وقت کی اہم ضرورت


بسم اللہ الرحمٰن الرحیمo

حامدا و مصلیا و مسلماo

علامہ ابو عاتسکہ ازبار احمد امجدی ازہری(انڈیا)

مدارسِ اسلامیہ کے طلبہ کا دورِ حاضر میں عصری علوم کی طرف رجحان کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، تقریباً ہر ادارے کے ذمّے داران و مدرسین جانتے ہیں کہ عصری علوم کی طرف توجہ دینے والے مدارسِ اسلامیہ کے طلبہ دو گروہ میں بٹےہوئے ہیں: ایک قسم کے بیشتر  طلبہ مدرسے کی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم ہائی اسکول، انٹر اور بی اے وغیرہ کی تیاری کرکے امتحان دیتے ہیں، دوسری قسم فارغین کی ہے؛ ان کی ایک اچھی تعداد فارغ ہونے کے بعد عصری اداروں کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور افسوس یہ ہے کہ دونوں صورتوں میں طلبہ ہی کا نقصان ہوتاہے، پہلی قسم کے اکثر طلبہ کا مقصد صرف تھوڑی بہت تیاری کرکے کسی طرح ہائی اسکول، انٹر بی اے وغیرہ پاس کرلینا ہوتا ہے، جس کااچھا نتیجہ عملی میدان میں کالعدم یا بہت ہی کم ہوتا ہے، جو خود طلبہ اور ملّتِ اسلامیہ دونوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتاہے، اور اس عصری تعلیم کی تگ ودو میں ان طلبہ کی دینی تعلیم جو متاثرہوتی ہے وہ الگ! دوسری قسم کے طلبہ فارغ ہونے کےبعد ان کی عمر عموماً چوبیس(۲۴) سے اٹھائیس (۲۸) کے درمیان ہوتی ہے، اب یہ عصری علوم کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، بی اے، ایم اے ، ایم فِل اور پی ایچ ڈی مکمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کتنے طلبہ عمر دراز وغیرہ ہونے کی وجہ سے اپنے مقصد تک پہنچنے سے پہلے ہی تعلیم سے رشتہ توڑلیتے ہیں، اور جو افراد تعلیم کی تکمیل کرتے ہیں،  تکمیل تک ان کی عمر تینتیس (۳۳) سے سینتیس (۳۷) کے درمیان ہوجاتی ہے اور رزلٹ خراب ہوا تو سینتیس  (۳۷) سے چالیس (۴۰) کے درمیان عمر ہوجاتی ہے، اس طرح سے اس قسم کے طلبہ کی تقریباً دو تہائی زندگی تعلیم حاصل کرنے میں ہی گزرجاتی ہے! اب اس کے بعد وہ میدانِ عمل میں اترنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کوشش، عملی زندگی اورا س زندگی کے کچھ اچھے نتائج ملتے ملتے اپنی زندگی کے آخری کنارے پر آجاتے ہیں، زندگی کے اس مرحلے پر پہنچ چکے ہوتے ہیں جب وہ تجربات کی روشنی میں بہت کچھ کرسکتے ہیں مگرکرنے کی وہ قوت، وہ حوصلہ اور وہ جزبہ نہیں رہ جاتا جو اس کے اندرعصری علوم کی طرف متوجہ ہونے کے وقت ہوتا ہے، نیز اس قسم کے افراد کا داخلہ صرف دو چند مخصوص شعبہ جات جیسے عربی، اردو اور تاریخ وغیرہ ہی میں ہوسکتاہے اور باقی عصری شعبہ جات  ان کے اور قوم و ملّت کے مستقبل سنوارنے کے لیے بند ہوتے ہیں: اس لیے دورِ حاضر میں لڑکےاور لڑکیوں کے لیے یک ساں ایسے مدارسِ اسلامیہ کی سخت ضرورت ہے جن میں اکثر دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کا یوں انتظام کیا جائے کہ طلبہ عالمیت کے کورس کے ساتھ ساتھ انٹر میڈیٹ کا کورس بھی مکمل کرلیں۔ اس کے بعدجو طلبہ مزید دینی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں انہیں فقہ، حدیث، وغیرہ کسی فن میں تخصص کراکے فضلیت کی دستار دے دی جائے، اس طرح سے فارغ ہونے کے بعد یہ کسی ایک فن میں ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ عصری علوم سے بھی آراستہ ہونے کی وجہ سے  معتدبہ دینی، ملی وقومی خدمات انجام دے سکیں گے اور جو طلبہ مزید عصری تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ عصری اداروں کی طرف رجوع کرکے بَآسانی  داخلہ لے سکتے ہیں اور ہائی لیویل کی تعلیم کی تکمیل کرکے اپنے اہل وعیال  اور قوم و ملّت کو خاطر خواہ عصری و دینی فائدہ پہنچانے کی سعی مسعود کرسکیں گے۔

دینی وعصری علوم کی ہم آہنگی، فوائد:

انٹر تک دینی و عصری تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان کے پاس ہر دو کی صرف مارک شیٹ ہی نہیں بلکہ مارک شیٹ کے ساتھ ہردو میدان کی کافی حد تک تعلیمی لیاقت بھی ہوگی (۲) عالمیت کا کورس کرنے کے بعد دینی وعصری تعلیم کا ہر دروازہ کھلا رہے گا، وہ مفتی، محدث اور ادیب وغیرہ بن سکتا ہے، اور اگر چاہے تو ڈاکٹر، پروفیسر، اسپیکر، ڈی ایم ، بزنس مین، آئی اے ایس، پی سی ایس،  جج اورلائر وغیرہ جیسی ہر طرح کی اعلیٰ پوسٹ بھی حاصل کرسکتاہے(۳) اس طریقۂ  کار پر تعلیم حاصل کرنے والا مسلم بچہ اگر صرف انٹرتک ہی پڑھائی کرتاہے یامزید دینی تعلیم حاصل کرتاہے: تو خالص عالم دین ہی نہیں ہوگا بلکہ بقدرِ ضرورت عصری علوم: انگلش، میتھ، سائنس اور ہندی وغیرہ سے بھی آراستہ ہوگا، جن کے ذریعے وہ بَآسانی  اپنی دنیوی زندگی کافی حد تک خود ہی ہینڈل کرسکے گا (۴) اس طرح سے تعلیم حاصل کرکے ایک مسلم بچہ جب کسی اعلیٰ دنیوی پوسٹ پر پہنچے گا، تو یاد رہے کہ  وہ خالص دنیا دار نہیں ہوگا اور نہ ہی قرآن، حدیث، عربی، اردو اور دینی مسائل سے بالکل اپاہج ہوگا بلکہ ان شاء اللہ ان ساری چیزوں کا علم رکھنے کی وجہ سے مخلص عالم دین بھی رہےگا (۵) اس طرح کے مسلم افراد جب دنیوی اعلیٰ پوسٹ پر کثرت سے ہوں گے، تو حکومت پر دباؤ ہوگا اور کوئی بات منوانے میں آسانی ہوگی؛ نیز، اگر اسلام یا اس کے ماننے والوں یا اس کے کسی قانون پر اعتراض ہوتا ہے،تو یہ لوگ فکری و قانونی جواب وقت کی مناسبت سے بہتر طریقے سے دے سکیں گے، یہ کام خالص علما یا خالص دنیوی تعلیم والوں سے ہونا بہت مشکل امر ہے (۶) ان شآء اللہ یہ افراد دنیوی بڑی پوسٹ حاصل کرنےکے بعد بھی خالص علما کے ساتھ شانہ بَہ شانہ  رہ کر اسلام و سنیت کی نشر واشاعت کے لیے اپنے اپنے میدان میں پیش پیش رہیں گے(۷) اس طرح کے افراد زیادہ ہوں گے، تو غیروں میں بھی مسلمانوں کی شخصیت مسلّم ہوگی اور مسلم قوم کا معیاردین و دنیا کے ساتھ بلند و بالا  ہوگا (۸) ایک مسلم ان شآء اللہ دین و دنیا کے ساتھ کم عمری ہی میں اعلیٰ پوسٹ حاصل کرلے گا اور اسے قوم وملّت کی خدمت کرنے کازیادہ سے زیادہ موقع مل سکے گا۔

دینی وعصری علوم کی ہم آہنگی، نقصانات:

مسئلہ1: اس طرز کی پڑھائی پر دینی و عصری علوم دونوں متاثر ہوسکتے ہیں اور ان دونوں میں کمی آسکتی ہے ،اس طرح مقصد فوت ہوسکتاہے۔

حل: یقیناً خالص دینی یا عصری علوم حاصل کرنے کے بالمقابل اس صورت میں دینی و عصری دونوں تعلیم متاثرہوسکتی ہے اور نقصان ہوسکتاہے، مگر اساتذہ مخلص و جفاکش اور طلبہ مخلص ہونے کے ساتھ محنتی بھی ہوں تو یہ نقصان بھی نہیں ہوگا، اور اگر نقصان ہوا بھی تو یہ نقصان بہت کم ہوگا، جسے دینی تعلیم والے تخصص کرکے اور عصری علوم والے مزید عصری اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے بَآسانی دور کرسکتے ہیں۔

مسئلہ2: دینی و عصری علوم پڑھانے کی وجہ سے گھنٹیاں بہت زیادہ ہوں گی، بچے پورے دن پڑھنے کی وجہ سے تھکے ہوں گے اور وہ اپنے ہوم ورک صحیح سے نہیں کر پائیں گے۔

حل: خالص اسلامی مدرسہ میں بچے سات گھنٹیاں کرتے ہیں ان دونوں علوم کے لیے ان سات گھنٹیوں پر صرف ایک گھنٹی کا اضافہ کرکے آٹھ گھنٹی کردی جائے، پانچ گھنٹی دینیات اور تین گھنٹی عصری ہوں، جو کتابیں  زیادہ اہم ہوں، ان کی گھنٹیاں مسلسل رہیں اور جو زیادہ اہم نہ ہوں، ان کی گھنٹیاں ہفتہ میں تین دن یا دو ہی دن رہیں، اس طرح سے طلبہ پر بار بھی نہ ہوگا، بہت زیادہ تھکن کابھی احساس نہیں ہوگا اور وہ محنت و لگن کے ساتھ اپنا ہوم ورک بھی کرلیں گے۔

مسئلہ3: اس طرز پر پڑھانے کی وجہ سے انہیں ہر سال چار چار (بار) امتحان دینا ہوگا اور یہ طلبہ کے لیے کافی مشکل و پریشانی کاسبب بن سکتاہے۔

حل: پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر ہم چاہیں گے تو نائنتھ تک ہر سال صرف دو مرتبہ ہی امتحان دینا پڑےگا، وہ اس طرح سے کہ دینی وعصری علوم کا شش ماہی و سالانہ امتحان ایک ساتھ ہوا کرے گا؛ البتہ ہائی اسکول اور انٹر کے امتحان کی جب باری آئے گی، تو اس وقت ہرسال چار (بار) امتحان دینا پڑےگا، مگر مدارس میں پڑھنےاور پڑھانےوالے اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ بہت سارے مدارس میں طلبہ چار چار امتحان: سہ ماہی، ششماہی، نو ماہی اور سالانہ امتحان دیتے ہیں اور ان کی جفاکش ذات پر کچھ اثر  نہیں پڑتا، اگر تگ ودو کی جائے، تو ان شآء اللہ اس طرز پر بھی چارچار امتحان ہونے کے باوجود ان کی ذات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

مسئلہ 4: اس طرح مدارس میں ہائی اسکول اور انٹر کے امتحان کے ذریعے مارک شیٹ حاصل کرنے سے کیا فائدہ ہوگا؟ ! یہ تو عالم و فاضل کرکے مارک شیٹ حاصل کرنے کی طرح ہوگا، جس کی گورنمنٹ کی نظر میں  کوئی خاص اہمیت نہیں ہوگی۔

حل: ہائی اسکول اور انٹر کا امتحان مدرسے میں دلا کر اس کی مارک شیٹ نہ دی جائے بلکہ کسی خالص عصری کالج سے معاملہ کراکر وہاں امتحان دلایا جائے اس طرح سے ان طلبہ کی طرف سے ہائی اسکول اور انٹر کی حاصل کی گئی مارک شیٹ کی اہمیت وافادیت وہی رہے گی جو ایک خالص عصری کالج کے طلبہ  کی مارک شیٹ کی ہوتی ہے۔

مسئلہ 5: جو لڑکے عالمیت اور انٹر میڈیٹ کرکے خالص عصری یونیورسٹیز کا رخ کریں گے عموماً ان یونیو رسٹیز کا ماحول خراب ہونے کی وجہ سے طلبہ کے بے راہ رو ہونے کا بہت زیادہ خطرہ  ہے، یہ چیز بھی اس طرح کے مدرسے کے مقاصد پر پانی پھیر دے گی۔

حل:یہ بات بجا ہے مگر آج خالص مدارس میں پڑھنے والے طلبہ بھی کثیر تعداد میں خالص عصری یونیورسٹیز کی طرف رخ کررہےہیں۔ ان کی توجہ کی حالت یہ ہوچکی ہے کہ اب ہم انہیں چاہ کربھی نہیں روک سکتے، اس لیے اب اس کا رونا بے کار ہے۔ آہ وفغاں کرنے کے بجائے ضرورت اس بات کی ہے کہ اگرہم چاہتے ہیں کہ ہمارے طلبہ کو بگڑنے کے اسباب کم ملیں اور وہ اعلیٰ دنیوی تعلیم بھی حاصل کرلیں، تو علما، پیرانِ کرام اور قومِ مسلم کو اپنے بچوں کے لیے ان خالص عصری  یونیورسٹیز کا بدل پیش کرنا ہوگا اورپیرِ طریقت خانقاہِ  برکاتیہ کے پھول امینِ ملّت دَامَ ظِلُّہٗ وَ کَرَمُہٗ کے نقشِ قدم پر چل کر ان کے قائم کردہ البرکات انسٹیٹیوٹ، علی گڑھ  کی طرح ہر ہر ضلع یا کم ازکم ہر ہر اسٹیٹ میں انتظام کرنا ہوگا بلکہ اگر ممکن ہو تو اس سے بڑھ کر بھی انتظام وانصرام کیاجائے۔

مسئلہ 6: اس صورت میں بہت ممکن ہے کہ ہمارے طلبہ ہائی لیویل کے عصری علوم حاصل کرنے کے لیے خالص عصری یونیورسٹیزہی کا رخ کرلیں، تو علمائے دین کی تعداد پر اثر پڑے گا اور یہ بھی اس طرح کے مدارس کے مقاصد پر ایک طرح سے قدغن ہوگا، جو امّتِ مسلمہ کے لیے مضر ہوگا۔

حل: اولاً: اگر عمدہ تربیت کی جائے، دینی و عصری ہر دو علوم کے فوائد و ضروریات بتائی جائیں، تو ان شآء اللہ ایسا نہیں ہوگا، اور جس طرح طلبہ یونیورسٹیز کارخ کریں گے اسی طرح ان شآء اللہ فقہ و حدیث وغیرہ  میں تخصص کرنے کی طرف بھی متوجہ ہوں گے، ثانیاً: اگرایسا برسبیلِ تنزل ہوتا ہے، تواس میں کوئی حرج نہیں، کیوں کہ دوسرے مدارسِ اسلامیہ خالص علمائے دین تیار کررہے ہیں ، جن سے ان شاء اللہ تعداد کی کمی کامداوا ہوجائے گا۔

ایک شبہ:

اس طرزِ تعلیم کو دیکھ کر بہت سارے مخلصین  ومحبین کے ذہن میں یہ بات آسکتی ہے اور تامل ہوسکتا ہے کہ اس طرح کے مدرسہ میں زکوٰۃ و صدقاتِ واجبہ دینا جائز ہوگا یا نہیں، کیوں کہ اس میں دینی تعلیم کےساتھ عصری تعلیم بھی دی جائے گی۔

شبہ کا ازالہ: محبین و مخلصین کاتامل سر آنکھوں پر ہے، مگر میں بتانا چاہوں گا کہ اس طرح کے مدرسے میں زکوٰۃ و صدقاتِ واجبہ دینا اس وقت نا جائز ہے، جب اس میں اکثر تعلیم عصری تعلیم ہو، مگر یہاں اس مدرسے میں ایسا نہیں، کیوں کہ اس میں اکثر تعلیم دینی تعلیم اور یہی اصل کی حیثیت رکھتی ہے اور عصری تعلیم دینی تعلیم سے کم ہے اور وہ فرع کی حیثیت رکھتی ہے؛ لہٰذا، اس طرح کے مدرسے میں زکوٰۃ و صدقاتِ واجبہ لگانا جائز و درست ہے۔

تنبیہات:

(۱) گھر کے ذمّے داران پر لازم ہے کہ بچوں کے کلاس اورہوم ورک کے اوقات حتی الامکان انہیں گھریلو اور دیگر کاموں سے فارغ رکھیں تاکہ بچے اپنی پڑھائی عمدہ طریقے سے کرکے اپنے اور والدین کے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرسکیں، اللہ پر اعتماد پھر قربانی، صبراور جہد مسلسل ہی ایک مسلم کی کامیابی کااہم رازہے، جس کا آج قوم مسلم میں عموماً فقدان نظرآتاہے۔ کامیاب ہونا ہے، تو قربانی دینی پڑے گی۔

(۲) اس طریقۂ کارکو اختیار کرکے صرف لڑکے ہی نہیں بلکہ لڑکیاں بھی تعلیم حاصل کرسکتی ہیں اور اپنے آپ کو دینی و عصری علوم سے مزیّن کرکے اپنے بچوں اوراپنی قوم کے افراد کے کردار کو سنوارسکتی ہیں۔ لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان تعلیمی میدان  میں تفریق کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔

(۳) اس طرح کے اقدام کے بعد قومِ مسلم کو چاہیے کہ وہ نتیجہ اخذ کرنے میں جلد بازی نہ کرے، ورنہ بے قراری کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا اور قومِ  مسلم آگے بڑھنےکے بجائے پیچھے چلی جائےگی، کیوں کہ جب کمیاں قوم میں زیادہ ہوں: تو ان کی معتدبہ اصلاح چند دنوں، چند مہینوں، چند سالوں میں نہیں بلکہ نصف صدی، یا ایک صدی یاکئی صدیوں کے بعد ہوتی ہے؛ کچھ نہ کچھ تو ان شآء اللہ ہمیشہ فائدہ ہوگا، مگر وہ فائدہ جو اکثریت میں ہو، اس کےلیے کافی وقت درکار ہے، اس لیے جلد بازی مناسب نہیں، نیز قوم مسلم کو کبھی یہ سوچ کرکام نہیں کرنا چاہیے کہ ہماری زندگی ہی میں سب کچھ پورا ہو جائے بلکہ یہ سوچ کر کرنا چاہیے کہ یہ کام قابل رشک ثمر بار ہو، چاہے کوشش کرنے والے کی زندگی میں یا اس کی زندگی کے بعد ہی  کیوں نہ ہو۔

نوٹ: اگر مخلصین و محبین ساتھ دیں، تو ان شآء اللہ ان کے صدقاتِ نافلہ کے ذریعے لڑکوں اور لڑکیوں کے الگ الگ انتظام کے ساتھ ان کی ہائی ایجوکیشن کے لیے دینی ماحول میں ایک عصری یونیورسٹی کا قیام بھی عمل میں لایا جاسکتاہے تاکہ قومِ مسلم کے بچے انٹر میڈیٹ کرنے کے بعد وقت کی مناسبت سے اس میں مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اپنے اور قومِ مسلم کے مستقبل کو تاب ناک بناسکیں،  وسیجدونہ ان شائ اللہ فی اقرب وقت ممکن، ف اِن مع العسر یسرا، فلیس  إتمام ذلک علی اللہ بعسیر، وصلی اللہ علٰی خیر خلقہ محمد وعلٰی آلہٖ وأصحابہ أجمعین۔

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi