توہین رسالت کی سزا


تحریر: علامہ سید شاہ تراب الحق قادری علیہ الرحمہ

محافظ ناموس ِرسالت ، حضرت علامہ سید شاہ تراب الحق قادری علیہ الرحمۃ نے غازی ممتاز حسین قادری علیہ الرحمہ کے خلاف عدالتی فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے ، کراچی میں ہونے عظیم الشان لبیک یا رسول اللہ ﷺ کانفرنس سے دو روز قبل مورخہ ۸ جنوری ۲۰۱۶ء کو پریس کلب کراچی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا ۔ اس پریس کانفرنس میں جو کچھ آپ نے ارشاد فرمایا وہ نذر قارئین ہے ۔ (ادارہ)

محترم صحافی حضرات،

السلام علیکم ورحمة اﷲ وبرکاتہ

سب سے پہلے تو میں آپ تمام حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے اپنی بے پناہ مصروفیات میں سے وقت نکالا اور یہاں تشریف فرما ہوئے۔

جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ کچھ عرصہ ہوا کہ یورپی یونین کا ایک وفد پاکستان آیا اور اس نے پاکستان کے قانون تحفظ ناموس رسالت یعنی 295/Cکو ختم کرنے کی بات کی۔ یہ خبراخبارات میں شائع ہوئی۔ یورپی یونین کے اس مطالبے سے مسلمانانِ پاکستان کے جذبات سخت مجروح ہوئے اور ہم اسے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت تصور کرتے ہوئے یہ عزم کرتے ہیں کہ ہم اس قانون تحفظ ناموس رسالت کا ہر صورت دفاع کریں گے۔ اس حوالہ سے ایک عظیم الشان لبیک یا رسول اﷲ ﷺ کانفرنس ان شاءاﷲ اتوار 10جنوری 2016ءکو شام 4بجے نشتر پارک کراچی میں منعقدہوگی۔

محترم صحافی حضرات! الحمد ﷲ ہم اور آپ مسلمان ہیں، اور بحیثیت مسلمان احکامِ اسلام پر عمل کرنا ہم پر لازم قرار دیا گیا۔ اور اسلام کی اساسی تعلیمات میں حضور نبی کریم ﷺ کی محبت و اطاعت کو ازحد لازم جبکہ آپ کی شان میں ادنیٰ سی بے ادبی کو بدترین جرم قرار دیا گیا ہے اور حقیقی مسلمان کبھی بھی یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ کوئی دریدہ دہن حضورصلی اﷲ علیہ وسلم کی شان میں ادنیٰ سی گستاخی کا مرتکب ہو۔

تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے چاہے وہ صحابہ کرام کا دور ہو یا امت کے زوال کا دور، ناموسِ رسالت کے باب میں امت حددرجہ حساس رہی ہے اور والہانہ عقیدت سے سرشار رہی ہے۔ اس لئے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ نظریاتی سرحدوں کی بھی اسی طرح حفاظت کی جائے جس طرح جغرافیائی حدبندیوں کی کی جاتی ہے اور معاشرے کا استحکام بھی تبھی ممکن ہے کہ شرپسند عناصر جو توہین رسالت کے مرتکب ہوں ان کے لئے سخت ترین قانون موجود ہو، کیونکہ دنیا کے ہر ملک میں ہتک عزت کا قانون موجود ہے۔

برطانیہ میں 1860میں قانون توہین مسیح بطور کامن لاء Common Law موجود تھا اور آج بھی ہے اور وہ برطانیہ کے مجموعہ قوانین میں بلاسفیمی ایکٹBlasphemy Act کے نام سے ہے۔

اس تناظر میں اگر آپ برصغیر کو دیکھیں تو مغلیہ سلطنت کے دور میں ایک عرصہ تک فیصلے قرآن و سنت اور اسلامی فقہ کی روشنی میں کئے جاتے تھے۔ فتاویٰ عالمگیری کی تدوین اس کی ایک مثال ہے۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد1860میں انڈین پینل کوڈ یعنی تعزیراتِ ہند کو نافذ کیا گیا۔ 1898ءمیں دفعہA-124 تعزیراتِ ہند میں شامل کی گئی جس کے تحت حکومت برطانیہ کے خلاف منافرت پھیلانے یا توہین حکومت کے جرم کی سزا عمر قید مقرر کی گئی۔ اسی سال 1898ءمیں ایک دفعہ A-153کا بھی اضافہ کیا گیا جس کا متن حسب ذیل ہے۔

