تجارت ایک عبادت


تحریر: مفتی سیّد شجاعت علی قادری ﷫

اسلام دین و دنیا کی بھلائی اور فوز وفلاح کا ضامن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مسلمان کو اللہ سے صرف طلبِ آخرت کے ساتھ دنیا کی بھلائی بھی مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ ہر نماز میں یہ دعا مانگی جاتی ہے:

رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرہ: 201)

ترجمہ: اے ہمارے رب ! ہمیں دنیا میں بھی اچھائی عطا فرما اور آخرت میں بھی اور ہمیں عذابِ دوزخ سے بچا۔

یہی وجہ ہے کہ اسلامی تعلیمات میں اگر عبادات و فرائض پر زو ر دیا گیا ہے تو دوسری طرف کسبِ معاش اور رزقِ حلال کی طلب پر بھی زور دیاگیا ہے۔ سورۂ مزّمل شریف  میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَاٰخَرُوۡنَ یَضْرِبُوۡنَ فِی الْاَرْضِ یَبْتَغُوۡنَ مِنۡ فَضْلِ اللہِ ۙ وَ اٰخَرُوۡنَ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ (اْلْمُزَّمِّل: 20)

ترجمہ: اور کچھ لوگ وہ ہیں جو زمین میں تلاشِ رزق کے لئےسفر کرتے ہیں اور کچھ وہ ہیں جو راہِ خدا میں مصروف ِجہاد ہیں۔

گویا کسبِ حلال کے متلاشی لوگوں کو مجاہدین کا ہم پلّہ قرار دیا گیا ہے۔ حضورِ اکرم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:

التاجر الصدوق یحشر یو م القیٰمۃ  مع الصدّیقین و الشھدآء۔

ترجمہ: راست باز تاجر کا حشر قیامت کے دن صدّیقین اور شُہَدَا کے ساتھ ہوگا۔

آج سے سینکڑوں برس قبل حضور خاتم النّبیین ﷺ نے فرمایاتھا:

علیکم بالتجارۃ فان فیھا تسعۃ اعشار الرزق۔(کنزالعمال: ۲/ ۱۹۲)

ترجمہ: تم تجارت کو اختیار کرو کیونکہ وہ رزق کا ۱۰/۹ حصّہ ہے۔

اوریہ ایک حقیقت ہے کہ آج بھی ترقی یافتہ اقوام وہی سمجھی جاتی ہیں جو تجارت میں آگے ہیں۔ خود حضور ﷺنے تجارت کے پیشے کو اپنایا اور اصحابِِ رسول ﷺ میں اکثر  تجارت پیشہ ہی تھے۔

اسلام ایک انقلاب آفریں دین ہے۔ ظہورِ اسلام کے وقت مکّہ کے لوگ تجارت پیشہ تھے اور مکہ بڑی تجارت منڈی تھا۔ قرآن میں ’’رِحْلَۃَ    الشِّتَآءِ وَ الصَّیۡفِ‘‘ (سورۂ قُرَیْش) سے قریشِ مکّہ کے موسمِ سرما اور موسمِ گرما کے تجارتی سفروں کا تذکرہ ہے، لیکن حقیقت یہ ہےکہ قریشِ مکّہ کا تجارتی نظام، جھوٹ، دھوکے، بد عہدی، اور بد ترین استحصال سے عبارت تھا اور یہی استحصالی نظام تجارت کے عنوان سے آج بھی کمزور اقوام پر مسلط ہے۔ سودی تجارت نے ترقی پذیر قوموں کو بے بس کرکے اور ان کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ  کررکھ دیا ہے۔ مدینے کے قریب بسنے والے یہودیوں نے کم و بیش یہی حال اہلِ مدینہ کا کر رکھا تھا۔ یہ اسلام کا مبارک نظامِ تجارت تھا، جس نے ظالمانہ استحصال کاخاتمہ کرکے رکھ دیا۔  سوال غیر مسلموں یا غیر ملکیوں کے استحصال کرنے کا ہی نہیں ہے بلکہ خود ایک ہی ملک میں رہنے والے لوگ تجارتی بے قاعدگیوں اور استحصالی قوانین کے باعث اپنے ہی عوام الناس پر جو مظالم ڈھاتے ہیں اس کی داستان بڑی لرزہ خیز ہے۔ آئیے ذراُن زرّیں  اُصولوں کو دیکھیں جو  اسلام نے تجارت کو عبادت بنانے کے لیے عطا کیے ہیں:

باہمی رضا مندی:

بیچنے والے اور خریدنے والے کے درمیان کسی قسم کا جبر و اکراہ نہ ہو۔ خرید و فروخت باہمی رضا مندی سے ہونا ضروری ہے۔

ارشاد ِخداوندی ہے: لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمْوَالَکُمْ بَیۡنَکُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنۡ تَکُوۡنَ تِجَارَۃً عَنۡ تَرَاضٍ مِّنۡکُمْ  (اَلنِّسَآء: ۲۹)

ترجمہ: اور تم اپنے مالوں کوباطل طریقے سے نہ کھاؤ سوائے اس کے کہ یہ معاملہ تمہاری باہمی رضا مندی سے بطورِ تجارت ہو۔

اِس اُصول کے تحت وہ تمام خریدو فروخت حرام ہوگی جس میں بائع کی طرف سے جبر ہو یا مشتری کی طرف سے۔ کسی حکومت کو بھی یہ اختیار نہیں کہ کسی شخص کی ملکیت کو مالک کی رضا مندی کےبغیر خریدلے۔

آزاد منڈی:

اسلام کارجحان یہی ہے کہ بیچینے والا اور خریدنے والا آزاد ہو۔ یعنی حکومت کی طرف سے اَشیا کی قیمتیں مقرر کرنا پسندیدہ عمل نہیں۔ اِس عمل سے بہت سی برائیاں جنم لیتی ہیں جس کا مشاہدہ ہم روز مرہ کی زندگی میں کرتے ہیں۔ جب اشیا کی قیمتیں حکومت کی طرف سے مقرر ہوتی ہیں تو پہلی مصیبت تو یہ آتی ہے کہ یہ چیزیں بازار سے غائب ہوجاتی ہیں؛ پھر ملاوٹ، کم تولنا اور کم ناپنا عام ہوجاتا ہے۔ حضورِ اکرم ﷺکا ارشاد  ہے:

لا تسعّرو افان اللہ ھو المسعّر(مشکوٰۃ باب الاحتکار)

یعنی طلب اور رسد کا فطری قانون، اشیا  کی قیمتیں خود مقرر کردے گا، نیز یہ کہ مسابقت کا قانون بھی قیمتوں کا تعیّن کرے گا۔ حکومتیں واقعی اگر عوام کی بھلائی چاہتی ہیں تو انہیں اپنے اسٹور کھولنے چاہییں اور جو قیمتیں وہ مقرر کرنا چاہتے ہیں پہلے خود اُن قیمتوں پر فروخت کرکے دکھائیں۔

ذخیرہ اندوزی کی ممانعت:

اسلام کے عادلانہ نظامِ تجارت نے اِحتکار (ذخیرہ اندوزی) کی تمام صورتوں کو ممنوع قرار دیا ہے اور اسلامی ریاست کو اجازت دی گئی ہے کہ لوگوں کو اس عملِ بد سے روکے۔ اِس کا مفہوم یہ ہےکہ ذخیرہ اندوزی کا مفہوم یہ نہیں کہ مالِ تجارت کو کسی گودام میں رکھ دیا جائے۔ پبلک کو کسی چیز کی ضرورت ہو اورتاجر اس چیز کو مارکیٹ میں نہ لائے اور یہ انتظار کرے کہ اس چیز کی قیمت مزید بڑھے تو مارکیٹ میں لائی جائے۔ ایسے لوگوں کے لئے حضور ﷺکا ارشاد ہے:’’من احتکر حکرۃً یُرید ان یغلی بھا علی المسلمین فھو خاطی۔‘‘ (مشکوٰۃ، باب الاحتکار)

ترجمہ: جس تاجر نے ذخیرہ اندوزی اس ارادے سے کی کہ وہ اس طریقے سے مسلمانوں پر اس چیز کی قیمت چڑھائے وہ خطاکار ہے۔

ایک اور حدیث میں فرمایا:

الجالب مرزوق والمحتکر ملعون (مشکوٰۃ، باب الاحتکار)

ترجمہ: سوداگرکورزق ملتا ہے اور ذخیرہ اندوز  ملعون ہے۔

درحقیقت یہ بہت بڑی وعید ہے۔ حضرت علی﷜  نے ایک ذخیرہ اندوز کا تمام غلّہ بطورِ سزا جَلادیا۔ (نیل الاوطار، شوکانی،۲/ ۱۸۱)

ملاوٹ اور دھوکادہی کی ممانعت:

اسلام نے تجارت میں ملاوٹ اور ہر قسم کی دھوکا دہی کی ممانعت کی ہے۔ حضورِ اکرم ﷺکا ارشاد ہے: مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ مِنَّا (مشکوٰۃ شریف)

ترجمہ: جس نے ملاوٹ کی، وہ ہم میں سے نہیں۔

امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق  ﷜نے ایک گوالے کا تمام دودھ پھینک دیا تھا کیوں کہ اُس میں اُس نے پانی ملایاتھا۔ (نیل الاوطار، شوکانی،۲/ ۱۸۱) کسی مال کی کوالٹی تبدیلی کرنا بھی ’’غَشّ‘‘ کی ایک قسم ہے۔

جوا اور سٹّہ بازی کی ممانعت:

جوئے اور سٹّے سے مراد وہی  جُوا نہیں جو نقدرقم کے ذریعے کھیلا جاتا ہے، بلکہ تجارتی کاروبار بھی جوا اور سٹّہ (Gambling & Speculation) ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں تجارتی  جوئے کی چند شکلیں یہ تھیں:

بیعِ ملا سی، بیعِ عریان، بیعِ منابذہ، بیعِ حبل الحبلۃ، بیعِ صفۃ، بیعِ محاقلہ، بیعِ مصراہ  وغیرہ۔

ان سب بیوع کو اسلام نے ممنوع قرار دیا۔ درحقیقت یہ صورتاً تجارت کی اقسام تھیں اور حقیقتاً استحصال کی اعلیٰ قسمیں تھیں۔ لاٹری، سٹّے، ریس کی تمام اقسام اسلامی نقطۂ نگاہ سے ممنوع ہیں۔

علامہ اقبال نے اِس نام نہاد تجارت کے بارے میں فرمایاہے:

ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات

ناپ تول میں کمی کی ممانعت:

اسلام کے قانونِ تجارت نے کم تولنے اور کم ناپنے کو بدترین جرم قرار دیا ہے۔ فرمانِ الہٰی ہے:

وَیۡلٌ لِّلْمُطَفِّفِیۡنَ ۙ﴿۱﴾الَّذِیۡنَ اِذَا اکْتَالُوۡا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوۡنَ  ۫﴿ۖ۲﴾ وَ اِذَا کَالُوۡہُمْ اَوۡ وَّزَنُوۡہُمْ یُخْسِرُوۡنَ ﴿ؕ۳﴾ (المطفّفین: ۱۔۳)

ترجمہ: خرابی ہے گٹھا کردنیے والوں کے لئے، وہ لوگ کہ جب دوسروں سے مال لیں تو پورا لیں اور جب دوسروں کو ناپ کر یا تول کردیں ، کم کر دیں۔

قسمیں کھا کر مال بیچنا:

عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ تاجر جھوٹی قسمیں کھا کر گاہک کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم نے خود یہ چیز اتنے کی خریدی ہے اور آپ سے ہم کوئی نفع نہیں لے رہے ہیں۔ یہ بدترین  طریقہ ہے۔ حضورِ اکرم ﷺکا فرمان ہے : ’’الحلف منفعۃ للسلعۃ ممحقۃ للبرکۃ۔‘‘ (مشکوٰۃ)

ترجمہ:قسم نفع تو بڑھاتی ہے مگرا س سے برکت ختم ہو جاتی ہے۔

 غرض اسلام نے ایک ایسا نظامِ تجارت وضع کیااور تجارت کے ایسے بیّن اصول متعیّن کیے جس میں فروخت کنندہ اور خریدار دونوں کے حقوق و فوائد کا خیال رکھا گیا ہے اور ان اُصولوں کے مطابق کی گئی تجارت کو باعثِ برکت اور عبادت قرار دیا گیا ہے۔

(مقالاتِ ابنِ مسعود مفتی سیّد شجاعت علی قادری، ص:269تا 273)

 

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi