بچوں کا دوست


اصل بات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مسرت طارق

’’اور بھئی عقیل کیسے ہو؟‘‘بابر نے عقیل سے ہاتھ ملاتے ہوئے پوچھا۔

’’ٹھیک ہوں۔۔۔۔تم سناؤ؟‘‘عقیل بولا۔

’’میں بھی ٹھیک ہوں۔‘‘بابر نے کہا۔

’’تُمھاری کہانی شائع ہوگئی؟‘‘عقیل نے بابر سے پوچھا۔

’’کہاں یار !۔۔۔ایڈیٹر صاحبان کی تو ہم سے پرانی دشمنی ہے۔‘‘بابر مُنھ بناتے ہوئے بولا۔

’’آخر کیوں یہ ہماری تحریریں شائع نہیں کرتے؟‘‘ عقیل نے اداس لہجے میں کہا۔

’’ایساکرتے ہیں کہ ایڈیٹروں کو تحریر کے ساتھ کوئی تحفہ بھی بھیجتے ہیں۔تمھیں تو پتا ہے کہ تحفہ محبت اور دوستی بڑھاتا ہے۔اس طرح وہ ہمارے دوست بن جائیں گے اور ہماری تحریریں بھی دوسروں کی طرح شائع کرنا شروع کردیں۔‘‘بابر نے تجویز پیش کی۔

’’نہیں یار!۔۔۔۔۔اس طرح بات نہیں بنے گی۔۔۔۔وہ سمجھیں گے کہ کہانی یا کوئی تحریر چھپوانے کی غرض سے اُنھیں تحفہ دوسرے لفظوں میں رشوت پیش کی جارہی ہے۔‘‘عقیل اسے سمجھاتے ہوئے بولا’’کوئی ایسا انوکھا طریقہ سوچوکہ ہماری تحریریں بھی رسائل میں چھپنا شروع ہوجائیں۔‘‘

’’ہم کتنی محنت سے لکھتے ہیں ۔۔۔۔مگر ہماری تحریرتو کیا نام بھی شائع  نہیں کیا جاتا۔‘‘بابر کا غصّہ ابھی تک ٹھنڈا نہیں ہوا تھا۔

’’بات تو تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔یہ ایڈیٹر صاحبان اپنے جاننے والوں کی ہی تحریریں شائع کرتے ہیں اور ہم تو ان کے جاننے والوں میں شمار نہیں ہوتے ۔یہ دیکھو اجمل کی تحریریں تو ان سب رسائل میں باقاعدگی سے شائع ہوتی ہیں۔اور ہم تو اس سے اچھا لکھتے ہیں۔‘‘ عقیل نے اپنے سامنے رکھے رسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

’’میر ا تو دل اب کچھ لکھنے کو نہیں چاہتا۔جس چیز کا کوئی حاصل نہ ہواُس پر وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘ بابر کے لہجے میں مایوسی کی جھلک تھی۔

’’اداس نہ ہویار!۔چلو ایک دو کہانیاں اور لکھ کر بھیجتے ہیں۔پھر دیکھتے ہیں اگلے ماہ کیا ہوتا ہے؟‘‘عقیل نے اس کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کی۔

ایک ماہ گزرنے کے بعدبابر ایک بُک اسٹال پر کھڑا مطلوبہ رسالے کی ورق گردانی کررہا تھا۔

’’میاں!دیکھتے ہی رہو گے یا خریدو گے بھی؟‘‘ بُک اسٹال والے نے طنزیہ انداز میں کہا ۔اور بابر نے جلدی سے جیب سے پیسے نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھ دیے۔گھر آ کر اس نے رسالہ اچھی طرح اُلٹ پلٹ کر دیکھا مگراس کی تحریرشائع نہیں کی گئی تھی!!

’’اس ماہ پھر میری کہانی شائع نہیں کی گئی!‘‘بابر نے روہانسا ہوکر بڑبڑایا۔

کہانی شائع نہ ہونے کی اصل وجہ یہ تھی کہ بابر جب بھی کوئی کہانی لکھتا تھا تو صفحے کے دونوں جانب لکھتا تھا ۔کہانی میں جگہ جگہ کانٹ چھانٹ کرتا تھا۔ایک پیرا گراف کو دوسرے پیراگراف سے ملادیتا تھا ۔اس کی کہانی وعظ ونصیحت سے بھری ہوتی تھی۔جس کے نتیجے میں اس کی کہانی ۔کہانی کے بجائے مضمون بن جاتی تھی۔

شام کو بابر نے عقیل کو فون کر کے اپنے گھر بُلایااور دونوں حسبِ عادت ایڈیٹر صاحبان کے بارے میں اظہارِ خیال کرنے لگے ۔جس وقت وہ دونوں باتیں کررہے تھے تو دوسرے کمرے میں موجود بابر کے اباجان بڑے غور سے ان دونوں کی باتیں سُن رہے تھے ۔کچھ دیر بعد وہ بابر کے کمرے میں داخل ہوئے اور دونوں کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے:’’بیٹا! ۔دوسروں کو بُرا بھلا کہنے سے بہتر کہ آپ خود اچھے بن جائیں۔اچھا لکھنے کے لیے اچھے لوگوں کی تحریریں پڑھنا ضروری ہیں۔ اس طرح تمھیں اچھا لکھنا آجائے گا اور ایک اور اہم بات یہ کہ اپنے دل سے کینہ، نفرت اور حسد کو نکال دو۔جس انسان میں یہ تینوں بُرائیاں موجود ہوتی ہیں وہ کبھی اچھا انسان نہیں بن سکتا۔مجھے اُمید ہے کہ تم دونوں کو میری باتیں سمجھ آگئی ہوں گی۔‘‘بابر کے ابا جان یہ کہہ کر کمرے سے نکل گئے ۔

ان کے جانے کے بعد دونوں خاموشی سے سوچتے رہے۔ کافی دیر تک سوچنے کے بعد اُنھیں پتا چلا کہ اچھا نظر آنے کے لیے پہلے اچھا بننا پڑتا ہے۔

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi