امام اعظم اورتبحر فی الحدیث


تحریر: حضرت علامہ محمد رمضان تونسوؔی

امام الآئمہ، سراج الامہ،سید الفقہاء، سندالمحدثین،حضرت امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت﷜ کے اوصافِ جمیلہ  علم و عمل، زہد و تقویٰ، اورفہم وفراست کی طرح، آپ کی حدیث دانی بھی، اہل ایمان میں مسلم اور ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے۔ لیکن اس کے باوجود، کچھ کم علم اور متعصب افراد نے امام صاحب پر ”قلیل فی الحدیث“اور ”یتیم فی الحدیث“ وغیرہ ہونے کا الزام لگایا ہے، جو خالص حسد و عناد پر مبنی ہے۔اس مختصر مضمون میں آپ کی ’’شانِ محدثیت‘‘  کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ آپ صرف محدث ہی نہیں بلکہ حافظ الحدیث اور صاحبِ ”جرح و تعدیل“ ہونے کے ساتھ ساتھ ’’امام فی الحدیث‘‘ کےاعلیٰ و ارفع مقام پر فائز تھے۔بعد میں فنِ حدیث میں بہار آپ کی کاوشوں کاثمر ہے، بلکہ اکثر محدثینِ کرام امام اعظم ﷜ کےعلمِ حدیث میں فیض یافتہ اور خوشہ چین ہیں۔کون سا محدث امام اعظم ابوحنیفہ اور ان کےشاگرد کاشاگردہے، یہ ایک مستقل اور الگ موضوع ہے۔امام اعظم ﷜ کی اولین درس گاہ ”کوفہ“ہے جس کے سر پرست حضرت علی ﷜اور صدرمدرس حضرت عبداللہ بن مسعود﷜ تھے۔امام صاحب کی تحصیلِ حدیث کی دوسری بڑی درس گاہ ”بصرہ“ ہے جو حضرت حسن بصری﷜کے فیضِ علم سے مالا مال تھا۔آپ کئی صحابۂ کرام کی زیارت سے مشرف ہوئے، اور ان سے احادیث روایت کیں۔ صحابی رسول حضرت عبداللہ بن الحارث سے ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی اور ان کی زبان مبارک سے یہ ارشاد بھی سنا: من تفقہ فی دین اللّٰہ کفاہ اللّٰہ ھَمَّہ ورزقہ من حیث لا یحتسب۔ (دفاع امام ابوحنیفہ، ص66) آپ﷜ اکیس(21) صحابۂ کرام کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ (مناقب الامام الاعظم،ج،1 ص19)اس لئے جن احادیث سےآپ نے مسائل مستنبط فرمائے ہیں، بعد میں رُواۃ کی وجہ سے ان میں ضعف آپ کو نقصان نہیں دیتا، کیونکہ آپ کےزمانےمیں وہ حدیث آپ تک صحیح طریقے سےپہنچی تھی۔ مؤرخین عرب و عجم اس بات پر متفق ہیں کہ امام اعظم ابوحنیفہ ﷜  ہی پہلے شخص ہیں جنہوں نےفقہی ابواب کی ترتیب پرعلم حدیث میں سب سےپہلے ’’کتاب الآثار‘‘ جیسی بیش بہا تصنیف فرماکر بعدکےآنے والے محدثین کےلئے ترتیب و تدوین کاایک عمدہ نمونہ پیش کیا۔امام صدرالآئمہ مکی فرماتے ہیں:

’’وانتخب  ابوحنیفۃ الآثار من اربعین الف حدیث‘‘۔ (مناقب ملا علی قاری، ج2، ص774) چالیس ہزار احادیث سےکتاب الآثار کا انتخاب کیا۔علامہ خطیب بغدادی اپنی سند کےساتھ محدث بشرۃ بن موسیٰ   وہ اپنے استاد امام فی الحدیث  ابو عبدالرحمن المقری سے انہوں نے امام اعظم﷜ سےنو سو حدیثیں سنی تھیں وہ فرماتے ہیں: ’’وکان اذا حدث عن ابی حنیفۃ قال! حدثنا شاھنشاہ‘‘۔ جس نےپڑھا ہےوہ فرماتے ہیں میں نےان سےحدیث لی ہے،جو  علم ِحدیث میں’’شہنشاہ ‘‘ہے۔ (تاریخ بغداد، ج3، ص345)

حافظ الحدیث امام مسعر بن کدام المتوفیٰ 155ھ فرماتے ہیں: طلبت مع ابی حنیفۃ الحدیث فغلبنا ، وطلبنا معہ الفقہ فجاء منہ ماترون‘‘۔ ہم نےامام اعظم کے ساتھ حدیث کی تحصیل کی وہ ہم  پر غالب رہے، اور ہم نےان کےساتھ علم الفقہ حاصل کیا،اور فقہ میں جوان کامقام ہے، وہ تمھارے سامنے ہے۔ (مناقب ابی حنیفۃ، ص،127) آپ﷜ کی خدمت فی الحدیث اور ان سےمسائل کااستخراج دین کی ایسی اولین خدمت ہے، کہ امام عبداللہ داؤد الخریسی محدث﷫ (م213ھ) کےمطابق ’’یجب علی اھل الاسلام ان یدعوا للہ لابی حنیفۃ فی صلواتھم وقال وذکر حفظہ علیھم السنن والفقہ‘‘۔ یعنی مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اپنی نمازوں  میں امام ابوحنیفہ کےلئے دعاکریں اس لئے کہ انہوں نے حدیث و فقہ کومسلمانوں محفوظ کردیا۔ (تاریخ بغداد، ج13، ص،246)

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi