بچوں کا دوست


دُعا کا اثر

الطا ف حُسین

نمازِ عشا کے بعد اُس نے کتابیں اُٹھائیں اور اپنے بستر پر پڑھنے بیٹھ گیا۔ اُسے رات گئے تک پڑھنا تھا ۔۔۔۔۔ یہ اُس کا روز کا معمول تھا ۔اس رات بھی وہ کتاب کھولے ٹمٹماتے دیے کی دھندلی روشنی میں بڑے انہماک سے مطالعے میں مگن تھا۔اُس کی ماں گھر کے کاموں اور نماز سے فارغ ہوکر اُس کی چارپائی کے برابر بچھی چارپائی پر سورہی تھی۔ سبق یاد کرتے کرتے اُسے تھکن کے باعث نیند آ گئی ۔

’’بایزیدبیٹا!‘‘ سوتے ہوئے اُسے ایسا محسوس ہواجیسے کوئی اُسے پُکاررہا ہے ۔وہ آنکھیں مَلتے ہوئے اُٹھ کر بیٹھ گیا۔

’’بایزید بیٹا!‘‘ یہ اُس کی ماں کی آواز تھی۔

’’جی، امّی جان !‘‘ وہ سعادت مندی سے بولا۔

’’بیٹا !۔۔۔۔مجھے پانی پِلا دو۔‘‘ ماں نے نیند میں ڈوبی ہوئی آواز میں کہا۔

وہ بستر سے اُٹھ کرباورچی خانے میں گیا اور صراحی سے پیالے میں پانی اُنڈیلنا چاہا، لیکن صراحی خالی تھی!!۔۔۔۔اُس نے جلدی جلدی گھر میں پانی کے دوسرے برتن دیکھ ڈالے، لیکن ان میں بھی پانی موجود نہ تھا۔۔۔۔عجیب اتفاق تھا ۔۔۔۔۔وہ گھبرا گیا ۔۔۔۔۔پریشانی کے عالم میں ہاتھ میں پیالہ تھامے وہ گھر سے نکل کر، ہم سائے کے دروازے پر پہنچا۔۔۔۔دروازہ بند تھا ۔۔۔۔ہم سائے سو رہے تھے۔۔۔۔۔ اُس نے سوچا کہ اگر دستک دی تو سب گھر والے پریشان ہوجائیں گے۔۔۔۔۔ وہ فوراً اگلے دروازے پر گیا ۔۔۔۔۔وہاں بھی خاموشی طاری تھی۔۔۔۔ اُس کے چہرے پر پریشانی کے سائے گہرے ہوتے جارہے تھے۔۔۔۔ اُسے باربار ایک ہی خیال ستارہا تھا کہ ماں گھر میں پیاسی ہے اور  اُس کے حکم کی تعمیل میں تاخیر ہو رہی ہے۔

’’میں ماں کی اتنی ذرا سی خدمت کرنے میں ناکام ہورہا ہوں ۔۔۔۔یہ میرے لیے بڑے افسوس اور شرم کی بات ہے۔‘‘ وہ سوچتے ہوئے گھر کی طرف مُڑا۔

گھر آ کر اُس نے خاموشی سے صراحی اُٹھائی اور گھر کے قریب واقع تالاب کی طرف چل دیا۔ رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی۔۔۔۔ ہرطرف اندھیرا چھایا ہوا تھا ۔۔۔۔چاروں طرف جنگلی جانوروں کی چیخ و پُکار سنائی دے رہی تھی ۔۔۔۔جنگل بیابان ۔۔۔۔ہو کا عالم۔۔۔۔ کم سِن بچّہ۔۔۔۔۔ سوچتے ہوئے دِل دہلتا ہے، لیکن ماں کے ادب اور پیار نے اُس کے دِل سے ہر قِسم کے خوف کو دُور کردیا  تھا۔۔۔۔ اُس کا ذہن ماں کی پیاس میں اٹکا ہوا تھا۔۔۔۔ اُس کی کوشش تھی کہ جتنی جلدی ممکن ہوپانی لے کر ماں کو پِلائے۔ دوڑتے دوڑتے اچانک اس کا پاؤں کسی چیز سے ٹکرایا اور اگلے لمحے وہ مُنھ کے بَل زمین پر جا گرا۔

’’الحمدللہ!!‘‘ اُس نے صراحی کو ٹٹولتے ہوئے کہا ۔صراحی تو ٹوٹنے سے بچ گئی تھی، لیکن اُس کا سر اور مُنھ زخمی ہوگیا تھا۔ وہ زخموں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دوبارہ دوڑنے لگا، لیکن مصیبت یہ ہوئی کہ اندھیرے کے باعث وہ راستہ بھٹک کر، تالاب کے بجائے کہیں اور جا نکلا۔۔۔ زخموں سے خُون بہہ رہا تھا۔۔۔۔ دوڑنے کے باعث پاؤں دُکھنے لگے تھے۔۔۔۔ سانس پُھولی ہوئی تھی۔۔۔۔ حلق خُشک ہو رہا تھا۔۔۔۔ لیکن وہ دیوانوں کی طرح پانی کی تلاش میں اِدھر اُدھر دوڑتا پِھر رہا تھا۔۔۔۔ بالآخر وہ تالاب تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا!!۔۔۔۔ ماں کی خدمت کا جذبہ جیت گیا تھا !!!

اُس کادِل پانی پینے کو چاہ رہا تھا، لیکن ماں کی پیاس کا خیال آتے ہی اُس نے جلدی سے صراحی پانی سے بھری اور واپس گھر کی طرف چل دیا۔۔۔۔ اب کی بار وہ محتاط انداز میں آگے بڑھ رہا تھا ۔۔۔۔ یہی وجہ تھی وہ جلد ہی گھر پہنچ گیا۔۔۔۔ اندر جاکر دیکھا تو ماں سو رہی تھی۔۔۔۔ یہ سوچ کر اگر ماں کو جگاؤں گا تو  اُسے تکلیف ہوگی، اُس نے پیالے میں پانی بھرا اور ماں کے سرہانے جاکھڑا ہواکہ جب ماں جاگے گی تو پانی پیش کروں گا۔۔۔۔لیکن ماں نہ جاگی ۔۔۔۔انتظار کرتے کرتے صُبح ہوگئی۔ جب ماں کی آنکھ کھلی تو دیکھا بیٹا ہاتھ میں پانی سے بھرا پیالے تھامے خاموشی سے اُس کے سرہانے کھڑا اُس کی طرف محبّت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ ماں کو یادہی نہ رہا  کہ نیند کی حالت میں اُس نے پانی مانگاتھا اور پھر کروٹ بدل کر سو گئی تھی۔

’’بیٹا! ۔۔۔۔خیر تو ہے؟‘‘ ماں نے بیٹے کی طرف استفساریہ انداز میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔

’’امّاں! ۔۔۔ آپ نے پانی طلب فرمایا تھا ۔۔۔۔لیجیے پانی حاضر ہے۔‘‘ اُس نے پیالہ ماں کی طرف بڑھاتے ہوئے عرض کی۔

’’اوہ!!!‘‘ ماں کو یاد آ گیا کہ اُس نے رات کو کسی وقت پانی مانگا تھا۔

’’اللہ تمھیں خوش رکھے، بیٹا!!۔۔۔۔ تمہاری زندگی سکون اور عزّت سے گُزرے !!‘‘ ماں نے دُعائیں دیتے ہوئے پیالہ اپنے دائیں ہاتھ میں تھام لیا۔ اگلے لمحے ماں کے چہرے پر تشویش کے آثا رظاہر ہوئے۔ ’’تجھے یہ کیا ہوا میرے لال ؟‘‘ ماں نے پیالہ ایک طرف رکھتے ہوئے بیٹے کو ہاتھ سے پکڑکر  اپنے قریب کر تے ہوئے اُسے بغور دیکھا ۔وہ اُس کے سر اورچہرے پر موجود زخموں کو دیکھ رہی تھیں۔

’’یہ کیسے ہوا؟‘‘ ماں نے پوچھا۔

جواب میں بیٹے نے ماں کو سارا ماجر اکہہ سنایا۔۔۔۔ ماں نے بیٹے کی فرماں برداری اور پیار دیکھ کر اسے محبّت وشفقت بھرے جذبات سے بے قابو ہوکر اپنے گلے سے لگا لیا!!۔۔۔ اُس کے بعد ماں نے پہلے بیٹے کی مرہم پٹی کی اور اُس کے بعد پانی پیا۔

’’اے اللہ! ۔۔۔۔ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ تو نے مجھے ایسا پیارا اور اطاعت گزار بیٹا عطافرمایا۔۔۔۔ یا باری تعالٰی! ۔۔۔۔۔ جس طرح آج میرے بیٹے نے مجھے خُوش کیا ۔۔۔۔تُوبھی اُسی طرح اِسے اپنی خُوشنودی سے نوازنا اور اِس پر اپنی برکتیں اور رحمتیں نازل کرتے رہنا۔‘‘

کیا آپ جانتے ہیں یہ بایزید کون تھے؟       دُنیا اُنھیں حضرت بایزید بسطامی﷫ ؒکے نام سے جانتی ہے!!! بڑے  بڑے بُزرگانِ دین بھی اُن کا نام عزّت اور احترام سے لیتے ہیں۔۔۔۔۔اور یہ سب ماں کی پُرخُلوص اور قابلِرشک دُعاؤں کا نتیجہ ہے!!

یاد رکھیے!

’’زندگی کی خُوب صُورتی یہ نہیں کہ آپ کتنے خُوش ہیں بلکہ زندگی کی

اصل خُوب صُورتی تو یہ ہے کہ لوگ آپ سے کتنے خُوش ہیں۔‘‘

(حضرت علی ﷜)

’’جس قوم میں غدّار پیدا ہوجائیں اُس قوم کے مضبوط سے مضبوط قلعے بھی مٹی کے گھروندے ثابت ہوتے ہیں۔‘‘

(ٹیپو سلطان﷫)

٭٭٭٭٭

 

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi