عظیم تحفہ


الطا ف حُسین

’’تُم آج مجھے کچھ پریشان دِکھائی دے رہے ہو……خیر تو ہے نا؟‘‘ ماجد کی امّی نے اُس کے چہرے کی اُداسی کو بھانپتے ہوئے پوچھا۔

’’آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے؛ ایسی تو  کوئی بات نہیں‘‘،  ماجد نے ٹالنے کی کوشش کی۔

  بیٹا! تُم اُن آنکھوں کو اتنی آسانی سے دھوکہ نہیں دے سکتے جو تمہارے چہرے کے ایک ایک رنگ کو پہچاننے کا ہُنر جانتی ہیں۔‘‘ وہ اسے غور سے دیکھتے ہوئے بولیں’’اگر کوئی مسئلہ ہے تو مجھے بتاؤ۔۔۔میں اس کا حل تلاش کرنے میں تمہاری مدد کروں گی۔‘‘

’’امّی! کل میرے دوست بلال کی سالگرہ ہے۔‘‘ ماجد سوچ میں گم لہجے میں بولا ۔

’’تو اس میں پریشان ہونے والی کیا بات ہے۔‘‘امّی نے اسے حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا ۔

’’بلال نے مجھے سالگرہ پر بلایا ہے۔۔۔۔آپ کو تو پتا ہے کہ اس موقع پر خالی ہاتھ آنے والوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ میرے پاس کچھ پیسے ہیں تو سہی ،لیکن اتنے پیسوں میں اچھا سا تحفہ خریدنا ممکن نہیں۔‘‘ماجد دِل کی بات زبان پر لے آیا ۔وہی بات جس نے اسے ذہنی طور پر پریشان کررکھا تھا۔

’’اچھا تو یہ بات ہے، اب میں سمجھی۔‘‘ ماجد کی امّی اثبات میں سر ہِلاتے ہوئے بولیں: ’’تُم  ایسا کر و کہ پہلے ہوم ورک کر لو ۔میں اتنی دیر میں گھر کا  کام کر لیتی ہوں پھر ہم دونوں مل کر سوچیں گے۔مجھے اُمّید ہے کہ اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی بہتر حل نکل ہی آئے گا۔‘‘

’’ٹھیک ہے امّی‘‘،   ماجدنے کہا اور اُٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔

ماجد ایک غریب اور یتیم لڑکا تھا اُس کے والد کچھ عرصہ پہلے ٹریفک کے ایک حادثے میں اللہ کو پیارے ہوگئے تھے۔ جب تک وہ زندہ تھے۔ گھر کا گزارہ چل رہا تھا، لیکن ان کے انتقال کے بعد رفتہ رفتہ مجبوریوں اور لاچاریوں نے گھر میں بسیرا  کر لیا۔ ماجد کی امّی سلائی کڑھائی کا کام کر کے اپنا اور بیٹے کا پیٹ پال رہی تھیں۔ ان کی خواہش تھی کہ ماجد پڑھ لِکھ کر بڑا آدمی بن جائے۔اپنے مُلک وقوم کی خدمت کرے اور ایک اچھے انسان کی حیثیت سے معاشرے میں پہچانا جائے۔ ماجد کوبھی اپنی امّی کی اس خواہش کا احساس تھا اس لیے وہ خوب دِل لگا کر تعلیم حاصل کر رہا تھا ۔ہر سال امتیازی نمبروں سے کامیابی اُس کے قدم چُومتی تھی۔ پڑھائی کے وقت پڑھائی اور کھیل کے وقت کھیل کے ساتھ ساتھ وہ دینی معاملات کا بھی خاص خیال رکھتا تھا۔ پانچ وقت کی نمازباجماعت ادا کرنا ا ور دن میں دو تین مرتبہ قرآن کی تلاوت کرنا اورحدیث کے حوالے سے کتب کا مطالعہ کرنا اس کا معمول تھا۔

ماجد نے ہوم ورک تو  کر لیا، لیکن اس کا ذہن ابھی تک تحفے کے متعلق سوچ رہا تھا۔ بہت سی چیزوں کے نام اس کے دماغ میں گردش کررہے تھے ۔ ان میں کوئی چیز مہنگی تھی اور کسی چیز کووہ تحفے کے طور پر دینا مُناسب خیال نہ کرتا تھا۔سوچتے سوچتے اچانک اس کا چہرہ خُوشی سے کِھل اُٹھا ۔۔۔اس کے ذہن نے مسئلے کا ایک لاجواب حل تلاش کرلیا تھا!!

’’امّی ! ۔۔۔ امّی!! مجھے مِل گیا!!!‘‘،  وہ اپنے کمرے سے نکل کر صحن میں آ گیا جہاں اس کی امّی کام میں مصروف تھیں ۔

’’ارے کیا مل گیا؟‘‘، امّی نے قمیص میں بٹن ٹانکتے ہوئے پوچھا۔

’’تحفہ!!!‘‘، ماجد نے ادھورا انکشاف کیا۔

’’اچھا آآ!‘‘ امّی حیرت بھرے انداز میں بولیں: ’’کہاں ہے ؟مجھے بھی تو بتاؤ۔‘‘

’’ابھی نہیں ۔کل صبح بتاؤں گا۔‘‘ماجد نے شرارت بھرے انداز میں مُسکُراتے ہوئے کہا۔

بلال کے گھر کااندرونی حصّہ رنگ برنگی جھنڈیوں او رغُباروں سے سجا ہُوا تھا!! یوں محسوس ہورہا تھا جیسے ویرانے میں بہار آ گئی ہو!! شام کے پانچ بجتے ہی مہمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ صحن میں بچھی میز پر خُوب صُورت انداز میں بنایا گیا بڑا سا کیک رکھا ہُوا تھا۔جس کے دائیں بائیں مہمانوں کے لائے ہوئے تحائف قرینے سے رکھے جارہے تھے۔لوگ مُسکراتے چہروں کے ساتھ ٹولیوں کی شکل میں ایک دُوسرے سے خُوش گپیوں میں مصروف تھے، لیکن بلال بے چین دِکھائی دے رہا تھا۔ وہ باربار اپنے گھر کے مرکزی دروازے کی طرف یوں دیکھ رہا تھا جیسے اس کی آنکھیں شِدّت سے کسی کی آمد کی منتظر ہوں۔ اور وہ کون تھا؟یہ تو وہی بہتر جانتا تھا، لیکن اس کے دوستوں نے اس کی بے چینی کو بھانپ لیا تھا۔

’’کیا بات ہے بلال؟ تُم بہت بے چین نظر آ رہے ہو؟ خیریت  تو ہے نا؟‘‘بلال کے اِرد گرد کھڑے دوستوں میں سے ایک دوست امجدنے اسے بغور دیکھتے ہوئے پوچھا۔

’’ساڑھے پانچ بج چکے ہیں،لیکن ۔ماجد ابھی تک نہیں پہنچا۔‘‘ بلال نے گھڑی میں وقت دیکھتے ہوئے جواب دیا۔

’’ارے ۔۔۔۔وہ یتیم اور غریب لڑکا ۔۔۔۔کیا وہ بھی تمہاری سالگرہ میں آئے گا؟‘‘، نثار حقارت بھرے انداز میں بولا۔

’’کیا ماجد انسان نہیں ہے؟۔۔۔۔اگرتم لوگ میری سالگرہ میں آ سکتے ہو تو کیا وہ میری سالگرہ میں نہیں آسکتا ؟‘‘، بلال کا چہرہ غُصّے سے سُرخ ہوگیا۔ اسے نثار کی بات بہت بُری لگی تھی۔

’’ارے میرا یہ مطلب نہیں تھا۔ میرا مطلب تھا  کہ سالگرہ میں آنے کے لیے تحفے کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔۔۔۔اور ماجدغریب لڑکا ہے۔ اس کے پاس پیسے ہوں گے تو تحفہ خرید کر تمہاری سالگرہ میں آئے گانا۔‘‘،نثار نے فوراً پینترا بدلا۔

’’ہاں بھئی ،نثار ٹھیک ہی تو کہہ رہا ہے‘‘،جمیل نے نثا رکی تائید کی۔

’’ماجد ضرور آئے گا !۔۔۔۔تُم لوگ دیکھ لینا وہ ضرور آئے گا۔‘‘ بلال ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے بولا۔

’’اچھا ۔۔۔۔۔۔۔چلو آج ہم بھی یہ سین مُفت میں دیکھ لیں گے۔‘‘ جمیل نے طنزیہ لہجے میں کہا۔

                ’’اگر وہ تحفے کے بغیر بھی آیا تو۔ ‘‘ امجد نے جان بُوجھ کر جُملہ اُدھورا چھوڑدِیا۔

’’اگر ماجد میرے لیے تحفہ نہ بھی لائے تو کوئی بات نہیں ۔۔۔۔اس کا میری سالگرہ میں آنا ہی کسی تحفے سے کم نہیں۔۔۔۔۔میں اسے وہی عزت دوں گا جو میں نے تم لوگوں کو دی ہے۔دوستی تحفے کی محتاج نہیں ہوتی ۔۔۔۔دوستی تو خلوص کا دُوسرا نام ہے۔تم لوگوں کو میری بات سمجھ میں آئی یا نہیں؟‘‘بلال کا غُصّہ ابھی تک کم نہیں ہُوا تھا۔

’’فضول بحث میں وقت ضائع کرکے محفل کا مزہ خراب نہ کرو یارو۔۔۔۔۔دیکھنے والے کیا کہیں گے؟شبیر نے صلح کی کوشش کی۔

جس وقت وہ اُنھیں خاموش رہنے کی تلقین کررہا تھا عین اسی لمحے ماجد ہاتھ میں ایک خُوب صُورت پیکٹ تھامے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہورہا تھا۔ماجد پر نظر پڑتے ہی بلال کی آنکھیں خُوشی سے چمکنے لگیں۔ اس نے معنیٰ خیزانداز میں اپنے ان دوستوں کی طرف دیکھا جو کچھ دیر پہلے اس کی نظر میں ماجد کو حقیر ثابت کرنے کی کوشش کررہے تھے۔  ماجد کو آتا دیکھ کر ان کے چہروں پر شرمندگی دِکھائی دینے لگی تھی۔ اُنھیں یقین نہیں آرہا تھا کہ حقیقت اتنی جلدان کے سامنے آجائے گی، لیکن بلال کی زبان سے نکلا ہوا یقین بھرا سچ اب ماجد کی صُورت میں ان سب کا مُنھ چِڑا رہا تھا!!!

                ’’بلا ل بھائی!۔۔۔تمھیں میری وجہ سے انتظار کی زحمت اُٹھانا پڑی اس کے لیے میں تہہ دِل سے معذرت چاہتا ہوں۔‘‘ ماجد بلال سے بغل گیر ہوتے ہوئے بولا: ’’میں گھر سے تو وقت پر نکلا تھا لیکن راستے میں ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے دیر ہوگئی۔‘‘

’’ماجد بھائی! کوئی بات نہیں بعض دفعہ دیر میں بھی کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے۔‘‘ بلال نے مُسکراتے ہوئے کہا: ’’اب اگرتمہاری اجازت ہوتومیں کیک کاٹوں؟‘‘

’’ارے ہاں ہا ں بالکل ، بسم اللہ کرو!‘‘ ماجد جواباً مُسکراتے ہوئے بولا۔

جوں ہی بلا ل نے کیک کاٹا، سارا گھر ’’سالگرہ مُبارک ہو!!!‘‘ کے دُعائیہ کلمات سے گُونج اُٹھا۔

تقریب کے اختتام پر مہمان آہستہ آہستہ رُخصت ہونے لگے۔ بلال کے اَبُّواور اَمّی آخری مہمان کو الوداع کہنے کے لیے گھر کے مرکزی دروازے کی طرف جارہے تھے۔ اس دوران بلال نے مہمانوں کے دیے ہوئے تحائف کھولنا شروع کیے۔کسی نے اسے کہانیوں کی کتابوں کاسِیٹ تحفے میں دیا تھا ۔کسی نے لڑاکا طیاروں کا سِیٹ بطورِ تحفہ پیش کیا تھا ۔کسی نے اعلیٰ درجے کے کپڑے دیے تھے۔کسی نے ڈاک ٹکٹ اور البم دی تھی۔کوئی موبائل فون دے گیا تھا ۔کوئی کلر بکس تحفے میں دے گیا تھا ۔کسی پیکٹ میں اسٹیشنری کا سامان تھا۔کسی پیکٹ میں بہت نفیس لِکھائی کرنے والے قلم موجود تھے۔بلال نے ماجد کا دیا ہوا پیکٹ جان بُوجھ کر سب سے آخر میں کھولا۔اس کے اندر خُوش بُودار گفٹ پیپر میں کوئی چیز لپٹی ہُوئی تھی۔اس کے اُوپر ایک لفافہ چسپاں تھا۔ بلال نے بے قراری سے لفافہ کھول کر اندر سے تحریر شدہ کاغذ نکال کر پڑھنا شروع کیا۔ لِکھا تھا:

                ’’میرے پیارے دوست بلال!

                السّلام علیکم !!

تم نے جس دِن مجھے اپنی سالگرہ پر آنے کی دعوت دی تو میں بہت خُوش ہُوا!!۔۔۔لیکن بعد میں یہ سوچ کر پریشان ہوگیا کہ تمھیں تحفے میں کیا چیز دوں گا ؟ میں جس چیز کے متعلق سوچتا تھا وہ یا تو میر ی قوت ِ خرید سے باہر ہوتی تھی یا تمہارے لیے مناسب نہیں لگتی تھی۔سوچتے سوچتے اچانک قرآنِ مجید کی وہ آیات میرے ذہن میں آئیں جن کا مفہوم اور مقصد کچھ یوں تھا کہ یہود ونصارٰی کا سا رنگ ڈھنگ اختیارنہ کرو۔ مجھے یاد آیا کہ ہمارے اسلامیات کے اُستاد نے بھی ہمیں ایک دن یہ بات بتائی تھی کہ سالگرہ منانا یہود ونصارٰی کی فرسودہ رسم ہے، جس کو ہم خواہ مخواہ مناتے ہیں۔ یہ بات اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔  مجھے حیرت ہوئی کہ ہم سالگرہ کیوں مناتے ہیں؟تحفے تحائف دینا تو سنّتِ نبوی ﷺ ہے اور مُسلمان کا دُوسرے مُسلمان کی دعوت کو قبول کرنا بھی سنّت ہے۔اسی لیے میں تمہاری دعوت میں شریک ہُوا اور تحفہ بھی لایا اور یہ تحفہ تمہارے لیے ایسا تحفہ ہے جس کی کوئی قیمت ادا نہیں کرسکتا ۔۔۔۔دُنیا کا بڑے سے بڑا شخص بھی تمھیں اس سے بڑھ کر انمول تحفہ نہیں دے سکتا۔

آج 23مارچ ہے! تمہارا یوم ِ پیدائش !!۔۔۔۔ذرا سوچویہی وہ دِن ہے جب ہمارے مُلک پاکستان کی قراردادمنظور ہوئی تھی، جس کا منشور قُرآنِ مجید تھا۔اس کا مقصد صرف اور صرف یہ تھا کہ برِّصغیر کے مُسلمانوں کے لیے ایک ایسی اسلامی مملکت بن جائے جس میں اسلام کی حکمرانی ہو!!! میرے دوست ! تم دیکھ رہے ہو کہ آج کا دِن ہم سے کس چیز کا مطالبہ کررہا ہے؟آج جب کہ ہمارے مُلک میں مغربی کلچر کی یلغار ہے اور ہماری نئی نسل بغیر سوچے سمجھے اہلِ مغرب کے مذموم مقاصدکی رو میں بہتی چلی جارہی ہے اگر آج ہم نے مِل کر یہ عہد نہ کیا کہ قرآنِ مجید کو مضبوطی سے تھامیں گے تو میرے خیال میں ہمارا ہر نیا آنے والا دِن بد سے بدتر ہوگا ۔ لہٰذا، میں اُمّیدکرتا ہوں کہ تم ہر وہ فرسودہ رسم چھوڑ دو گے جو ہمیں قرآنِ مجید اور اسلامی تعلیمات سے دُور کرتی ہو۔

نیک تمناؤں کے ساتھ

تمہار ا مُخلص دوست

ماجد‘‘

 بلال نے خُوب صُورت کاغذ کو کھولا۔ اُس میں قرآنِ مجید موجود تھا!! دُنیا کا انمول اور عظیم تحفہ!!! بلال نے قرآنِ مجید کو سینے سے لگا لیا!!! بلال کو یوں لگا جیسے اُسے دُنیا کا سب سے قیمتی خزانہ مِل گیا ہو!! اُسے ماجد کے تحفے کے سامنے باقی تحفے بہت حقیر محسوس ہو رہے تھے !!!

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi