شبِ معراجِ مصطفیٰ ﷺ


حضرت صوفی مولانا جمیل الرحمٰن قادری رضوی﷫

پردہ رخِ اَنور سے جو اُٹھا شبِ معراج
جنّت کا ہوا رنگ دوبالا شبِ معراج
حوروں نے بھی گایا ترانہ شبِ معراج
خالق نے محمد کو بُلایا شبِ معراج
گیسو کھلے گھنگھور گھٹا اٹھی کہ ہم پر
بارانِ کرم جھوم کے برسا شبِ معراج
اے رحمت عالَم! تِری رحمت کے تَصدّق
ہر ایک نے پایا تِرا صدقہ شبِ معراج
جس وقت چلی شاہِ مدینہ کی سواری
سجدے میں جھکا عرشِ معلیٰ شبِ معراج
خورشید و قمر، ارض و سما عرش و ملائک
کس نے نہیں پایا تِرا صدقہ شبِ معراج
وہ جوش تھا اَنوار کا اَفلاک کے اوپر
ملتا نہ تھا نظارے کو رستہ شبِ معراج
مہمان بلانے کے لیے اپنے نبی کو
اللہ نے جبریل کو بھیجا شبِ معراج
یہ شانِ جلالت کہ نہایت ہی ادب سے
جبریل نے آقا کو جگایا شبِ معراج
جبریل بھی حیران ہوئے دیکھ کے رتبہ
سدرہ سے قدم جب کہ بڑھایا شبِ معراج
جبریل تھکے ہو گئے سرکار روانہ
منہ تکتا ہوا رہ گیا سدرہ شبِ معراج
ہمراہ سواری کے تھیں اَفواجِ ملائک
بن کر چلے اِس شان سے دولھا شبِ معراج
یوں مسجدِ اَقصیٰ میں نماز اُس نے پڑھائی
طالب سے ملیں پڑھ کے دوگانا شبِ معراج
ہر ایک نبی بلکہ سب اَفلاک کے قدسی
پڑھتے تھے شہنشاہ کا خطبہ شبِ معراج
جانِ دوجہاں رفعتِ سرکار پہ قرباں
کہتا تھا یہ بڑھ بڑھ کے رَفَعْنَا شبِ معراج
مدّت سے جو ارمان تھا وہ آج نکالا
حوروں نے کیا خوب نظارہ شبِ معراج
آراستہ ہو خلد مؤدّب ہوں فرشتے 
یوں ہاتفِ غیبی نے پکارا شبِ معراج
پیہم چلی آتی تھیں دعاؤں کی صدائیں
ہر رات نبی کی ہو، خُدایا! شبِ معراج
تھی راستہ بھر اُن پہ دُرودوں کی نچھاور
باندھا گیا تسلیم کا سہرا شبِ معراج
دولھا تھے محمد تو براتی تھے فرشتے
اِس شان سے پہنچے مِرے مولیٰ شبِ معراج
اللہ کی رحمت سے وہ مہکا گُلِ وحدت
خوشبو سے بسا عالمِ بالا شبِ معراج
روشن ہوئے سب ارض و سما نور سے اس کے
جب ماہِ عرب عرش پہ چمکا شبِ معراج
تھا چرخِ چہارم پہ کوئی طور کے اوپر
سرکار گئے عرش سے بالا شبِ معراج
جب پہنچے مقامِ فتدلیٰ پہ محمد
خالق سے رہا کچھ بھی نہ پردہ شبِ معراج
اے صَلِّ عَلٰی بزمِ تَدَلّٰی میں پہنچ کر
اس ذات میں گم ہو گئے آقا شبِ معراج
ممکن ہی نہیں عقلِ دو عالَم کی رسائی
ایسا دیا اللہ نے رتبہ شبِ معراج
عرش و مَلک و ارض و سما، جنّت و دوزخ
اُس شاہ نے ہر چیز کو دیکھا شبِ معراج
تفصیل سے کی سیر مگر اُس پہ یہ طُرّہ
اِک پل میں یہ طے ہوگیا رستہ شبِ معراج
زنجیر درِ پاک کی ہلتی ہوئی پائی
اور گرم تھا وہ بسترِ اعلیٰ شبِ معراج
اے ماہِ مدینہ تِری تنویر کے قرباں
چمکا دیا امّت کا نصیبہ شبِ معراج
لو عاصیو! وہ تم کو وہاں پر بھی نہ بھولے
کاٹا گیا عصیاں کا سیاہا شبِ معراج
اے مومنو! مژدہ کہ وہ اللہ سے لائے
بخشائشِ امّت کا قبالہ شبِ معراج
بھیجوں گا میں امّت کو تِری خلد میں پہلے
حق نے کیا محبوب سے وعدہ شبِ معراج
اُس میں سےجمیلِ رضوی کو بھی عطا ہو
رحمت کا بٹا خاص جو حصّہ شبِ معراج[1]

 

[1]  قبالۂ بخشش۔

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi