زمین کی پیداوار پر عشر کے مسائل واحکام


✍_حافظ اسد الرحمٰن

صحیح بخاری میں سیّدنا عبداللہ ابنِ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:

جس زمین کو آسمان یا چشموں  نے سیراب کیا یا عشری ہو یعنی نہر کے پانی سے اُسے سیراب کرتے ہوں، اُس میں  عُشر ہے اور جس زمین کے سیراب کرنے کے لیے جانور پر پانی لاد کر لاتے ہوں، اُس میں  نصف عُشر یعنی بیسواں  حصّہ ہے۔

عشری زمین سے ایسی چیز پیدا ہوئی جس کی زراعت سے مقصود زمین سے منافع حاصل کرنا ہے تو اُس پیداوار کی زکاۃ فرض ہے اور اُس زکاۃ کا نام ’’عُشر‘‘ ہے یعنی دسواں  حصّہ کہ اکثر صورتوں  میں  دسواں  حصّہ فرض ہے، اگرچہ بعض صورتوں  میں  نصف عُشر یعنی بیسواں  حصّہ لیا جائے گا۔(عالمگیری، ردّالمحتار)

عُشر واجب ہونے کے لیے عاقل، بالغ ہونا شرط نہیں، مجنون اور نابالغ کی زمین میں جو کچھ پیدا ہوا اُس میں  بھی عُشر واجب ہے۔(عالمگیری)

جس پر عُشر واجب ہوا، اُس کا انتقال ہوگیا اور پیداوار موجود ہے تو اُس میں  سے عُشر لیا جائے گا۔(عالمگیری)

عشر میں  سال گزرنا بھی شرط نہیں، بلکہ سال میں  چند بار ایک کھیت میں زراعت ہوئی تو ہر بار عشر واجب ہے۔(درِّمختار، ردّالمحتار)

اس میں  نصاب بھی شرط نہیں، ایک صاع بھی پیداوار ہو تو عشر واجب ہے اور یہ شرط بھی نہیں  کہ وہ چیز باقی رہنے والی ہو اور یہ شرط بھی نہیں  کہ کاشتکار زمین کا مالک ہو یہاں  تک کہ مکاتب و ماذون نے کاشت کی تو اس پیداوار پر بھی عشر واجب ہے، بلکہ وقفی زمین میں  زراعت ہوئی تو اس پر بھی عشر واجب ہے، خواہ زراعت کرنے والے اہلِ وقف ہوں  یا اُجرت پر کاشت کی۔

(درِّمختار، ردّالمحتار)

جو چیزیں  ایسی ہوں  کہ اُن کی پیداوار سے زمین کے منافع حاصل کرنا مقصود نہ ہو اُن میں  عشر نہیں، جیسے ایندھن، گھاس، نرکل، سنیٹھا، جھاؤ، کھجور کے پتّے، خطمی، کپاس، بیگن کا درخت، خربوزہ، تربوز، کھیرا، ککڑی کے بیج۔ یوہیں  ہر قسم کی ترکاریوں  کے بیج کہ اُن کی کھیتی سے ترکاریاں  مقصود ہوتی ہیں، بیج مقصود نہیں  ہوتے۔ یوہیں  جو بیج دوا ہیں  مثلاً کندر، میتھی، کلونجی اوراگر نرکل، گھاس، بید، جھاؤ وغیرہ سے زمین کے منافع حاصل کرنا مقصود ہو اور زمین ان کے لیے خالی چھوڑ دی تو اُن میں  بھی عشر واجب ہے۔

(درمختار، ردالمحتار)

جو کھیت بارش یا نہر نالے کے پانی سے سیراب کیا جائے، اس میں  عُشر یعنی دسواں  حصّہ واجب ہے اور جس کی آب پاشی چرسے یا ڈول سے ہو، اُس میں  نصف عشر یعنی بیسواں  حصّہ واجب اور پانی خرید کر آب پاشی ہو یعنی وہ پانی کسی کی مِلک ہے، اُس سے خرید کر آب پاشی کی جب بھی نصف عشر واجب ہے اور اگر وہ کھیت کچھ دنوں بارش کے پانی سے سیراب کیا جاتا ہے اور کچھ دنوں  ڈول چرسے سے تو اگر اکثر بارش کے پانی سے کام لیا جاتا ہے اور کبھی کبھی ڈول چرسے سے تو عشر واجب ہے، ورنہ نصف عشر۔

(درمختار، ردالمحتار)

عشری زمین یا پہاڑ یا جنگل میں  شہد ہوا، اس پر عشر واجب ہے۔ یوہیں  پہاڑ اور جنگل کے پھلوں  میں  بھی  عشر واجب ہے، بشرطیکہ بادشاہِ اسلام نے حربیوں  اور ڈاکوؤں  اور باغیوں  سے اُن کی حفاظت کی ہو، ورنہ کچھ نہیں۔ (درمختار، ردالمحتار)

گیہوں ، جَو، جوار، باجرا، دھان اور ہر قسم کے غلّے اور السی، کسم، اخروٹ، بادام اور ہر قسم کے میوے، روئی، پھول، گنا، خربوزہ، تربوز، کھیرا، ککڑی، بیگن اور ہر قسم کی ترکاری سب میں  عشر واجب ہے۔ تھوڑا پیدا ہو یا زیادہ۔ (عالمگیری)

جس چیز میں  عشر یا نصف عشر واجب ہوا، اس میں  کُل پیداوار کا عشر یا نصف عشر لیاجائے گا، یہ نہیں  ہوسکتا  کہ مصارفِ زراعت، ہل بیل، حفاظت کرنے والے اور کام کرنے والوں  کی اُجرت یا بیج وغیرہ نکال کر باقی کا عشر یا نصف عشر دیا جائے۔ (درمختار، ردالمحتار)

عشر صرف مسلمانوں  سے لیا جائے گا، یہاں  تک کہ عشری زمین مسلمان سے ذمّی نے خرید لی اور قبضہ بھی کر لیا تو اب ذمّی سے عشر نہیں  لیا جائے گا بلکہ خراج لیا جائے گا اور مسلمان نے ذمّی سے خراجی زمین خریدی تو یہ خراجی ہی رہے گی۔ اُس مسلمان سے اس زمین کا عشر نہ لیں  گے بلکہ خراج لیا جائے۔(درمختار، ردالمحتار)

عشر اس وقت لیا جائے جب پھل نکل آئیں  اور کام کے قابل ہو جائیں  اور فساد کا اندیشہ جاتا رہے، اگرچہ ابھی توڑنے کے لائق نہ ہوئے ہوں۔ (جوہرہ)

خراج ادا کرنے سے پیشتر اُس کی آمدنی کھانا حلال نہیں ۔ یوہیں  عشر ادا کرنے سے پیشتر مالک کو کھانا حلال نہیں، کھائے گا تو ضمان دے گا۔ یوہیں  اگر دوسرے کو کھلایا تو اتنے کے عشر کا تاوان دے اور اگر یہ ارادہ ہے کہ کُل کا عشر ادا کر دے گا تو کھانا حلال ہے۔(عالمگیری، درمختار، ردالمحتار)

کھیت بویا مگر پیداوار ماری گئی مثلاً کھیتی ڈوب گئی یا جل گئی یا ٹیری کھا گئی یا پالے اور لُو سے جاتی رہی تو عشر و خراج دونوں  ساقط ہیں ، جب کہ کُل جاتی رہی اور اگر کچھ باقی ہے تو اس باقی کا عشر لیں  گے اور اگر چوپائے کھا گئے تو ساقط نہیں  اور ساقط ہونے کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ اس کے بعداس سال کے اندراس میں  دوسری زراعت تیار نہ ہو سکے اور یہ بھی شرط ہے کہ توڑنے یا کاٹنے سے پہلے ہلاک ہو ورنہ ساقط نہیں۔ (ردالمحتار)

تیار ہونے سے پیشتر زراعت بیچ ڈالی تو عشر مشتری پر ہے، اگرچہ مشتری نے یہ شرط لگائی کہ پکنے تک زراعت کاٹی نہ جائے بلکہ کھیت میں  رہے اور بیچنے کے وقت زراعت تیار تھی تو عشر بائع پر ہے اور اگر زمین و زراعت دونوں  یا صرف زمین بیچی اور اس صورت میں  سال پورا ہونے میں  اتنا زمانہ باقی ہے کہ زراعت ہو سکے، تو خراج مشتری پر ہے ورنہ   بائع پر۔(درمختار، ردالمحتار)

عشری زمین عاریتاً دی تو عشر کاشت کار پر ہے مالک پر نہیں  اور کافر کو عاریت دی تو مالک پر عشر ہے۔(عالمگیری)

عشری زمین بٹائی پر دی تو عشر دونوں  پر ہے اور خراجی زمین بٹائی پر دی تو خراج مالک پر ہے۔(ردالمحتار)

زمین جو زراعت کے لیے نقدی پر دی جاتی ہے، امام کے نزدیک اُس کا عشر زمیندار پر ہے اور   صاحبین کے نزدیک کاشت کار پر اور علامہ شامی نے یہ تحقیق فرمائی کہ حالتِ زمانہ کے اعتبار سے اب قولِ صاحبین پر عمل ہے۔

گورنمنٹ کو جو مال گذاری دی جاتی ہے، اس سے خراج شرعی نہیں  ادا ہوتا بلکہ وہ مالک کے ذمّے ہے اُس کا ادا کرنا ضروری اور خراج کا مصرف صرف لشکر اسلام نہیں، بلکہ تمام مصالح عامّۂ مسلمین ہیں  جن میں  تعمیرِ مسجد و خرچِ مسجد و وظیفۂ امام و مؤذّن و تنخواہِ مدرسینِ علمِ دین و خبر گیریِ طلبۂ علمِ دین و خدمتِ علمائے اہلِ سنّت حامیانِ دین جو وعظ کہتے ہیں  اور علمِ دین کی تعلیم کرتے اور فتوے کے کام میں  مشغول رہتے ہوں  اور پُل و سرا بنانے میں  بھی صرف کیا جا سکتا ہے۔(فتاوٰی رضویہ)

عشر لینے سے پہلے غلّہ بیچ ڈالا تو مصدق کو اختیار ہے کہ عشر مشتری سے لے یا بائع سے اور اگر جتنی قیمت ہونی چاہیے اُس سے زیادہ پر بیچا تو مصدق کو اختیار ہے کہ غلّہ کا عشر لے یا ثمن کا عشر اور اگر کم قیمت پر بیچا اور اتنی کمی ہے کہ لوگ اتنے نقصان پر نہیں  بیچتے تو غلّہ ہی کا عشر لے گا اور وہ غلّہ نہ رہا تو اُس کا عشر قرار دے کر بائع سے لیں یا اُس کی واجبی قیمت۔(عالمگیری)

انگور بیچ ڈالے تو ثمن کا عشر لے اور شیرہ کر کے بیچا تو اس کی قیمت کا عُشر  لے۔(عالمگیری)      واللہ تعالٰی اعلم بالصواب۔

(ماخوذ از بہارِ شریعت)

 

 

 

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi