فصیح اردو


از قلم: محمد انس رضا

میرے ایک دوست کی پریس کی دکان ہے، میری جب سے اس کے ساتھ دوستی ہوئی ہے میں نے اسے چھپائی(Press) کے کام سے وابستہ پایا ہے، اس کی دکان پر میری کثرت سے باریابی  کی وجہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ میری دکان ہے یا میں اس کے ساتھ کاروبار میں شریک ہوں، جب کہ یہ ایک تبادلۂ علمی کا سلسلہ ہے جو مجھے اس کی دکان تک لے جاتا ہے۔ 

اس دکان پر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی اَشیا کی چھپائی کے سلسلے میں آتے ہیں، یوں مجھے بھی مختلف علاقوں کے حالات و واقعات کو جاننے کا موقع ملتا رہتا ہے۔

ایک روز ایک پردیسی کی کسی کام کے سلسلے میں پریس میں آمد ہوئی، بعدِ تعارف معلوم ہوا کہ موصوف ایک عربی ہیں، سعودیہ عرب سے تعلق رکھتے ہیں، پاکستان، کراچی میں علمِ طب (Medical Science) کی عظیم درس گاہ: ‘‘Dow Medical University’’ میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور پتےکی پتھری(GALL STONE) کے علاج سے متعلق تحقیقی کام (Research Work) کر رہے ہیں۔

موصوف ٹوٹی پھوٹی اردو میں کلام کر سکتے تھے، تھوڑی بہت سمجھ بھی لیتے تھے، کچھ سال گزارنے کے بعد بھی انہیں اردو صحیح طرح بولنا نہیں آئی، شاید یہ وجہ ہو کہ یونیورسٹی میں آج کل زیادہ رجحان انگریزی میں گفتگو کرنے کا ہے۔

موصوف کا کام جس سلسلے میں ان کی آمد ہوئی تھی مکمل ہوا، کہنے لگے یہاں کہیں گلدستہ (Flowers Bucket) ملتا ہے؟ چوں کہ قریب ہی جامع کلاتھ مارکیٹ ہے، جہاں یہ دستیاب ہوتے ہیں تو میرے دوست نے اپنے بھائی کے ہمراہ موٹر سائیکل پر انہیں جامع کلاتھ مارکیٹ روانہ کیا، موصوف نے وہاں سے خریداری کی اور دوبارہ پریس پر آگئے اور پھر وہ موصوف رخصت ہوگئے۔

میرے دوست کے بھائی نے بتایا کہ موصوف کو یونیورسٹی کے طلبہ کے درمیان رہ کر اردو بولنا صحیح نہیں آئی، لیکن رائج الوقت ماں بہن کی گندی گالیاں موصوف فصیح اردو میں دیتے ہیں۔ جہاں کہیں موٹرسائیکل رش میں رکتی یا کوئی سامنے آجاتا کہ موٹرسائیکل رک جاتی موصوف انہیں ٹکا کر فصیح اردو میں گالیاں نکالتے۔

واہ کیا صحبت (Gathering) کا اثر ہوا کہ موصوف کو اردو میں فصیح اور بلیغ گالیاں نکالنا آگئیں، لیکن صحیح سے اردو زبان بولنا نہیں آئی۔

اب سوال آپ سے  ہے کہ یونیورسٹی کے ایک عربی طالبِ علم نے یہ گالیاں کن لوگوں سے سیکھیں؟

مجھے یقین ہے آپ کا جواب یہ ہوگا: ’’دوستوں سے‘‘۔

اب آپ ہی بتائیں کہ اس کے دوست کون ہوں گے؟؟ پڑھے لکھے طبقے سے تعلق رکھنے والے یا جاہل لوگ؟؟

سوچیں اگر یونیورسٹی کے طلبہ کے اخلاق اور اندازِ گفتگو ایسے ہوں تو آئندہ نسلِ نو کے اخلاق اور اندازِ گفتگو آپ خود سمجھ سکتے ہیں۔۔۔۔

خاموش پیغام:            ’’اخلاقی تربیت‘‘

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi