ایصالِ ثواب کا پہلا طریقہ


ملک العلما حضرت  علامہ مولانا سیّد محمد ظفرالدین قادری برکاتی رضوی فاضلِ بہار ﷫(خلیفۂ اعلیٰ حضرت﷜) نے

’’نُصْرَۃُ الْاَصْحَاب بِاَقْسَامِ اِیْصَالِ الثَّوَاب‘‘ (1354ھ) کے نام سے ایک مفصّل و  مدلل فتویٰ تحریر فرمایا، جس میں آپ نے ایصالِ ثواب کے پچیس (25) طریقے بیان کیے ہیں۔ ماہ نامہ ’’ضیائے طیبہ‘‘ میں اُن طریقوں میں سے وقتاً فوقتاً کوئی نہ کوئی طریقہ شامل ِ اشاعت کیا جاتا رہے گا۔ (اِدارہ)

پہلا طریقہ

سورۂ یٰسٓشریف پڑھنا ہے جس کا کرنا وقتِ احتضار ہی سے ثابت ہے:

سنن ابی داؤد جلد ۲، ص ۸۹ میں حضرت معقل بن یسار﷜ سے مروی، رسول اللہﷺ فرماتے ہیں: (اِقْرَؤُوْا یٰسٓ عَلٰی مَوْتَاکُمْ، رواہ ابن ماجۃ والنسائی وأعلہ ابن القطان وصحبہ ابن حبان)۔ ’’اپنے مُردوں پر سورۂ یٰسٓ پڑھو۔‘‘

مرقات شرح مشکوٰۃ: جلد۲، ص ۲۸۲ میں ہے: (قال القرطبی: حدیث اِقْرَءُوْاعَلٰی مَوْتَاکُمْ یٰسٓ ھذا یحتمل أن تکون عند

قبرہٖ، کذا ذکرہ السیوطی فی شرح الصدور)۔ ’’علامہ قرطبی

فرماتے ہیں کہ اِقْرَءُوْا عَلٰی مَوْتَاکُمْ یٰسٓ اس حدیث کے دو مطلب ہیں: اوّل یہ کہ مَرنے والے کے پاس اُس کی حیات میں پڑھی جائے اور دوسرا یہ کہ اُس کی قبر پر پڑھی جائے۔ اِسی طرح علامہ جلال الدین سیوطی نے ’’شَرْحُ الصُّدُوْر فِیْ اَحْوَالِ الْمَوْتٰی وَالْقُبُوْر‘‘  میں  ذکر کیا ہے۔‘‘

وعن معقل بن یسار قال: قال رسول اللہﷺ: مَنْ قَرَأَ یٰسٓ اِبْتِغَآءَ وَجْہِ اللہِ عَزَّوَجَلَّ غُفِرَلَہٗ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنۡۢبِہٖ فَاقْرَءُوْھَا عِنْدَ مَوْ تَاکُمْ۔

’’جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے سورۂ یٰسٓپڑھے، اللہ تعالیٰ اُس کے سب گزشتہ گناہ معاف کردے، تو تم اسے مُردوں کے پاس پڑھا کرو۔‘‘(رواہ البیہقی فی شعب الایمان، کنز العمال، جلدِ اوّل، ص 144)

مرقات شرح مشکوٰۃ، جلد ۲، ص ۲۰۲ میں تحریرفرماتے ہیں: (فَاقْرَءُوْھَا عِنْدَ مَوْتَاکُم، أی مشرفی الموت أو عند قبور أمواتکم، فإنھم أحوج إلی المغفرۃ)۔ ’’مَوْتٰی‘‘ سے مراد وہ ہیں جو قریبِ مرگ ہیں یا یہ مطلب ہے کہ مُردوں کی قبور کے پاس سورۂ یٰسٓ پڑھو۔ اس لیے کہ وہ لوگ مغفرت کے زیادہ تر محتاج ہیں۔

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi