر بھی تابڑ توڑ حملے کیے ہوئے ہیں۔ رمضان المبارک کا یہ تصور پیش کیا جارہا ہے کہ روزے میں وقت گزاری ہی سب سے اہم کام ہے اور وقت گزاری کا بہترین مصرف یہ ہے کہ سحر ہو یا افطار آپ ٹی وی کے سامنے بیٹھے رہیں اور رمضان نشریات کے نام پر ان کے حیا باختہ پروگرام دیکھتے رہیں(نَعُوْذُبِااللہ!)۔

میرے بھائیو ! خدارا ہوش کے ناخن لو! یہ اہلِ مغرب تم سے تمھارا خلق چھیننے کے درپے ہیں۔ ان کا ہتھیار عورت ہے اور یہ ہتھیار انھوں نے ہمارے میڈیا کے ہاتھ میں تھمادیا ہے۔ ہمارا میڈیا یہ ہتھیار اپنے ہاتھ میں اٹھائے اسلامی خلق پر اندھا دھند فائرنگ کر رہا ہے اور بہت تیزی سے کروڑوں مسلمانوں کا قتلِ عام کر رہا ہے۔آج ہمارے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے چپے چپے پر حیا برائے فروخت ہے۔ عورت کا چہرہ اور جسم دکھا کر ہمارے شرفا اپنا مال بیچ رہے ہیں، اپنی خبریں بیچ رہے ہیں، اپنے پروگرام بیچ رہے ہیں، عورت کی نمود ونمائش کو عزت اور فخر بنارہے ہیں اور دھیرے دھیرے اسلامی خُلق کو مٹارہے ہیں۔اے امّتِ محمدیّہ اس فحاشی و عریانی کے سیلاب کو روکنا بہت ضروری ہے۔

مجھے اس بات کی بہت خوشی ہے کہ انجمن ضیائے طیبہ اور اس کے چیئرمین مبشر باپو اس حوالے سے آواز اٹھارہے ہیں اور عملی جدوجہد کر رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کی جدوجہد کو رنگ لگائے اور پاکستان کو صحیح اسلامی معاشرہ بنائے۔

آمین بجاہ النبی الکریمﷺ!

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi