ضیائے قرآن و ضیائے حدیث


اے ایمان والو !

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا تَدَایَنۡتُمۡ بِدَیۡنٍ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکْتُبُوۡہُؕ وَلْیَکْتُبۡ بَّیۡنَکُمْ کَاتِبٌۢ بِالْعَدْلِ۪ وَلَایَاۡبَ کَاتِبٌ اَنْ یَّکْتُبَ کَمَا عَلَّمَہُ اللہُ فَلْیَکْتُبْۚ وَ لْیُمْلِلِ الَّذِیۡ عَلَیۡہِ الْحَقُّ وَلْیَتَّقِ اللہَ رَبَّہٗ وَلَا یَبْخَسْ مِنْہُ شَیْـًٔاؕ فَاِنۡ کَانَ الَّذِیۡ عَلَیۡہِ الْحَقُّ سَفِیۡہًا اَوْ ضَعِیۡفًااَوْ لَا یَسْتَطِیۡعُ اَنۡ یُّمِلَّ ہُوَ فَلْیُمْلِلْ وَلِیُّہٗ بِالْعَدْلِؕ وَاسْتَشْہِدُوۡا شَہِیۡدَیۡنِ مِنۡ رِّجَالِکُمْۚ فَاِنْ لَّمْ یَکُوۡنَا رَجُلَیۡنِ فَرَجُلٌ وَّامْرَاَتَانِ مِمَّنۡ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّہَدَآءِ اَنۡ تَضِلَّ اِحْدٰىہُمَا فَتُذَکِّرَ اِحْدٰىہُمَا الۡاُخْرٰیؕ وَلَا یَاۡبَ الشُّہَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوۡاؕ وَلَا تَسْئَمُوْۤا اَنۡ تَکْتُبُوْہُ صَغِیۡرًا اَوۡ کَبِیۡرًا اِلٰۤی اَجَلِہٖؕ ذٰلِکُمْ اَقْسَطُ عِنۡدَ اللہِ وَاَقْوَمُ لِلشَّہَادَۃِ وَاَدْنٰۤی اَلَّا تَرْتَابُوۡۤا اِلَّاۤ اَنۡ تَکُوۡنَ تِجَارَۃً حَاضِرَۃً تُدِیۡرُوۡنَہَا بَیۡنَکُمْ فَلَیۡسَ عَلَیۡکُمْ جُنَاحٌ اَلَّا تَکْتُبُوۡہَاؕ وَاَشْہِدُوْۤا اِذَا تَبَایَعْتُمْ۪ وَلَا یُضَآرَّکَاتِبٌ وَّلَا شَہِیۡدٌ ۬ؕ وَ اِنۡ تَفْعَلُوۡا فَاِنَّہٗ فُسُوۡقٌۢ بِکُمْ ؕ وَاتَّقُوا اللہَ ؕ وَیُعَلِّمُکُمُ اللہُ ؕ وَاللہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ﴿۲۸۲﴾ (سورۃ البقرۃ، پ2، آیہ 282)

اے ایمان والو! جب تم ایک مقرر مدت تک کسی دین کا لین دین کرو تو اسے لکھ لو اور چاہیے کہ تمہارے درمیان کوئی لکھنے والا ٹھیک ٹھیک لکھے  اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اسے اللہ نے سکھایا ہے تو اسے لکھ دینا چاہیے اور جس بات پر حق آتا ہے وہ لکھاتا جائے اور اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے اور حق میں سے کچھ رکھ نہ چھوڑے پھر جس پر حق آتا ہے اگر بے عقل یا ناتواں ہو یا لکھا نہ سکے تو اس کا ولی انصاف سے لکھائے اور دو گواہ کرلو اپنے مردوں میں سے پھر اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ایسے گواہ جن کو پسند کرو کہ کہیں ان میں ایک عورت بھولے تو اس ایک کو دوسری یاد دلادےاورگواہ جب بلائے جائیں تو آنے سے انکار نہ کریں اور اسے بھاری نہ جانو کہ دَین چھوٹا ہو یا بڑا اس کی میعاد تک لکھت کرلو یہ اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف کی بات ہے اور اس میں گواہی خوب ٹھیک رہے گی اور یہ اس سے قریب ہے کہ تمہیں شبہہ نہ پڑے مگر یہ کہ کوئی سردست کا سودا دست بدست ہو توا س کے نہ لکھنے کا تم پر گناہ نہیں اور جب خریدو فروخت کرو تو گواہ کرلو اور نہ کسی لکھنے والے کو ضرر دیا جائے نہ گواہ کو ( یا نہ لکھنے والا ضرر دے نہ گواہ) اور جو ایسا کرو تو یہ تمہارا فسق ہوگا اور اللہ سے ڈرو اور اللہ تمہیں سکھاتا ہے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ (کنزالایمان)

ضیائے حدیث

اُمّت کی مدد کمزوروں کےسبب

حدیثِ مبارک: حضرت مصعب بن زید رضی اللہ عنہما اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے خیال کیا کہ انہیں ان اصحاب رسول رضی اللہ عنہم پر فضیلت حاصل ہے جو ان سے کمزور درجہ والے ہیں۔ تو نبی کریم ﷑ نے فرمایا کہ ’’ انما ینصر اللہ ہذہ الامۃ بضعیفھا بدعوتہم و صلاتہم و اخلاصہم‘‘ اللہ تعالیٰ اس امّت (مسلمہ) کی مدد اس کے کمزوروں ہی کےسبب فرماتا ہے ان (ضعیفوں) کی دعاؤں، نمازوں اور اخلاص کی وجہ سے اسے نسائی وغیرہ نے روایت کیا۔ یہ حدیث بخاری میں بھی  ہے مگر وہاں ’’اخلاص‘‘  کا ذکر  نہیں ہے۔(اَلتَّرْغِیْب وَالتَّرْہِیْب، اُردو ترجمہ، جلد 1،  ص21)

 

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi