بیٹوں کی اقسام


انتخاب ویب ڈیسک: محمد امیر حمزہ قادری ترابی

بیٹے پانچ قسموں کے ہوتے ہیں: 

  1. پہلے وہ جنھیں والدین کسی کام کو کرنے کا حکم دیں تو کہنا نہیں مانتے، یہ عاق ہیں۔

 

  1. دوسرے وہ ہیں جنھیں والدین کسی کام کو کرنے کا کہہ دیں تو کر تو دیتے ہیں مگر بے دلی اور کراہت کے ساتھ، یہ کسی قسم کے اجر سے محروم رہتے ہیں۔

 

  1. تیسری قسم کے بیٹے وہ ہیں جنھیں والدین کوئی کام کرنے کا کہہ دیں تو کر تو دیتے ہیں مگر بڑبڑاتے ہوئے، سُنا سُنا کر، احسان جتلا کر، بکواس بازی کر کر کے۔ یہ کام کر کے بھی گھاٹے میں ہیں اور گناہ کما رہے ہیں۔

 

  1. چوتھی قسم کے وہ بیٹے ہیں جنھیں والدین کوئی کام بتا دیں تو خوش دلی سے کرتے ہیں، یہ اجر کماتے ہیں اور ایسے بیٹے بہت کم ہوتے ہیں۔
  2. پانچویں قسم کے وہ بیٹے ہیں جو والدین کی ضرورتوں کے کام اُن کے کہنے سے پہلے کر دیتے ہیں، یہ خوش بخت بیٹوں کی نادر قسم ہیں۔

آخری دو قسم کے بیٹے؛ ان کی عمر میں برکت، رزق میں وسعت، ان کے معاملات کی آسانی اور ان کے سینوں میں پڑی  راحت اور وسعت کے بارے میں کچھ نا پوچھیئے، یہ تو بس اللہ ’’اپنی رحمت کے لیے جس کو چاہتا ہے مخصوص کر لیتا ہے اور اس کا فضل بہت بڑا ہے‘‘۔

 ایک چھوٹا سا سوال ہے ہر اُس کرم فرما کے لئے جو اس وقت یہ پڑھ رہا ہے: آپ اوپر بیان کی گئی بیٹوں کی قسموں میں سے کون سی قسم کے بیٹے ہیں؟

 (بھاگ کر اپنی ماں کے سر پر بوسہ دینے سے پہلے) اپنے آپ سے یہ پوچھ کر دیکھیے کہ والدین کے ساتھ ’’بِر‘‘ ا حُسن سلوک یا راست بازی ہوتی کیا ہے؟

 

یہ حُسنِ سلوک؛ ماں یا باپ کے سر پر ایک بوسہ لے لینے کا نام نہیں ہے، ناں ہی ان کے ہاتھوں پر یا حتی کہ اُن کے پاؤں پر بوسہ لینے کا نام ہے۔ کہیں یہ کر کے تو اس گمان میں نہ پڑ جائے کہ تو نے ان کی رضا کو پا لیا ہے۔

 حُسنِ سلوک یہ ہے کہ تو اُن کے دل میں آئی ہوئی خواہش کو محسوس کرے اور پھر  اُن کے حکم کا انتظار کیے بغیر اس خواہش کو پورا کر دے۔

 حُسنِ سلوک یہ ہے کہ تو یہ جاننے کی کوشش میں لگا رہے کہ انہیں کون سی بات خوشی دیتی ہے اور پھر اُس کام کو جلدی سے کر ڈالے اور تو یہ جاننے کی کوشش کرے کہ انہیں کس بات سے دُکھ پہنچتا ہے اور پھر اس کوشش میں رہے کہ وہ تجھ سے ایسی کوئی چیز کبھی بھی نہ دیکھ پائیں۔

اُن سے حُسنِ سلوک یہ ہے کہ تجھے ان کا احساس ہو، تو ان کےلئے بات چیت کا وقت نکالتا ہو، انہیں کسی چیز کے کھانے پینے کی طلب ہو تو حاضر کر دیتا ہو، بھلے یہ ایک چائے کا کپ ہی کیوں نہ ہو۔

حُسنِ سلوک یہ بھی ہے کہ تو اُن کے آرام اور راحت کا خیال رکھے، بھلے اس کے لیے اپنی راحت کو ہی کیوں نہ قربان کرنا پڑے۔ اگر تیری دوستوں میں شب بیداری انہیں شاق گزرتی ہے تو تیرا جلدی سو جانا بھی ان کے ساتھ حُسنِ سلوک کی ہی ایک مثال ہے۔

حُسنِ سلوک یہ بھی ہے کہ ان کی خاطر اپنی دعوتیں، ضیافتیں چھوڑ دے اگر اس سے تیرا اُن کے ساتھ میل جول متاثر ہوتا ہے تو۔

ایک مناسب ریسٹورنٹ پر ان کے ساتھ کھانا، حج و عمرہ میں ان کی راحت کے پیشِ نظر اچھے ہوٹل میں ان کے قیام کا بندوبست، حتّٰی کہ کہیں چھوٹی موٹی تفریح اور پکنک جو تیرے والدین کے دل کو سرور دے اور وہ اپنی اس عمر میں بھی خوشی کا احساس پائیں۔

حُسنِ سلوک یہ بھی ہے کہ تیرے والدین تیرے مال سے مستفیض ہو رہے ہوں، بھلے وہ خود کیوں نہ مال دار ہوں۔ اور تیرا یہ جانے بغیر کہ ان کے پاس اب کتنے پیسے ہیں اور انہیں ضرورت ہے بھی یا کہ نہیں تو ان پر خرچ کرتا رہے۔

 

حُسنِ سلوک یہ بھی ہے کہ تو اُن کی حتی المقدور راحت تلاش کرتا رہے اور انھوں نے تیری ولادت سے اب تک جو کچھ خدمت کر دی ہے کو کافی سمجھے اور اب ان کے احسانات کے بدلے میں کچھ نا کچھ کرتا رہے۔

 حُسنِ سلوک یہ بھی ہے کہ تو ان کے لبوں پر کسی طرح ہنسی لاتا رہے، بھلے تو اپنی نظروں میں مسخرہ  ہی کیوں نہ لگ رہا  ہو۔

 آخری بات:

 والدین سے حُسنِ سلوک تیرے اور تیرے بہن بھائیوں کے درمیان ’’باری بندی‘‘ کا نام نہیں۔ یہ تو ایک دوڑ کا نام ہے جو جنّت کے دروازوں کی طرف جا رہی ہے اور پتا نہیں کون پہلے پہنچ جائے اور یہ بھی یاد رکھو کہ جنّت کو بہت سے راستے جاتے ہیں اور ان میں سے کئی راستے تیرے والدین سے ہو کر جاتے ہیں۔

 

 

 

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi