معین الدین چشتی اجمیری کی اشاعتِ اسلام


محمد رمضان تونسویؔ

کوئی مذہب اس وقت تک زندہ نہیں رہ سکتااور نہ تغیر پذیر زندگی میں خوش گوار تبدیلی لاسکتا ہے، جب تک کہ اس میں ایسے افراد پیدا نہ ہوں جونیک نیتی، بے غرضی، روحانیت، ایثار، اخلاص، اور اپنے اخلاقِ حمیدہ کےذریعے پیروان مذہب کےتنِ بے جان میں نئی رح پھونک دیں،او ان کےاندرخود اعتمادی، خود احتسابی، قوتِ ادراک اور جوش عمل کاجذبہ جگا دیں۔دعوت و تبلیغ خواہ قولی ہو، یافعلی۔ حقیقی دعوت یہ ہے کہ اللہﷻ کی توحید اور اس کی بندگی و عبادت کی طرف لوگوں کو بلانےاور ان کی راہ نمائی کرنے میں داعی کا مقصود و مطلوب کسی طرح کی ذاتی و دنیاوی منفعت کی تحصیل نہ ہو۔محض اللہ ﷻ اور اس کے حبیبِ پاک ﷺ کی رضا مطلوب ہو۔ طلبِ شہرت، اونچے مقام و منصب کی خواہش ، داد  و تحسین کی آرزو، حصول ِ شر کی طمع ، اپنے کوداعی باور کرانے کی تمنا، یہ تمام چیزیں نفسانیت کےدائرے میں آتی ہیں، جو داعی اس کی دعوت اور طریق دعوت کے سخت مضربلکہ زہر ہلاہل ہیں۔ یہ ایسی آرزو، تمنااور طلب ہے جس سےدعوت کافساد شروع ہوجاتا ہے،اور داعی کی دعوت غیر مؤثر ہو کر رہ جاتی ہے۔بلکہ داعی کےقلب و نظر اور اس کےتحت الشعور میں یہ بات بڑی پختگی کےساتھ جمع ہونی چاہئے جواسے انبیاء کرام﷩ کے منہاجِ دعوت اور مقصدِدعوت سےقریب کردے، وہ ہرمشکل، پریشانی، کلفت،اور جُہدِ مُشَقَّتْ کےباوجود آخری دم تک یہی کہتا رہے۔’’اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ ‘‘۔ ترجمہ: میرا اجر تو اللہ ہی پر ہے۔اسلام کی دعوت و تبلیغ اور بنی نوع انسان کی اصلاح و تربیت کی ایک طویل تاریخ ہے۔داعیِ اعظم حضرت محمد ﷺ کےبعد صحابہ تابعین آئمہ مجتہدین اور علماء و صالحین، ﷢کو اللہﷻ نے منتخب فرمایا ہے۔اسلام کی تاریخ کبھی بھی مصلحین سے خالی نہیں رہی، دعوت و تبلیغ اور اصلاح و تربیت کا کام ہرزمانے میں کم و بیش ہوتا رہاہے۔جب بھی اسلام کو دشمنانِ اسلام کی طرف سےکوئی خطرہ محسوس ہوا۔ کوئی پرعزم اور باقوت شخصیت ضرور میدان عمل میں آئی۔

ہندوستان کی حالت:  ہندوستان کی اپنی مذہبی تاریخ ہے۔یہاں کفر و شرک اور اوہام پرستی کی جڑیں کافی ٹھوس اور مضبوط تھیں، جنہیں بیخ و بن سےاکھاڑپھینکنا تو بہت مشکل تھا ہی، لیکن ان شرکیہ جڑوں کو متزلزل یاکمزور کرنا بھی دشوار گزار تھا۔شمشیر و سنان سےبھی انہیں ختم کرناجوئے شیر لانےکےمترادف تھا۔یہی وجہ ہے کہ مُسلم فاتحین و سلاطین نے اسلام کی اشاعت و فروغ میں بہت بڑا کردار ادا کیا۔بالخصوص محمد بن قاسم، سلطان محمود غزنوی،  شہاب الدین غوری﷭۔ لیکن ان سلاطین کےلئے راہ ہموار کرنےوالےصوفیاء کرام ہی تھے۔کیونکہ شمشیرو سنان کےزور پرکسی ملک و خطہ کوفتح تو کیا جاسکتا ہے، لیکن دلوں کی سرزمین کو فتح کرنا آسان نہیں ہے۔ ہندوستان کی سرزمین میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت، اور دعوتِ توحید دینے والوں میں سب سےبڑے مُبلّغ و مُصلح و داعی قطب الاقطاب، معین الملۃ والدین خواجۂ خواجگان سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیر﷫ہیں۔جن کےقدمِ میمونت ِ لزوم نے کفر و شرک کےتاریک ماحول میں اسلام کااجالا پھیلایا۔ظُلمت کدۂ ہند میں اسلام و توحیدکی سحر طلوع ہوگئی۔یہ کیوں نہ ہوتا کہ خود حضور اقدس ﷺ نے آپ کو ہندوستان کی ولایت عطاء فرمائی۔ بارگاہِ رسالتِ مآبﷺسےآپ کویہ بشارت ملی۔ ’’اے معین الدین! تومیرے دین کا معین ہے، میں نےتجھے ہندوستان کی ولایت عطاء کی، وہاں کفر و ظلمت پھیلی ہوئی ہے۔تم اجمیرجاؤتمھارے وجود سےظلمت ِ کفردور ہوگی، اور اسلام کی رونق بڑھ جائے گی‘‘۔(سیر الاقطاب، ص124)

آپ ﷫’’پرتھوی راج‘‘ کےدورِ حکومت میں ہندوستان تشریف لائے، اور اجمیر سےہی اپنی اصلاحی تحریک کا آغاز کیا، جو ان دنوں ہندکا دارالسلطنت تھا۔پورا ملک شرک و کفر کی آماجگاہ تھا۔خدا کی خدائی میں دوسروں کوشریک کرتے تھے۔ پتھر، ڈھیلا، درخت، جانور، گائے، کو سجدہ کرتے۔سب دین و شریعت کےحکم سےغافل، خدااور پیغمبر سے بےخبر، نہ کسی نےقبلہ کی سمت پہچانی نہ اللہ اکبر کی صدا سنی۔آفتابِ یقین حضرت معین الدین﷫کےمبارک قدم کا اس ملک میں پہنچنا تھا کہ اس کی تاریکی نور اسلام سےبدل گئی۔ان کی کوششوں سےجہاں صلیب و کلیسائےتھے،مسجد منبر و محراب نظر آنےلگے۔جہاں مشرکانہ صدائیں بلند ہوتی تھیں، وہ اللہ اکبر سےگونجنےلگی۔اس سرزمین میں جس کودولت ِ اسلام ملی،اور قیامت تک اس  دولت سےشرف یاب ہوگا،ان تمام کا ثواب  حضرت شیخ الاسلام کی روح کوپہنچتا رہےگا۔آپ﷫ کی نگاہِ ولایت جس شخص پر پڑتی دل کی دنیا بدل جاتی، رہزن آتار ہبر بن جاتا، قاتل آتا محافظ بن جاتا، سرکش آتا غلام بن جاتا، کافر آتا مسلمان بن جاتا، فاسق آتا متقی بن جاتا، دشمن آتا حاشیہ بردار بن جاتا، جادوگرآتا تائب ہوکرعاملِ قرآن بن جاتا۔رسالہ’’احوال پیران ِ چشت‘‘ میں ہے: ’’نظر شیخ معین الدین بر فاسق کہ افتادے در زمان تائب شدے،بازِ دگر معصیت نہ کردے‘‘ یعنی حضرت خواجہ معین الدین کی نگاہ جس فاسق پر  پڑجاتی اسی وقت توبہ کرلیتا اور پھر گناہ کے قریب نہ بھٹکتا۔علامہ حسن رضا بریلوی فرماتے ہیں؏: خفتگانِ شب ِ غفلت کوجگا دیتا ہے۔۔۔سالہا سال وہ راتوں کو نہ سونا تیرا۔۔۔ منقول ہے کہ حضرت خواجہ﷫ کی دعوتِ توحید سے’’نوےلاکھ‘‘ سےزیادہ کفار و مشرکین مشرف بااسلام ہوئے،یہ حضرت کاایسا لازوال کارنامہ ہے کہ تاریخ جس کی نظیرپیش کرنےسےقاصر ہے۔

حضرت سلطان الہند﷫ نے ہندوستان میں بلاشبہ کفر شکن تحریک برپا کی تھی۔ جو کام ہزاروں تلواریں نہیں کرسکیں، وہ ایک عارف باللہ کی خاموش اوراخلاقی تحریک نے کردکھایا۔آپ کی کوششوں سے ہندوستان ’’دار الاسلام‘‘بن گیا۔

وصال:سلطان الہند﷫ کا وصال پر ملال6؍رجب المرجب633ھ، مطابق1229ءکو ہوا۔ وقتِ وصال آپ کی مقدس پیشانی پر یہ نقش ِجمیل ظاہر ہوا:ھذا حبیب اللہ مات فی حب اللہ۔(اخبارالا خیار،ص،66)۔  استفادہ:’’حضرت خواجہ غریب نواز﷫کی دعوتِ توحید‘‘۔ از قلم: مفتی آل مصطفیٰ مصباحی، جامعہ امجدیہ رضویہ، گھوسی، انڈیا؛( اہل سنت کی آواز،مارہرہ شریف، 2008ء)

 

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi