صبیح الدین صبیح رحمانی لب پہ نعت پاک کا نغمہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے اور کسی جانب کیوں جائیں اور کسی کو کیوں دیکھیں پست وہ کیسے ہو سکتا ہے جس کو حق نے بلند کیا بتلا دو گستاخ نبی کو غیرت مسلم زندہ ہے جس کے فیض سے بنجر سینوں نے شادابی پائی ہے جن آنکھوں سے طیبہ دیکھا وہ آنکھیں بیتاب ہیں پھر آج کے دن عشاق نبی پر لازم ہے اعلان کریں سب ہو آئے ان کے در سے جا نہ سکا تو ایک صبیح
میرے نبی سے میرا رشتہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے
اپنا سب کچھ گنبد خضراء کل بھی تھا اور آج بھی ہے
دونوں جہاں میں ان کا چرچا کل بھی تھا اور آج بھی ہے
ان پر مر مٹنے کا جذبہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے
موج میں وہ رحمت کا دریا کل بھی تھا اور آج بھی ہے
ان آنکھوں میں ایک تقاضا کل بھی تھا اور آج بھی ہے
اے بھارت کشمیر ہمارا کل بھی تھا اور آج بھی ہے
یہ کہ ایک تصویر تمنا کل بھی تھا اور آج بھی ہے