”جوکوئی الفاظ سے بذریعہ تقریر، تحریر، اشارات یا کسی دوسرے طریقے سے ہندوستان میں ہر مجسٹی کی رعایا کی مختلف جماعتوں میں دشمنی یا منافرت کے جذبات ابھارنے یا انہیں بھڑکانے کی کوشش کرے۔ اسے دوسال قید تک سزا یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں“۔

حضور اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے شاتمان کے خلاف مقدمات بھی اسی دفعہ A-153کے تحت قائم ہوئے۔ جس میں سب سے مشہور مقدمہ ”رنگیلا رسول“ کے ناشر راج پال کے خلاف اسی جرم کے ارتکاب پر رجسٹرڈ ہوا۔ سیشن کورٹ سے اسے سزا بھی ہوئی مگر ہائی کورٹ نے اسے سزا نہیں دی۔ جس کے خلاف مسلمانان ہند میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی اور ہر پلیٹ فارم سے سخت احتجاج کیا گیا یہاں تک کہ غازی علم دین شہید نے راج پال کو موت کے گھاٹ اتار کر اسے توہین رسالت کی سزا دے دی اور خود زندہ جاوید ہوگیا۔

اس وقت کسی عالم، مولوی اور کسی عام وکیل نے نہیں بلکہ بانی پاکستان محمد علی جناح نے غازی علم دین شہید کا مقدمہ لڑا اور انہیں بچانے کی بھرپور کوشش کی، جبکہ شاعر مشرق ڈاکٹر محمد اقبال نے بڑی حسرت سے کہا کہ ہم تو سوچتے ہی رہ گئے اور ترکھان (بڑھئی) کا لڑکا بازی لے گیا۔ وہ انگریز/کافر کا دور تھا اور کافر کیونکر اسلامی قانون پر عمل کرتے لہٰذا انہوں نے غازی علم دین شہید کو پھانسی دے دی۔

جب برٹش گورنمنٹ نے دیکھا کہ اس دفعہ A-153سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہورہے ہیں تو ان کی اشک شوئی کے لئے A-295کو قانون فوجداری کے ترمیمی ایکٹ 1927ءمیں تعزیراتِ ہند Indian P.Cمیں شامل کیا گیا۔ وہ دفعہ یہ ہے:۔

”جوکوئی عملاً اور بدنیتی سے تحریری، تقریری یا اعلانیہ طور پر ہرمیجسٹی کی رعایا کی کسی جماعت کے مذہب یا مذہبی عقائد کی توہین یا توہین کی کوشش کرے، کہ جس سے اس کے مذہبی جذبات مشتعل ہوں تو اسے دوسال تک قید، جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں“۔

قیامِ پاکستان کے بعد 23مارچ1956ءکو ”ہرمیجسٹی کی رعایا“ کے الفاظ کو ”پاکستان کے شہریوں“ کے الفاظ میں تبدیل کردیا گیا۔ 1961ءمیں ایک ترمیمی آرڈیننس کے ذریعے A-298کا اضافہ کیا گیا جو حسب ذیل ہے۔

”جوکوئی تحریری، تقریری، اعلانیہ، اشارتاً یا کنایتاً بالواسطہ یا بلاوسطہ امہات المؤمنین یا کسی اہل بیت یا خلفاءراشدین میں سے کسی خلیفہ راشد یا اصحابِ رسول رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی بے حرمتی کرے، ان پر طعنہ زنی یا بہتان تراشی کرے، اسے تین سال تک کی سزا یا سزائے تازیانہ دی جائے گی یا دونوں سزائیں دی جائیں گی“۔

اس دفعہ میں امہات المؤمنین اور اصحابِ رسول رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی شان میں گستاخی کو تو قابل تعزیر گردانا گیا مگر خود رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم جن سے نسبت کی وجہ سے ان حضرات کو یہ مرتبہ حاصل ہوا، اُن کی گستاخی کی کوئی سزا نہ تھی ، جس پر 1985ءکی قومی اسمبلی میں ، جس میں میں بھی ممبر تھا ، اور میرے ساتھ علامہ عبد المصطفیٰ الازہری ، حاجی حنیف طیب، محمد عثمان خان نوری، صاحب زادہ محمد احمد نقشبندی اور محترمہ قمرالنساءقمر بھی تھیں، سب کی مشترکہ کوششوں سے قومی اسمبلی میں توہین رسالت کے مجرم کے لئے سزائے موت کا بل پیش کیا گیا، جسے فوجداری قانون ترمیمی ایکٹ نمبر3سال1986ءکی صورت میں منظور کرکے تعزیراتِ پاکستان میں-295Cکی صورت میں نافذ کیا گیا۔ جس کا متن یہ ہے!

”جو کوئی عملاً،زبانی یا تحریری طور پر یا بطورِ طعنہ زنی یا بہتان تراشی بالواسطہ یا بلاواسطہ اشارتاً یا کنایتاً محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی توہین یا تنقیص یا بے حرمتی کرے وہ سزائے موت یا سزائے عمر قید کا مستوجب ہوگا اور اسے سزائے جرمانہ بھی دی جاسکتی ہے“۔

توہین رسالت کے متذکرہ بالا بل میں اہانت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی سزا بطورِ سزائے موت کا مطالبہ کیا گیا تھا لیکن اس میں عمر قید بھی رکھی گئی، جو قرآن و سنت کے منافی ہے۔چنانچہ سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ جناب اسماعیل قریشی کی جانب سے فیڈرل شریعت کورٹ میں پٹیشن (Petition)دائر کی گئی ۔ جس کے نتیجے میں فیڈرل شریعت کورٹ نے 30اکتوبر1990کو C-295میں ترمیم کرکے عمر قید کے الفاظ حذف کردیئے۔

جو قانون توہین رسالت، اس وقت پاکستان میں رائج ہے، وہ درحقیقت فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے مورخہ 30اکتوبر1990ء کی روشنی میں اور اس اعلیٰ عدالت کی ہدایت کے مطابق ترمیم کرکے نافذ کیا گیا ہے۔

آپ نے ملاحظہ فرمایا ہتک عزت کا قانون برطانوی قوانین میں اور تعزیراتِ ہند میں بھی موجود ہے ۔پھر پاکستان میں اس قانون کو ختم کرنے کے لئے دباﺅ کیوں ڈالا جا رہا ہے ۔در اصل یہ یہود و نصاریٰ کی اسلام کے خلاف سازش ہے آپ دیکھیں سوشل میڈیا پر کس طرح اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کی جا رہی ہے ایسی غلیظ زبان استعمال کی گئی ہے کہ ہم اسے بیان نہیں کر سکتے۔ اب وہ یہ چاہتے ہیں کہ جو ایک قانون پاکستان میں ناموسِ رسالت کے حوالے سے ہے اسے بھی ختم کر دیا جائے ، خوب یاد رکھیں کہ توہین رسالت کے مجرموں کو سزا دینے کےلئے کوئی قانونی راستہ نہیں ہو گا اور عدالتوں کے دروازے اس حوالے سے بند ہو جائینگے تو پھر کوئی بھی غیرت مند مسلمان قانون ہاتھ میں لے کر اس شاتم رسول سے انتقام لے لے گا،جسے روکا نہیں جا سکے گا۔

کہا یہ جا رہا ہے کہ قانون توہین رسالت کا غلط استعمال ہو رہا ہے، آپ تو صحافی ہیں آپ خوب جانتے ہیں کہ غلط استعمال تو یہاں تمام قوانین کا ہو رہا ہے تو کیا سارے قوانین ختم کر دیئے جائیں یہ تو بالکل ایسی ہی بات ہوگی کہ ایم۔اے جناح روڈ پر چونکہ حادثات زیادہ ہوتے ہیں لہٰذا ایم ۔ اے جناح روڈ ہی کو بند کر دیا جائے ،یہ تو مسئلے کا حل نہیں ۔

پاکستان ایک اسلامی ملک ہے جس کے آئین میں واضح طورپر اللہ تبارک تعالیٰ کی حاکمیت کی بات کی گئی ہے اور اس ملک کواس لئے بنایا گیا کہ یہاں اسلامی نظام نافذ ہو گا چنانچہ آئین کی دفعہ 2الف (قراردادِ مقاصد ) میں واضح طور پر یہ لکھا ہوا ہے کہ ” مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق جس طرح کہ قرآن پاک و سنت میں ان کا تعین کیا گیا ہے ترتیب دے سکیں ۔

نیز جس کا آئین یہ کہتا ہے کہ اس ملک میں کوئی بھی قانون، قرآن و سنت سے متصادم نہیں بنایاجائے گا ۔ ملاحظہ ہو آئین کی دفعہ 227الف

”تمام موجودہ قوانین کو قرآن پاک اور سنت میں منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا ۔

اور ایسا کوئی قانون و ضع نہیں کیا جائے گا جو مذکورہ احکام کے منافی ہو“

نیز : اس ملک کے صدر اور وزیر اعظم کے حلف میں یہ عہد شامل ہے کہ ” وہ اسلامی نظریہ کو بر قرار رکھنے کے لئے کوشاں رہیں گے جو قیام پاکستان کی بنیاد ہے ۔“

تو پھر اس ملک میں قرآن و سنت کے قانون کے خلاف سزائیں کیوں دی جا رہی ہیں کیوں ہماری عدالتیں ایسی سزائیں دینے پر مصر ہیں ۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ شاتم رسول کو مارنے والے ملک ممتاز حسین قادری کے ساتھ ہماری عدالتوں نے انصاف نہیں کیا ،اسلامی قانون کی رو سے عدالتوں کا کام یہ تھا کہ وہ دو باتوں کی تحقیق کر تیں، ایک یہ کہ کیا مقتول شاتم رسول تھا ؟ اور دوسری یہ کہ ممتاز حسین قادری نے مقتول کو کیوں مارا ؟ ۔ اگر قتل کا محرک صرف مقتول کا شاتم ہونا تھا تو اسلامی قانون اور اسوہِ رسول کی پیروی میں ممتاز حسین قادری کو رہا کر دیا جانا چاہیے تھا ، لیکن افسوس کہ ہماری عدالتوں نے یہ دونوں کام کماحقہ نہیں کیے، اور یہ دہشت گردی کا مقدمہ نہیں تھا لیکن اس کے با وجود اسے دہشت گردی کی عدالت میں چلایا گیا ، عدالتِ عالیہ اور عدالت عظمیٰ دونوں کے جج صاحبان نے مغرب زدہ سیکولر اور لبرل لوگوں کے اعتراضات کو دہرایا اور اسلامی قانون پسِ پشت ڈالتے ہوئے ممتاز حسین قادری کو سزائے موت سنا دی جو کہ غیر شرعی اور غیر اسلامی ہے ۔

ہماری عدالتیں چونکہ انگریزی قوانین و روایات کی پیروی کی عادی ہیں اور کامن لاء Common Law کے اصول پر سابقہ نظیروں کے مطابق فیصلے کرتی ہیں تو یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اور مملکت خداداد ہے ، قرار داد مقاصد اس کے آئین کا حصہ ہے جس کی رو سے قرآن و سنت کو بالا دستی حاصل ہے اور اسلام اس کا سرکاری مذہب ہے تو برطانوی اور بھارتی عدالتوں کی نظیروں کی پیروی کرنے کی بجائے رسول اللہ ﷺ کے فیصلوں کی نظیروں کی پیروی کیوں نہ کی جائے؟ خلفائے راشدین اور امت مسلمہ کے چودہ سو سالہ اجماع اور تعامل اور مسلمان ججوں اور قاضیوں کے فیصلوں کی نظیروں کی پیروی کیوں نہ کی جائے ؟ جو سب کے سب یہ کہتے ہیں کہ شاتم رسول کے قاتل کو سزا نہیں دی جا سکتی ۔

عدالت عظمیٰ میں اس کیس کی سماعت کے دوران فاضل جج صاحبان نے ریمارکس دیے کہ وہ جج ہیں دین کے عالم نہیں ہیں ۔ جب وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ وہ دین کے عالم نہیں ہیں تو انہیں یہ مسئلہ علماءدین سے پوچھنا چاہیے اور ان کی رائے پر عمل کرنا چاہیے تھا۔ اس کے لیے وہ اسلامی نظریاتی کونسل سے بھی رجوع کر سکتے ہیں اور وفاقی شرعی عدالت سے بھی اور سارے مکاتب فکر کے علماءکرام کے متفقہ فتاویٰ بھی موجود ہیں ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جب وہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ دین کے عالم نہیں ہیں تو اتنے نازک دینی اور شرعی مسئلے میں جو کروڑوں مسلمانوں کے لئے ایک جذباتی مسئلہ ہے اور انہیں مشتعل کر سکتا ہے ، انہوں نے ایسا فیصلہ کیوں کیا ؟ اور اگر فیصلہ کرنا ہی تھا تو وہ موقف کیوں اختیار کیا ، جسے سارے علماءکرام اور اسلام پسند و کلاءاور عوام غیر شرعی سمجھتے ہیں ؟ اور وہ موقف کیوں اختیار نہیں کیا جو سارے علماءکرام اور عوام کے نزدیک صحیح ہے ؟

ہم نے دیکھا کہ اس انتہائی اہم مسئلہ میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں بالکل خاموش ہیں ، ہم آپ سے گذارش کرتے ہیں کہ خدارا اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے مسلمانان عالم اورخصوصاً مسلمانانِ پاکستان کے جذبات کو دنیا تک پہنچانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں ۔

Ziae Taiba Monthly Magazine in Karachi