خواتین کا عالمی دن


تحریر: محمد یعقوب نقشبندی )اٹلی(

دین اسلام کی بیٹی تو اللہ کے دیے حقوق پہ راضی ہے، باقی تیری مرضی۔

خواتین کے عالمی دن کی کہانی 1907ء سے شروع ہوتی ہے۔

یعنی سو سال پہلے......مگر اسلام ساڑھے چودہ سو سال پہلے سارے اصول وضابطے مہیا کردیتا ہے۔

اسلام پر پہلا اعتراض ہے، مرد کو طاقت ور کہا گیا۔

جی جی بالکل، طاقتور کہا نہیں گیا بلکہ طاقتور ہے، اس لئے کہ تم نے چوکیدار رکھنا ہو تو کمزور چوکیدار تم بھی نہیں رکھتے۔ اگر کمزور ہو تو گن یا پستول کے ساتھ اس کی قوت کو بڑھا دیتے ہو۔

اللہ تعالیٰ بھی قرآن میں فرماتا ہے:

اَلرِّجَالُ قَوَّامُوۡنَ عَلَی النِّسَآءِ

ترجمہ: ’’مرد عورتوں پر قوّام(محافظ) ہیں۔‘‘

تو محافظ کا کام گھر کی حفاظت کرنا ہے طاقت اور قوت سے۔

’’قَوَّام‘‘ کا ایک معنیٰ ستون بھی کیا گیا ہے، کیوں کہ قوام کھڑے ہونے کو بھی کہتے ہیں۔

اگر مرد کو ستون کہیں تو گھر کی عمارت کو سہارا دینے والا تصور کیا جائے۔

مرد کے قوام ہونے کا تعلق حقوق سے نہیں فرائض سے ہے، کیوں کہ حقوق مانگے جاتے ہیں  اور فرائض ادا کیے جاتے ہیں... یعنی اس کے فرائض میں شامل ہے کہ اپنے گھر کی دیکھ بھال کرے، اُس کی حفاظت کرے، ہر طرح کی نقب زنی سے اپنے گھر کو محفوظ کرے۔

دنیا میں اس وقت ہر پانچواں شخص مسلمان ہے۔

اور جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں بہت سے مختلف کلچرز کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں، کہیں پر اسلام کی تعلیمات نافذ ہیں، کہیں پر نہیں۔

مگر اسلام کیا کہتا ہے...  اسلام عورت کو برابری کی بنیاد پر مخاطب کرتا ہے۔

اِنَّ الْمُسْلِمِیۡنَ وَ الْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِیۡنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ

(اَلْاَحْزَاب: ۳۵)

    ترجمہ: ’’بے شک مسلمان  مرد اور مسلمان عورتیں اور ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں۔‘‘

ماں کے لیے دین کہتا ہے:

وَوَصَّیۡنَا الْاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِۚ  حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَہۡنًا عَلٰی وَہۡنٍ (لُقْمَان: ۱۴)

ترجمہ: ’’اور ہم نے آدمی کو اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید فرمائی۔ اُس کی ماں نے اُسے پیٹ میں رکھا کمزوری پر کمزوری جھیلتی ہوئی۔‘‘

عورت کے معاشی حقوق:

اسلام نے عورت کو جائیداد رکھنے اور اُس کی خریدوفروخت کرنے کا حق آج سے چودہ سو سال پہلے دیا۔

جب کہ یہی حق برطانیہ نے 1870 عیسوی میں آ  کر دیا۔

اسلام معاشی ذمّے داریاں مرد کے سپرد کرتا ہے مگر اس کے باوجود عورت کے کمانے یا کام کرنے کی ممانعت نہیں کرتا۔

نکاح و شادی پر ہی ایک نظر ڈال لیجیے:

مرد پابند ہے کہ عورت کو مکان مہیا کرے، اُس کے کھانے پینے کا انتظام کرے، نکاح سے پہلے حق مہر عورت کی ڈیمانڈ کے مطابق ادا کرے۔

وَاٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِہِنَّ نِحْلَۃًؕ فَاِنۡ طِبْنَ لَکُمْ عَنۡ شَیۡءٍ مِّنْہُ نَفْسًا فَکُلُوۡہُ ہَنِیۡٓــًٔا مَّرِیۡٓــًٔا﴿۴﴾ (اَلنِّسَآء: ۴)

ترجمہ: ’’اور عورتوں کو اُن کے مہر خوشی سے دو پھر اگر وہ خوش دلی سے مہر میں سے تمہیں کچھ دے دیں(معاف کر دیں ) تو اُسے پاکیزہ، خوش گوار (سمجھ کر) کھاؤ۔‘‘

ہاں ایک خرابی ہے مسلمان معاشرے پر دیگر ثقافتوں کے اثرات کچھ زیادہ ہی ہیں۔

مثلًا لڑکے والے اپنی حیثیت کے مطابق مہر تو دیتے نہیں البتہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر جہیز کا مطالبہ یا امید ضرور رکھتے ہیں۔

مگر اسلام تو طلاق دے دینے کے بعد بھی عدّت کے پورے دورانیے کے نان نفقہ کا ذمّےدار شوہر کو ہی بناتا ہے۔

عورت کے معاشرتی حقوق:

عورت کو بحیثیت بیٹی، بیوی، ماں، بہن اسلام کی نظر سے دیکھیے کہ آپ کو اسلام کے حُسن کا اندازہ ہو سکے۔

اللہ تعالیٰ تو اُن بدبختوں سے کلام بھی نہیں کرے گا، اُن کا جرم بھی نہیں پوچھے گا جنھوں نے اپنی بیٹیوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کی، بلکہ اللہ کا سوال بیٹیوں سے ہوگا:

وَ اِذَا الْمَوْءٗدَۃُ سُئِلَتْ ۪ۙ﴿۸﴾ بِاَیِّ ذَنۡۢبٍ قُتِلَتْۚ﴿۹﴾ (اَلتَّکْوِیر: ۸ تا ۹)

ترجمہ: ’’اور جب زندہ دفن کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گا:کس خطا کی کی وجہ سے اُسے قتل کیا گیا؟‘‘

ہر چیز کا درست اور غلط استعمال بھی ہوتا ہے، جس طرح جدید سائنس نے بہت کچھ اچھا دیا، مگر وہاں پر حمل گرانے کے آسان رستے بھی فراہم کر دیے۔

زمانۂ جاہلیت میں بیٹیوں کو قتل کیا جاتا تھا، زمانہ جدید میں ماں کے پیٹ میں ہی اُس کو موت دے دی جاتی ہے۔

وَ لَا تَقْتُلُوۡۤا اَوْلَادَکُمْ خَشْیَۃَ اِمْلَاقٍؕ نَحْنُ نَرْزُقُہُمْ وَ اِیَّاکُمۡؕ(بنی اسرائیل: ۸ تا ۹)

ترجمہ: ’’اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں، اُن کو بھی رزق دیں گے۔‘‘

حالاں کہ ہمیں تو دین نہیں سکھایا تھا۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

’’جس شخص نے اپنی دو بیٹیوں کی اچھی طرح پرورش کی اور ان کا خیال رکھا، محبت کے ساتھ اُنہیں پالا؛ وہ شخص جنّت میں میرے ساتھ اس طرح ہوگا۔‘‘ ( آپ نے اپنی دو انگلیوں کو کھڑا کر کے بتایا)

دوسری حدیث کا مفہوم  کچھ اِس طرح ہے:

کل قیامت کے دن ایک بیٹی اپنے باپ کے لیے اللہ سے جھگڑ رہی ہوگی کہ اللہ جب تک میرا باپ جنّت میں نہیں جائے گا میں بھی جنّت میں داخل نہیں ہو ں گی اس نے مجھے بہت محبت سے پالا۔

عورت بحیثیتِ زوجہ:

حضرت انس ﷜ روایت کرتے ہیں آپ ﷺنے فرمایا:

جس نے نکاح کرلیا اُس نے اپنا آدھا دین محفوظ کر لیا۔

اور قران میں اللہ فرماتا ہے:

وَعَاشِرُوۡہُنَّ بِالْمَعْرُوۡفِۚ فَاِنۡ کَرِہۡتُمُوۡہُنَّ فَعَسٰۤی اَنۡ تَکْرَہُوۡا شَیْـًٔا وَّیَجْعَلَ اللہُ فِیۡہِ خَیۡرًا کَثِیۡرًا(اَلنِّسَآء: ۱۹)

ترجمہ: اور اُن کے ساتھ اچھے طریقے سے گزر بسر کرو پھر اگر تمہیں وہ ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں ناپسند ہو اور اللہ  اس میں بہت بھلائی رکھ دے۔

قرآن تو برابری ہی سکھاتا ہے:

اللہ تعالیٰ پہلے مردوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیتا ہے:

قُلۡ لِّلْمُؤْمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنْ اَبْصَارِہِمْ (اَلنُّوْر:۳۰)

ترجمہ: مسلمان مَردوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں۔

پھر عورتوں کو حکم دیا جاتا ہے:

وَ قُلۡ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ (اَلنُّوْر:۳۱)

ترجمہ: اور مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں۔

ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنۡتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّؕ(اَلْبَقَرَۃ:۱۸۷)

ترجمہ: وہ تمہاری لباس ہیں اور تم اُن کے لباس۔

اب لباس کا کام ہے:

عیب چھپاتا ہے، حسن نکھارتا ہے، سردی گرمی سے بچاتا ہے، باوقار بناتا ہے۔

مرد و عورت بھی ایک دوسرے کے لیے اسی کی مانند ہیں۔

علمی میدان میں اسلام کی تعلیمات کو دیکھنا ہے تو صرف سیّدہ عائشہ صدّیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو ہی دیکھ لیا جائے کہ جن سے 22 سو سے زیادہ احادیث مروی ہیں۔

سیاسی میدان میں بھی خواتین کے حقوق ہیں:

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا جَآءَکَ الْمُؤْمِنٰتُ...... فَبَایِعْہُنَّ(اَلْمُمْتَحِنَۃ:۱۸۷)

ترجمہ: اے نبی ﷺ! جب تمہارے پاس مومن عورتیں بیعت کرنے کے لئے آئیں...............تو اُن سے بیعت لے لو۔

الغرض میدان کوئی بھی ہو اسلام میں خواتین کے حقوق کو بہت خوبصورتی سے بیان فرما دیا ہے، ضرورت صرف عمل کرنے کی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے مرد کو معاشی منتظم بنایا، عورت کو گھریلو منتظم....

نان نفقہ مرد کے ذمّے،  گھر اور بچوں کی تربیت عورت کے ذمّے،

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اسلام کا چہرہ واضح کریں۔

 

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi