آن لائن فاریکس ٹریڈنگ کاحکم


کیا آن لائن فاریکس ٹریڈنگ جائز ہے؟ اس میں مختلف کرنسیوں کے علاوہ سونا، چاندی، سلوراور آئل وغیرہ دیگر چیزوں  اور دھاتوں کی بھی خرید و فروخت ہوتی ہےاوراس میں  لین دیں  اور خریدوفروخت کے تمام معاملات انٹرنیٹ پر ہی  ہوتا ہے۔ اور اسی پرہی نفع و نقصان کا تعین ہوتا ہے۔ یہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے، مہربانی فرما کر  جواب ارشاد فرمائیں۔

الجواب بعون الوھّاب اللھمّ ھدایۃ الحق والصواب

آن لائن فاریکس ٹریڈنگ شرعاجائز نہیں  ہے ۔کیونکہ آن لائن فاریکس ٹریڈنگ میں آدمی بلا واسطہ خود خریداری نہیں کرسکتا ،بلکہ کمپنی جو بروکر کا کام انجام دیتی ہے اس کا واسطہ ضروری ہے اور خریدوفروخت کے تمام مراحل بروکر کمپنی کے واسطہ سے پایہ تکمیل کو پہنچتے ہیں،یہ کمپنی ہر خریدوفروخت پر ۵۰ یا ۶۰ ڈالر کمیشن لیتی ہے، خریدار کو خواہ نفع ہو یا نقصان کمپنی کے طے شدہ کمیشن کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے، نیز اس کاروبار میں صرف ۱۰ ؍فیصدرقم بروکر کمپنی کو ادا کرنا ضروری ہوتا ہے، باقی ۹۰؍ فیصد قیمت ادا کرنا ضروری نہیں ہے اور نہ ہی کمپنی کی طرف سے اس کا مطالبہ کیا جاتا ہے، مثلا ایک شخص ۱۰؍ہزار ڈالر بروکر کمپنی کوجمع کروا کر اپنا اکاؤنٹ کمپنی کے پاس کھول لیتا ہے تو اس کو ایک لاکھ ڈالر خریداری کی اجازت مل جاتی ہے، کاروبار کا طریقہ کا ریہ ہے کہ آدمی فاریکس کا رکن بن جاتا ہے کمپنی دس ہزار میں سے دو ہزار ڈالر اپنے پاس بطور بیعانہ رکھ لیتی ہے، تاکہ اگر بالفرض خریدوفروخت میں نقصان ہونے لگے تو اس میں سے پورا کیا جاسکے ،رکن بننے کے بعد کمپنی والے اس کی رہنمائی کرتے ہیں کہ کس وقت کون سی چیز خریدنا مناسب اور نفع بخش ہے، اس کاروبار میں خریدوفروخت کی جانے والی ہر شئ کی خریداری کی کم سے کم مقدار مقرر ہوتی ہے جس کو فاریکس ٹریڈنگ کی اصطلاح میں لاٹ (Lot) کہتے ہیں، فروخت ہونے والی اجناس میں عام طور پر کپاس، چینی اور گندم  وغیرہ جب کہ زر میں سوناچاندی اور مختلف کرنسیاں شامل ہیں، سونے کی ایک لاٹ ۱۰۰۰ایک ہزار اونس پر مشتمل ہوتی ہے ایک لاٹ کی قیمت مثلا دس ہزار ڈالر ہوتی ہے جب کوئی آدمی ایک لاٹ خریدنا چاہتا ہے تو وہ کمپنی سے رابطہ کرتا ہے اس کے آرڈ پر کمپنی اس کے لئے ایک لاٹ خرید لیتی ہے اور اس کی اطلاع خریدار کو دے دیتی ہے، اس کے بعد جیسے ہی خریدی گئی جنس کی قیمت بڑھنے لگتی ہے کمپنی خریدار کو مطلع کرتی ہے اور خریدار اپنی مرضی کے مطابق کمپنی کو اس چیز کے بیچنے کا آرڈ دے دیتا ہے، جب کمپنی خریدار کے آرڈ رپر لاٹ فروخت کرتی ہے تو حاصل شدہ نفع میں سے اپنا کمیشن کاٹ لیتی ہے، بقیہ نفع فروخت کنندہ کے اکاؤنٹ میں چلا جاتا ہے اور اگر خریدی گئی جنس کی قیمت کم ہونے لگے تو بھی کمپنی خریدار کو اطلاع کرتی ہے، تاکہ زیادہ خسارے سے بچنے کے لئے پہلے ہی لاٹ فروخت کردی جائے، نیز اس کا روبار میں خریدی گئی چیز کو خریدار اپنے شہر میں بھی منگوا سکتا ہے، لیکن سفری اخراجات اور ٹیکس وغیرہ کی بنا پر اسی مارکیٹ میں خریدار وہ چیز فروخت کردیتا ہے۔یہ کاروبار مکمل طور سے انٹر نیٹ پر گھر بیٹھے ہوتا ہے اس میں حسی طور پر خریدار کسی جنس پر اور فروخت کنندہ کسی کرنسی پر قبضہ نہیں کرتا ہے، بلکہ اسکرین پر اس کے اکاؤنٹ میں صرف دکھایاکیا جاتا ہے کہ فلاں آدمی ایک لاٹ کا مثلا مالک بن گیا، دوسری طرف فروخت کنندہ کے اکاؤنٹ میں صرف رقم کی منتقلی دکھائی جاتی ہے اور آخر میں نفع اور نقصان کا فرق برابر کرلیا جاتا ہے۔

اور کارو بار کی یہ صورت  کئی وجوہ سے ناجائز ہے۔

(ا)آن لائن فاریکس ٹریڈنگ میں خریدار جو سامان خریدتا ہے اس پرقبضہ نہیں کرتا ،جبکہ  شرعاخریدار کا خریدی ہوئی شے پر قبضہ  کرنا ضروری ہوتا ہے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس ﷜ سے روایت ہے کہ آپ ﷑ نے  ارشاد فرمایا:’’من اتباع طعاماً فلا يبعه حتی يقبضه‘‘یعنی؛جس نے کسی سے طعام (یا کوئی اور شے) خریدی تو اس وقت تک آگے فروخت نہ کرے جب تک اس پر قبضہ نہ کر لے۔

حضرت عبد اللہ بن عباس ﷜ یہ حدیث بیان کرنے کے بعد تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’واحسب کل شيء بمنزلة الطعام‘‘یعنی؛اور میرے خیال میں ہر فروخت کی جانے والی شے بمنزلہ طعام ہے (یعنی خریدار کے لیے مال کو دیکھنا،  پر کھنا اور اس پر قبضہ کرنا ضروری ہے)۔ (صحیح مسلم،باب بطلان بیع المبیع قبل القبض،حدیث نمبر۱۵۲۵)

جب کار وبار کی صورت میں قبضہ نہیں ہوتا تو ظاہر ہے کہ اس میں غرر اور دھوکہ کا امکان ہے، بہت ممکن ہے کہ جس چیز کی خریدوفروخت ہورہی ہو حقیقت میں اس چیز کا وجود ہی نہ ہو، اگر چہ اطمینان دلانے کے لئے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ مشتری سامان اپنے پاس منگانے کا اختیار رکھتا ہے، لیکن کمپنی کو بھی معلوم ہے منگانے کے صرفہ کی بنیا دپر کوئی بھی مبیع کو اپنے پاس نہیں منگائے گا، اس طرح گویا ایک معدوم چیز کی بیع ہوتی ہے اور اس پر نفع یا نقصان کا مدار رکھاجاتا ہے، خریدوفروخت  کی اس صورت میں غرر اور دھوکہ کا قوی امکان ہے۔

(۲)اورآن لائن فاریکس ٹریڈنگ میں زیادہ تر کرنسی کی خریدوفروخت ہوتی ہے اور یہاں پر خریدنے والا پوری رقم ادا نہیں کرتا ہے، اسی طرح بیچنے والا بھی صرف نفع کی رقم ہی ادا کرتا ہے، ظاہر ہے کہ سونے چاندی میں یہاں دونوں جانب سے قبضہ نہیں پایا جاتاہے، یعنی دونوں جانب سے رقم دین ہے، لہٰذا یہ بیع الکالی بالکالی میں داخل ہے جس سے حدیث میں منع کیا گیا ہے۔ ’’عن ابن عمر رضى الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وآله  انه نهى عن بيع الكالى بالكالى هو النسيئة بالنسيئة ‘‘  یعنی رسول  اللہ  ﷑یہ نے دین کی بیع دین کرنے سے منع فرمایا ہے۔(المستد رک:حدیث نمبر،۵۷)

 (۳)بروکر کمپنی ممبر سے کمیشن وصول کرتی ہے وہ یا تو ضمانت کی فیس ہے یا رقم کا معاوضہ ہے،اور یہ پہلی صورت میں  اجرت علی الکفالہ ہے اور کفالت پر اجرت ناجائز، ولا یجوز أخذ الأجر علی الکفالۃ لأنہا من عقود التبرعات اور دوسری صورت میں یہ قرض پر نفع حاصل کرناہے جو کہ سود ہے اور دونوں طریقے ناجائز ہیں۔

واللہ تعالیٰ اعلم رسولہ اعلم

 

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi