سردی مومن کے لیے موسمِ بہار


تحریر: علامہ امجد اعوان قادری

یہ سردی کا موسم ہے، لوگوں کے لباس وہیئت پر ہر طرف سے سردی کے آثار ظاہر ہیں، بعض علاقوں میں سردی سے لوگ سخت پریشان ہیں ہر شخص نے اپنی اپنی حیثیت و وسعت اور علاقے کے مطابق گرم کپڑے، لحاف اورمکان رہائش کا انتظام کیا ہے، حتی کہ بازاروں اور سڑکوں پر بھی موسم سرما کی آمد کےآثارپائے جارہے ہیں ، ایسے موقع پر اپنی بساط ، مزاج اور طبیعت کے لحاظ سے لوگوں کے رجحانات مختلف ہیں، کوئی سردی سے کبیدہ خاطر ہے کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کی زبانوں پر سردی کی برائی ہے اور ایسے لوگ بھی ہمیں ملیں گے جن کے لیے موسم سرما کی آمد خوشی کا باعث ہے، لیکن شرعی اعتبار سے موسم سرما سے متعلق ایک مومن کا موقف کیا ہونا چاہیے اس سے عمومی طور پر لوگ غفلت میں ہیں ، لہٰذا موسم سرما کی مناسبت سے خیر کے طالب مسلمانوں بھائیوں کے لیے چند ہدایات درج کی  جارہی ہیں: 1۔  سردی کا اصل سبب:

اس دنیا میں کسی بھی چیز کے وجود کا اللہ تبارک وتعالٰی نے ایک سبب رکھا ہے جس کا علم عام طور پر لوگوں کو ہے، مثلا ًبارش کا ایک سبب ہے، گرمی کا ایک سبب ہے، اسی طرح رات و دن کی آمد کا ایک سبب ہے، لیکن بسا اوقات کسی چیز کے وجودکا ایک باطنی سبب بھی ہوتا ہے جس کا علم صرف عالم الغیب والشہادۃ کے پاس ہے، البتہ اگر وہ چاہتا ہے تو اپنے مخصوص بندوں کو ان میں سے بعض چیزوں کا علم دے دیتا ہے، چنانچہ اس دنیا میں سردی وگرمی کا ایک محسوس سبب ہے جسے عام طور پر لوگ جانتے اور پہچانتے ہیں جیسے سورج کی گردش، موسم سرما یا گرما کا داخل ہونا اور ہواؤں کا چلنا وغیرہ، لیکن اس کا ایک باطنی سبب بھی ہے جس کا علم نبی ﷺ کے ذریعے ہمیں ملا ہے، چنانچہ صحیح بخاری ومسلم اور دیگر کتبِ حدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ترجمہ: ’’جہنم نے اپنے رب سے شکایت کرتے ہوئے کہا: اے میرے رب! میرے ایک حصے نے دوسرے کوکھا لیا؛ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اسے دوسانس کی اجازت دے دی، ایک سانس سردی کے موسم میں اور دوسرا سانس گرمی کے موسم میں، اس طرح تمہیں جو سخت گرمی محسوس ہوتی ہے وہ جہنم کی گرمی کی وجہ سے ہے اور جو سخت سردی محسوس ہوتی ہے وہ جہنم کے زمہریر کی وجہ سے ہے۔‘‘(صحیح بخاری: 537، كتاب مواقیت الصلاة؛ صحیح مسلم: 617، كتاب المساجد، بروایت ابو ہریرہ)

ایک اور حدیث میں ارشاد نبویﷺ ہے:

ترجمہ: ’’جب گرمی سخت ہو تو نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھو،  کیوں کہ گرمی کی شدت جہنم کی گرمی کی وجہ سے ہے۔‘‘(صحیح البخاری: 534، كتاب مواقیت الصلاة؛صحیح مسلم:615، كتاب المساجد، بروایتِ ابو ہُریرہ)

ان دونوں حدیثوں سے یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ سردی  وگرمی کے اس ظاہر سبب کے علاوہ جو لوگوں کو معلوم ہے اس کا ایک باطنی اورحقیقی سبب بھی ہے اور وہ ہے جہنم کے دو سانس، یعنی جہنم جب اپنا سانس باہر کرتی ہے تو موسم گرم ہوجاتا ہے اور جب وہی سانس جہنم اندر کرتی ہے تو موسم میں سردی چھا جاتی ہے۔ نیز ان حدیثوں سے ایک فائدہ یہ بھی حاصل ہوا کہ اہل سنّت وجماعت کے عقیدے کے مطابق جنّت وجہنم مخلوق اور اس وقت بھی موجود ہیں، البتہ اس کا مکان وجود کہاں ہے یہ صرف اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے۔

2۔  فطری وطبعی چیزوں کو برا بھلا مت کہو:

چوں کہ سردی وگرمی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں، ان میں سختی وگرمی بحکم الٰہی ہے، لہٰذا انھیں گالی دینا اور برا بھلا کہنا جائز نہیں ہے، چناں چہ حدیثِ قدسی میں نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

’’آدم کابیٹا مجھ کو دکھ دیتا ہے، اس طرح کہ وہ زمانے کو گالی دیتا ہے، حالاں کہ میں زمانہ ہوں، رات ودن کو میں ہی پھیر تا ہوں۔‘‘(صحیح البخاری: 4826، بدء الخلق؛ صحیح مسلم: 2246، الاَدب، بروایتِ ابو ہریرہ)

یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ نے ہوا اور اس طرح کی دیگر فطری اور بحکم الٰہی آنے جانے والی چیزوں کو برا بھلا کہنے سے منع فرمایا ، کیوں کہ علی سبیل المثال ہوا حکم الٰہی کے تابع ہو کر چلتی ہے، اب اسے برا کہناگویا اس کے خالق اور اس میں متصرف ذات کو برا کہنے کے ہم معنیٰ ہے،لہٰذا اگر کوئی شخص سخت یا تیز و تند ہوا دیکھے تو برا بھلا کہنے کے بجائے یہ چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرے کہ اس ہوا کے شر سے اسے محفوظ رکھے اور اس میں جو خیر کا پہلو ہو اس سے محروم نہ کرے۔(سنن ابو داود: 5097، الادب؛ سنن ابنِ ماجہ: 3727، الادب، بروایت ابو ہریرہ]

اسی شرعی قاعدے کے تحت ہر مسلمان کو چاہیے کہ جہاں وہ سردی سے بچنے کے لئے ظاہری اسباب اختیار کرے وہیں اس طرف بھی توجہ دے کہ اس موسم میں ہمارے لیے خیر کے پہلو کیا ہیں؟ کیوں کہ اللہ تبارک وتعالٰی ارشاد فرماتاہے:

وَ ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ الَّیۡلَ وَالنَّہَارَخِلْفَۃً لِّمَنْ اَرَادَ اَنۡ یَّذَّکَّرَ اَوْ اَرَادَ شُکُوۡرًا﴿۶۲﴾ (الفرقان: 62)

ترجمہ: اور اُسی نے رات ودن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بنایا ، اس شخص کی نصیحت کے لئے جو نصیحت حاصل کرنے یا شکر گزاری کرنے کا اردہ رکھتا ہو۔‘‘

3۔  موسم سرما میں مومن کے لیے خیر کے پہلو:

الف۔  روزہ: روزہ کو اسلام میں جو اہمیت حاصل ہے وہ کسی پر پوشیدہ نہیں ہے ، یہی کیا کم ہے کہ حدیثِ قدسی میں ہے کہ

’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

ترجمہ: ابنِآدم کے تمام اعمال اس کے لیے ہیں، سوا روزے کے جو میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔‘‘(صحیح البخاری: 1894، الصوم؛ صحیح مسلم: 1151، الصوم، بروایتِ ابو ہریرہ)

علاوہ ازیں روزے کو اللہ تعالیٰ نے جہنم سے ڈھال اور جنّت کا راستہ قرار دیا ہے، روزے دار کی دعاؤں کی قبولیت کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے، روزہ دار کی منھ کی بو مشک سے بھی زیادہ پسند کرتا ہے اور روزہ داروں کے لیے جنّت کا ایک دروازہ خاص کر رکھا ہے وغیرہ۔{دیکھیے صحیح الترغیب 1/ 576 وبعدھا }

اب اگر غور کیا جائے تو نیکیوں پر حریص مسلمان موسم سرما میں ان فضیلتوں کو بڑی آسانی سے حاصل کرسکتا ہے ، کیوں کہ سردی کے موسم میں دن چھوٹا ہوتا ہے، موسم ٹھنڈا رہتا ہے جس کی وجہ سے انسان کو بھوک و پیاس کا احساس کم ہی ہوتا ہے ، لہٰذا بڑی آسانی سے روزہ رکھا جاسکتا ہے۔

مسلمانوں کی توجہ اسی طرف دلاتے ہوئے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ترجمہ: ’’ٹھنڈی {بڑی آسان } غنیمت یہ ہے کہ سردی کے موسم میں روزہ رکھا جائے۔‘‘(سنن الترمذی: 797، الصوم مسند احمد:4/335 بروایتِ عامر بن سعود)

یعنی جس طرح وہ مال جو اللہ کے دشمنوں سے حاصل ہو اور اس میں لڑائی نہ کرنی پڑے، مٹھ بھیڑ نہ ہو اور نہ ہی جان کا خطرہ مول لینا پڑے تو اس سے ایک انسان کس قدر خوش ہوتا ہے اور اسے حاصل کرنے کی طرف کس قدرراغب ہوتا ہے اسی طرح سردی کے موسم میں روزہ بلا مشقت و پریشانی کے رکھا جا سکتا ہے۔

ب۔  تہجد کی نماز: تہجد اور شب بیداری اللہ تعالیٰ کےنیک بندوں اور جنّت کے وارثین کا شیوہ رہا ہے، ارشادِ ربّانی ہے:

کَانُوۡا قَلِیۡلًا مِّنَ الَّیۡلِ مَا یَہۡجَعُوۡنَ﴿۱۷﴾ وَ بِالْاَسْحَارِ ہُمْ یَسْتَغْفِرُوۡنَ ﴿۱۸﴾(اَلذّٰرِيّٰت: 17، 18)

 ’’وہ رات کو بہت کم سویا کرتے تھے اور وقتِ سحر استغفار کیا کرتے تھے۔‘‘

وَالَّذِیۡنَ یَبِیۡتُوۡنَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا﴿۶۴﴾ )الفرقان: 64)

ترجمہ:  ’’اور {اللہ رحمان و رحیم کے خاص بندے وہ ہیں }جو اپنے رب کے سامنے سجدے اور قیام کرتے ہوئے راتیں گزارتے ہیں۔‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

ترجمہ: ’’تم لوگ قیام اللیل کا اہتمام کرو اس لیے کہ یہ تم سے قبل نیک لوگوں کا طریقہ رہا ہے اور یہ تمہارے رب کی قربت کے حصول کا ذریعہ ہے، قیام اللیل گناہوں کی معافی اور گناہوں سے بچنے کا سبب ہے۔‘‘ (سنن الترمذی:3549، الدعوات؛ مستدرك الحاکم: 1/321  بروایتِ ابو اُمامہ)

نیز فرمایا:

ترجمہ: ’’اللہ تبارک و تعالٰی اپنے بندوں کے سب سے زیادہ قریب رات کے آخری حصّے میں ہوتا ہے، لہٰذا اگر تم سے ہو سکے تو ان لوگوں میں شامل ہو جاؤ جو اس وقت اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں۔‘‘(سنن الترمذی: 3579، الدعوات؛ صحیح ابن خزیمہ: 1147، بروایتِ عمروبن عسبہ)

قابلِ غور ہے کہ موسم سرما کی راتیں قیام اللیل اور تہجد کے لیے کس قدر مناسب ہیں کیوں کہ موسم سرما کی راتیں اس قدر طویل ہوتی ہیں کہ بندہ اگر رات میں دیر گئے سوئے تو بھی تہجد کے لئے آسانی سے بیدار ہو سکتا ہے۔ درج ذیل حدیث میں اسی طرف مومن کی توجہ مبذول کی گئی ہے:

’’سردی کا موسم مومن کے لیے بہار کا موسم ہے کہ اس کی راتیں لمبی ہوتی ہیں جن میں وہ قیام کرلیتا ہے اور دن چھوٹے ہوتے ہیں جن میں وہ روزے رکھ لیتا ہے۔‘‘(مسند احمد : 3/75 ،شعب الایمان 3/416؛ مسندِ ابویعلی :1386، بروایتِ ابو سعید الخدری۔ امام نور الدین رَحِمَہُ اللہ اِس حدیث کو حسن کہتے ہیں۔)

یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بہت سے نیک بندے موسم سرما کی آمد پر خوش ہوتے تھے، چناں چہ حضرت عبد اللہ بن مسعود موسم سرما کی آمد پر فرماتے:

’’سردی کو خوش آمدید، اس موسم میں برکتیں نازل ہوتی ہیں ، اس طرح کہ تہجد کے لیے رات طویل ہوجاتی ہے اور روزہ رکھنے کے لیے دن چھوٹا ہوجاتا ہے۔‘‘

حضرت عبید بن عمیر رَحِمَہُ اللہُ تَعَالٰی موسم سرما کی آمد پر فرماتے:

اے اہلِ قرآن! تلاوتِ قرآن کے لیے رات لمبی ہو گئی ہے اورر وزہ رکھنے کے لیے دن چھوٹا ہوگیا ہے، لہٰذا، اس موسم میں دن کو روزہ اور رات میں تہجد کا خصوصی اہتمام کرو۔‘‘ (لطائف المعارف، 453)

ج۔  صبر: اس میں کوئی شک نہیں کہ مذکورہ دونوں عبادتوں میں سردی سخت رکاوٹ بنتی ہے اور اس کے لیے صبر اور برداشت کی ضرورت پڑتی ہے، لیکن ایک مومن کو اچھی طرح جاننا چاہیے کہ صبر وہ نیکی ہے جس پر اللہ تعالیٰ بے حساب اجر دیتا ہے:

اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوۡنَ اَجْرَہُمۡ بِغَیۡرِ حِسَابٍ (الزمر: 10)

ترجمہ: ’’صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا۔‘‘

ارشاد نبوی ﷺہے:

ترجمہ: ’’اور جو صبر کرنا چاہتا ہے اللہ تعالیٰ اُسے صبر کی توفیق دے گا، اور {یاد رہے کہ }صبر سےبہتر اور وسیع تر کوئی عطیہ کسی شخص کونہیں دیا گیا۔‘‘(صحیح البخاری: 1469، الزکاة؛صحیح مسلم: 1053، الزکاة، بروایتِ ابوسعیدالخدری)

واضح رہے کہ علما کہتے ہیں کہ قرآن وحدیث میں جس صبر کی فضیلت وارد ہے اس کی تین قسمیں ہیں:

  • اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ مصائب پر صبر۔
  • اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں سے رکنے پر صبر۔
  • اللہ تعالیٰ کے اَوامر کی ادائیگی پر صبر۔

صبر کی یہی تیسری قسم سورۃ العصر میں زیادہ واضح ہے اور اسی قسم کی سردی کے موسم میں زیادہ ضرورت پڑتی ہے؛ لہٰذا جو شخص اس صبر میں کامیاب ہو گیا وہ سردی کے موسم میں تہجد بھی پڑھ لے گا اور روزہ بھی رکھ لے گا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

’’میری امّت کا ایک شخص رات کو بیدار ہوتا ہے، وضو اور اس کی پریشانی پر اپنے نفس کو مجبور کرتا ہے تو جب وضو کے لیے اپنے ہاتھوں کو دھولتا ہے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے، جب چہرہ دھولتا ہے تو ایک اور گرہ کھل جاتی ہے، جب سرکا مسح کرتا ہے تو ایک تیسری گرہ کھل جاتی ہے اور جب پیر دھولیتا ہے تو چوتھی گرہ بھی کھل جاتی ہے، یہ دیکھ کر پردے کی آڑمیں موجود فرشتوں سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے اس بندے کو دیکھو؛ اپنے نفس پر زور دے کر وضوکی تکلیف برداشت کررہا ہے اور مجھ سے کچھ سوال کررہا ہے لہٰذا تم سب گواہ رہو کہ میرے بندے نے مجھ سے جو کچھ مانگا اسے ہم نے دے دیا۔‘‘ (مسند احمد : 4/201 ؛ صحیح ابنِ حبان:  2/347 بروایت عقبہ بن عامر)

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi