استخارہ


سوال: حضرت میرا سوال ہے کہ اعمالِ روحانیہ اور دیگر وہ اورادِ و وظائف جو اہلِ سنّت کے مستند صوفیہ اکابرین سے منقول ہیں ان پر ترکِ حیوانات کی شرائط کیوں رکھی گئی ہیں؟ کیا کوئی سنّی صحیح العقیدہ بغیر ترکِ حیوانات اور بغیر اجازت ان اَوراد کو نہیں پڑھ سکتا/ حضرت اس مسئلے میں  رہ نمائی فرمادیں؟

سائل: اجمل سعیدی/ ڈیرہ غازی خان(پنجاب)

حضرت خالد بن ولید﷜کا مشہور واقعہ ہے کہ زمانۂ جنگ میں اسلامی فوجیں ایک قلعے کا محاصرہ کیے ہوئے تھیں اور قلعہ ابھی فتح نہیں ہُوا تھا، محاصرے سے تنگ آ کر قلعے کا ایک بڑا پادری کچھ ساتھیوں کے ساتھ باہر نکل کر حضرت خالد بن ولید﷜ سے ملنے آیا، اور شرط یہ رکھی کہ اگر آپ اگلے اور قلعے فتح کرلیں گے تو ہم خود بَہ خود یہ قلعہ آپ کو سونپ دیں گے۔ حضرت خالد بن ولید﷜ نے فرمایا کہ جب تک یہ قلع فتح نہیں ہوجاتا، ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔

پادری کے ہاتھ میں زہر کی ایک پُڑیا تھی تو اُس نے کہا کہ آپ لوگ محاصرہ نہیں ہٹاتے تو میں یہ زہر کھاکر جان

دے دوں گا اور اس کا بار آپ کی گردن پر ہوگا۔

حضرت خالد بن ولید﷜نے فرمایا کہ کس میں طاقت ہے جو اللہ کی مرضی کے بغیر کسی کو مار سکے۔

اس پر پادری بولا پھر آپ یہ زہر کھالیجیے۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ دعا:

بِسْمِ اللّٰہِ الَّذِیْ لَا یَضُرُّ مَعَ اسْمِہٖ شَیْءٌ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَآءِ وُھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُo

پڑھ کر زہر کھالیا۔  چند منٹ آپ کے جسمِ مبارک سے پسینہ نکلتا رہا اُس کے بعد حالت اعتدال پر آ گئی، اور زہر کا آپ پر کوئی اثر نہ ہُوا۔  اب یہاں سوال یہ ہے کہ کیا حضرت خالید بن ولید﷜اُس دعا کے عامل تھے یا آپ نے کوئی چلّہ فرمایا تھا؟

آج لوگ ہر عمل کی زکوٰۃ دیتے ہیں، چلّہ کشی کرتے ہیں پھر بھی عمل کا اثر ظاہر نہیں ہوتا اور صحابۂ کرام ﷢اجمعین یا اولیاو صالحین رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی بغیر کسی زکوٰۃ و چلے کے جوں ہی پڑھتے فوراً اثر ہوتا تھا۔

ہاں تو وہ نُفوسِ قدسیہ سچے اور کامل و اکمل مومن تھے، اُن کے اندر سچائی اور پاکیزگی تھی وہ صرف اپنے رب پر بھروسہ رکھتے تھے۔

تقویٰ، عبادتِ الہٰی اور اطاعت اُن کی زندگی تھی، پھر جس نے غلامیِ مصطفیٰﷺکا طوق گردن میں ڈال کر اپنی زندگی کو عبادت و اطاعتِ ربِِّ کریم کے لیے وقف کردیا ہو تو اُس کا ہر عمل زود  اثر کیوں نہ ہو اور تمام مخلوقِ خدا اُس کے زیرِ نگیں کیوں نہ ہو؟

 اور پھر ترکِ حیوانات کی ضرورت اس لیے پڑتی ہے کہ ہم اپنے اندر پاکیزگی، روحانیت اور نورانیت پیدا کرسکیں۔یاد رہے کہ تمام مؤکّل نوری ہیں اور ہم خاکی، پھر جب تک ہمارے اندر نورانیت نہ ہوگی وہ کیسے ہم سے مانوس ہوسکتے ہیں؟

ہماری غذا، ہمارے اَفعال و اَعمال بلکہ ہماری پوری زندگی گناہ و غلاظت اور غلط کاریوں کی کیچڑ  سے لتھڑی ہوئی اور گرد آلود ہے۔

لہٰذا، جب تک ہمارے ہر کام میں نیتِ خیر نہ ہو اور رگ رگ میں مکمل پاکیزگی سرایت نہ کرے، ہمارے عملیات کیسے مؤثر ثابت ہوسکتے ہیں؟ عامل کے لیے ہر طرح سے پابندِ شرع، متقی  وپرہیزگار ہونا شرطِ اوّل ہے۔

پھر اُس کے بعد کوئی بھی عمل پڑھیں، اِنْ شَآءَاللہُ تَعَالٰی فوراً اُس کا اثر ایسا ہی ظاہر ہوگا جیسے سوئچ دبانے سے بجلی کا بلب جل اٹھتا ہے، کیوں کہ اس میں کرنٹ تو پہلے سے ہی موجود ہوتا ہے؛ ہاں اگر ہم تمام کنکشن کرکے میٹر بھی لگادیں اور اُس کا تعلق بجلی گھر سے بھی قائم ہو گیا ہو مگر کنکشن صحیح نہ جُڑا ہو تو اُس سے بجلی کیسے جل سکتی ہے، لاکھ بٹن دباتے رہیے۔

لہٰذا، ہر مسلمان کو   یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ سب سے پہلے صحیح معنوں میں مومنِ صالح بننا اوّلین فرض ہے پھر عمل پڑھنے کے لیے اُس کی جملہ شرائط پوری کرنا لازمی ہے پھر دیکھیے کہ عمل کیا اثر دکھلاتا ہے!!

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi