رجعت پسندی کیا ہے؟


تحریر: مفتی سیّد شجاعت علی قادری رحمۃ اللہ علیہ

آج کل ’’رجعت پسندی‘‘ کالفظ باربار سنائی دیتا ہے، اس لفظ کی وضح کس معنی کے لئے ہے، ہمیں اس سے بحث نہیں، البتہ یہ لفظ جن مواقع پراستعمال ہوتاہے وہ کچھ اس قسم کے ہیں مثلاً آپ کسی سے کہیں کہ پاکستان میں شراب قطعی بند ہونی چاہیے (پابند نہیں بند) توآپ کو جواب ملے گا، میاں تم بڑے رجعت پسند واقع ہوئے ہو، آپ کہیں اس ملک میں جوا، سود، نائٹ کلب، فحاشی کے اڈےاور رقص وسروکی محفلیں بند ہونی چاہئیں،یا عورتیں باپردہ رہنی چاہئیں، توآپ کاسامع، مخاطب منہ بسور کر کہےگاکہ یار پھر وہی رجعت پسندی کی باتیں کرتے ہو، جب کوئی شخص آپ سے  یہ لفظ کہدے تووہ اپنی تمام ترذمہ داریوں سے سبکدوش ہوگیااور آپ پر خاموش ہوجانا فرض ہوگیا، اب آپ کوحجت کرنے یااستدلال قائم کرنے کاکوئی موقع نہ رہا۔ اگرآپ غیر عورتوں کے ساتھ آنٹیوں بلکہ اسٹیجوں پر گھل مل کرنہیں بیٹھتے ہیں، خوش گپیاں نہیں کرتے ہیں  تو آپ رجعت پسند نہیں ہیں، اگر آپ نماز روزہ کرتے ہیں، دینی شعائر کااحترام کرتے ہیں توآپ یقیناً رجعت پسند کہلانے کے مستحق ہیں، اگرآپ خدایااس کے رسول (ﷺ) کانام بھی ادب سے لیتے ہیں توآپ رجعت پسند ہیں۔ حتی کہ اگر آپ کھڑے ہوکر کھانے کےبجائے بیٹھ کر کھا لیتے ہیں تب بھی آپ پر رجعت پسندی کالفظ صادق آتاہے، اگر آپ اپنے استاد، بزرگ، ماں، باپ اوربڑے بھائی کااحترام کرتے ہیں، تو آپ رجعت پسند ہیں، خلاصہ یہ کہ ایک احکام اسلامی میں سے اگر کسی حکم کومانتے ہیں یاممنوعات اسلام میں سے کسی چیز سے رکتے ہیں توآپ رجعت پسندہیں، کیونکہ آپ چودہ سوسال پیچھے کی طرف لوٹ رہےہیں۔

حالانکہ جولوگ چودہ سوسال پہلے دین پر عمل کرنے والوں رجعت پسندی کا طعنہ دیتے ہیں، وہ خود پندرہ سوسال پیچھے کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ غور کامقام ہے، عقل وانصاف شرط ہے، ترقی پسند لوگ کہتے ہیں، شراب، سود، جوا، ریس، مردوزن کا اختلاط، بے پردگی بلکہ عریانی، عام ہونی چاہیے، رقص وسرور کی تربیت گاہیں قائم ہونی چاہئیں، استاد، شاگرد چھوٹے بڑے کے رشتے ختم  ہونے چاہئیں، وغیرہ وغیرہ، توآخر یہ کس معاشرے کی باتیں کرتے ہیں؟ یقیناً معاشرے کایہ تصور اسلام ماقبل اسلام کاہے، جب عریانیت کایہ عالم تھا کہ عرب بیت اللہ کاطواف ننگے ہوکرکیاکرتے تھے، وہ لوگ پردے  سے آشنانہ تھے، مردوزن کااختلاط عام تھا، سود، جوا، شراب نوشی  عام تھی اوردیگر اخلاقی اقدار مفقود تھیں، معاشرہ مادر پدر آزاد تھا،  توجو لوگ ایساہی معاشرہ اب قائم کرناچاہتے ہیں، وہ ساڑے پندرہ سوسالہ پرانی جاہلیت کی طرف پلٹ رہے ہیں اور اس پرچودہ سوسال پیچھے جانے والوں کورجعت پسندی کاطعنہ دیتے ہیں۔

ع  چہ دلاوراست وزد کہ بکف چراغ دارد

حقیقت یہ ہے کہ رجعت پسندی مطلقاً بری ہے اورنہ تجدوپسندی علی الاطلاق درست ہے، بلکہ اگرہمیں سینکڑوں سال پہلے کے معاشرے میں بھی کچھ خوبیاں ملتی ہیں وہ ہم حاصل کرتے ہیں اور اگر موجودہ زمانہ میں کوئی خیروخوبی کی بات ملتی  ہےتوہم اس کواپنا ئیں  گےاوراس سلسلے میں قرآن نے ہماری پوری رہنمائی فرمائی بعض آیات میں پیچھے لوٹنے کی ممانعت ہے، مثلاً یہ

(۱) ’’اور محمد (ﷺ) تواللہ کےرسول ہی ہیں، بلاشبہ ا ن سے پہلے رسول گزرچکے ہیں ، تو کیااگر وہ مرجائیں یاقتل کردئے جائیں توتم الٹے پاؤں پھر جاؤگے، اور کوئی الٹے پاؤں پھرے گاتووہ اللہ کوکچھ نقصان نہ پہنچائے گا، اور شکر گزاروں کوجزادی گئی‘‘۔ (آل عمران: 144)

(۲) دوسری آیت میں عورتوں کوزمانۂ جاہلیت کی عورتوں کی طرح زیب وزینت کرکے باہر نکلنے کی ممانعت کی گئی ہے، فرمایا:

’’اور (اے عورتو! ) تم اپنے گھروں میں رہو، اور پہلے زمانے کی جاہلیت کے دستور کے مطابق اپنی زیب وزینت وکھلاتی نہ پھرو‘‘۔ (الاحزاب: 33)

اس آیت میں صا ف صاف بتایاگیا ہےکہ عورتوں کابن ٹھن کر گھروں سے بے پردہ نکلنا یہ جاہلانہ طریقےہیں، اب کوئی مسلمان عورت ایسا کرنے کے بعد اپنے آپ کتناہی ترقی پسند کیوں نہ کہتی پھرے، خوش فہمی میں مبتلاء ہے، اور رجعت پسندی کاخطاب اس پر سجتاہے، معلوم نہیں جولوگ ایسا کرنے کے بعد بھی فخر محسوس کرتےہیں وہ کس قرآن پر ایمان رکھتے ہیں؟۔

قرآن نے غلط رسوم اور غلط طریقوں کی طرف لوٹنے کوجاہلیت سے تعبیر کیاہے، ایک مقام پرہے۔

(۳) ’’توکیا اب یہ لوگ جاہلیت کافیصلہ طلب کرتے ہیں؟ اور اللہ سے بہتر کون ہے حکم کرنے والا یقین کرنے والوں کے لئے؟ (المائدہ: 50)

یعنی باوجود نور حق ظاہر جانے اور تاریکیوں کے چھٹ جانےکے ، اب بھی یہ جاہلیت کی طرف رجعت چاہتےہیں؟۔ اس سے بڑی حماقت کیاہوگی، گویا غلط رسوم کی طرف لوٹنا عین جہالت ہےاور حکم الہٰی کی طرف آنا ترقی اور علم ہے، یہ انہیں لوگوں کے نزدیک ہے جو خدا پرایمان رکھتے ہیں۔

(۴) ’’اگر ماضی میں کسی قوم کے آباؤ اجداد گمراہ رہے ہوں توان کی اقتدا ء کی طرف لوٹنا بھی ممنوع ہے اور رجعت پسندی یہی ہے، فرمانِ الہٰی ہے: ’’اور جب ان سے کہا جائے کہ اس چیز کی پیروی کروجواللہ نے نازل کی ہے  توکہتے ہیں ہرگز نہیں، بلکہ ہم تواس چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے آباؤ  اجداد کو پایا، بھلا (یہ اس وقت بھی پیروی کریں گے؟) اگرچہ ان کے آباؤ اجداد کچھ نہ سمجھتے ہوں اورنہ ہدایت یافتہ ہوں؟‘‘۔ (البقرہ: 170)

اس آیت میں جیسا کہ ظاہر ہے بے عقل اور محروم ہدایت لوگوں کے اطوار وعادات کی طرف رجوع کی ممانعت کی گئی ہے، اور الحمدللہ ہم مسلمانوں کے آباؤ اجداد علم وعمل اور رشد وہدایت کی بہترین دولت سے مالا مال تھے، لہٰذا ان کی طرف لوٹنا رجعت پسندی نہ ہوگا۔

قرآن نے اچھے لوگوں کی اقتداء اور ان کے طرز زندگی کواپنانے کابارہا حکم دیاہے۔

ساتویں پارےکے سولہویں رکوع میں مندرجہ ذیل شخصیات کاذکر فرمایا ہے:

اسحاق، یعقوب، نوح ، داؤد، سلیمان ، ایوب، یوسف، موسیٰ، ہارون، زکریا، یحییٰ، عیسیٰ، الیاس، اسماعیل ، الیسع، یونس اور لوط علیہم السّلام۔ (انعام :84 تا 86)

پھر حضور ﷺکوحکم ہواکہ آپ راہ ہدایت کی پیروی کیجئے، ظاہر ہے کہ یہ ہزاروں سال پیچھے کی طرف رجعت کاحکم ہے ، مگر درست ہے، کیونکہ یہ حضرات روشنی کے مینار تھے، اور روشنی اگرہزاروں سے پیچھے بھی ملے توہمیں حاصل کرلینی چاہیے جب کہ تاریکی  قریب ہی ملتی ہوتب بھی اُس سے دور بھاگناچاہیے، خواہ اس میں رجعت پسندی کاطعنہ ہی کیوں نہ برداشت کرناپڑے۔

مقالات  ابن مسعود مفتی سیّدشجاعت علی قادری: ص182تا285

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi