تضمینِ رضا عمر بھر مُنہ سے مِرے وصفِ پیمبر نکلا ’’دم مِرا صاحبِ لَوْلَاک کے در پر نکلا ہے مِرے زیرِ نگیں مُلکِ سُخن تا بَہ ابد ’’ہے تصرف میں مِرے کشورِ نعتِ احمد روز و شب لختِ جگر آنکھوں سے جاری ہی رہا ’’دیدۂ تر نے کیا نوح کا طوفاں برپا بن گئی میری زباں ماہیِ آبِ کوثر ’’مغفرت صدقہ ہوئی میری زباں پر آ کر جلوہ اس مہرِ رسالت کا ہو سیّاروں میں ’’حشر کے روز یہ غل ہوگا گنہ گاروں میں حُسنِ محبوب کو بخشا ہے عجب وصف و قِماش ’’مدّتوں چرخ نے کی بزمِ دوعالم میں تلاش جب ہُوا چرخ مِرے ماہِ رسالت کا اسیر ’’کیا ضیا ہے رخِ انور کی کہ مہتابِ منیر ہم گئے قبرِ اُویسِ قَرَنی پر کہ سنیں ’’کبھی زندہ کبھی مُردہ ہوئے ہم الفت میں کیوں نہ آنکھوں کو مِری کانِ جواہر کہیے ’’یادِ دندانِ محمد میں مِری آنکھوں سے جاگنے میں تو وہ دیدار میسر ہے کسے ’’ہاے محروم رکھا شہ کی زیارت سے مجھے خواب میں دولتِ دیدار کے کچھ ساماں تھے ’’ہاے محروم رکھا شہ کی زیارت سے مجھے مال و دنیا تو کوئی چیز نہیں ہے سرمد ’’حبّذا آفریں اے دولتِ عشقِ احمد تشنہ ہوں شربتِ دیدار پلا دیجے مجھے ’’وہ جمالِ رخِ پُر نور دکھا دیجے مجھے صدقہ اُس غالیۂ مو پہ ہوں ہر حور کے بال ’’وصفِ گیسوئے نبی کا جو بندھا دل میں خیال رنگ آمیزیِ الفت کا یہ فیضان ہوا ’’رُخِ رنگینِ محمد کا جو شیدائی تھا ہے رضاؔ گرچہ سیہ کار سراپا، قاؔسم! ’’حشر کے روز اٹھے شور، عجب کیا، قاؔسم! (’’دبدبۂ سکندری‘‘،رام پور (معراج نمبر)، ۲۵؍ رجب ۱۳۶۴ھ،جمعہ، ۶؍ جولائی 1945ء) مولانا محمد فضل حسن صابری فاروقی(مالک و مدیر ’’دبدۂ سکندری‘‘، رامپور) کے حقیقی پھوپھا حضرت مولانا قاسم علی خاں قاؔسم صابری چشتی قادری رامپوری کی ایک غزل پر اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں قادری برکاتی بریلوی نے تضمین رقم فرمائی تھی، جو حضرت ابوالظفر مولانا محبوب علی خاں قادری رضوی (خطیب و مفتیِ اعظم جامع مسجد پٹیالہ) نےدبدۂ سکندری میں اشاعت کے لیےعطا فرمائی تھی۔ وہ تضمین یہاں ہدیۂ قارئین کی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ پانچ مصرعوں پر مشتمل ہر بند کے دائیں جانب پہلے تین مصرعے تضمینِ رضا کے ہیں اور بائیں جانب واوَین (Inverted Commas) میں بند دو مصرعے اصل غزل کے ہیں۔
شعلۂ عشقِ نبی سینے سے باہر نکلا
سازگار ایسا بھلا کس کا مقدر نکلا
اب تو ارمان تِرا اے دلِ مضطر نکلا‘‘
میرے قبضے میں ہیں اس خطے کے چاروں سرحد
اپنے ہی ملک سے تعبیر ہے ملکِ سرمد
میں بھی کیا اپنے نصیبے کا سکندر نکلا‘‘
رفتہ رفتہ ہوا ہر گوشۂ چشم اک دریا
اب تو وہ قہر کا ہے جوش کہ عالم ڈوبا
قطرۂ اشک جو نکلا وہ سمندر نکلا‘‘
نور کے بکّے دہن سے مِرے نکلے باہر
سایۂ رحمتِ باری نظر آیا سر پر
جس گھڑی لب سے مِرے وصفِ پیمبر نکلا‘‘
انبیا ساتھ ہوں جبریل جلوداروں میں
جب کہ اِس شان سے آئیں گے گرفتاروں میں
وہ شفاعت کے لیے شافعِ محشر نکلا‘‘
شاہد اُس نقشہ کی بے مثلی پہ ہے خود نقاش
چاند سورج میں رہی برسوں اسی کی کنکاش
مثلِ محبوبِ خدا کوئی نہ سرور نکلا‘‘
چاند حیرت سے بنا ابروئے نقشِ تصویر
اُن کے آگے نہ چلی ایک بھی لافِ تنویر
چرخِ اَخضر سے جو نکلا تو مکدر نکلا‘‘
عشق میں پھنستی ہیں کس دامِ بلا میں جانیں
قبرِ عاشق سے صدا آئی کہ کیا حال کہیں
شوقِ نظّارا کبھی دل سے نہ باہر نکلا‘‘
اشکِ خونیں ہیں عقیقِ یمنی کے ٹکڑے
یا یہ ہیں عینِ گہر ریز کے دو فوّارے
اشک بھی نکلا تو وہ صورتِ گوہر نکلا‘‘
نیند آتی نہیں جو خواب میں دولت یہ ملے
تنگ آیا ہوں میں اس بخت کی ناسازی سے
دشمنِ جاں مِرا نیرنگِ مقدر نکلا‘‘
دلِ بے تاب یہ تڑپا نہ رہا بِن جاگے
کیا کہوں طالعِ برگشتہ سے، اللہ سمجھے
دشمنِ جاں مرا نیرنگِ مقدر نکلا‘‘
آنکھ اٹھا کر نہ کبھی دیکھوں سوئے ملکِ ابد
سب پہ الفت کی بدولت ہے غنائے بے حد
میں گدائی کے بھی پردے میں تونگر نکلا‘‘
آئنہ طلعتِ اَنور کا بنا دیجے مجھے
مُرده ہوں آپ مسیحا ہیں، جِلا دیجے مجھے
دونوں عالم میں نہ جس کا کوئی ہمسر نکلا‘‘
کیا یہ خوشبو ہے کہ نافہ کو ہوا مشک وبال
عطر بیزی میں ہے یہ زلفِ معنبر کو کمال
شعر جو نکلا دہن سے وہ معطّر نکلا‘‘
عمر بھر سینہ مِرا گلشنِ فردوس رہا
واہ رے جوشِ اثر بعدِ فنا بھی نہ گیا
میری تربت پہ بھی نخلِ گُلِ احمر نکلا‘‘
نعتِ احمد ہے مگر اُس کا وظیفہ، قاؔسم!
ایک مصرعہ بھی گر آقا کو خوش آیا، قاؔسم!
قبر سے دیکھو وہ مدّاحِ پیمبر نکلا‘‘