تضمینِ رضا


تضمینِ رضا
شعلۂ عشقِ نبی سینے سے باہر نکلا

 عمر بھر مُنہ سے مِرے وصفِ پیمبر نکلا
سازگار ایسا بھلا کس کا مقدر نکلا

’’دم مِرا صاحبِ لَوْلَاک کے در پر نکلا
اب تو ارمان تِرا اے دلِ مضطر نکلا‘‘

ہے مِرے زیرِ نگیں مُلکِ سُخن تا بَہ ابد
میرے قبضے میں ہیں اس خطے کے چاروں سرحد
اپنے ہی ملک سے تعبیر ہے ملکِ سرمد

’’ہے تصرف میں مِرے کشورِ نعتِ احمد
میں بھی کیا اپنے نصیبے کا سکندر نکلا‘‘

روز و شب لختِ جگر آنکھوں سے جاری ہی رہا
رفتہ رفتہ ہوا ہر گوشۂ چشم اک دریا
اب تو وہ قہر کا ہے جوش کہ عالم ڈوبا

’’دیدۂ تر نے کیا نوح کا طوفاں برپا
قطرۂ اشک جو نکلا وہ سمندر نکلا‘‘

بن گئی میری زباں ماہیِ آبِ کوثر
نور کے بکّے دہن سے مِرے نکلے باہر
سایۂ رحمتِ باری نظر آیا سر پر

’’مغفرت صدقہ ہوئی میری زباں پر آ کر
جس گھڑی لب سے مِرے وصفِ پیمبر نکلا‘‘

جلوہ اس مہرِ رسالت کا ہو سیّاروں میں
انبیا ساتھ ہوں جبریل جلوداروں میں
جب کہ اِس شان سے آئیں گے گرفتاروں میں

’’حشر کے روز یہ غل ہوگا گنہ گاروں میں
وہ شفاعت کے لیے شافعِ محشر نکلا‘‘

حُسنِ محبوب کو بخشا ہے عجب وصف و قِماش
شاہد اُس نقشہ کی بے مثلی پہ ہے  خود نقاش
چاند سورج میں رہی برسوں اسی کی کنکاش

’’مدّتوں چرخ نے کی بزمِ دوعالم میں تلاش
مثلِ محبوبِ خدا کوئی نہ سرور نکلا‘‘

جب ہُوا چرخ مِرے ماہِ رسالت کا اسیر
چاند حیرت سے بنا ابروئے نقشِ تصویر
اُن کے آگے نہ چلی ایک بھی لافِ تنویر

’’کیا ضیا ہے رخِ انور کی کہ مہتابِ منیر
چرخِ اَخضر سے جو نکلا تو مکدر نکلا‘‘

ہم گئے قبرِ اُویسِ قَرَنی پر کہ سنیں
عشق میں پھنستی ہیں کس دامِ بلا میں جانیں
قبرِ عاشق سے صدا آئی کہ کیا حال کہیں

’’کبھی زندہ کبھی مُردہ ہوئے ہم الفت میں
شوقِ نظّارا کبھی دل سے نہ باہر نکلا‘‘

کیوں نہ آنکھوں کو مِری کانِ جواہر کہیے
اشکِ خونیں ہیں عقیقِ یمنی کے ٹکڑے
یا یہ ہیں عینِ گہر ریز کے دو فوّارے

’’یادِ دندانِ محمد میں مِری آنکھوں سے
اشک بھی نکلا تو وہ صورتِ گوہر نکلا‘‘

جاگنے میں تو وہ دیدار میسر ہے کسے
نیند آتی نہیں جو خواب میں دولت یہ ملے
تنگ آیا ہوں میں اس بخت کی ناسازی سے

’’ہاے محروم رکھا شہ کی زیارت سے مجھے
دشمنِ جاں مِرا نیرنگِ مقدر نکلا‘‘

خواب میں دولتِ دیدار کے کچھ ساماں تھے
دلِ بے تاب یہ تڑپا نہ رہا بِن جاگے
کیا کہوں طالعِ برگشتہ سے، اللہ سمجھے

’’ہاے محروم رکھا شہ کی زیارت سے مجھے
دشمنِ جاں مرا نیرنگِ مقدر نکلا‘‘

مال و دنیا تو کوئی چیز نہیں ہے سرمد
آنکھ اٹھا کر نہ کبھی دیکھوں سوئے ملکِ ابد
سب پہ الفت کی بدولت ہے غنائے بے حد

’’حبّذا آفریں اے دولتِ عشقِ احمد
میں گدائی کے بھی پردے میں تونگر نکلا‘‘

تشنہ ہوں شربتِ دیدار پلا دیجے مجھے
آئنہ طلعتِ اَنور کا بنا دیجے مجھے
مُرده ہوں آپ مسیحا ہیں، جِلا دیجے مجھے

 

’’وہ جمالِ رخِ پُر نور دکھا دیجے مجھے
دونوں عالم میں نہ جس کا کوئی ہمسر نکلا‘‘

صدقہ اُس غالیۂ مو پہ ہوں ہر حور کے بال
کیا یہ خوشبو ہے کہ نافہ کو ہوا مشک وبال
عطر بیزی میں ہے یہ زلفِ معنبر کو کمال

 

’’وصفِ گیسوئے نبی کا جو بندھا دل میں خیال
شعر جو نکلا دہن سے وہ معطّر نکلا‘‘

رنگ آمیزیِ الفت کا یہ فیضان ہوا
عمر بھر سینہ مِرا گلشنِ فردوس رہا
واہ رے جوشِ اثر بعدِ فنا بھی نہ گیا

 

’’رُخِ رنگینِ محمد کا جو شیدائی تھا
میری تربت پہ بھی نخلِ گُلِ احمر نکلا‘‘

ہے رضاؔ گرچہ سیہ کار سراپا، قاؔسم!
نعتِ احمد ہے مگر اُس کا وظیفہ، قاؔسم!
ایک مصرعہ بھی گر آقا کو خوش آیا، قاؔسم!

 

’’حشر کے روز اٹھے شور، عجب کیا، قاؔسم!
قبر سے دیکھو وہ مدّاحِ پیمبر نکلا‘‘

(’’دبدبۂ سکندری‘‘،رام پور (معراج نمبر)، ۲۵؍ رجب ۱۳۶۴ھ،جمعہ، ۶؍  جولائی 1945ء)

مولانا محمد فضل حسن صابری فاروقی﷫(مالک و مدیر ’’دبدۂ سکندری‘‘، رامپور) کے حقیقی پھوپھا  حضرت مولانا قاسم علی خاں  قاؔسم صابری چشتی قادری رامپوری ﷫ کی ایک غزل پر اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں قادری برکاتی بریلوی﷫ نے تضمین رقم فرمائی تھی، جو  حضرت ابوالظفر مولانا محبوب علی خاں قادری رضوی ﷫ (خطیب و مفتیِ اعظم جامع مسجد پٹیالہ) نےدبدۂ سکندری میں اشاعت کے لیےعطا فرمائی تھی۔ وہ تضمین یہاں ہدیۂ قارئین کی جا رہی  ہے۔ واضح رہے کہ پانچ مصرعوں پر مشتمل ہر بند کے دائیں جانب پہلے تین مصرعے تضمینِ رضا کے ہیں اور بائیں جانب واوَین (Inverted Commas) میں بند دو مصرعے اصل غزل کے ہیں۔

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi